17 Mart 2016 Perşembe

گیارھواں باب نقشے اور خاکے اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتے

گیارھواں باب

نقشے اور خاکے اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتے

چھلے باب میں دیکھا گیا کہ زندگی کا حادثاتی طور پر وجود میں آنا کس قدر ناممکن ہے۔ اگر ان تمام ناممکنات کو ایک بار پھر نظر انداز کردیا جائے اور فرض کرلےا جائے کہ لاکھوں سال پہلے ایک خلیہ زندگی سے متعلق تمام اجزاءکو حاصل کرکے خود بہ خود زندہ بھی ہوگیا تو اس نقطے پر آکرنظریہ¿ ارتقاءایک بار پھر زمین بوس ہوجاتا ہے کیونکہ اگر یہ خلیہ تھوڑی دیر زندہ رہ بھی جاتا تو بالآخر اس کو مرنا ہی تھا۔ اس کے مرنے کے بعد کچھ بھی باقی نہ رہتا اور ہر چیز دوبارہ وہیں پہنچ جاتی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پہلے جاندار خلئے میںکسی بھی طرح کی جینیاتی معلومات کا مکمل فقدان ہونے سے اس کے اندر خود نقلی یا نسل کو آگے بڑھانے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ زندگی کی موت اس خلئے کے ساتھ ہی واقع ہوجاتی۔
جیناتی نظام صرف DNA پر ہی مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر DNA کی خفیہ زبان کا ترجمہ کرنے والے خامروں، اس ترجمے کے بعد پیامی RNA کا پیدا ہونا ،اس ترجمے کے مطابق RNAسے جڑنے والے رائبوسوم، منتقلی RNA جس کے ذریعے امینوترشے رائبوسوم میں منتقل ہوسکیں اور اس کے علاوہ کئی وسطی مراحل کو خوش اصلوبی سے انجام دینے کے لئے بے انتہا پیچیدہ خامروں کی موجودگی بھی جینیاتی نظام میں بے انتہا اہم ہے۔ اس طرح کا ماحول خلئے کی مکمل طور پر علیحدہ اور منظم فضا کے علاوہ کہیں اور موجود نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً مربوط مادہ صرف اس وقت اپنی مزید افزائش کرسکتا ہے جب وہ پہلے سے مکمل طور پر تمام عضو کے ساتھ تشکیل ہوا خلیہ ہو اور جوکہ ایسے ماحول میں موجود ہو جہاں پر وہ بخوبی زندہ رہ سکتا ہو، اجزاءکا مبادلہ کرسکتا ہو اور اپنے ماحول سے توانائی بھی اخذ کرسکتا ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ زمین پر پہلا خلیہ اچانک اس حیرت انگیز اور پیچیدہ ساخت کے ساتھ اچانک وجود میں آگیا۔ اگر کوئی اتنی پیچیدہ ساخت وجود میں آجائے تو اس کا کیا مطلبہوا؟ اس سوال کو ایک مثال سامنے رکھتے ہوئے پیش کرتے ہیں۔
ایک خلئے کا موازنہ اس کی ساخت کی پیچیدگی کے حساب سے ایک جدید تکنیکی گاڑی سے کرتے ہیں۔(سچ تو یہ ہے کہ خلیہ باوجود گاڑی کے انجن اور تکنیکی صلاحیت کے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔) اب یہ سوال کےا جاتا ہے کہ اگر ایک گھنے جنگل سی گزرتے ہوئے کسی کو اچانک اےک نئی جدید گاڑی درختوںکے درمیان کھڑی ہوئی مل جائے تووہ کیا سوچے گا؟ کیا وہ سوچے گا کہ
جنگل سے کئی عناصر اچانک لاکھوں سالوں پر محیط عرصے کے دوران آپس میں مل کر اچانک یہ گاڑی بن گئے؟ گاڑی کے تمام حصے لوہے، تانبے اور ربر جیسی اشیاءسے بنے ہوئے ہیں جوکہ خام حالت میں زمین پر موجود ہیں لیکن کیا ان اشیاءکا زمین پر موجود ہونا بھی کسی کو یہ سوچنے پر قائل کرسکتا ہے کہ یہ اجزاءاتفاق سے مربوط شکل اختیار کرکے گاڑی کی شکل اختیار کرگئے؟ کوئی بھی صحت مند ذہن اس بات پر شک نہیں کرسکتا کہ یہ گاڑی اتفاق کا نہیں بلکہ ایک عقلمند نقشے کا یا کارخانے کا نتیجہ ہے اور مزید یہ بھی سوچے گا کہ آخر یہ گاڑی جنگل کے بیچوں بیچ کیا کررہی ہے؟ کسی پیچیدہ ساخت کا مکمل شکل میں اچانک نمودار ہونا اس کے پیچھے ایک عقلمند کارکن کے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ خلئے کا پیچیدہ نظام بھیبلاشبہ ایک اےسی ہی عظیم مرضی اور طاقت کا نتیجہ ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ صرف اﷲ کی تخلیق کی طور پر وجود میں آیا ہے۔
