17 Mart 2016 Perşembe

نواں باب: انسانی ارتقاءکا منظر نامہ

نواں باب:

انسانی ارتقاءکا منظر نامہ






اس کہانی کے لئے ارتقاءپسند کون سی بنیاد تجویز کریں گے؟ یہ بنیاد ان کئی فوصلوں کی موجودگی ہے جس کے ذریعے ارتقاءپسند اپنے نظریوں کی خےالی تشریحات کرتے ہیں۔ پوری تاریخ کے دوران تقریباً ۰۰۰۶ گوریلوں کی نسلیں زمین پر پیدا ہوئیں جن میں سے زیادہ تر معدوم ہوگئیں۔ آج صرف ۰۲۱ نسلیں زمین پر موجود ہیں لیکن معدوم گوریلوں کی ہڈیاں ارتقاءپسندوں کے لئے ہڈیوں کا ایک ایسا خزانہ ہیں جن کو وہ اپنے نظریوں کے فروغ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ارتقاءپسندوں نے انسانی ارتقاءکا منظر نامہ اس طرح لکھاکہ پہلے اپنی مرضی کی کھوپڑیوں کو چھوٹے سے لے کر بڑے ناپ تک ایک ترتیب دے دی اور ان کے بیچ میں کچھ معدوم انسانی نسلوں کی کھوپڑےاں بھی ملا دےں۔ اس منظر نامے کے حساب سے انسان اور گوریلوں کے پرکھا مشترک ہیں۔ ارتقاءپسندوں کے مطابق یہ قدےم مخلوق وقت کے ساتھ ساتھ بسلسلہ تدریجی ترقی دورِ حاضر کا گوریلا بن گئی جبکہ ایک گروہ نے ارتقاءکی ایک اور شاخ کے ذریعے ترقی کے باعث دورِ حاضر کے انسانکی شکل اختیار کرلی۔ لیکن تمام علمِ معدوم حیوانا و نباتات، علم تشریح الاعضاءاور علم حیاتیات کی تحقیق کے مطابق نظریہ¿ ارتقاءکا یہ دعویٰ اتنا ہی خام خیالی سے پر اور معذور ہے جتنے کہ دوسرے تمام دعوے ہیں۔ کسی بھی نوعیت کا اصل اور ٹھوس ثبوت آج تک اس معاملے میں سامنے نہیں آسکا جو کہ انسان اور گوریلے کے درمیان کوئی رشتہ استوار کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ سارے ثبوت صرف دھوکہ دہی ، حقیقت کی بگڑی ہوئی اشکال، بہکاووں سے پر خاکوں اور تجزیوں پر مشتمل ہیں۔
فوصلی ریکارڈ تارےخ کے ہردور میں انسانوں کا انسان اور گوریلوں کا گوریلے ہونے کی ہی نشاندہی کرتا ہے۔ ارتقاءپسندوں کے دعوﺅں کے مطابق کچھ فوصل جن کو وہ انسان کا پرکھا کہتے ہیں وہ ان انسانی نسلوں کی ہیں جو کہ ۰۰۰,۰۱ سال پہلے کے دور میں زندہ رہیں اور معدوم ہوگئیں۔ اس کے علاوہ کئی انسانی گروہ جو کہ دورِ حاضر میں بھی موجود ہیں اِنہیں معدوم انسانی نسلوں سے مشترک طبےعیاتی اور شکلیاتی خصوصیات کی حامل ہیں جن کو ارتقاءپسند انسانوں کے پرکھا کہتے ہیں۔ یہ تمام باتیںاس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ انسانی نسل تاریخ کے کسی دور میں کسی بھی ارتقائی عمل سے نہیں گزری۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ گوریلوں اور انسانوں کے درمیان اتنے زےادہ تشریح الاعضاءکے فرق موجود ہیں کہ ان دونوں نسلوں کا کسی بھی طرح کے تدریجی ترقی کے عمل کے ذریعے وجود میں آنے کا سول ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان میں سے سب سے نماےاں فرق دو ٹانگوں پر چلنے کی صفت ہے جو کہ انسان کے لئے مخصوص ہے۔ انسان اور دوسرے حیوانات کے درمیان فرق پیدا کرنے والی یہ سب سے اہم خصوصیت ہے۔

انسان کا خیالی شجرہ¿ نسب

نظریہ¿ ارتقاءکا یہ دعویٰ ہے کہ دورِ حاضر کا انسان کسی گوریلا نما مخلوق کی تدریجی شکل ہے۔ اس ازروئے دعویٰ ارتقائی عمل کا آغاز ۴ سے ۵ لاکھ سال پہلے ہوا اور اس شجرہ نسب میں کچھ عبوری نوعیت کی مخلوق کا بھی دخل ہے جو کہ انسان اور اس کے پرکھا کے مابین رشتہ داری کو واضح کرتی ہے۔ اس مکمل طور پر فرضی منظر نامے کے مطابق مندرجہ ذیل چار بنیادی گروہوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
۱۔ آسٹرالوپیتھییسینز (جنس آسٹرالوپتھیکس سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی شکل)ِّّAustralopithecines
۲۔ ہوموہابلس Homo hablis
۳۔ ہوموارکٹس Homo erectus
۴۔ ہوموسیپینز Homo sapiens
انسان کے ازروئے دعویٰ گوریلا نما پرکھا کو ارتقاءپسند آسٹرالوپتھیکس کا نام دیتے ہیں جس کے لفظی معنی ہیں جنوبی گوریلا۔ یہ ایک پرانی وضع کا گوریلا ہے جو کہ معدوم ہوچکا ہے اور مختلف اشکال میں فوصلوں کی صورت دریافت ہوتارہتا ہے۔ کچھ اشکال بڑی اور مضبوطی سے بنی ہوتی ہیں جبکہ دوسرے ڈھانچے نسبتاً چھوٹے اور نازک ہوتے ہےں۔انسانی ارتقاءکا دوسرا مرحلہ ارتقاءپسندوں کے حساب سے جنس ہومو ہے جس کا لفظی مطلب ’آدمی‘ ہے۔ ارتقاءپسند دعوے کے مطابق ہومو سلسلے کے جاندار آسٹرالوپتھیکس کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور دورِ حاضر کے انسان سے کافی مشابہ ہیں۔ آج کا انسان ہومو سیپین نسل کا ہے جس کی شکل ارتقاءکے آخری مرحلے پر جنس ہومو کی تدریجی ترقی سے ہوئی ہے۔ جاوا مین، پیکن مین اور لوسی جیسے فوصل جو کہ تشہیراتی مواد میں وقتاً فوقتاً نمودار ہوتے رہتے ہیں اور ارتقائی جریدوں اور نصابی کتابوں کا اہم جزو ہیں ،یہ بھی اوپر دئے گئے چاروں گروہ میں سے کسی ایک کا حصہ ہیں۔
ےہاں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چاروں بڑے گروہ مزید انواع اور ذیلی انواع میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ راما پتھیکس جیسی ماضی کی عبوری اشکال کو اس خیالی شجرہ نسب سے خارج کردیا جائے کیونکہ ان کا محض عام گوریلا ہونے کاثبوت سامنے آگیا تھا ۔۰۷
ارتقاءکے شجرہ¿ نسب کی خیالی زنجےر کی کڑیوں کو آسٹرالوپیتھیسینز، ہوموہابلس، ہوموارکٹس اور ہوموسیپینز کی صورت میں بیان کرکے ارتقاءپسند وضاحت کرتے ہیں کہ ہر زمرہ دراصل اس سے پہلے والے کا پرکھا ہے۔ لیکن ماہرِ قدیم بشری رکازیات کی حالیہ تحقیق نے ظاہر کیا ہے کہ آسٹرالاپیتھیسینز اور ہوموہابلس اور ہوموارکٹس دنیا کے مختلف حصوں میں ایک ہی وقت میں موجود تھے۔ مزید یہ کہ ہوموارکٹس کے زمرے کے انسان حالیہ دور میں بھی موجود ہےں۔’ حالیہ جاوا کے ہومو ارکٹس: جنوب مشرقی ہوموسیپینز کے ساتھ ممکنہ متحد الوقوع ‘ کے عنوان سے رسالہ سائنس میں چھپنے والے مضمون میں بیان کیا گیا کہ جاوا سے ملنے والے ہومو ارکٹس کے فوصلوں کی اوسطاً عمر ۲+۷۲ سے ۴-+۳۳۵ ہزار سال پہلے کی ہے۔ یہ اس بات کے امکان کو بڑھادیتا ہے کہ ہومو ارکٹس تشریح الاعضاءکے حساب سے جنوب مشرقی ایشیاءکے ترقی یافتہ ہومو سیپینز کے متجاوز تھے۔مزید یہ کہ ہوموسیپینز نینڈر تھالنسس اور ہوموسیپینز سیپینز یا دور حاضر کا انسان بھی ایک ہی وقت میں زندہ تھے۔ اس بات کے ثابت ہونے سے اس دعوے کی منسوخی واضح ہوجاتی ہے کہ ایک نسل دوسری نسل کی پرکھا ہے۔ 71
قدرتی طور پر تمام نتیجے اور سائنسی تحقیق ےہی ثابت کرتے ہیں کہ فوصلی ریکارڈ کسی قسم کا ایسا تدریجی ترقی کا عمل تجویز نہیں کرتا جس کو ارتقاءپسند پیش کرتے ہیں۔ جن فوصلوں کو ارتقاءپسند انسانوں کے پرکھا کہتے ہیں وہ مختلف انسانی نسلوں کے ےا پھر گوریلوں کے فوصل ہیں۔ تو پھر کون سے فوصل انسانی ہیں اور کون سے گوریلوں کے ہیں؟ کیا ان میں سے کسی ایک کو بھی عبوری نوعیت کی مخلوق تصور کرنا ممکن ہے؟ ان سب باتوں کا جواب حاصل کرنے کےلئے ہر گروہ پر تفصیلی نظر ڈالنا ضروری ہے۔

