چوتھا باب
فوصلی ریکارڈ ارتقاءکی تردید کرتا ہے
نظریہ¿ ارتقاءکے مطابق ہر جاندار نسل کا ایک پرکھا ہے ۔ ہرنسل جو کبھی کسی وقت میں رہی ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسری کسی نسل میں تبدیل ہوگئی ہے اور یہی عمل جانداروں کے وجود میں آنے کا سبب ہے۔ اس نظریئے کے مطابق یہ منتقلی اور تبدیلی کا عمل لاکھوں سالوں کے عرصے پر محیط ہے۔لےکن اگر یہی صورتحال ہوتی تو پھر ان تبدیلیوں کے درمیان کی بے شمار وسطی نوعیت کی نسلوں کا نشان بھی ملنا چاہئے تھا۔ مثال کے طور پر ماضی میں کسی آدھی مچھلی آدھے رینگنے والے جانور کے کوئی آثار نہیں ہیں جنہوں نے رینگنے والے جانوروں کی خصوصیات کے علاوہ مچھلیوں کی خصوصیات بھی حاصل کرلی ہوں۔ نہ ہی ماضی میں کسی آدھے رینگنے والے جانور یا آدھی چڑیا نما جانور کے آثار ہیں جن کے اندر رینگنے والے جانوروں کی خصوصیات کے ساتھ پرندوں کی بھی خصوصیات موجود ہوں۔ ارتقاءپسند ان ماضی کے تصوراتی جانوروں کو وسطی اشکال کا نام دیتے ہیں۔ اگر ایسے جانداروں کا حقیقتاً کوئی وجود ہوتا تو دنیا میں ان کی تعداد لاکھوں اور کروڑوں میںہوتی اور ان کے تمام ثبوت فوصلی ریکارڈ میں موجود ہوتے ۔ نہ صرف ان وسطی اشکال کے جانداروں کی تعداد دورِ حاضر میں موجود جانداروں کی تمام نسلوں سے زیادہ ہوتی بلکہ ان کے بقایا جات بھی پوری دنیا میں بکھرے ہو تے ۔اپنی کتاب ”اوریجن آف اسپیشیس“ میں ڈارون نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے:
سچ تو یہ ہے کہ ڈارون کو خود بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ ان خیالی وسطی جانداروں کی کوئی حقیقت اور کوئی وجود نہیں ہے۔ اس کو صرف امید تھی کہ شاید مستقبل میں ان جانداروں سے متعلق کوئی ثبوت برآمد ہوجائے۔ اس تمام پر امیدی کے باوجود اس کواس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ یہ غیر موجود وسطی جاندار ہی اس کے نظریئے کے لئے سب سے ناموافق صورتحال ہیں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنی کتاب کے باب ”نظریئے کی مشکلات“ میں لکھا ہے:
اس اعتراض کے جواب میں ڈارون صرف ایک ہی وضاحت پیش کرسکتا تھا اور وہ یہ کہ اس کے وقت تک حاصل کئے جانے والا فوصلی ریکارڈ نامکمل تھا۔ اس نے اس بات پر زوردیا کہ جب فوصلی تحقیق مزید تفصیل سے مکمل کی جائے گی تو یہ گمشدہ کڑیاں بھی نمودار ہوجائیں گی۔ ڈارون کی پیشن گوئی پر یقین کرتے ہوئے ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات انیسویں صدی کے وسط سے ساری دنیا میں ان گمشدہ کڑیوں کی تلاش میں فوصلوں کی کھدائی میں مصروف ہیں لیکن ان کی بہترین کوششوں کے باوجود کسی وسطی نوعیت کا کوئی بھی فوصل آج تک برآمد نہیں ہوا۔ ارتقاءپسندوں کی ہر خواہش کے خلاف ہر کھدائی سے ملنے والے فوصلوں نے صرف اور صرف یہ ثابت کیا ہے کہ زمین پر زندگی اچانک اور مکمل اشکال میں نمودار ہوئی۔ اپنے نظریئے کو درست ثابت کرنے کی کوششوں میں ارتقاءپسندوں نے الٹا اپنے ہی نظریئے کو زمین بوس کردیا۔ ایک ارتقاءپسند ہونے کے باوجود مشہور انگریز ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات ڈیرک۔ وی۔ ایگر اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے:
ایک اور نامور ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات تبصرہ کرتا ہے کہ:
فوصلی ریکارڈ کا یہ خلایہ کہہ کر ہرگز پر نہیں کیا جاسکتا کہ ابھی تک کافی فوصل ملے ہی نہیں لیکن ایک دن جب فوصلی تحقیق مکمل ہوجائے گی تو ڈارون کا نظریہ بھی ثابت ہوجائے گا۔ ایک اور امریکی ادب دان رابرٹ ویسن اپنی ۱۹۹۱ءمیں چھپنے والی کتاب ”انتخابِ طبعی سے آگے“ میں لکھتا ہے کہ فوصلی ریکارڈ میں موجود خلا اصل اور پر معنی ہے۔ اپنے اس دعوے کی وضاحت وہ اس طرح کرتا ہے:
|
زمین پر زندگی اچانک اور پیچیدہ اشکال میں نمودار ہوئی
جب ارضیاتی تہوں اور فوصلی ریکارڈ کا معائنہ کیا جاتا ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ تمام جاندار اچانک ایک ہی وقت میں نمودار ہوئے۔ زمین کی سب سے قدیم ارضیاتی تہہ جس میں جانداروں کے فوصل برآمد ہوئے ہیں وہ ۰۰۵ سے ۰۵۵ لاکھ سال پرانیکیمبرین دور کی ارضیاتی تہہ ہے۔ اس دور میں نمودار ہونے والے تمام جاندار فوصلی ریکارڈ میں اچانک بغیر کسی پرکھا کے نمودار ہوئے۔ اس دور کی فوصل گھونگوں، قدیم دور کے سنگواروں، اسفنج، کیچوﺅں، فالودہ مچھلی، سمندری خار پشت اور دوسرے پیچیدہ غیر فقاری جانداروں کے ہیں ۔ یہ پیچیدہ نوعیت کی وسیع اور رنگین جوڑ بندی اتنی زیادہ تعداد اور مختلف انواع و اقسام کے جانداروںکی اچانک نمودار ی ہے کہ اس معجزانہ واقعے کو ارضیاتی ادب میں ”کیمبرین دھماکے“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس دور کے زیادہ تر جاندار بے انتہا پیچیدہ نظام اور ساخت رکھتے ہیں مثلاً آنکھیں، گلپھڑے اور نظامِ دورانِ خون ۔ ےہ تمام نظامات دورِ حاضر کے انہیں جانداروں کے نظامات کے عین مشابہ ہےں۔
قدیم حیاتی دور کے سنگوارے ٹریلوبائٹ کی آنکھوں کا دوعدسہ شہد کے چھتے نما ساخت تخلیق کا ایک حیران کن عجوبہ ہے۔ امریکہ کی ہارورڈ روچسٹر اور شکاگو یونیورسٹی کے ارضیات کے پروفیسر ڈیوڈ راوئپ کا کہنا ہے کہ ۰۵۴ لاکھ سال پہلے رہنے والے ٹرےلو بائٹ کی آنکھوں کا نظام ایسا تھا گوےا اس کو تشکیل دینے کے لئے ایک نہایت اعلیٰ سطح کا تربیت یافتہ اور تخلیقی صلاحیت رکھنے والا بصری انجینئر سے کام لیا گےا ہو۔ ۸۲
کیمبرین پتھروں سے ملنے والے فوصل گھونگے، قدیم حیاتےاتی دور کے سنگوارے ،اسفنج ، کیچوے، فالودہ مچھلی، ستارہ مچھلی، آبی خولدار جانور اور آبی کنول جیسے پیچیدہ غیر فقاری نسلوں کے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ تمام مخصوص نسلیں اچانک ہی نمودار ہوئیں۔ اس وجہ سے اس معجزاتی واقعہ کو ارضیاتی کتب میں ”کیمبرین دھماکے“ کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ نہایت پیچیدہ غیر فقاری حیوان مکمل شکل میں اچانک زمین پر نمودار ہوئے۔ ان سے پہلے زمین پر صرف یک خلیہ جانداروں کا بسیرا تھا اور ٹریلوبائٹ اور ان کے بیچ نہ تو کسی طرح کی ارتقائی نوعیت کی مشابہت تھی اوار نہ ہی ان دونوں کے درمیان کسی وسطی شکل کے دوسرے جاندار موجود ہیں۔ مشہور سائنسی جریدے ”سائنس نےوز“ کا سائنسی صحافی رچرڈ موناسٹرسکی کیمبرین دھماکے کو نظریہ¿ ارتقاءکے لئے موت کا پھندا تصور کرتا ہے اور کہتا ہے:
”آدھ کروڑ سالوں پہلے قابل غور اور نہایت پیچیدہ نوعیت کے وہ جاندار اچانک نمودار ہوئے جو کہ ہم کو آج بھی نظر آتے ہیں۔ ۰۵۵ لاکھ سال پہلے زمین کے کیمبرین دور کی شروعات میں اس ارتقائی دھماکے کے نتیجے میں سمندر پیچیدہ انواع و اقسامکے جانداروں سے بھرگئے۔ یہ وسیع جاندار خلقت جس کی ابتداءکیمبرین دور میں ہوئی وہ آج بھی نظر آتی ہے اور آج بھی ایک دوسرے سے اتنی ہی مختلف ہے جتنی کہ لاکھوں سال پہلے تھی۔“ ۹۲