اس بات پر یقین کرنا کہ اتفاق بہترین نقشے پیدا کرسکتا ہے منطق کی تمام حدود کو توڑتا ہوا ایک تصور ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءکا زندگی کے بارے میں دیا گیا ہر جواب اور پیش کیا گیا ہر مفروضہ اسی طرح ہے۔ اس موضوع کا ایک منہ پھٹ ماہر مشہور فرانسیسی ماہر حیوانات پیر پال گرا سے ہے جو کہ فرانسیسی سائنسی اکیڈمی کا سابقہ سربراہ بھی ہے۔ گراسے ایک مادہ پرست ہے لیکن وہ پھر بھی اس بات کو مانتا ہے کہ نظریہ¿ ڈارون زندگی کی حقیقت کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ گراسے اتفاق کی منطق کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے جو کہ نظریہ¿ ڈارون میں ریڑھ کی ہڈی جتنی اہمیت رکھتی ہے:
”جینیاتی بے ترتیبی کا اتنے موزوں وقت پر ظاہر ہونا جس کے تحت تمام حیوان اور نباتات اپنی مطلوبہ ضرورتوں کو پورا کرسکے ایک ناقابل یقین بات ہے لیکن نظریہ¿ ڈارون کے تقاضے اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ایک واحد پودے اور واحد حیوان کو اس طرح کے ہزاروں خوش قسمت موزوں حالات کی ضرورت ہے۔ اسی لئے اس اصول کو معجزہ ہی کہہ سکتے ہیں جس کے ذریعے بے حد ناممکن صورتحال کے واقع ہوجانے میں بھی کوئی شک نہ ہو۔ خوش خیالی اور تصورات کی دنیا میں رہنے کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے لیکن سائنس کو اس پر لطف مشغلے سے دوررہنا چاہئے۔“ ۹۳۱
گراسے ارتقاءپسندوں کا اتفاق سے متعلق خےالات پر بھی رائے زنی کرتا ہے:” اتفاق ایک نظام قدرت بن جاتا ہے جس کی لادینیت کے لبادے میں گوکہ کھلم کھلا نہیں بلکہ خفیہ طور پر پرستش کی جاتی ہے۔“۰۴۱
ارتقاءپسندوں کی پردلائل ناکامی ان کا اتفاق کے تصور کو مقدس مقام دینے کا نتیجہ ہے۔
قرآن میں آتا ہے کہ وہ لوگ جو اﷲ کے علاوہ کسی اور کی پرستش کرتے ہیں ان کی سمجھ بوجھ ختم ہوجاتی ہے۔
﴿ اور بے شک ہم نے جہنم کے لئے پیدا کئے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہیغفلت میں پڑے ہیں۔ ﴾ (سورة الاعرا ف، آیت ۹۷۱)

ڈارون کا فارمولہ

 زندگی کے اصل زندگی کے اصل
ارتقاءپسندوں کا یہ یقین ہے کہ اتفاق بذات خود ایک تخلیقی قوت ہے۔ فرض کے طور پر ایک بہت بڑا ظرف لے لیا جاتا ہے جس کے اندر ارتقاءپسند ایک جاندار خلئے کی پیداوار کے لئے جن اجزاءکی ضرورت مناسب سمجھتے ہیں وہ ڈال سکیں۔ اب وہ اس ظرف کو گرم بھی کرسکتے ہیں، ٹھنڈا بھی کرسکتے ہیں اور اس پر بجلی بھی گراسکتے ہیں۔ وہ اس ظرف کی نگرانی کئی نسلوں تک کرسکتے ہیں۔ غرضیکہ ایک جاندار وجود کی پیداوار کے لئے جو بھی اقدام لازمی ہیں وہ ان کا استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود اس ظرف سے ایک واحد جاندار خلیہ تک پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس میں سے کوئی گھوڑا، تتلی، بطخ، سیب، لیموں کا درخت، الوّ یا چیونٹی تک نمودار نہیں ہوسکتی۔ اس ظرف کی نگرانی کرنے والے ارتقاءپسندوں کی ہر کوشش کے باوجود وہ کسی ایک بھی ایسے سائنسدان کو اپنی کسی بھی ایسی محنت سے پیدا کرکے نہیں دکھاسکتے جوکہ خوردبین کے نیچے اپنے ہی خلیوں کا معائنہ کرسکے اور نہ ایسے انسان وجود میں لاسکتا ہے جس کے اندر سوچنے ، بحث کرنے، فیصلہ کرنے، خوش ہونے یا اداس ہونے کی صلاحیت موجود ہو۔