آسٹرالوپتھیکس: گوریلوں کی ایک نسل

ارتقائی شجرہ¿ نصب کا پہلا گروہ آسٹرالوپتھیکس کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں جنوبی گوریلا \قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ مخلوق ۴ لاکھ سال پہلے افریقہ میں نمودار ہوئی اور ۱ لاکھ سال تک موجود رہی۔ اس گروہ کے اندر کئی نسلیں آتی ہیں۔ ارتقاءپسندوں کا خیال ہے کہ اس گروہ کی سب سے پرانی نسل اے۔ افارنسس ہے- اس کے بعد اے۔ افریکانس ہے اور پھر اے۔ روبسٹس ہے جس کی ہڈیاں نسبتاً بڑی ہیں۔ اے۔بوئے سائے نامی نسل کو کچھ تحقیق دان مختلف نسل گردانتے ہیں جبکہ کچھ اس کو اے۔ روبسٹس کی ذیلی نسل ہی قرار دیتے ہیں۔
تخلیقی عمل میں کارفرما جبڑے کی ہڈی
ramapithecus  
ramapithecus
ramapithecus 
راماپیتھیکس کا ملنے والاپہلا فوصل ایک غیر موجود جبڑے ت ¿ کی ہڈی کے دو ٹکڑوں پر مشتمل تھا۔ ارتقاءپسندوں نے جرا مندانہ طور پر اس جبڑے پر انحصار کرتے ہوئے راماپیتھیکس اور اس کے مکمل ماحول اور خاندان کے بھی خیالی خاکے دنیا کے آگے پیش کردئے۔ جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ مخلوق، اس کا ماحول، اس کا خاندان اور اس کے متعلق بتائی گئی ہر تفصیل ایک عام گوریلے کے جبڑے کی ہڈی سے اخذ کیا نسب سے ¿ گیا تھا تو راماپیتھیکس کو خیالی انسانی شجرہ خاموشی سے ہٹادیا گیا۔ )ڈیوڈ پلببیم ”انسانوں نے ایک قدیم پرکھاکھودیا“ رسالہ سائنس اپریل ۲۸۹۱ ءصفحہ ۷۔ ۶
آسٹرالوپتھیکس کی تمام نسلیں درحقیقت معدوم گوریلے ہیں جو کہ دورِ حاضر کے گوریلوں سے مشابہ ہیں۔ ان کی کھوپڑیاں موجودہ وقت کے چمپانزی بندروں کی ہو بہو یا تھوڑی سی چھوٹی ہیں۔ چمپانزی کی طرح ہی ان کے ہاتھوں اور پیروں میں کچھ حصے باہر کو نکلتے ہوئے ہیں جن کی مدد سے وہ درخت پر چڑھتے ہیں اور ان کے پیروں کی ساخت ان کو ٹہنیوں پر لٹکنے کے لئے مدد دیتی ہے۔ ان کا قد چمپانزی ہی کی طرح چھوٹا ہوتا ہے۔ (زیادہ سے زیادہ ۰۳۱ سینٹی میٹر یا ۱۵ انچ) ۔ نرآسٹرالوپتھیکس مادہ کی نسبت بڑا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کئی دوسری خصوصیات بھی ثابت کرتی ہیں کہ یہ آج کے گوریلا سے بالکل مختلف نہیں مثلاً کھوپڑی کی تفصیلات، آنکھوں کا قریب قرےب واقع ہونا، تیز داڑھ ، جبڑے کی ساخت، لمبے بازو اور گڈی ٹانگیں۔ پھر بھی ارتقاءپسند ےہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گوریلوں کی طرح ہونے کے باوجود یہ گوریلوں سے مختلف تھے اور انسانوں کی طرح سیدھا ہوکر چلتے تھے۔ ان کے اس دعوے کو کئی دہائیوں سے ماہرِ قدیم بشری رکازیات رچرڈ لیکی اور ڈانلڈسی۔ جوہانسن کی مضبوط پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ لیکن کئی سائنسدانوں نے گروہ آسٹرالوپتھیکس کے ڈھانچوں پر تفصیلی تحقیق سے ثابت کردیا ہے کہ یہ نظریہ ناقص ہے۔
آسٹرالوپتھیکس کے نمونے کے اوپر تفصیلی تحقیق کرنے والے عالمی شہرت کے حامل ماہرِ تشریح البدن انگلستان کا لارڈ سولی زکر مین اور امریکہ کا پروفیسر چارلس آکسنارڈ نے واضح کردیا ہے کہ یہ مخلوق ہرگز انسانی طریقے سے سیدھا ہوکر نہیں چلتی تھی۔ لارڈ زکزمین اور اس کے ساتھ پانچ ماہر تحقیق دانوں نے انگلستان کی حکومت سے حاصل کی گئی مالی امداد کے ذریعے پندرہ سال کے عرصے کے دوران ان فوصلوں کا معائنہ کیا اور یہ حتمی نتیجہ اخذ کیا کہ آسٹرالوپتھیکس ایک عام گوریلے کی نسل تھی جو کہ ہرگز دوپایہ نہیں تھی۔
الٹے ہاتھ کی طرف اے۔ ایفیرنسس کے دو خاکے ہیں نیچے والی تصویر اے۔ بوٹسی کی ہے۔ یہ تمام تصویریں مکمل طور پر خیالی ہیں۔ آسٹرالوپتھیسینز درحقیقت گوریلوں کی ایک معدوم شکل ہیں۔
زکر مین خود بھی ایک ارتقاءپسند ہے لیکن اس کا تجربہ اس کے ذاتی کٹر نظریات کی بجائے سائنسی تحقیق پر مبنی تھا ۔(۲۷) چارلس آکسنارڈ بھی ارتقاءپسند تھا جو کہ اس موضوع پر اپنی تحقیق کے لئے مشہور تھا اور اس کا بھی یہی نتیجہ تھا کہ آسٹرالو پتھیسینز کا ڈھانچہ آج کے اورنگوٹان بندر کی طرح ہے۔ (۳۷) قصہ مختصر یہ کہ آسٹرالوپتھیسینز کا انسانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف ایک معدوم گوریلوں کی نسل ہیں۔
اس گروہ کا انسانی پرکھا نہ ہونے کی حقیقت کو مختلف ارتقائی ذرائع بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مشہور فرانسیسی رسالے ’سائنس اٹ وی ‘ نے مئی ۹۹۹۱ میں اس کہانی کو اپنے سرورق کی زینت بنایا۔ اس رسالے کی کہانی خاص طور پر’ لوُسی‘ کے بارے میں تھی جو کہ آسٹرالوپتھیکس افارنسس کا سب سے مشہور فوصلی نمونہ ہے۔ کہانی کا عنوان تھا ’اڈولوسی‘ یا خدا حافظ لوسی ۔اس کہانی میں اس بات پر زوردیا گیا کہ تمام تحقیقات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسٹرالوپتھیکس کو انسانی شجرہ نسب سے ہٹادیا جائے۔ مضمون ایک نئی اسٹرالوپتھیکس کی دریافت نمبر STW573 پر مبنی تھا۔
”ایک نئے نظریئے کے مطابق جنس آسٹرالوپتھییکس انسانی نسل کی جڑ نہیں ہے۔ STW573 کا معائنہ کرنے کی اجازت پانے والی واحد خاتون نے جو نتیجہ اخز کیا ہے وہ انسانی پرکھا سے متعلق عام نظریوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس نتیجہ کی روشنی میں انسانی شجرہ¿ نسب تباہ ہوجاتاہے۔ بڑے بڑے حیوانِ رئیسہ جن کو انسان کے پرکھا سمجھا جاتا رہا تھا وہ انسانی شجرہ نسب سے ہٹادیئے گئے ہیں۔ آسٹرالوپتھییکس اور ہومو یا انسانی نسل ایک ہی شاخ پر نظر نہیں آتے۔ انسان کے براہِ راست پرکھا ابھی بھی دریافت کئے جانے کا انتظار کررہے ہیں۔
(Isabelle Bourdial,”Adieu Lucy, “Science et Vie, May 1999, no. 980, pp. 52-62)
آسٹرالوپتھیکس ایفیرنسس: ایک معدوم گوریلا
australopithecus, אוסטרלופיתקוסآسٹرالوپیتہیکس
אוסטרלופיתקוסدورِ جدید کا چمپانزی
lucy, Australopithecus aferensis
ہادر، ایتھیوپیا میں ملنے والا فوصل جوکہ ازروئے دعویٰ آسٹرالوپیتھیکس ایفیرنسس یا کا ہے۔ ارتقاءپسند بہت عرصے AL 288- لوسی 1 تک اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے کہ لوسی سیدھا چل سکتی تھی لیکن جدید تحقیق نے واضح کردیا ہے کہ لوسی نامی یہ مخلوق ایک عام گوریلا تھا جوکہ گوریلوں کی طرح ہی جھک کر چلتا تھا۔
نیچے نظر آنے والا آسٹرالوپیتھیکس کا فوصل اسی نسل AL333- ایفیرنسس 105 کے ایک جوان گوریلے کا ہے۔ اسی لئے اس کی کھوپڑی پر گوریلوں کی مخصوص ہڈی کا ابھار نمایاں نہیں ہے۔Australopithecus aferensis
اوپر والی تصویر میں آسٹرالوپیتہیکس 2-444 کی کہوپڑی AL افیرنسس کا فوصل نظر آ رہا ہے اور نیچے ایک دورِ حاظر کا گوریلا ہے، ان دونوں کے درمیان واضع مشابہت ثابت کرتی یے کی آسٹرالوپیتہیکس افیرنسس ایک عام گوریلے کی نسل تہی جس کا انسانوں سے کویُ تعلق نہیں تہا،
 