کیمبرین دھماکے کی مزید گہرائیوں میں تحقیق اس پریشانی سے پردہ اٹھاتی ہے جو کہ یہ نظریہ¿ ارتقاءکے لئے پیش کرتا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق دنےاکی تقریباً ساری ہی حیوانی نسلیں اچانک کیمبرین دور میں نمودار ہوئیں۔ رسالہ ”سائنس“ میں چھپنے والے ۱۰۰۲ءکے اس مضمون کے مطابق ۵۴۵ لاکھ سال پہلے کیمبرین دور کی شروعات نے فوصلی ریکارڈ میں تقریباً ان تمام حیوانی نسلوں کی اچانک نموداری دیکھی جو کہ آج بھی حیوانی زندگی پر راج کرتی ہیں۔ (۰۳ )اسی مضمون میں مزید لکھا ہے کہ:
زمین پر لاتعداد قسم کی حیوانی نسلوں کاچانک بغےر کسی پرکھا کے نام و نشان کے نمودار ہونا ایک ایسامعمہ ہے جس کا حل ارتقاءپسند آج تک ڈھونڈ رہے ہیں۔ رچرڈ ڈاکنز آکسفورڈ یونیورسٹی کا ماہرِ حیوانات ہے جس کا شمار دنیا میں ارتقائی سوچ کے سب سے بڑے حمایتیوں میں ہوتا ہے۔ ڈاکنز کا اس حقیقت پر تبصرہ اس بحث کی بنیادوں کو ہی کھوکھلا کردیتا ہے جس کی وہ دراصل حمایت کرنا چاہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر کیمبرین دور کی پتھریلی ساخت سب سے قدیم ساخت ہے جس میں سب سے اہم غیر فقاری جانداروں کے گروہ دریافت ہوئے ہیں۔ کئی جانداروں کے فوصل ان کو دریافت کے وقت سے ہی نہایت ترقی یافتہ ارتقائی حالت میں پیش کرتے ہیں۔ اےسے معلوم ہوتا ہے جیسے کسی نے ان کو وہاں بغیر کسی ارتقائی تاریخ یا پس منظر کی بودیا ہو۔“ ۲۳
ڈاکنز زبردستی اس بات کا اعتراف کرنے کے لئے مجبور ہے کہ کیمبرین دھماکہ تخلیق کا مضبوط ثبوت ہے کیونکہ صرف تخلیق ہی ان مکمل اور بے عیب جانداروں کی نموداری کی وجہ ہوسکتی ہے۔ ڈگلس فوٹائما ایک نامور ارتقائی ماہرِ حیاتیات ہے اور اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے:
اس بات کا امکان ڈارون نے خود ظاہر کیا تھا جب اس نے لکھا کہ ”اگر جانداروں کے اےک ہی خاندان کی کئی نسلیں اچانک ہی نمودار ہوئی ہیں تو یہ حقیقت تدریجی ترقی بذریعہ انتخاب طبعی کے نظریئے کے لئے موت ہے۔“ (۴۳ ) کیمبرین دھماکہ ڈارون کے نظریئے کے لئے ایک مہلک وار ہے۔
سوئڈن کے ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات اسٹیفن بینگسٹن کیمبرین دور میں وسطی کڑیوں کی غیر موجودگی کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ”کیمبرین دور ڈارون کے لئے تو ایک وجہ شرمندی ہے ہی مگر ہمارے لئے بھی چکاچوند کردینے والا واقعہہے۔“ ۵۳
فوصلی ریکارڈ واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ جاندار نسلیں ارتقاءکے ذریعے قدیم سے ترقی یافتہ اشکال میں نہیں ڈھلیں بلکہ اچانک اور مکمل ہیئتوں میں نمودار ہوئیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جاندار کسی تدریجی ترقی کا نہیں بلکہ تخلیق کا نتیجہ ہیں۔
|
سالمی موازنے ارتقاءکے کےمبرےن تعطل کو مزیدگہرا بنادیتے ہیں
ارتقاءپسندوں کو کیمبرین دھماکے سے متعلق مزید الجھن کا سامنا مختلف جاندار نسلوں کا آپس میں موازنے کی صورت میں کرنا پرتا ہے۔ اس موازنے سے پتہ چلا ہے کہ ارتقاءپسندوں کے حساب سے جو جاندار ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار تصور کئے جاتے ہیں وہ دراصل جینیاتی تحقیق کے مطابق ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہیں۔ حالیہ وقتوں میں آشکار ہونے والی یہ حقیقت ”وسطی اشکال“ کے نظریئے کو مزید پریشانی میں ڈال دیتی ہے۔ رسالہ ”پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی آف سائنس“ کی ۰۰۰۲ءکی رپورٹ میں چھپنے والے ایک مضمون کے تحت DNA کے مادے کی تحقیق نے ماضی میں وسطی اشکال تصور کئے جانے والے سب جانداروں کے امکانات کو رد کردیا ہے:
اسی مضمون میں ارتقائی مصنف خاص طور پر اس نقطہ پر روشنی ڈالتے ہیں کہ:
|
Hiç yorum yok:
Yorum Gönder