اب تک پیش کئے گئے تمام تکنیکی ثبوت کے علاوہ اب ان توہمات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے جو نظریہ¿ ارتقاءکی بنیاد ہیں۔ اس کے لئے جو مثال استعمال کی جارہی ہے وہ اس قدر سادہ ہے کہ بچوں کو بھی با آسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔
نظریہ¿ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ زندگی اتفاق کے ذریعے وجود میں آئی۔ اس دعوے کے مطابق خلئے بے جان اور بے شعور اقل ترین اجزاءیا ایٹم کے مرکب سے وجود میں آئے اور پھر ےہ خلئے کسی نامعلوم طریقے سے جڑ کر انسانوں اور دوسرے جانداروں کا روپ دھارگئے۔ جب زندگی سے متعلق بنیادی عناصر یعنی کاربن، فاسفورس، نائٹروجن اور پوٹاشیم کو ملالیا جائے تو ایک ڈھیر کی شکل حاصل ہوجاتی ہے۔ چاہے اس ایٹمی ڈھیر کو کتنے ہی عملےات سے گزارا جائے یہ ایک زندہ جاندار کاروپ نہیں دھارسکتا۔ اب اس موضوع پر ایک تجربہ تشکیل دیا جائے گا اور ارتقاءپسندوں کی طرف سے اس کا معائنہ کیا جائے گا کیونکہ چاہے وہ باآواز اس بات کا اعتراف نہ بھی کریں لیکن یہی ان کا ”ڈارون فارمولہ“ ہے۔
ارتقاءپسندوں کو ےہ اختےار دے دےا جاتا ہے کہ وہ بڑے بڑے لکڑے کے بیچ میں سے ابھرے ہوئے ڈھول نما ظرفوں میں جانداروں میں موجود عناصر مثلاً فاسفورس، نائٹروجن، کاربن، آکسیجن، آئرن اور میگنیشیم ڈال دیں۔ اس کے علاوہ وہ ان ظرفوں میں وہ اجزاءبھی ڈال سکتے ہیں جوکہ عام حالات میں موجود نہیں ہوتے لیکن ان کے خیال سے ضروری ہیں۔ اس مرکب میں وہ اپنی مرضی سے امینو ترشے بھی ملاسکتے ہیں جن کا قدرتی اثرات کے تحت وجود میں آنا ناممکن ہے۔ وہ اپنی مرضی سےلحمیات بھی ملاسکتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے وجود میں آنے کے امکان ۰۵۹۰۱ ہو۔ اب وہ اس مرکب کو جس قدر زیادہ چاہیں حرارت اور نمی پہنچاسکتے ہیں اور اس کو اپنی مرضی کے تکنیکی آلات سے ملاسکتے ہیں۔ وہ اس تجربے کو کروانے کے لئے ذہین ترین سائنسدانوں کی خدمات بھی استعمال کرسکتے ہیں جو کہ ان ظرفوں کے پاس باری باری کروڑوں، کھربوں سال انتظار بھی کرسکتے ہےں۔ لےکن اےک جاندار جسم کی تشکیل کے لئے ان کو ہر طرح کے اجزاءاور آلات استعمال کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہونے کے باوجود وہ چاہے کچھ بھی کرلیں مگر وہ ان ظرفوں سے ایک بھی جاندار جسم نکال کر نہیں دکھاسکتے۔
وہ جرافے، شیر ، شہد کی مکھیاں، پرندے، گھوڑے، ڈولفن مچھلیاں، گلاب، ثعلب مصری، کنول، گل لحمی، کیلے، کینو، سیب، کھجور، ٹماٹر، سردے، تربوز، انجیر، زیتون، انگور، آڑو، دراج، تتلیاں یا اسی طرح کے لاکھوں دوسرے جاندار ان ظرفوں میں پیدا نہیں کرسکتے ۔ جاندار تو دور کی بات وہ ایک زندہ خلیہ بھی پیدا نہیں کرکے دکھاسکتے۔ خلاصہ یہ کہ بے شعور اور بے جان اقل اکائیاں مل کر ایک جاندار خلیہ نہیں بناسکتیں۔ وہ کسی قسم کا نیا فیصلہ کرتے ہوئے ایک خلئے کو دو حصوں میں تقسیم بھی نہیں کرسکتے اور نہ ہی زندگی کی تشکیل سے متعلق دوسرے بڑے بڑے فیصلے کرتے ہوئے قابل اور عقلمند پروفیسر بناسکتے ہیں جنہوں نے دنیا کا سب سے پہلا برقی عدسہ ایجاد کرکے اپنے ہی خلیوں کی ساخت کا اس کے نیچے معائنہ کیا۔ مادہ صرفاور صرف عظیم تخلیقی فن کے ذریعے جاندار بن جاتا ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءاس کے بالکل برعکس دعویٰ کرتا ہے اور منطق کے خلاف ایک کج فہمی اور مغالطہ ہے۔ ارتقائی دعوﺅں کے متعلق اگرتھوڑے سے بھی غیر جانبدارانہ رویئے سے سوچا جائے تو حقیقت اوپر دی گئی مثال کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔

آنکھ اور کان کی فنیات

ایک اور ایساموضوع جس کی وضاحت ارتقاءپسند ابھی تک نہیں کرسکے ہیں وہ آنکھ اور کان میں موجود بہترین قوتِ مشاہدہ ہے۔ اس موضوع پر مزید بات کرنے سے پہلے اس سوال کا مختصر جواب دیا جائے گا کہ ہم لوگ دیکھتے کیسے ہیں؟ کسی بھی شبیہ سے نکلنے والی روشنی کی شعائیں مخالف رخ سے آنکھ کی پتلی پر پڑتی ہیں۔ یہاں سے یہ روشنی کی شعاعیں برقی اشارات کے ذریعے خلیوں میں منتقل ہوتی ہیں اور دماغ کے پیچھے کی طرف موجود ایک چھوٹے سے مقام تک پہنچ جاتی ہیں جس کو بینائی کا مرکزکہتے ہیں۔ برقی اشارات بینائی کے اس مرکز میں اور بھی کئی مرحلوں سے گزرنے کے بعد ایک مکمل خاکے کی شکل دھارلیتے ہیں۔ اس تمام تکنیکی معلومات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب مزید آگے بڑھتے ہیں۔
دماغ روشنی سے مکمل طور پر محفوظ ہے جس کا مطلب ہے کہ دماغ کے اندر گھپ اندھیرا ہے اور یہاں پر کسی بھی قسم کی معمولی سی بھی روشنی نہیں پہنچتی۔ بینائی کا مرکز بھی ایک روشنی سے عاری ٹھوس تاریک جگہ ہے ۔ لےکن انسانی تصورسے بھی زیادہ اس گھپ تاریک مقام پر ایک نظروں کو خےرہ کرتی ہوئی اےک روشن اور چمکیلی دنیا دیکھنے میں آتی ہے۔
آنکھ کے اندر بسنے والا خاکہ اسقدر تیز اور واضح ہوتا ہے کہ ۰۲ صدی کی تمام تکنیکی مہارت بھی ایسا خاکہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ مثال کے طور پر اپنے ہاتھ میں موجود کتاب کو اور اپنے ہاتھوں کو دیکھیں پھر اپنا سر اٹھاکر نظریںاطراف میں دوڑائیں کیا آپ نے اس سے زیادہ تیز اور واضح خاکہ یا تصویر کسی اور جگہ دیکھی ہے؟ دنیا کا جدید ترین ٹیلویژن جس کو دنیا کے سب سے ماہر ٹیلیویژن بنانے والوں نے بنایا ہو وہ بھی آپ کو اس سے زیادہ تیز، مشاہدے کے طور پر نکلا اور واضح خاکہ اور تصویر نہیں دکھاسکتا۔ آنکھ سے دیکھی جانے والی تصویر ایک سہ ابعادی، رنگین اور انتہائی صاف اور تیز تصویر ہوتی ہے جس کو سوسال سے بھی زائد عرصے سے ہزاروں انجینئر نقلی طور پر بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ وسیع رقبوں پر بڑے بڑے کارخانے اس مقصد کے لئے بنائے گئے ہیں جن میں اس مقصد سے لاکھوں خاکوں اور نقشوں کی مدد سے ہر طرح کی تحقیق کرلی گئی ہے لیکن ہر تحقیق بے سود ہی رہی۔ اب ایک ٹی وی کے پروگرام کو دیکھئے اور پھر اپنے ہاتھ میں موجود اس کتاب کو دیکھئے۔ آپ کو خوداندازہ ہوگا کہ دونوں تصاویر کی تیزی، اور واضح پن میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اس کے علاوہ ٹی وی کی سطح دو ابعادی خاکے دکھاتی ہے جبکہ آپ آنکھ کے ذریعے سہ ابعادی اور تفصیلی گہرائی کے ساتھ تصویروں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اگر آپ غور سے ٹی وی کو دیکھیں تو آپ کو اس میں دھندلاہٹ بھی محسوس ہوگی۔ کیا آپ کی نظر میں دھندلاہٹ ہے؟ یقینا نہیں۔
آنکھ اور کان کی تکنیکی صلاحیت
 آنکھ  کیمرےکانمیوزک پلیئر
 