ہوموہابلس: وہ گوریلا جو انسان بناکر پیش کیا گیا

آسٹرالوپتھیسینز اور چمپانزی کے درمیان ڈھانچے اور کھوپڑی کی مشترک قدریں اور اس دعویٰ کی منسوخی نے کہ یہ مخلوق سیدھی چلتی تھی ، ارتقاءپسند ماہرِ قدیم بشری رکازیات کو شدید مشکلات کا شکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیالی ارتقائی ترتیب کے حساب سے ہوموارکٹس اسٹرالوپتھیکس کے بعد آتے ہیں جیسے کہ اس کے نام ہومو یعنی انسان سے واضح ہے کہ ہومو ارکٹس ایک انسانی نسل ہے اور اس کا ڈھانچہ سیدھا ہے۔ اس کی کھوپڑی کا حصہ اسٹرالو پتھیکس کا دوگنا ہے۔آسٹرالوپتھییکس جیسے گوریلا نما چمپانزی سے ہومو ارکٹس جیسے دورِ حاضر کے انسان جیسا ڈھانچہ رکھنے والی مخلوق تک براہِ راست جست کا سوال ارتقائی دعوﺅں کے حساب سے بھی ناممکن ہے۔ اسی لئے ان دو نسلوں کو جوڑنے کے لئے کڑیوں کی ضرورت پڑی۔ اسی ضرورت کے تحت ہومو ہابلس کو بنانا لازمی ہوگیا۔
ہوموہابلس: ایک اور معدوم گوریلا
הומו הביליס, Homo Habilis
ارتقاءپسند لمبے عرصے تک یہ بحث کرتے رہے کہ ہوموہابلس نامی مخلوق مکمل طور پر کھڑے قد کے ساتھ چل سکتی تھی۔ ان کے خیال سے اس مخلوق کی شکل میں ان کو گوریلے اور انسان کے درمیان کی کڑی مل گئی ہے لیکن ۶۸۹۱ ءمیں ٹم وائٹ کے دریافت OH شدہ نئے ہوموہابلس کے 62 نامی فوصلوں نے ان مفروضوں کی تردید کردی۔ ان فوصلوں میں ہوموہابلس کے لمبے بازو اور چھوٹی ٹانگیں نمایاں تھیں جوکہ دورِ حاضر کے گوریلوں کے عین مشابہہ ہےں۔ اس فوصل سے اس مفروضے کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا کہ ہوموہابلس عمودی طور پر کھڑا قد چلنے والا دوپایہ تھا۔ درحقیقت ہوموہابلس گوریلوں کی ہی ایک نسل تھی۔
הומו הביליס, Homo Habilis
سیدھے ہاتھ پر نظر آنے والا فوصل ہوموہابلس کا ہے جس میں OH7Homohablis کی نسل ہومو ہابلس نسل کے جبڑوں کی ساخت واضح ہے۔ اس جبڑے کے فوصل میں بڑے بڑے نکیلے دانت نمایاں ہیں۔ اس کے ڈاڑھ چھوٹے اور جبڑے کی عمومی شکل چوکور ہے۔ یہ جبڑا ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ ہومو ہابلس ایک گوریلا ہی تھا۔
ہوموہابلس کی گروہ بندی ۰۶۹۱ءکے سالوں میں لیکی خاندان کے فوصلی شکاریوں نے تجویز کی۔ لیکی خاندان کے حساب سے اس نئی نسل کا نام ہوموہابلس تھا اور اس کی کئی نمایاں خصوصیات تھیں جن میں بڑی کھوپڑیاں، سیدھا چلنے کی صفت اور پتھر اور لکڑی سے بنے ہوئے اوزاروں کو استعمال کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔ اس لئے انہوں نے اندازہ لگایا کہ یہ گروہ انسان کا پرکھا ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ لیکن اس نسل کے ۰۸۹۱ءکے آخری سالوں میں ملنے والے نئے فوصلوں نے اس منظر کو مکمل طور پر بدل دیا۔ ان نئے فوصلوں پر انحصار کرنے والے تحقیق دانوں برنارڈ وڈ او ر سی۔ لورنگ برلیس نے بیان دےاکہ ہوموہابلس (جس کا مطلب ہے کہ کاریگر آدمی یا وہ آدمی جو اوزار استعمال کرنا جانتا ہو) کو اسٹرالوپتھیکس ہابلس یا ہنر مند جنوبی گوریلا کا خطاب دیا جائے کیونکہ ہوموہابلس اور آسٹرالوپتھیسین گوریلوں کے درمیان کئی قدریں مشترک تھےں۔ ہوموہابلس کے بھی اسٹرالوپتھیکس کی طرح لمبے بازو، چھوٹی ٹانگےںاور گوریلا نما ڈھانچہ تھا۔ اس کی بھی انگلیاں اور پیر چڑھنے کے لئے موزوں تھے اور ان کا جبڑا دورِ حاضر کے گوریلے کے مشابہ تھا۔ ان کی CC600کی کھوپڑی کی اوسطاً پیمائش بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ دراصل گوریلے ہی تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہو موہابلس کو گو کہ ارتقاءپسندوں نے ایک مختلف نسل کے طور پر پیش کیا لیکن حقیقتاً وہ دوسرے تمام اسٹرالاپتھیسین کی طرح گوریلوں کی ہی ایک قسم تھے۔
وڈاور برلیس کے کام کے بعد کی جانے والی تحقیق نے مزید ثابت کیا کہ ہوموہابلس اسٹرالوپتھیکس سے بالکل مختلف نہیں تھے۔ ٹی وائٹ کو ملنے والا OH62 نامی کھوپڑی اور ڈھانچے کا فوصل ظاہر کرتا ہے کہ اس نسل کی کھوپڑی کا حصہ چھوٹا تھا اور اس کے باز لمبے اور ٹانگیں گڈی تھیں جن سے وہ با آسانی دورِ حاضر کے گوریلوں کی طرح درختوں پر چڑھ سکتا تھا۔ ۴۹۹۱ءمیں امریکی ماہر ِبشریات ہولی اسمتھ کی تفصیلی تحقیق نے ثابت کیا کہ ہوموہابلس دراصل ہوموتھے ہی نہیں یعنی کووہ انساننہےں تھے بلکہ وہ بلا اشتہباہ گوریلے تھے۔آسٹریلوپتھیکس، ہوموہابلس، ہوموارکٹس اور ہومو نیانڈر تھالنسس کے دانتوں کے اوپر کی گئی تحقیق کے بارے میں ہولی اسمتھ کہتی ہے:
”مخصوص حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے جب آسٹرالوپتھیسنز اور ہوموہابلس کے دانتوں کی ترتیب کا معائنہ کیا جاتا ہے تو ان نسلوں کی درجہ بندی صرف افریقہ کے گوریلوں کے ساتھ ہی کی جاسکتی ہے۔ ہوموارکٹس اور نیانڈرتھال کی درجہ بندی انسای گروہ میں ہوتی ہے۔“ ۴۷
اس سال کے دوران ماہر ِ تشرےح البدن فریڈ اسپور، برنارڈوڈ اور فرانززونیولڈ ایک مختلف طریقے سے اسی مشترک فیصلے پر پہنچے۔ ان کا طریقہ کار انسان اور گوریلوں کے اندرونی کان میں موجود نیم دائرے کی شکل کی نالیوں کی موازنی تحقیق تھی۔ سپور، وڈ اور زونیولڈ کا نتیجہ یہ تھا کہ:
”انسان کے فوصلوں میں سب سے جدید انسانی شکل پیش کرنے والا نمونہ ہوموارکٹس کا ہے۔ اس کے مقابلے میں جنوبی افریقہ کے خطے کی مخصوص کھوپڑی کی نیم دائرہ نالیاں جوکہ آسٹرالوپتھیکس اور پرانتھروپس کا خاصہ ہیں وہ معدوم بڑے گوریلوں سے مشابہ ہیں۔“ 75
اسپور، وڈ اور زونیولڈ نے STW53 نامی ہوموہابلس کے نمونے کا بھی مطالعہ کیا اور اس کے بارے میں کہا کہ ”STW53 کا انحصار اپنے دوبازوﺅں پر آسٹرالوپتھیسینز سے کم تھا۔“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہومو ہابلس نمونہ آسٹرالوپتھیکس نسل سے بھی زیادہ گوریلا نما تھا۔ ان تینوں تحقیق دانوں کا خلاصہ یہ تھا کہ:
”STW53 اسٹرالوپتھیسینز اور ہوموارکٹس کی ہےتوں کے درمیان ایک ناممکن کڑی ہے۔“ اس تمام تحقیق سے دو اہم نتائج سامنے آئے۔
۱۔ ہوموہابلس نامی فوصل جنس ہومو یا انسانی جن کا حصہ نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق آسٹرالوپتھیکس یا گوریلوں کے گروہ سے تھا۔
۲۔ ہوموہابلس اور آسٹرالوپتھیکس آگے جھک کر چلنے والی مخلوق تھے یعنی کہ ان کے ڈھانچے گوریلوں کے تھے۔ ان کا انسان کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔

ہوموروڈالفنسس : غلط طریقے سے جوڑا گیا چہرہ

۲۷۹۱ءمیں چند فوصلی ٹکڑوں کی دریافت کو ہوموروڈ ولفنسس کا نام دیا گیا۔ یہ فوصل جس نسل کی نشاندہی کرتے تھے اس کا نام ہوموروڈولفنسس اس لئے رکھا گیا کیونکہ یہ فوصل کینیا کی جھیل روڈالف کے آس پاس کے علاقے میں دریافت کئے گئے۔ بہت سے ماہرِ قدیم بشری رکازیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ فوصل کسی مخصوص نسل کے فوصل نہیں ہےں اور ہوموروڈولفنسس نامی مخلوق ہوموہابلس سے ناقابل امتیاز ہے۔ یہ فوصل رچرڈ لیکی نے دریافت کئے تھے اور اس نے KNM-ER 1470 نامی ایک کھوپڑی پیش کی جو کہ اس کے بیان کے مطابق ۸۲ لاکھ سال پرانی اور علمِ بشر کی تاریخ کی سب سے اہم دریافت تھی۔
اندرونی کان کی تفصیلی جانچ کا نتیجہ : گوریلے سے انسان کے عبوری مفروضے میں کوئی سچائی نہیں ہے
انسانی ارتقاء جھوٹ
گوریلوں اور انسانوں کے اندرونی کان کی تین قوسی مائع دار نالیوں کے درمیان موازناتی جانچ نے ثابت کردیا ہے کہ جس مخلوق کوانسان کا پرکھا سمجھا جاتارہا ہے وہ گوریلے ہی تھے۔ آسٹرالوپیتھییکس اور ہوموہابلس نسلوں میں گوریلوں کے اندرونی کان کی ساخت موجود تھی جبکہ ہومو ارکٹس نسل کے کان انسانی تھے۔
لیکی کے حساب سے یہ مخلوق اپنی آسٹرالوپتھیکس کی طرح کی چھوٹی کھوپڑی اور دورِ حاضر کے انسان سے ملتے جلتے چہرے کے ساتھ آسٹرالوپتھیکس اور انسانوں کے درمیان گمشدہ کڑی تھی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ KNM-ER 1470 کی انسانی شکل نما کھوپڑی جو کہ اب تک کئی سائنسی جریدوں اور مشہور سائنسی رسالوں کے سرورق پر چھپ چکی تھی دراصل کھوپڑی کی ہڈیوں کی شاید جان بوجھ کر کی گئی غلط ترتیب کا نتیجہ تھی۔ انسانی شکل کی تشریح الاعضاءپر تحقیق کرنے والے پروفیسر ٹم بروماج نے ۲۹۹۱ءمیں کمپیوٹر کے ذریعے بنائے گئے خاکوںکے ذریعے اس معاملے کی دھوکہ دہی سے پردہ اٹھایا:
”جب KNM-ER 1470 کو سب سے پہلے بنایا گیا تھا تو اس کے چہرے کو کھوپڑی پر تقریباً عمودی طور پر بٹھایا گیا تھا جس طرح جدید انسانوں کی شکلیں ہوتی ہیں لیکن حالیہ تشریح البدن کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ چہرہ زندہ KNM-ER 1470 کی زندگی کے دوران کافی حد تک باہر کی طرف نکلا ہوا ہوگا جس طرح گوریلوں کا چہرہ ہوتا ہے۔ یہ چہرہ ہر طور پر آسٹرالوپتھیکس کے چہرے سے مشابہ ہے۔“ ۶۷
ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات جے۔ ای۔ کرونن اس معاملے پر کہتا ہے:
”اس کا مضبوطی سے بنا ہوا چہرہ، ناک کی چپٹی ہڈی، (جس طرح اسٹرالوپتھیسین کی ہوتی ہیں) گری ہوئی کھوپڑی کی چوڑائی، مضبوط آگے کے دانتوں اور داڑھوں کے درمیان نکلے دانت اور بڑے بڑے داڑھ (جس کی نشاندہی بچی ہوئی جڑوں سے ہوتی ہے) سب کافی قدیم خصوصیات ہیں جو کہ جنس آسٹروپتھیکس افریکا نس سے مشترک ہیں۔“ ۷۷
مشیگن یونیورسٹی کا سی۔ لورنگ بریس بھی اسی نتیجے پر پہنچا تھا۔ 1470 کی کھوپڑی کے جبڑے اور دانتوںکی ساخت پر کی جانے والی تحقیق کے بعد اس کا بیان تھا کہ ”جبڑے کی پیمائش اور داڑھوں کی جگہ کی سطح کے ناپ سے لگتا ہے کہ ER-1470 کا ایک مکمل طورپر آسٹرالوپتھیکس کے ناپ کی شکل اور جبڑا تھا۔“ ۸۷
جان ہاپکنز یونیورسٹی کا پروفیسر ماہرِ قدیم بشری رکازیات ایلن والکرے نے بھی KNM-ER 1470 پر اتنی ہی تحقیق کی ہے جتنی لیکی نے کی اور اس کا بھی یہی بیان ہے کہ اس مخلوق کو کسی بھی طور پر ہومویا انسان کی درجہ بندی میںنہیں ڈالاجاسکتا بلکہ اس کی صحیح جگہ آسٹرالوپتھیکس زمرے میں ہی ثابت ہوتی ہے۔“ ۹۷
خلاصہ کے طور پر یہ کہ ہوموہابلس اور ہومو روڈالفنسس جن کو آسٹرالو پتھیسینز اور ہومو ارکٹس کے درمیان عبوری کڑیاں بناکر پیش کیا گیا ہے وہ دراصل خیالی مخلوق کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ کئی تحقیق دانوں نے سالوں پر محیط تحقیق سے ثابت کردیا ہے کہ تمام مخلوق دراصل آسٹرالو پتھیکس سلسلے کی ہی ارکان ہیں۔اس سچائی کی تصدیق مزید دوا ور ارتقائی ماہرِ بشریات برنارڈوڈ اور مارک کولارڈ نے کی جن کا اس موضوع کے اوپر مضمون ۹۹۹۱ءمیں رسالہ ”سائنس“ میں چھپا۔ وڈ اور کولارڈ کا تفصیلی بیان تھا کہ ہوموہابلس اور ہوموروڈالفنسس (کھوپڑی ۰۷۴۱) سراسر خیالی مخلوق ہیں اور ان کے نام پر دکھائے گئے سارے فوصل جنس آسٹرالوپتھیکس کی درجہ بندی کے فوصل ہیں:
”حالیہ دور میں جنس ہومو کی درجہ بندی میں ڈالے گئے فوصل، ان کے بھیجے کی پیمائش، ان کی بات کرنے کی صلاحیت اور ہاتھوں کا استعمال کہ اگر وہ ہاتھوں سے پتھر کے اوزار بنانے کے قابل تھے یا نہیںجےسی تمام خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ کچھ استثنائیوں کے علاوہ انسانی ارتقاءمیں جنس ہومو کی تعریف اور استعمال بغیر کسی مسئلے کے رہا ہے۔ لیکن حالیہ تحقیق، تمام ثبوت کی تازہ تشریح اور علمِ قدیم بشری رکازیات کے ریکارڈ کی محدود نوعیت ہومو سے وابستہ تمام ثبوت کو کافی حد تک ناقص بنادیتے ہیں۔
عملی طور پر ہومینن نسل سمجھے جانے والے فوصل ہومو درجہ بندی میں چار میں سے ایک یا زائد شرائط کے پورا ہونے پرڈ الے جاتے ہیں لیکن اب یہ واضح ہے کہ چاروں میں سے ایک بھی وجہ تسلی بخش نہیں ہے۔ کھوپڑی کا ناپ مسئلہ پیش کرتاہے کیونکہ کھوپڑی کی حتمی پیمائش کا اندازہ لگانا علمِ بشریات کے حساب سے ایک کافی ناممکن فعل ہے۔ اسی طرح قوتِ گوےائی کا اندازہ محض دماغ کے ناپ سے نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ دماغ کے وہ حصے گوےائی کی صلاحیت کے ذمہ دار ہیں وہ اتنے واضح طور سے قابل شناخت نہیں ہیں جتنا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا۔دوسرے الفاظ میں ، ہومو ہابلس اور ہومو روڈالفنسس کی مخصوص خصوصیات کے ساتھ یہ تاثر ملتا ہے کہ ہومو کوئی اچھا جنس نہیں ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہومو ہابلس اور ہومو روڈالفنسس کو ہومو کی درجہ بندی سے نکال دیا جائے۔ بظاہر انقسامی متبادل یہ ہے کہ ایک یا دونوں نسلوں کو کسی ایک قدیم انسانی درجہ بندی میں ضرورجذب کردیا جائے۔ گو کہ ایسا کرنا مشکل نہےں ہو گا لیکن فی الحال ہماری رائے یہ ہے کہ ہومو ہابلس اور ہومو روڈالفنسس کو جنس آسٹرالوپتھیکس میں منتقل کردیا جائے۔“ ۰۶
۰۰۷ ہزار سال پرانے ملاح
Homo Erectus, انسانی ارتقاء جھوٹ
“ قدیم انسان ہمارے اندازوں سے زیادہ عقلمند تھے ”
۸۹۹۱ ءمیں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق ارتقاءپسندوں کی طرف سے نام دئے گئے ہوموارکٹس انسان ، رسالہ ”نیوسائنٹسٹ“ میں مارچ ۴۱ ۰۰۷ ہزار سال پہلے بھی جہاز اور کشتی رانی کی مہارت رکھتے تھے۔ ان انسانوں میں اتنا شعور، عقل اور تکنیکی صلاحیت تھی کہ وہ عمدہ سمندری کشتیاں بناتے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تہذیب و ثقافت کسی بھی طور سے قدیم نہیں کہلائی جاسکتی۔
وڈ اور کالارڈ کا حتمی نتیجہ بھی وہی ہے جس کے اوپر شروع سے زوردیا جارہا ہے اور وہ یہ کہ قدیم انسانی پرکھا جیسی کوئی مخلوق تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ جس مخلوق کے بارے میں ازروئے دعویٰ یہ خیال کیا جاتا بھی ہے تو وہ مخلوق دراصل جنس آسٹرالوپتھیکس کا حصہ ہے۔ فوصلی ریکارڈ کے مطابق معدوم گوریلوں اور ہومو یعنی انسانی نسلوں میں کسی قسم کا ارتقائی تعلق نہیں ہے۔ انسانی نسلیں بھی دوسرے تمام جانداروں کی طرح اچانک فوصلی ریکارڈ میں نمودار ہوئیں۔