جب آنکھ اور کان کا موازنہ دورِ حاضر کے کیمروں اور آواز محفوظ کرنے والے آلات سے کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ آنکھ اور کان ان تمام جدید تکنیکی آلات سے کہیں زیادہ پیچیدہ، کارآمد اور بے عیب ہے۔
کئی سالوں سے ہزاروں انجینئر سہ ابعادی ٹی وی بھی بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاکہ وہ آنکھ کی بینائی کے اعلیٰ معیار تک پہنچ سکیں۔ گوکہ انہوں نے ایک سہ ابعادی ٹی وی کا نظام ایجاد تو کرلیا لیکن اس کو ایک خاص چشمہ لگائے بغیر دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک نقلی سہ ابعادی نظام ہے۔ اس کا پس منظر دھندلا اور پیش منظر کاغذی محسوس ہوتا ہے۔ آنکھ کی طرح واضح، رنگین اور نماےاں خاکہ آج تک کوئی انجینئر ایجاد نہیں کرسکا۔ کیمرہ ہو یا ٹی وی دونوں میں تصویر کا اصل معیار زائل ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود ارتقاءپسندوں کا یہ دعویٰ ہے کہ آنکھ میں تصویریں تشکیل کرنے والا یہ بہترین نظام اتفاق سے وجود میں آیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ کے کمرے میں موجود ٹی وی اتفاق کا نتیجہ ہے اور یہ کہ تمام اقل بنیادی اکائیاں حادثتاً آپس میں مل کر اس مشین میں تبدیل ہوگئیں جوکہ اس ماہرانہ اور تکنیکی مہارت سے لبرےز تصویریں پیش کرتا ہے تو آپ کیا سوچیں گے؟ اقل بنیادی اکائیاں یا ایٹم وہ کام کس طرح کرسکتی ہیں جوکہ ہزاروں لوگوں کے لئے ناممکن ہو؟
تقریباً ایک صدی سے ہزاروں انجینئر اپنی جدید ترین تجربہ گاہوں اور وسیع و عریض کارخانوں میں بہترین تکنیکی آلات اور مشینوں کے ذریعے مستقل تحقےق کے باوجود صرف ایک دو ابعادی ٹی وی کے علاوہ اور کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ اگر ایک آنکھ سے کمتر خاکہ اور تصویر بنانے والا آلہ اتفاق سے وجود میں نہیں آسکتا تو پھر صاف ظاہر ہے کہ آنکھ جیسا ماہرانہ صلاحیت رکھنے والا عضو کا اتفاق سے وجود میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاجس کے پیچھے ٹی وی سے زیادہ تفصیلی اور معجزاتی حکمت کا ہاتھ ہے۔ آنکھ جیسی تیز، واضح اور ماہر تصویریں بنانے والا عضو صرف اﷲ ہی تخلیق کرسکتا ہے جوکہ قادر المطلق ہے۔
کان کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ بیرونی کان ایک چھوٹی عضلاتی تھیلی یا اوریکل کی مدد سے آوازوں کو کان کے وسطی حصے میں منتقل کرتا ہے۔ کان کا وسطی حصہ ان آوازوں کی لرزش کو بڑھاکر اندرونی کان تک ارسال کرتا ہے جو کہ ان کا برقی اشاروں میں ترجمہ کرکے دماغ میں بھیج دیتا ہے۔ آنکھ کی طرح سماعت کے آخری مرحلے دماغ کے بیچ میں موجود قوت سماعت سے متعلق مقام پر انجام پاتے ہیں۔ آنکھ اور کان کے نظام میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ جس طرح دماغ روشنی سے مکمل طور پر محفوظ ہے اسی طرح دماغ آوازوں سے بھی مکمل طور پر محفوظ ہوتا ہے۔ دماغ کے اندر مکمل خاموشی ہوتی ہے سوائے کسی بے انتہا اونچی آواز کے جس کا مشاہدہ دماغ قوت سماعت کے بغیر بھی کرسکتا ہے۔ اس آواز سے مکمل طور پر عاری ماحول میں آپ موسیقی اور اپنے آس پاس پیدا ہونے والی ہر آواز اور ہر طرح کا شور سن سکتے ہیں۔ لےکن اگر آپ کے دماغ کے اندر آواز کی سطح کی پیمائش ایک مخصوص آلے کے ذریعے کی جائے تو وہاں پر مکمل خاموشی کے علاوہ کوئی آواز نہیں ہوگی۔