ہوموارکٹس اور ان کے بعد: انسان

ارتقاءپسندوں کے وہم و خیال پر مبنی منصوبے کے مطابق جنس ہومو کااندرونی ارتقاءاس طرح ہے کہ پہلے ہوموارکٹس آتا ہے، اس کے بعد قدیم ہوموسیپین اور نیانڈر تھال آدمی ہے (ہوموسیپین نیانڈر تھالنسس) اور سب سے آخر میں کروماگنون آدمی (ہوموسیپینز سیپینز) ۔ حقےقت تو ےہ ہے کہ ےہ ساری درجہ بندی صرف ایک ہی خاندان کی مختلف اشکال اور نسلیں ہیں۔ ان سب کے درمیان اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ ایک افریقن، ایک بالشتیا او رایک یورپی ملک کے رہنے والے کے درمیان ہوسکتا ہے۔
سب سے پہلے ہوموارکٹس کا معائنہ کیا جاتا ہے جس کو سب سے قدیم انسانی نسل کہا جاتا ہے۔ اس کے نام کے لفظی معنوں کی طرح ےہ وہ آدمی ہے جو بالکل سیدھا چلتا ہے۔ سیدھا چلنے کی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ارتقاءپسندوں کو یہ فوصل تمام پرانے فوصلوں سے الگ کرنا پڑا کیونکہ ہوموارکٹس کے سارے فوصل اس حد تک سیدھے تھے کہ جس کا مشاہدہ کسی بھی آسٹرالوپتھیسینز یا نام نہاد ہومو ہابلس کے نمونوںمیں نہیں کیا گیا تھا۔ دورِحاضر کے انسان کے ڈھانچے اور ہومو ارکٹس کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ارتقاءپسندوں کا ہوموارکٹس کو قدیم کہنے کی بنیادی وجہ کھوپڑی کی پیمائش ہے (CC۰۰۱,۱۔۰۰۹) جو کہ دورِ حاضر کے انسان کی کھوپڑی سے چھوٹی ہے اور اس کی گھنی باہر کو نکلی ہوئی بھنویں ہیں۔ لیکن آج بھی دنیا کے کئی خطوں میں ہومو ارکٹس سے ملتی ہوئی کھوپڑی کے پیمائش والے لوگ مثلاً بالشتیئے اور گھنی باہر کو نکلی ہوئی بھنوﺅں کے لوگ موجود ہیں جیسے کہ آسٹریلیا کے مقامی باشندے۔
اس بات پر تو سب ہی سائنسدان متفق ہیں کہ کھوپڑی میں پیمائش کا فرق عقل اور صلاحیتوں پر کسی طرح سے اثر انداز نہیں ہوتا۔ عقلمندی دماغ کی اندرونی کارکردگی پر منحصر ہے ناکہ اس کی پیمائش اور ناپ پر۔ ۱۸ ہوموارکٹس کو دنیا بھر میں مقبول کرنے والے فوصل ایشیاءکے جاوامین اور پیکنگ مین ہیں لیکن وقت کے ساتھ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ دونوں فوصل ناقابل اعتبار ہیں۔ پیکنگ مین فوصل کے کئی حصے پلاسٹر سے بنائے گئے تھے اور جاوا مین کی ترتیب میں کھوپڑی کے ٹکڑے اور کولہو کی وہ ہڈی بھی شامل ہے جو کہ کھوپڑی سے اتنی دور ملی تھی کہ اس کا اس مخلوق کے جسم کا اصل حصہ ہونے پر بھی شک ہے۔
اسی وجہ سے ایشیاءکی نسبت افریقہ سے ملنے والے ہوموارکٹس فوصلوں کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ (یہاں پر اس نقطے کو اجاگر کرنا ضروری ہے ہوموارکٹس کہلائے جانے والے کئی فوصل کچھ ارتقاءپسندوں نے ایک او ر ’ ہوموارگاسٹر‘ نامی نسل کے اندر ڈال دیئے ہےں۔ اس معاملے میں چونکہ ماہروں کی رائے میں اختلاف ہے اسی لئے عمومی طور پر ان تمام فوصلوں کو ہوموارکٹس کی درجہ بندی کے اندر ہی ڈالا جاتا ہے۔)
افریقہ سے ملنے والا سب سے مشہور ہوموارکٹس کا نمونہ ’ناریکوٹومی ہوموارکٹس یا ترکانہ بوائے ‘ کا فوصل ہے جو کہ کینیا کی ترکانہ جھیل کے نزدیک دریافت ہوا۔ اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ یہ فوصل ایک ۲۱ سالہ لڑکے کا ہے جس کا قد نوجوانی میں ۳۸۱ میٹر ہوجاتا۔ ڈھانچے کی سیدھی عمودی ساخت اس کو ایک دورِ حاضر کا انسان ظاہر کرتی ہے۔ امریکہ کا ماہرِ قدیم بشری رکازیات ایلن والکر کہتا ہے کہ اس کو اس بات پربھی شک ہے کسی اوسط درجے کے ماہرِ جسمانی عوارض کے لئے یہ ممکن بھی ہے کہ وہ کسی فوصلی ڈھانچے اور جدید انسان کے درمیان امتیاز کرسکے۔“ ۲۸
والکر لکھتا ہے کہ ترکانہ بوائے کی کھوپڑی دیکھ کر اس کو ہنسی آگئی کیونکہ وہ نیا نڈرتھال سے بےحد مشابہ تھی۔ (۳۸) آگے ثابت کیا جائے گاکہ کےونکہ نیانڈر تھال بھی ایک انسانی نسل ہے ،اس لئے ہومو ارکٹس بھی ایک انسانی نسل ہی ہے۔ ارتقاءپسند رچرڈ لیکی بھی اعتراف کرتا ہے کہ:
”ہوموارکٹس اور جدید انسان کے درمیان معمولی ہےتی فرق سے بڑھ کر کوئی اور فرق نہیںمثلاََ کھوپڑی کی ساخت کا فرق، چہرے کے ابھارکافرق ، بھنوﺅں کی مضبوطی کا فرق اور اسی طرح کے دوسرے معمولی امتیازات جو کہ اتنے ہی غیر اہم ہیں جتنے کہ دورِ حاضر میں مختلف جغرافیائی خطوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان فرق نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے حیاتیاتی فرق اس وقت رونما ہوتے ہیں جب آبادیاں ایک دوسرے سے لمبے عرصے کے لئے مختلف جغرافیائی علاقوں میں رہائش پذیر ہوجائیں۔“84
وموارکٹس: ایک حقیقی انسانی نسل
انسانی ارتقاء جھوٹ
ہوموارکٹس کا لفظی معنی ہے ”کھڑے قد کا آدمی“ یا ”عمودی آدمی“۔ اس نسلی گروہ میں شامل تمام فوصل خاص انسانی نسلوں کے ہیں ۔کیونکہ اس گروہ میں شامل کئی فوصلوں میں کوئی ایک بھی قدر مشترک نہیں ہے اسی لئے ان آدمیوں کی کھوپڑیوں کی بنیاد پر وضاحت کافی مشکل ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے مختلف ارتقائی تحقیق دانوںنے ان کی مختلف درجہ بندیاں کردی افریقہ کے کوبی )Left( ہیں اور ان کو کئی الگ الگ القابات دے دئے ہیں۔ اوپر الٹے ہاتھ کی طرف فورا علاقے سے ۵۷۹۱ ءمیں ملنے والی ایک کھوپڑی ہے جوکہ بظاہر ہوموارکٹس کے زمرے میں نامی ایک کھوپڑی ہے جس KNM-ER ہومو ارگاسٹر 3733 )Right( آتی ہے۔ سیدھے ہاتھ کی طرف کی تشخیص قدرے مشکل ہے۔

۰۰۱۱ کے درمیان ہے CC ان تمام مختلف ہوموارکٹس فوصلوں کی دماغی گنجائش ۰۰۹ سے جوکہ دورِ حاضر کے انسان کی دماغی گنجائش کے لگ بھگ ہے۔

۰۰۰۵۱ یا ترکانہ کے بچے KNM-WT سیدے ہاتھ پر نظر آنے والا کا ڈھانچہ آج تک ملنے والے تمام انسانی فوصلوں میں سب سے مکمل اور پرانا انسانی فوصل ہے۔ اس فوصل پر تحقیق اس کی عمر ۶۱ لاکھ سال بتاتی ہے۔ یہ ایک ۲۱ سال کے بچے کا فوصل ہے جوکہ نوجوانی لمبے قد کا ہوجاتا۔ یہ فوصل نیانڈرتھال نسل سے بے حد M میں ۰۸۱ مشابہ ہے اور انسانی ارتقاءکی فرضی کہانی کی تردید کرتا ہوا سب سے اہم ثبوت ہے۔ارتقاءپسند ڈونلڈ جانسن اس فوصل کے بارے میں کہتا ہے:

”یہ ل مبا ا ور دبلات ھا۔ ا س کے جسم کی ظاہری ہیئت اور اعضاءکا تناسب موجودہ وقت کے خط استوا کے قریب رہنے والے افریقی باشندوں کی طرح ہے۔ اس کے اعضاءکا ناپ دورِ حاضر کے سفید شمالی امریکی جوان لوگوں کی طرح ہے“۔

(ڈونلڈ جانسن اور ایم۔اے۔ اڈی: ”لوسی: انسانی نسل کی شروعات، نیویارک، سائمن اینڈشوسٹر، ۸۹ )
انسانی ارتقاء جھوٹانسانی ارتقاء جھوٹ
کنکٹیکٹ ےونیورسٹی کے پروفیسر ولیم لوکلن نے شمالی امریکہ کے اسکیمو باشندوں اور الےوٹ کے جزیرے پر رہنے والوں کے اوپر تفصیلی تشریح البدن کی تحقیق کی اور یہ نتیجہ نکالا کہ یہ سب لوگ غیر معمولی طور پر ہوموارکٹس سے مشابہ ہیں۔ لوکلن کا حتمی نتیجہ یہ تھا کہ یہ تینوں مخصوص نسلیںجدید انسانی نسل یعنی ہوموسیپین ہی کے مختلف قبےلے ہیں۔
”جب ہم اسکیمو اور آسٹریلیا اور افریقہ کے بشمین کے درمیان وسیع فرق کا معائنہ کرتے ہیں جبکہ دونوں ہی ہومو سیپین نسل کا حصہ ہیں تو یہ بات قابل انصاف ہوجاتی ہے کہ سینانتھروپس (جو کہ ارکٹس نمونہ ہے) بھی اسی متنوع نسل کا حصہ ہے۔“ 85
سائنسی حلقوں میں یہ حقیقت اب اور بھی واضح ہوگئی ہے کہ ہومو ارکٹس ایک فاصل برادری ہے اور وہ تمام فوصل جو کہ ہوموارکٹس گروہ کا حصہ سمجھے جاتے تھے وہ جدید ہومو سیپین سے ہرگز اتنی حد تک مختلف نہیں تھے کہ ان کو ایک الگ ہی نسل سمجھ لےا جائے۔ رسالہ امریکن سائنٹسٹ میں اس موضوع کے اوپر بحث اوراےک ۰۰۰۲ میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے نتائج کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
”سینکنبرگ کی کانفرنس میں شریک ہونے والے بہت سے لوگ ہومو ارکٹس کی برادری کے سائنسی مقام پر شروع ہوجانے والی ایک گرماگرم بحث میں ملوث ہوگئے جس کو یونیورسٹی آف مشی گن کی ملفورڈ والپوف، یونیورسٹی آف کانبیرہ کے ایلن تھارپ اور اس کے ہم پیشہ لوگوں نے ہوادی۔ انہوں نے سختی کے ساتھ اس نقطے پر زوردیا کہ ہوموارکٹس کا ایک الگ نسل کے طور پر کوئی وجود نہیں ہے اور اس کو مکمل طور پر سائنس سے خارج کردینا چاہئے۔ جنس ہومو کے تمام ارکان ۲ لاکھ سال سے لے کر دورِ حاضر تک ایک اونچی سطح کی تبدل پذیر اور بہت بڑے رقبے پرپھیلی ہوئی ایک ہی نسل ہوموسیپین کا حصہ ہےں جس کے اندر کوئی قدرتی غیر ہم آہنگی یا ذیلی نسلیں نہیں ہیں۔ اسی لئے بحث کے موضوع ہوموارکٹس کا کوئی وجود نہیں ہے۔“ ۶۸
وہ تمام سائنسدان جو اس مقالے کی حمایت میں بول رہے تھے ان کا مشترکہ نتیجہ یہ تھا کہ ”ہوموارکٹس ہوموسیپین سے مختلف نسل نہیں ہے بلکہ ہومو سیپین کے اندر ہی موجود ایک نسل ہے۔“ یہ نقطہ بھی اٹھانا ضروری ہے کہ انسانی نسل ہومو ارکٹس اور ان سے پہلے رہنے والے ارتقاءکے خیالی منظر نامے کے گوریلوں کے درمیان ایک بہت بڑا خلا ہے۔ گوریلوں کی نسلیں آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس، اور ہومو اور ڈالفنسس ہیں۔ اس کا صرف یہ مطلب نکلتا ہے کہ زمین پر پہلا آدمی فوصلی ریکارڈ میں اچانک کسی بھی طرح کی ارتقائی تارےخ کے بغیر نمودار ہوا۔ یہ تخلیق کا وزنی ثبوت ہے۔
لیکن اس حقیقت کا اعتراف کرنا ارتقاءپسندوں کے ہٹ دھرم فلسفے اور طرزِ فکر کے خلاف ہے۔ نتیجتاً وہ ہوموارکٹس کو ایک گوریلا نما مخلوق کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک خالصتاً انسانی نسل ہے۔ ہوموارکٹس کی نوتعمیرات کرتے ہوئے وہ بے انتہا پرعظم طریقوں سے ان کو انسانوں جیسی خصوصیات کا حامل بنادیتے ہیں۔ اسی طرح کے نوتعمیراتی طریقوں سے وہ آسٹرالوپتھیکس اور ہومو ہابلس جیسے گوریلوں کو انسانی اشکال دے دیتے ہیں ۔اپنی ان چالبازیوں سے وہ انسانوں کو گوریلے اور گوریلوں کو انسان بناکر ان کے درمیان موجود خلاکو پر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
انسانی ارتقاء جھوٹ
غلط نقاب: گوکہ نیانڈر تھال نسل موجودہ دور کے انسانوں سے قطعی مختلف نہیں تھی لیکن ارتقاءپسند ان کو پھر بھی گوریلا نما بناکر پیش کرتے ہےں۔

نیانڈر تھال

نیانڈر تھال وہ انسان تھے جو کہ اچانک ۰۰۰,۰۰۱ سال پہلے یورپ میں نمودار ہوئے اور جو کہ یا تو وقت کے ساتھ مکمل طور پر غائب ہوگئے یا پھر دوسری نسلوں میں ۰۰۰,۵۳ سال پہلے جذب ہوگئے۔ دورِ حاضر کے انسان اور ان میں صرف یہ فرق تھا کہ نیانڈر تھال کے ڈھانچے زیادہ مضبوط اور ان کی کھوپڑی تھوڑی اور بڑی تھی۔
نیانڈر تھال کا انسانی نسل ہونے کا اعتراف آج تقریباً ہر کوئی کرتا ہے۔ اگرچہ ارتقاءپسندوں ایڑی چوٹی کا زور لگاکر ان کو ایک ”قدیم نسل“ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہےں لیکن تمام تحقیق صرف ان کو دورِ حاضر کا ایک جسمانی طور پر مضبوط آدمی ہونا ہی ثابت کرتی ہے۔ نیومیکسیکو یونیورسٹی کا ایرک ٹرنکاس جو کہ ماہرِ قدیم بشری رکازیات ہونے کے علاوہ اس مخصوص موضوع پر بھی ماہر ہے وہ لکھتا ہے:
”نیانڈرتھال کے ڈھانچے اور جدید انسانوں کے درمیان تفصیلی موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ نیانڈر تھال کے تشریح البدن میں کوئی ایسی خود حرکتی، لسانیاتی، چابک دستی یا عقل و فہم سے متعلق کمی نہیں تھی جوکہ اس کو جدید انسان سے کسی طور پر کمتر ثابت کرے۔“ 87
کئی جدید تحقیق دان نیانڈرتھال انسان کو جدید انسان کی ذیلی نسل کہتے ہیں اور اس کو ہوموسیپین نیانڈرتھالنسس کے نام سے پکارتے ہیں۔ تمام تحقیق کے مطابق نیانڈر تھال بھی اپنے مرے ہوﺅں کو دفناتے تھے، موسیقی کے آلے بناتے تھے اور ان کے اور اسی دور میں موجود ہوموسیپین انسانوں کے درمیان کئی تہذیبی اور ثقافتی مماثلت تھی۔ یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ نیانڈر تھال ایک مضبوط اور تنومند انسانی نسل تھی جو کہ وقت کے ساتھ غائب ہوگئی۔
 
نیانڈر تھال: مضبوط لوگ
 انسانی ارتقاء جھوٹneandertaller, انسانی ارتقاء جھوٹ
الٹے ہاتھ کی طرف اسرائل سے دریافت ہونے والی ہوموسیپین نیانڈ رتھالنسس، آمد ۱ کی کھوپڑی ہے۔ نیانڈر تھال آدمی عمومی طور پر مضبوط لیکن گٹا تھا لیکن اندازہ ہے کہ اس لمبا تھا۔ اس کی دماغ کی گنجائش M فوصل کا مالک ۰۸۱ CC اب تک ملنے والے تمام فوصلوں میں سب سے زیادہ ۰۴۷۱ ہے۔ ان تمام وجوہات کی بناءپر نیانڈرتھال کو قدیم ، غیر ترقی یافتہ نسل کہتے تمام دعوؤں کی تردید کے لئے یہ فوصل اہم شواہد میں سے ایک ہے۔

ہوموسیپین آرکائک،ہومو ہائلڈربرگنسس اور کروماگنون مین

خیالی ارتقائی منصوبے میں آرکائک ہومو سیپین جدید انسان سے پہلے آخری مرحلہ ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ارتقاءپسند ان فوصلوں کے بارے میں کچھ بولنے کے لائق ہی نہیں ہیں کیونکہ ان کے اور آج کے انسان کے بیچ بہت معمولی فرق ہے۔ کچھ تحقیق دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس نسل کے نمائندے مقامی آسٹریلوی باشندوں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ ہوموسیپین آرکائک کی طرح ان آسٹریلوی مقامی باشندوں کی بھنویں بھی گھنی باہر کو نکلتی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کا جبڑا تھوڑا اندر کو دھنساہوا ہوتا ہے اور ان کی کھوپڑی کا ناپ نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے۔ ہوموہائلڈلبرگنسس نامی ارتقائی ادب کا گروہ آرکائک ہومو سیپین کا مشابہہ ہے۔ ایک ہی نسل کے دو نام اس لئے رکھے گئے کیونکہ ارتقاءپسندوں کاا س موضوع پر اختلاف رائے تھا۔ ہوموہائلڈر برگنسس درجہ بندی کے تمام فوصل ان لوگوں کی نشاندہی کرتے ہیں جوکہ تشریح الاعضاءکے حساب سے ناصرف دورِ حاضر کے یورپی لوگوں سے مشابہ ہیں بلکہ ان یورپیوں سے بھی مشابہ ہیں جو کہ انگلستان اور اسپین میں ۰۰۰,۰۰۵ اور ۰۰۰....۰۷۴ سال پہلے زندہ تھے۔
اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کرومیگنون انسان ۰۰۰,۰۳ سال پہلے زندہ تھا۔ ان کی کھوپڑی گنبد کی شکل کی اور ماتھا چوڑا تھا۔ اس کی شکل پر گھنی باہر کو نکلی ہوئی بھنویں تھیں اور کھوپڑی کے پیچھے کی ہڈی تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ یہ خاصیت نیانڈر تھال انسان اور ہوموارکٹس میں بھی موجود تھی۔ گوکہ کرومیگنون انسان کو ایک یورپی نسل سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی کھوپڑی کی ساخت اور ناپ افریقہ اور مدارینی علاقوں کے دورِ حاضر کے باشندوں سے مشابہ ہے۔ اس مماثلت پر انحصار کرتےہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کرومیگنون انسان ایک آرکائک یا قدیم افریقی نسل تھی۔ کچھ اور قدیم بشری رکازیات کی تحقیق کے ذریعے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ کرومیگنون انسان اور نیانڈر تھال نسلیں آپس میں مل گئیں اور دورِ حاضر کی جدید نسل کی بنیاد ڈل گئی۔ ان سب میں سے کوئی بھی انسان غیر ترقی یافتہ نسلیں نہیں تھیں۔ وہ صرف الگ نسلیں تھیں جوکہ پرانے وقت میں زندہ رہیں اور یاتو دوسری نسلوں میں جذب ہوکر کوئی اور شکل اختیار کرگئیں یا پھر معدوم ہوکر تاریخ سے ہمیشہ کے لئے غائب ہوگئیں۔

اپنے پرکھوں کے دور میں ہی رہنے والی نسلیں

۰۰۰,۶۲ سال پرانی سوئی
انسانی ارتقاء جھوٹ, Neanderthals
یہ سوئی ایک بیحد اہم فوصل ہے جو ثابت کرتا ہے کہ نیانڈر تھال لوگوں کو کپڑوں کی سلائی کی بھی سمجھ بوجھ تھی۔ ( ڈی لننسن، بی۔ ایڈگر ) ”لوسی سے زبان تک“ ، صفحہ ۹۹ )
اب تک جس تحقیق کا جائزہ لیا گیا ہے وہ ایک واضح منظر پیش کرتی ہے۔ انسانی ارتقاءکا منظر نامہ ایک خیالی کہانی ہے۔ کسی بھی ایسے شجرہ نسب کے وجود میں آنے کے لئے گوریلے کا آدمی تک ارتقاءایک سلسلہ وار تدریجی ترقی پر مبنی ہونا چاہئے تھا جس کا ہر ثبوت فوصلی شکل میں موجود ہونا چاہئے تھا۔ لیکن گوریلے اور انسان کے درمیان ایک لامحدود خلاہے۔ ڈھانچوں کی ساخت، کھوپڑیوں کی پیمائش اور سیدھاچلنے کی صلاحیت انسانوں کو گوریلوں سے الگ کرتی ہے۔ (اس بات کا پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ ۴۹۹۱ءمیں کی جانے والی کان کی اندرونی ساخت کی تحقیق کی بنیاد پر آسٹرالوپتھیکس اور ہوموہابلس کا شمار گوریلو ں میں کیا گیا تھاجبکہ ہومو ارکٹس کو انسان کا درجہ دیا گیا تھا)
ایک اور بے حد قابل ذکر دریافت جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام مختلف نسلوں کے درمیان کسی بھی شجرہ نسب کے اعتبار سے تعلق ناممکن ہے وہ یہ کہ جن نسلوں کو ایک دوسرے کا پرکھا کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے وہ درحقیقت وقت کے ایک ہی دور میں زندہ تھےں۔ اگر ارتقاءپسندوں کے دعوے کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ہومو ہابلس میں تبدیل ہوگئے اور ہومو ہابلس ہومو ارکٹس میں بدل گئے تو ان کی زندگی کے دور اور اوقات بھی بدل جانے چاہئے تھے۔ لیکن فوصلی ریکارڈ میں ایسی کسی بھیتاریخی ترتیب کا نشان نہیں ملتا۔ ارتقائی اندازوں کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ۴ لاکھ سال پہلے نمودار ہوا اور ۱ لاکھ سال پہلے معدوم ہوگیا۔ ہوموہابلس نامی مخلوق اندازاً ۷۱ سے ۹۱ لاکھ سال پہلے بھی موجود تھی۔ ہوموہابلس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ نسل ہومو روڈولفنسس ۵۲ سے ۸۲ لاکھ سال پہلے زندہ تھی۔ اس حساب سے ہوموروڈولفنسس ہومو ہابلس سے تقریباً ۱ لاکھ سال بڑی ہے جس کا اس کو پرکھا کہا جاتا ہے۔ ہومو ارکٹس ۶۱ سے ۸۱ لاکھ سال پہلے زندہ تھے جس کے حساب سے ہومو ارکٹس زمین پر وقت کے اسی دورانیئے میں نمودار ہوئے جس دورانیئے میں ان کے نام نہاد پرکھا ہوموہابلس وجود میں آئے تھے۔
ایلن والکر اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے
”مشرقی افریقہ سے ثبوت ملا ہے کہ دنیا میں نسبتاً چھوٹے آسٹرالوپتھیکس انسان وقت کے ایک ہی دور میں پہلے ہوموہابلس کے ساتھ اور پھر ہوکو ارکٹس کے ساتھ موجود تھے۔“ 89
لوئس لیکی نے بھی آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس اور ہومو ارکٹس کے فوصل تقریباً ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہی تنزانیہ کے اولڈ ووائی گورج خطے میں سطح IIمیں دریافت کئے ہیں۔
ایسے کسی بھی شجرہ¿ نسب کا کوئی وجود نہیں ہے جس کا ذکر ارتقاءپسند کرتے رہتے ہیں۔ اسٹیفن جے گولڈ ہارورڈ یونیورسٹی کا ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ارتقاءپسند ہے۔ وہ ارتقاءکو پیش آنے والا یہ تعطل ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
”ہماری سیڑھی کا کیا بنا اگر ایک ہی وقت کے دور میں تینوں آسٹرالوپتھیکس افراکانس، مضبوط آسٹرالوپتھیسینز اور ہوموہابلس نسلیں ایک ساتھ ہی موجود ہوں اور کوئی بھی ایک دوسرے کا پرکھا نہ ہو؟ اس کے علاوہ ان تےنوں کے اندر کسی بھی طرح کے ارتقائی اوصاف ان کی ارضی زندگی کے دوران موجود نہیں تھے۔“ 90
جب ہومو ارکٹس سے ہومو سیپین کی طرف آتے ہیں تو یہاں بھی کسی بھی طرح کے شجرہ¿ نسب کی عدم موجودگی ہے۔ تحقیقی ثبوت کے مطابق ہومو ارکٹس اور ارکائک ہومو سیپین ۰۰۰,۷۲ سال تک زندہ رہے اور دورِ حاضر سے ۰۰۰,۰۱ سال پہلےتک بھی موجود تھے۔ آسٹریلیا کی کوﺅ سوانپ یا جھیل سے ۰۰۰,۳۱ سال پرانی ہومو ارکٹس کھوپڑیاں ملی ہیں۔ جاوا کے جزیرے پر ملنے والے ہومو ارکٹس کے بقایاجات ۰۰۰,۷۲ سال پرانے ہیں ۔۱۹

ہومو سیپین کی خفیہ تاریخ

Discover, انسانی ارتقاء جھوٹ
رسالہ ڈسکور، ارتقائی کتب کے اہم ترین جریدوں میں سے ایک ہے۔ اس رسالے نے اپنے سرورق پر ۰۰۸ ہزار سال پرانا ایک انسانی چہرہ اس سوال کے ساتھ چھاپا ”کیا یہ ہمارے ماضی کا چہرہ ہے؟“
نظریہ¿ ارتقاءکے خیالی شجرہ¿ نسب کو غلط ثابت کرنے والا سب سے دلچسپ اور قابلِ ذکر واقعہ جدید انسان کی قدیم تاریخ کا خلاف توقع دریافت ہونا ہے۔ علمِ قدیم بشری رکازیات کے مطابق بالکل دورِ حاضر کے انسانوں کے ہمشکل ہوموسیپین لوگ زمین پر ۱ لاکھ سال پہلے بھی موجود تھے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے ثبوت مشہور ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات لوئس لیکی نے دریافت کئے۔ ۲۳۹۱ءمیں کینیا کی جھیل وکٹوریا کے اطراف کے کانجیرہ علاقے میں لیکی کو وسطی پلائسٹوسین دور کے کئی فوصل ملے جو جدید انسان کے ہوبہو مشابہ تھے ۔ وسطی پلائسٹوسین دور ۱ لاکھ سال پہلے کا دور تھا ۔۲۹
ان تمام دریافتوں سے ارتقاءکا شجرہ¿ نسب الٹا ہوگیا اور اس کو کئی ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات نے مکمل طور پر برخاست کردیا۔ لیکن لیکی کو ہمیشہ اس بات کا یقین رہا کہ اس کی تحقیق اور نتائج بالکل درست تھے۔ جیسے ہی ممکن ہواکہ لوگ اس تمام تنازعہ کو بھول جاتے ۵۹۹۱ءمیں اسپین سے ملنے والے ایک فوصل نے ایک نہایت حیرت انگیز طریقے سے ثابت کیا کہ ہوموسیپیس کی تاریخ اس وقت سے بھی زیادہ پرانی ہے جس کا پہلے خیال رہا تھا۔ یہ فوصل تین ہسپانوی یونیورسٹی آف میڈرڈ کے ماہرِ قدیم بشری رکازیات نے اسپین کے اٹاپرکا کے علاقے میں موجود گران ڈولینا نامی ایک غار سے دریافت کئے۔ اس فصول میں ایک ۱۱ سالہ بچے کی شکل تھی جو کہ ہو بہو ایک دورِ حاضر کے انسان کی طرح تھی لیکن اس کو مرے ہوئے ۰۰۰,۰۰۸ سال گزرچکے تھے۔ اپنے دسمبر ۷۹۹۱ءکے شمارے میں رسالہ ’ڈسکور‘ نے اس کہانی کو بے حد تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ اس فوصل نے وان لوئی آرسواگا فیرےراس کے اعتقاد کو بھی متزلزل کردیا جو کہ گران ڈولینا کی کھدائی کا سربراہ تھا۔ فیرےراس کہتا ہے:
”ہم کسی بڑی، ضخیم، پھولی ہوئی قدیم چیز کی توقع کررہے تھے۔ ہماری توقعات ایک ۰۰۰,۰۰۸سال پرانے لڑکے کے بارے میں ایسی تھیں جیسے کہ ترکا نہ بوائے تھا۔ لیکن جو چیز ہم کو ملی اس کا مکمل جدید چہرہ تھا۔ میرے لئے یہ درےافت نہایت حیرت انگیز تھی۔ اس طرح کی چیزیں آپ کو ہلاکر رکھ دیتی ہیں۔ اس طرح کی مکمل طور پر غیر متوقع چیزیں فوصلوں کا ملنا نہیں، فوصلوں کا ملنا تو توقع کے مطابق ہے اور ٹھیک ہے، لیکن سب سے حیرت انگیز چیز ایک ایسی چیز کا ملنا ہے جس کو آپ ہمیشہ سے ماضی کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ اچانک حالیہ دور کے اوصاف کے ساتھ ظاہر ہوجائے۔ یہ تو اسی طرح ہے جس طرح گرین دولینا کے غار سے ٹیپ ریکارڈ مل جائے۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز دریافت ہوگی۔ ہم وسطی پلائسٹو سین دور میں کیسیٹوں اور ٹیپ ریکارڈوں کے ہونے کی ہرگز توقع نہیں کرسکتے۔ ۰۰۰,۰۰۸ سال پہلے ایک جدید چہرے کے ہونے کا ثبوت ملنا بھی ایسی ہی بات ہے۔ اس چہرے کو دیکھ کر ہم ناقابلِ بےان حےرت کا شکار ہوگئے ہےں۔“ ۳۹
اس فوصل نے اس حقیقت کو اجاگر کردیا کہ ہومو سیپینز کی تاریخ ضرور ۰۰۰,۰۰۸ سال پرانی ہے۔ ارتقاءپسند جب اس فوصل کے جھٹکے سے باہر نکلے تو اس کو دریافت کرنے والے ارتقائی سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ ےہ فوصل ہو نہ ہو کسی اورہی نسل کا فوصل ہے کیونکہ ان کے بنائے گئے ارتقائی شجرہ¿ نسب کے حساب سے ہومو سیپینز ۰۰۰,۰۰۸ سال پہلے موجود ہی نہیں تھے۔اس لئے انہوں نے ہنگامی طور پر ایک نئی خیالی مخلوق تخلیق کرلی جس کو انہوں نے ’ہومواینٹے سیسر‘ کا نام دیا۔ اس نئی درجہ بندی کے اندر انہوں نے اس اٹاپرکا سے ملنے والی کھوپڑی کو بھی ڈال دیا۔

۷۱ لاکھ سال پرانی جھونپڑی

کئی دریافتیں ایسی بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہوموسیپینز کی عمر ۰۰۰,۰۰۸ سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ ان میں سے لوئس لیکی کی اولڈ لوائی گورج میں کی گئی ۰۷۹۱ءکے سالوں کی یہ دریافت ہے۔ یہاں پر پرت II کی تہہ سے لیکی کو پتہ چلا کہ آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس اور ہومو ارکٹس نسلیں ایک ہی وقت کے اےک ہی دور مےں موجود تھیں۔ اس سے زےادہ حےرت انگےز وہ ساخت تھی جو کہ لیکی کو اسی خطے سے ملی۔ یہاں اس کو ایک پتھر کی جھونپڑی کے بقیا جات ملے۔ اس واقعے کے بارے میں سب سے غیر معمولی بات یہ تھی کہ اس جھونپڑی کو بنانے کا طریقہ کار آج بھی افریقہ کے کچھ حصوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کو صرف ہوموسیپینز ہی تعمےر کرتے ہےں۔ لیکی کی اس دریافت کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ہوموہابلس، ہوموارکٹس اور دورِ حاضر کا انسان ساتھ ساتھ ہی تقریباً ۷۱ لاکھ سال پہلے زندہ تھے ۔۴۹ اس دریافت سے وہ تمام ارتقائی نظریئے ناقص ہوجاتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ جدید انسان آسٹرالوپتھیکس جیسی گوریلا نما مخلوق کی تدریجی شکل ہے۔

دورِ حاضر کے انسان کے ۶۳ لاکھ سال پرانے قدموں کے نشان

۷۱  لاکھ سال پرانی جھونپڑی
۷۱ لاکھ سال پرانی جھونپڑی کی دریافت نے سائنسی حلقوں کو زبردست دھچکا پہنچایا۔ یہ جھونپڑی ہوبہو ان جھونپڑےوں کی طرح تھی جوکہ کئی افریقی باشندے آج بھی تعمیر کرتے ہیں۔
کئی دوسری دریافتیں بھی دورِ حاضر کے انسان کی ابتداءکا ثبوت ۷۱ لاکھ سال پہلے کے دور میں دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم دریافت ۷۷۹۱ءمیں لائٹولی، تنزانیہ سے مےری لیکی کو ملنے والے قدموں کے نشان ہیں۔ یہ قدموں کے نشان ایک ۶۳ لاکھ سال پرانی تہہ میں ملے اور ان نشانوں سے بالکل مختلف نہیں ہیں جس طرح کے نشان ایک دورِ حاضر کا انسان چھوڑسکتا تھا۔ میری لیکی کو ملنے والے ان قدموں کے نشانات کا معائنہ بعد میں مشہور ماہر قدیم بشری رکازیات ڈونلڈ جانسن اور ٹم وائٹ کے علاوہ اس شعبے کے دوسرے ماہروں نے بھی کیا۔ ان تمام سائنسدانوں کا ایک ہی نتیجہ تھا۔وائٹ لکھتا ہے:
” اس بات مےں کوئی شک نہیں کہ یہ نشان جدید قدموں کے نشانات کی طرح ہی ہیں۔ اگر ان میں سے اےک نشان کیلیفورنیا کے ساحل پر ڈال دیا جائے اور ایک چار سال کے بچے سے اس کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ فوراً کہے گا کہ یہاں پر کوئی ابھی چل کر گیا ہے۔ وہ اس کا امتیا ز ساحل پر موجود لاتعداد دوسرے پیروں کے نشانات سے نہیں کرسکے گا۔نہ صرف وہ بچہ بلکہ آپ خود بھی اس نشان اور دوسرے نشانات کے بیچ میں کوئی فرق محسوس نہیں کرس کتے۔۵۹
قدموں کے نشانات کا معائنہ کرنے کے بعد نارتھ کیلیفورنیا یونیورسٹی کی کوئس رابنسن کا کہنا تھا کہ:
”پاﺅں کی خمیدہ شکل اٹھی ہوئی ہے۔ کسی چھوٹے انسان کے پاﺅں کی خمیدہ شکل میرے پاﺅں کی اس شکل سے اونچی تھی۔ بڑا والاانگوٹھا بڑا ہے اور دوسرے پاﺅں کے انگوٹھے سے ہم آہنگ ہے۔ یہ انگوٹھے زمین کو بالکل انسانی انگوٹھوں کی طرح پکڑ سکتے ہیں۔ یہ خاصیت حیوانی اشکال میں موجود نہیں ہوتی۔“ ۶۹
۳,۲ لاکھ سال پرانا انسانی جبڑا
 انسانی ارتقاء جھوٹ
یہ ۳۲ لاکھ سال پرانا انسانی جبڑا ارتقاءپسندوں کے تشکیل کردہ خیالی نسب کی تردید کرتا ہوا ایک اور ¿ شجرہ A.L. ثبوت ہے۔ اس جبڑے کا نام - 666 1 رکھاگیا اور یہ ہادر، ایتھیوپیا سے د ریافت ہوا تھا۔ ارتقائی جریدے اس دریافت سے سنسنی خیز خبریں پیدا کرنے کے لئے اس کو ایک ”حیرت انگیز دریافت“ کا نام دیتے ہیں۔(ڈی۔ جوہانسن، بلیک ایڈگر ”لوسی سے ) زبان تک“ صفحہ )
ان نشانات کی مزید تحقیق ثابت کرتی چلی گئی کہ یہ انسانی پیروں کے نشانات ہی ہیں اور ایک ایسے انسان کے پیر ہیں جو دورِ حاضر میں بھی موجود ہے یعنی کہ ہوموسیپین۔رسل ٹٹل نے بھی ان نشانات کا معائنہ کیا اور لکھتا ہے:
”ایک چھوٹے ہومو سیپین پیر نے یہ نشانات بنائے ہیں۔ تمام شکلیاتی عناصر ظاہر کرتے ہیں کہ یہ نشانات جدید انسانی پیروں کے نشانات سے ناقابل امتیاز ہیں۔“ ۷۹
ان قدموں کے نشانات کا غیر جانبدارانہ معائنہ ان کے اصل مالکوں کا پتہ دیتے ہیں ۔یہ نشانات ایک ۰۱ سالہ انسان کے ۰۲ فوصل شدہ پےروں کے نشانات پر مشتمل ہےں۔ اس کے علاوہ اےک جوان انسان کے پاﺅں کے ۷۲ نشانات بھی ان میں شامل ہیں۔ یہ تمام نشانات دورِ حاضر کے انسان کے پاﺅں کے نشانات سے ہوبہو مشابہ ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ان پےروں کے حامل انسان بھی بالکل ہماری ہی طرح کے لوگ تھے۔اس صورتحال نے لائٹولی کے قدموں کے نشانات کو کئی سال تک مدلل بحث کا مرکز بنائے رکھا۔ ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات نے شدت سے کوئی ایسی دلیل پیش کرنے کی کوشش کی جو کہ اس تمام ثبوت کو ناکارہ بنادے۔ ان کے لئے یہ بات بے حد ناقابل فہم تھی کہ ایک جدید طرز کا آدمی زمین کے اوپر ۶۳ لاکھ سال پہلے بھی چل پھررہا تھا۔
۰۹۹۱ءکے سالوں کے دوران ایک طرح کی صفائی نے بالآخر سراٹھانا شروع کردیا۔ ارتقاءپسندوں نے فیصلہ کیا کہ یہ قدموں کے نشانات آسٹرالوپتھیکس کے بنائے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے نظریئے کے مطابق کسی بھی ہومو نسل کے جاندار کا ۶۳ لاکھسال پہلے موجود ہونا ناممکن بات تھی۔ ۰۹۹۱ءمیں رسل ٹٹل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا:
laetoli,  انسانی ارتقاء جھوٹlaetoli,  انسانی ارتقاء جھوٹ
 
لاؤٹولی کے قدموں کے نشان لاکھوں سال پرانے ہونے کے باوجود آج کے انسانی قدموں کے نشانات سے ہوبہو مشابہ ہیں
”خلاصہ یہ کہ لائٹولی کے مقام سے ملنے والے ۵۳ لاکھ سال پرانے قدموں کے نشانات ایسے جدید انسانوں کے ہیں جن کو پیروں میں جوتا پہننے کی کبھی عادت نہ رہی ہو۔ کسی بھی خاصیت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ لائٹولی کے انسان ہم سے کسی طور پر ادنیٰ دوپایہ تھے۔ اگر لائٹولی کے پیروں کے یہ نشانات اتنے پرانے نہےں ہوتے تو با آسانی یہ نتیجہ اخذ کرلیتے کہ یہ ہماری ہی جنس ہومو کے کسی انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔کسی بھی حال میں ہمیں اس ڈھیلے سے اندازے سے پےچھا چھڑا لےنا چاہئے کہ لائٹولی کے قدموں کے نشانات لوسی کی جنس آسٹرالوپتھیکس ا فارنسس کے بنائے ہوئے ہیں۔“ ۸۹
مختصرََ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نشانات جو کہ ۶۳ لاکھ سال پرانے قیاس کئے جاتے ہیں وہ آسٹرالوپتھیکس کے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ ان کو آسٹرالوپتھیکس نسل کا سمجھے جانے کی ایک وجہ ان کا ۶۳ لاکھ سال پرانی آتش فشانی تہہ سے دریافت ہونا ہے۔ ان کو آسٹرالوپتھیکس نسل سے جوڑے جانے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کسی طور پر یہ گمان بھی کسی کو نہیں تھاکہ انسان وقت کے اس دور میں موجود بھی ہوسکتا تھا۔ لائٹولی کے نشانات کی تمام تشریحات ایک اہم حققت کو سامنے لے کر آتی ہیں اور وہ یہ کہ ارتقاءپسند اپنے نظریوں کوسائنسی تجربات کا سہارا دینے سے سراسر گریز کرتے ہیں۔ اس کی مثال لائٹولی کے نشانات ہیں جن کو ہر طرح کی سائنسی تحقیق کا مکمل سہارا حاصل ہونے کے باوجود ارتقاءپسندوں کے ہاتھوں اس قدر شک و شبہ میں ڈال دیا گیا کہ ےہ ثبوت عام لوگوں نے مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نظریہ ارتقاءسائنس نہیں بلکہ سائنس کی مخالفت کرتے ہوئے کٹر عقائد ہیں۔

نظریہ ارتقاءکا دوپایہ خا صیت کے ہاتھوں تعطل

اب تک زےرِ غور لائے گئے فوصلی ریکارڈ کے علاوہ انسان اور گوریلوں میں تشریح الاعضاءکے حساب سے بھی اتنا زیادہ فرق اور خلاہے کہ انسانی ارتقاءکی خیالی کہانی مکمل طور پر منسوخ ہو جاتی ہے۔ ان میں سے ایک فرق دو ٹانگوں پر چلنے کی مخصوص خاصےت ہے۔ انسان دو ٹانگوں پر عمودی زاویئے سے چلتا ہے۔ یہ حرکت کرنے کی اتنی مخصوص صلاحیت ہے کہ انسان کے علاوہ کسی اور ممالیہ نسل میں نظر نہیں آتی۔ کچھ جانور اپنے پیچھے کی ٹانگوں پر کھڑے ہوکر تھوڑی دیر کے لئے چل سکتے ہیں لیکن یہ ان کا قدرتی چلنے کا طریقہ نہیں ہوتا۔ بھالو اور بندر اس طرح سے تھوڑی دیر کے لئے حرکت کرتے ہیں اگر ان کو کھانے پینے کی کوئی چیز حاصل کرنا ہو۔ عام طور پر ان کے ڈھانچے آگے کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اپنی چاروں ٹانگوں پر ہی چلتے ہیں۔ تو پھر کےا دوپاےہ چلنے کی صفت گوریلوں کی چارپایہ چلنے کی صفت کی تدریجی شکل ہے جیسا کہ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے؟ ہرگز نہیں۔ تحقیق کے مطابق دوپایہ صفت ارتقاءکا نتیجہ نہیں ہے۔ اس طرح ہونا ممکنہی نہیں تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ دو پایہ صفت کسی طرح کا ارتقائی فائدہ نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوحات ہےں۔
انسانی ارتقاء جھوٹ
حالیہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ گوریلوں کا جھکا ہوا ڈھانچہ صرف چوپایہ چال کے لئے ہی بناگیا ہے اور اس ڈھانچے کا انسانی دوپایہ ڈھانچے میں ارتقائی عمل کے ذریعے تبدیل ہوجانا قطعی ناممکن ہے۔
بندروں کی حرکت کا طریقہ انسان کی دوپایہ صفت سے کہیں زیادہ آسان، تیز اور کارگزر ہے۔انسان ایک درخت سے دوسرے درخت پر بندروں کی طرح جست لگاکر نہیں پہنچ سکتا۔ اس کو زمین پر آکر دوسرے درخت پر دوبارہ چڑھنا پڑتا ہے۔انسان چیتے کی طرح ۵۲۱ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ بھی نہیں سکتا۔ اس کے برعکس کیونکہ انسان دوٹانگوں پر چلتا ہے اس لئے اس کی حرکت کی رفتار نسبتاً آہستہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ تمام نسلوں میں حرکت اور تحفظ کے اعتبار سے سب سے زیادہ غیر محفوظ نسل ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءکی منطق کے مطابق بندروں کو تدریجی ترقی کے ذریعے دوپایہ مخلوق نہیں بننا چاہئے تھا بلکہ انسان جیسی دفاع کے اعتبار سے کمزور اور غیر محفوظ مخلوق کو چارپایہ بن جانا چاہئے تھا۔
اس ارتقائی دعوے کاایک اور تعطل یہ ہے کہ دوپایہ صفت کسی بھی طور پر ڈارون کے ’ سلسلہ وار ترقی‘ کے نمونے کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی۔ یہ نمونہ نظریہ¿ ارتقاءکی ایک اہم بنیاد ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ دوپایہ اور چار پایہ اوصاف کے درمیان ایک ’مجموعی‘ عبور ہے۔ لیکن ۶۹۹۱ءمیں انگریز ماہرِ قدیم بشری رکازیات روبن کرومپٹن نے کمپیوٹر کے ذریعے کی گئی تحقیق سے ثابت کیا کہ ایسا کوئی بھی ”مجموعی“ عبوری طریقہ کار قطعاً ناممکن ہے۔ کرومپٹن نے نتیجہ نکالا کہ ’کوئی بھی جاندار یا تو صرف عمودی حالت میں دو ٹانوں پر چلنے کے لائق ہوتا ہے یا پھر چوپایہ ہوتا ہے۔“(99) ان دونوں کے درمیان کسی بھی ”مجموعی“ طو رپر فاصلے کو ختم کردینے کا طریقہ کار ناممکن ہے کیونکہ اس میں حد سے زیادہ طاقت کا مصرف بھی لازم ہے۔ اسی لئے کوئی’ آدھا‘ دوپایہ وجود میں نہیں ہے۔
انسان اور گوریلے کی درمیان زبردست فاصلہ صرف دوپایہ صفت تک ہی محدود نہیں ہے۔ بہت سے دوسرے تنازعے بھی ابھی تک حل نہیں ہوسکے۔ مثلاً دماغ کی گنجائش، بولنے کی صلاحیت اور دوسرے کئی معاملات بھی آج تک اسی جگہ اٹکے ہوئے ہیں۔ اس معاملے پر ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات ایلین مورگن اپنے اعترافی نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتی ہیں:
”انسانوں سے متعلق چار ممتاز بھید یہ ہیں ۱۔وہ دو ٹانگوں پر کیوں چلتے ہیں؟ ۲۔ ان کی کھال کا پشم کہاں گیا؟ ۳۔ان کے دماغ اتنے بڑے کیوں ہیں؟ ۴۔ انہوں نے بولنا کیوں سیکھا؟ ان تمام سوالوں کے کٹر روایات پسند جوابات ہیں۱۔ ہم کو ابھی نہیں پتہ ۲۔ہم کو ابھی نہیں پتہ ۳۔ہم کو ابھی نہیں پتہ۔ ۴۔ہم کو ابھی نہیں پتہ۔ سوالوں کی فہرست میں کئی سوال اور بھی ڈالے جاسکتے ہیں لیکن جواب کی نوعیت پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔“ ۰۰۱

ارتقائ: ایک غیر سائنسی عقیدہ

لارڈ سولی زکرمین کا شمار انگلستان کے مشہور ترین باعزت سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کئی سالوں فوصلی ریکارڈ کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے اوپر تفصیلی تحقیق بھی کی ہے۔ اس کو اپنا نام اور مقام سائنس کی انتھک خدمت سے حاصل ہوا ہے۔ زکرمین ایک ارتقاءپسند ہے اسی لئے ارتقاءکے متعلق اس کے نظریات بے علم اور متعصب قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ فوصلوں کے اوپر اس کی کئی سالہ تحقیق کا محور انسانی ارتقاءکا خیالی منظر نامہ بھی ہے۔ زکر مین کے مطابق اس خیالی شجرہ¿ نسب میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
انسانی ارتقاء جھوٹ
انسانی ارتقاءکی خیالی حکایت کی بنیاد کسی بھی طرح کی سائنسی تحقیق پر مبنی نہیں ہے۔ اس طرح کے خاکوں اور نقشوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ماسوائے ارتقاءپسندوں کی رنگین تصورات کی عکاسی کرنا۔
ذکر مین نے ایک اور دلچسپ ”سائنسی تجزیئے کا نقشہ“ نامی ایک عمومی تصور کا آغاز کیا جس کے ذریعے سائنسی اعتبار سے درست اور غیرسائنسی روایات کا تجزیہ کیا جاسکے۔ زکر مین کے اس نقشے کے مطابق سب سے زیادہ ٹھوس تحقیق پرمبنی اور سائنسی رو سے قابل اعتبار سائنسی شاخیں کیمیا اور طبابت ہیں۔ اس کے بعد حیاتیاتی سائنسی شاخیں آتی ہیں اور پھر معاشرتی شاخیں ہیں۔ اس تجزیئے کے نقشے کا بالکل آخری کونا غیر سائنسی کونا بن جاتا ہے اور یہاں پر غےر حسی مشاہدے جس طرح بعید رسانی اور وجدان موجود ہیں۔ نقشہ کے اس آخری کونے کی آخری چیز انسانی ارتقاءہے۔ زکر مین اپنے استدلال کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
”ہم لوگ حقیقی سچائی کے میدان سے نکل کر فرض کی جانے والی حےاتیاتی سائنس کے دائرے میں آجاتے ہیں مثلاً وجدان یا غیر حسی مشاہدے۔ انسان کی فوصلی تاریخ مےںعقیدہ مندوں کے لئے ہر چیز ممکن بن جاتی ہے اور ان کے لئے بیک وقت کئی پرُ اختلاف دعوﺅں کو بھی صحیح مان لیناکسی قسم کا مسئلہ پیش نہیں کرتا۔“ ۱۰۱
رابرٹ لوک رسالہ’ ڈسکوورنگ آرکیولوجی ‘کے مدیر اعلیٰ ہیں ۔ےہ رسالہ انسان کی ابتداءکے اوپر ایک اہم جریدہ ہے۔ لوک اس رسالے میں لکھتا ہے:
”انسانی پرکھا کی تلاش روشنی سے زیادہ گرمی برآمد کررہی ہے۔“ اس مضمون میں اس نے مشہور ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات ٹم وائٹ کا اعتراف بھی شامل کیا ہے۔
”ہم سب لوگ ان تمام سوالوں کے ہاتھوں شدید مایوسی اور الجھن کا شکار ہیں جن کے ہم جواب نہیں دے پائے ہیں“ ۔۲۰۱
لوک کا مضمون نظریہ¿ ارتقاءکا انسان کی ابتداءکے موضوع پر تعطل اور تشہیراتی ذرائع سے اس موضوع کے سراسر بے بنیاد پرچار کا معائنہ کرتا ہے۔
”سائنس کا کوئی بھی شعبہ انسان کی ابتداءکی تلاش سے زیادہ حجتی اور تصفےہ طلب نہیں ہے۔ نامور ماہرِ قدیم بشری رکازیات کو انسان کے شجرہ نسب کی سب سے بنیادی ابتدائی خاکے کے بارے میں بھی اختلافات ہیں۔ اس شجرے کی نئی شاخیں زبردست دھوم دھڑکے سے اگتی تو ہیں لیکن نئی فوصلی دریافت کی روشنی میں سوکھ کر مر جاتی ہیں۔“ ۳۰۱
ایک جانے پہچانے جریدے ”نیچر“ کے مدیر اعلیٰ ہنری گی نے حال ہی میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ ۹۹۹۱ءمیں چھپنے والی اپنی کتاب، ”ان سرچ آف ڈیپ ٹائم“ میں گی کہتا ہے :
”انسانی ارتقاءسے متعلق ۵ سے ۰۱ لاکھ سال کے عرصے پر محیط ثبوت جو کہ جانداروں کی کئی ہزار نسلوں پر مشتمل ہے اس کو ایک چھوٹے سے ڈبے کے اندر بند کیا جاسکتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کی ابتداءاور ترقی سے متعلق تمام روایتی ثبوت سراسر انسانی ایجاد ہے جس کا دارومدار انسانی تعصبات پر ہے۔“ وہ مزید کہتا ہے:
”کسی بھی فوصلی سلسلے کو اٹھاکر دعویٰ کردینا کہ یہ کسی نسل کے ترجمان ہیں ہرگز ایسا سائنسی مفروضہ نہیں ہے جس کی تحقیق کی جاسکے۔ یہ صرف ایک ایسا اعلان کا عمل ہے جیسے کہ بچے کو رات میں بہلانے والی کوئی کہانی جو کہ دلچسپ اور تعلیمی تو ہوسکتی ہے لیکن سائنسی ہرگز نہیں ہوتی۔“ ۴۰۱
پھر کیا وجہ ہے کہ لاتعداد سائنسدان اس کٹر عقیدے پر اتنی مضبوطی سے قائم ہیں؟ وہ اتنی سختی سے اپنے اس نظریئے کو زندہ رکھنے کے لئے سرگرداں کیوں ہیں باوجود اس کے کہ اس کے لئے ان کو کئی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کتنے ہی ثبوت ضائع کرنے پڑتے ہے؟ اس کا جواب صرف ان کا اس حقیقت سے خوفزدہ ہونا ہے جس سے ان کو نظریہ ارتقاءکو غلط مان لینے پر سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور تمام جاندار صرف اور صرف اﷲ کی تخلیق ہیں۔ لیکن ان کی تمام پیش قیاسیاں اور مادی فلسفہ پر کٹر یقین ان کے لئے تخلیق کو ایک ناقابل قبول تصور بنادیتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اور دنیا کو اپنے ساتھ تعاون کرنے والے تشہیراتی ذرائع کے ذریعے شدید دھوکے کا شکار رکھتے ہیں۔ اگر ان کو ضروری فوصل نہیں ملتے تو وہ جعلی فوصل بنانے سے گریز نہیں کرتے جوکہ وہ خیالی خاکوں، نقشوں اور شکلوں کی صورت میں دنیا کے سامنے اس مکمل اعتماد کے ساتھ پیش کردیتے ہیں کہ جیسے واقعی
یہ ارتقاءکو ثابت کرنے والے اصل فوصل ہیں۔ وہ تمام وسیع تشہیراتی ذرائع جوکہ انہیں کی طرح مادہ پرست نقطہ¿ نظر رکھتے ہیںوہ اپنی کہانیوں سے لوگوں کے تحت الشعور میں ارتقاءکے متعلق جھوٹ کو بٹھانے میں جت جاتے ہیں۔ لیکن ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ سچ کو بدل نہےں سکتے کہ انسان کسی ارتقائی عمل سے نہیں بلکہ اﷲ کی تخلیق سے وجود میں آیا ہے اور وہ صرف اﷲ کے سامنے جوابدہ ہے۔