اب کان میں موجود اس اعلیٰ معیار اور بہترین تکنیک کا موازنہ انسان کی بنائی گئی تکنیک سے کرتے ہیں۔ قوت بصارت کی طرح کئی سالوں سے سماعت کے ایسے آلے بنانے کی بھی جدوجہد جاری ہے جو کہ انسانی کان کی طرح کام کریں۔ ان تجربوں کا نتیجہ آواز کو محفوظ کرنے والے آلے، آواز کو من و عن دہرانے کے نظام اور آواز کو محسوس کرنے والے آلات ہیں لیکن ان تمام تجربوں، تمام مہارتوں اور ہزاروں انجینئروں کی کاوشیں آج تک اےک بھی ایسا آلہ ایجاد نہیں کرسکیں جوکہ آواز کو انسانی کان جتنے واضح پن اور تیزی سے ارسال کرسکے۔ ان بہترین اور معیاری آواز کو عین مطابق اصل دہرانے کے لئے ایجاد کئے گئے آلات یا ہائی فائی آلات کے بارے میں ذرا غور کریں جن کو موسیقی کے میدان کی سب سے بڑی کمپنی نے بنایا ہے۔
ان معیاری آلات میں بھی جب آواز کو منتقل کیا جاتا ہے تو اس کے اصل معیار میں کمی آجاتی ہے یا جب اس ہائی۔ فائی نظام کو کھولا جاتا ہے تو موسیقی کے شروع ہونے سے پہلے ہلکی سی ہوا جیسی آواز آتی ہے لیکن انسانی جسم کے نظام کے تحت سماعت کی جانے والی آوازیں بے انتہا صاف، واضح اور تیز ہوتی ہیں۔ انسانی کان آوازوں کے شروع ہونے سے پہلے کسی قسم کی دوسری آوازیں نہیں سنتا۔ وہ آواز کو بالکل اصل اور کھوٹ کے بغیر دماغ میں منتقل کردیتا ہے۔ انسان کی تخلیق کے پہلے دن سے کان کا نظام اسی طرح بے عیب اور مکمل ہے۔ مختصراً یہ کہ ہمارے جسم کی تکنیکی مہارت اور صلاحیت انسان کی ایجاد کردہ جدید ترین ایجاد ات سے بڑھ کر اعلیٰ اور نفیس ہے۔ جب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہائی۔ فائی نظام یا کیمرہ اتفاق کا نتیجہ ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسانی جسم کے اندر موجود تکنیکی مہارت ،جوکہ ہر طرح کی انسانی ایجاد سے کہیں بڑھ کرا علیٰ اور بہترین ہے ،وہ ارتقاءنامی حادثاتی امکانات کا نتیجہ ہوسکتی ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ آنکھ، کان اور جسم کا ہرعضو ایک بہت شاندار تخلیقی ماہر کی ایجاد ہے۔ یہ تمام مثالیں شیشے کی طرح صاف طور پر اﷲ تعالیٰ کی بے عیب اور بے مثال تخلیق ،اس کی طاقت اور اس کی عظمت کو ظاہر کرتی ہیں۔ قوت سماعت اور بصارت کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ تخلیق کے اتنے جامع اور واضح ثبوت بھی ارتقاءپسندوں کی سمجھ سے باہر ہیں۔ اگر کوئی ارتقاءپسندوں سے کان اور آنکھ کی اعلیٰ ساخت اور تکنیک کے بارے میں وضاحت طلب کرے کہ یہ اتفاق کا نتیجہ کس طرح ہوسکتے ہیں تو ان کے پاس کسی بھی طرح کا منطقی یا معقول جواب موجود نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ ۰۳ اپریل ۰۶۸۱ءکو آساگرے کے نام ڈارون اپنے خط میں لکھتا ہے کہ آنکھ کے بارے میں سوچ کر اس کو ٹھنڈے پسینے آگئے اور اس نے جانداروں کی بہترین تخلیق کے بارے میں ارتقاءپسندوںکی مایوس کن پریشانی کا اعتراف کیا۔۱۴۱

نظریہ¿ ارتقاءدنیا کا مو¿ثر ترین منتر ہے

اس کتاب میں یہ مسلسل واضح کیا جا رہاہے کہ نظریہ¿ ارتقاء ہرقسم کے سائنسی ثبوت سے عاری نظریہ ہے۔ سائنس کی علمِ معدوم حیوانات، علمِ خرد حیاتیات، اور علمِ تشریح البدن جیسی معتبر شاخوں نے اس نظریئے کو فرسودہ اور بے کار ثابت کردیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ارتقاءکا سائنس، منطق ےا عقل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کوئی شخص جو کہ ہر طرح کے تعصب سے پاک ہو ، کسی اور فکریاتی نظام کے زیر اثر نہ ہو اور جو صرف اپنی عقل اور منطق پر انحصار کرتا ہو وہ اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءپریقین ایک ناممکن فعل ہے۔ اس کے نزدیک نظریہ¿ ارتقاءصرف ایسا نظریہ ہوگا جوکہ ذہن میں سائنس اور تہذیب سے عاری متعصب معاشروں کا تصور اجاگر کرتا ہے ۔وہ لوگ جو نظریہ¿ ارتقاءپر یقین رکھتے ہیں وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ایک بڑے سے کنستر میں مٹھی بھراقل بنیادی اکائیاں اور سالمات ملا لینے سے عقلمندپروفیسر، یونیورسٹی کے طالبعلم، آئنسٹائن اور گیلیلیو جیسے سائنسدان، ہمفری بوگارٹ، فرینک سیناٹرا اور پاواروٹی جیسے فنکار اور مصور اور ہرن، لیموں کے درخت اور گلاب کے پھول بھی وجود میں آسکتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی خرافات پر یقین رکھنے والے لوگ پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے نظریہ¿ ارتقاءکو تاریخ کا مو¿ثر ترین منتر کہنا حق بجانب ہے۔ اس نظریئے نے لوگوں کی عقل اور منطق کی قوت کو صلب کرتے ہوئے سچ کو ان سے اس طرح چھپالیا کہ گویا ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو۔ یہ اندھاپن تو مصر کی قوم کا سورج کے خدا ”را“ کی ناقابل یقین طور پر اندھی پرستش، افریقہ کے کچھ حصوں میں ٹوٹم کے کھنبوں، شیبا کی قوم کی سورج کی پرستش، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کی اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے بتوں کی پرستش اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی سنہری بچھڑے کی پرستش سے بھی گئی گزری ایک پرستش کی مثال ہے۔
 قدیم مصر
جس طرح سے مگرمچھوں کی پرستش کرنے والے لوگوں کے عقیدے آج انوکھے اور ناقابل یقین لگتے ہیں اسی طرح ڈارون کے عقیدے بھی آج اتنے ہی حیرت ناک معلوم ہوتے ہیں۔ ڈارون کے پیروکار اتفاق اور بے جان، بے شعور ایٹموں کو تخلیقی قوت مانتے ہیں۔ وہ اپنے ان عقیدوں کے اتنے ہی وفادار ہیں جیسے کہ کوئی اپنے مذہب سے ہوتا ہے۔
درحقیقت یہ صورتحال عقل کی وہ کمی ہے جس کی طرف اﷲ تعالیٰ قرآن میں واضح اشارہ کرتا ہے۔ کئی آیات میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں کے ذہن اس طرح بند ہوجائےں گے کہ وہ سچ کو سمجھنے کے لئے بے قوت ہوں گے ان میں سے کچھ آیات ہیں:
﴿ بے شک وہ جن کی قسمت میں کفر ہے انہیں برابر ہے، چاہے تم انہی ڈراﺅ یا نہ ڈراﺅ، وہ ایمان لانے کے نہیں۔ اﷲ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے۔ اور ان کے لئے بڑا عذاب۔ ﴾(سورة البقرہ ،آیت ۷۔۶)
﴿ اور بے شک ہم نے جہنم کے لئے پیدا کئے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے ہیں۔ ﴾ (سورة الاعرا ف، آیت ۹۷۱)
﴿ اور اگر ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں کہ دن کو اس میں چڑھتے جب بھی یہی کہتے کہ ہماری نگاہ باندھ دی گئی ہے بلکہ ہم پر جادو ہوا ہے۔ ﴾ (سورة الحجر، آیت ۵۱۔۴۱)
اس بات کا اظہار کرنے کے لئے الفاظ ملنے ناممکن ہیں کہ یہ کس قدر حیران کن واقعہ ہے کہ کوئی منتر دنیا پر اسقدر غالب ہو کہ وہ لوگوں کو نسل در نسل ۰۵۱ سال سے سچ سے دور رکھنے میں کامیاب ہو۔ چند لوگوں کا ان بیوقوفیوں اور غیر منطقی دعوﺅں سے پر منظر ناموں پر یقین رکھنا سمجھ میں آتا ہے لیکن پوری دنیا کا اس بات پر یقین رکھنا کہ بے جان اور بے شعور اقل بنیادی اکائیاں اچانک فیصلہ کرتے ہوئے اکھٹی ہوئیں اور ایک مکمل، منظم، باشعور اور منطقی کائنات کا روپ دھارگئیں جس کا مرکز کرہ ارض زندگی کی افزائش کے لئے بہترین غذا، پانی اور ہوا کا تناسب رکھتا ہے اور جو کہ کروڑوں پیچیدہ نطاموں پر مبنی جانداروں کا مسکن ہے ایک جادوئی منتر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا جوکہ لاکھوں لوگوں پر پھونک دےا گیا ہو۔
اﷲ تعالیٰ نے قران میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ کچھ لوگ جو لادینی فلسفوں کی حمایت کرتے ہیں وہ دوسروں کو جادو کے ذریعے اپنے زیر اثر لے آتے ہیں۔ جب فرعون کو اصل دین کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جادوگروں سے ملنے کے لئے کہا ۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان سے ملے تو انہوں نے لوگوں کو اپنے اپنے جادو کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی۔ ان آیات میں مزید آتا ہے:
﴿ کہا تمہیں ڈالو جب انہوں نے ڈالا لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں ڈرایاا اور بڑا جادو لائے ﴾ (سورة الاعراف، آیت ۶۱۱)
فرعون کے جادوگر کسی کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجاتے تھے سوائے حضرت موسیٰ کے اور ان پر یقین رکھنے والوں کے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دکھایا گیا ثبوت ان کے تمام مظاہروں کو کھاگیا اور ان کے جادو کا توڑ ثابت ہوا۔ قرآن میں مزید آتا ہے:
﴿ اور ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ اپنا عصا ڈال تو ناگاہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا تو حق ثابت ہوا اور ان کا کام باطل ہوا تو یہاں وہ مغلوب پڑے اور ذلیل ہوکر پلٹے۔ ﴾ (سورة الاعراف، آیت ۷۱۱۔۹۱۱)
جیسے ہی لوگوں کو احساس ہوا کہ ان جادوگروں کی دکھائی ہوئی تمام چیزیں فریب اور مشاہدے کی خامی ہیں ان کا اعتماد ان جادوگروں پر سے اٹھ گےا۔ دورِ حاضر میں بھی وہ تمام لوگ جو کہ اسی طرح کے منتر کے زیر اثر ان بے منطقی اور بے بنیاد سائنسی لبادے میں چھپے دعوﺅں کا یقین کرتے رہیں گے اور اپنی ساری زندگی ان دعوﺅں کی حمایت میں گزاردیں گے وہ اس منتر کے ٹوٹنے اور سچائی کے سامنے آنے پر بری طرح سے بے عزت اور شرمندہ ہوں گے۔ مالکوم مگیرج ایک لادین فلسفہ دان اور ارتقاءکا ۰۶ سال تک پکا حمایتی تھا۔ اس کو وقت کے ساتھ سچائی کا ادراک ہوا اور وہ اعتراف کرتا ہے کہ اس کو اس سچائی کے خیال نے ہمیشہ پریشان رکھا تھا:
”مجھے اس بات کا یقین ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءخاص طور پر اس حد تک ،جس حد تک یہ عملی طور پر زندگی میں موجود ہے ،وہ مستقبل کی تاریخ کی کتابوں کا سب سے بڑا لطیفہ ہوگا۔ آئندہ آنے والی نسلیں انگشت بندداں ہوں گی کہ اتنے بے جان اور مذبذب مقالے کو اس قدر حیرت انگیز یقین کے ساتھ لوگوں نے قبول کس طرح کرلیا تھا“ ۔۲۴۱
وہ مستقبل بہت دور نہیں ہے جب لوگوں پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ ”اتفاق“ خدا نہیں ہوتا۔ لوگ نظریہ¿ ارتقاءکو اےک بہت بڑے فریب اور بھیانک ترین منتر کے طور پر پہنچان جائیں گے بلکہ اس منتر کا اثر دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں سے ابھی سے زائل ہونا شروع ہوگیا ہے۔ حق کو پہچان لینے والے لاتعداد لوگ اب حیران ہیں کہ انہوں نے آخر کس بنیاد پر نظریہ¿ ارتقاءکو خدا کا درجہ دیتے ہوئے اپنی زندگی کا محور بنالیا تھا۔

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder