17 Mart 2016 Perşembe

پندرھواں باب تصفیہ: ارتقاءایک زبردست دھوکہ

پندرھواں باب

تصفیہ: ارتقاءایک زبردست دھوکہ
رتقاءکو ناقص ثابت کرنے کے لئے اس کتاب میں زیر بحث لائے گئے ثبوت اور سائنسی قوانین سے کہیں زیادہ اسی نوعیت کا اور بھی مواد موجود ہے۔ لیکن جو تھوڑا بہت ثبوت سامنے لایا گیا ہے وہ بھی سچائی کو سامنے لانے کے لئے کافی ہے کہ گوکہ نظریہ¿ ارتقاءسائنسی لبادے میں ملبوس ہے لیکن پھر بھی یہ ایک زبرست دھوکہ ہے۔ ایک ایسا دھوکہ جس کی صرف مادیت فلسفہ کے فائدے کے لئے حمایت کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا دھوکہ ہے جس کی بنیاد سائنس نہیں بلکہ دماغ پوشی، منظم تشہیر اور دھوکے بازی ہے۔ اب تک زیر بحث لائے گئے موضوعات کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔

نظریہ¿ ارتقاءزمین بوس ہوچکا ہے

نظریہ¿ ارتقاءایک ایسا نظریہ ہے جوکہ ہر قدم پر ناکام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ارتقاءپسند آج تک جاندار تو دور کی بات جاندار جسم کے ایک لحمیہ کی تشکیل کی وضاحت بھی نہیں کرپائے ہیں۔ اس کے علاوہ زندگی کی اچانک نموداری کو امکانات ،کیمیا ےا طبےعیات کا بھی کوئی قانون ثابت نہیں کرسکا۔ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے کہ جب ایک بھی اتفاقی طور پر پیدا ہونے والے لحمیہ کا کوئی وجود نہیں ہوسکتا تو پھر ایسے لاکھوں لحمئے آپس میں مل کر ایک خلےہ اور پھر کروڑوں ایسےخلےئے آپس میں اتفاقی طور پر مل کر جاندار اجسام کس طرح پیدا کرسکتے ہیں؟ ان جاندار اجسام کا سب سے پہلے مچھلی کی شکل میں نموداری اور پھر مچھلیوں سے خزندوں میں تبدیلی اور پھر خزندوں سے پرندوں میں تبدیلی کس طرح واقع ہوسکتی ہے؟ ان ہی مرحلوں سے گزرتے ہوئے دنیا کی کڑوڑوں جاندار نسلوں کا وجود میںآنا ایک ناقابلِ یقین انتہا کا عقل سے عاری امکان ہے۔ یہ امکان کسی کو عقل سے عاری لگے نہ لگے ارتقاءپسند اس خیالی کہانی پر دل و جان سے اعتقاد رکھتے ہیں۔ یہ محض ایک اعتقاد ہے بلکہ ایک جھوٹا عقیدہ ہے کیونکہ ان کے پاس اس کہانی کو ثابت کرنے کے لئے ثبوت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہے۔ آج تک ان کو کسی عبوری نوعیت کا آدھے خزندے/آدھی مچھلی یا آدھے خزندے/ آدھے پرندے کا فوصل یا نشان نہیں ملا جوکہ ان کے اس عقیدے اور جھوٹے قصوں کو ثابت کرسکے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی ثابت نہیں کرسکے کہ ایک بھی لحمیہ یا اس کو تشکیل دینے والا ایک بھی امینو ترشے کا سالمہ قدیم ارضی ماحول کے تحت وجود میں کس طرح آیا کیونکہ اپنی بہترین آلات سے مزین تجربہ گاہوں میں وہ آج تک ایسا ایک بھی لحمیہ ےا امینو ترشہ پیدا نہیں کرسکے۔ اس کے برخلاف ان کی ہر کاوش صرف یہ ثابت کرتی چلی گئی کہ ارتقائی عمل نہ تو کبھی وجود میں آیا اور نہ کبھی وجود میں آسکتا ہے۔

ارتقاءکی تصدیق مستقبل میں بھی ناممکن ہے

اس تمام صورتحال کے پیش نظر ارتقاءپسند اپنے آپ کو صرف یہ کہہ کر تسلی دے سکتے ہیں کہ شاید سائنس مستقبل میں ان کے ارتقائی مسئلوں کا حل نکال لے۔ لیکن چاہے جتنے بھی سال گزرجائیں سائنس کا اس بے بنیاد اور غیر منطقی دعوے کی تصدیق کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسکے برخلاف جیسے جیسے سائنس مزید ترقی کرتی جائے گی وہ ارتقاءپسندوں کے اس واحیات نظریئے کے جھوٹ کو اور بھی واضح اور شفاف طور پر پیش کرتی چلی جائے گی۔ اب تک یہی ہوتا آیا ہے کہ جیسے جیسے جاندار خلےئے کی ساخت اور طریقہ کار سے متعلق تفصیلات سامنے آتی گئیں ےہ مزید واضح ہوتاچلا گیا کہ خلیئے کی تشکیل اتنی سادہ اور بے ترتیب ہرگز نہیں ہے جتنا کہ ڈارون کے زمانے کی قدیم حیاتیاتی سوچ نے اس کو سمجھ لیا تھا۔
اس منظر کے اتنے روشن ہونے کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ بے انتہا ناممکن اتفاقات کو بنیاد بناکر تخلیق کی حقیقت کو رد کردیا جائے اور پھر ان جھوٹے دعوﺅں کی ہٹ دھرمی کے ساتھ پرزور حمایت کی جائے جوکہ آگے چل کر صرف سخت شرمندگی کا ذریعہ ثابت ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے نظریہ¿ ارتقاءکا اصل مکروہ چہرہ دنیا کے آگے آتا جارہا ہے، وہ دن زیادہ دور نہیں جب ارتقاءکے نیم نابینا اور سرپھرے خود ساختہ سرکاری وکیل دنیا سے خود اپنے چہرے ہی چھپاتے پھریںگے۔

ارتقاءکے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ: روح

دنیا کی کئی نسلیں ایک دوسرے سے حد درجہ مشابہ ہیں۔ مثال کے طور پر گھوڑے اور بلی جیسے کئی اور جاندار بھی ہیں مثلاً گدھا اور شیروں کے بچے یا پھر لاتعداد کیڑے مکوڑے بھی ہو بہو ایک دوسرے کی شکل ہونے کے باوجود مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تمام مطابقت کسی کو حیران نہیں کرتی لیکن کسی وجہ سے انسان اور گوریلے کے درمیان موجود تشابہت لوگوں کی توجہ کا مرکز بن کر رہ گئی ہے۔ یہ توجہ اس قدر بڑھ گئی کہ لوگوں کو ارتقاءکے جھوٹے مقولے پر یقین کرنے کی سمت راغب کرنے لگی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ انسانوں اور گوریلوں کے درمیان سطحی نوعیت کی مطابقت کسی اہمیت کے لائق نہیں ہے۔ گبریلا بھنورا ماتھے پر سینگ نما عضو سمیت ہو بہو گینڈے کی شکل کا ہوتا ہے لیکن ان دونوں جانداروں کے درمیان کسی قسم کا ارتقائی تعلق تلاش کرنا ایک بے انتہا نامعقول عمل ہوگا کیونکہ ایک کا شمار کیڑے مکوڑوں کے گروہ سے ہے اور دوسرا ایک دیو ہیکل ممالیہ جانور ہے۔
اسی طرح سطحی نوعیت کی مطابقت کی بنیاد پر گوریلوں کو دوسرے جانوروں کی بجائے انسانوں سے زیادہ قریب ہونے کے دعوے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ بلکہ اگر عقل استعمال کی جائے تو معجزاتی طور پر اقلیدسی ساخت تعمیر کرتی ہوئی شہد کی مکھی یا پھر اپنے جالے کی حیرت انگیز انجینئرنگ کا نمونہ بناتی ہوئی مکڑی کو انسان سے زیادہ قریب کہنا چاہئے۔ کچھ باتوں کے اعتبار سے وہ گوریلوں سے بھی زیادہ انسان سے قریب ہیں بلکہ چند ایک باتوں میں ان کی عقل اور عادات انسانوں سے برتر ہیں۔
انسانوں اور گوریلوں میں محض شکلیاتی تشابہت کے باوجود بے انتہا فرق موجود ہے۔ گوریلا ایک جانور ہے جو کہ شعوری اعتبار سے گھوڑے اور کتے سے زیادہ مختلف نہیں ہے جبکہ انسان ایک باشعور اور مضبوط مرضی کا مالک جاندار ہے جس کے اندر سوچنے، بات کرنے، سمجھنے، فیصلہ کرنے اور اندازہ لگانے کی اعلیٰ صلاحیتیں موجود ہیں۔ یہ خصوصیات انسان کے اندر موجود روح کا کمال ہیں۔ انسانوں اور دوسری مخلوقات کے درمیان وسیع خلاءپیدا کرنے ولاسب سے اہم فرق روح کا ہے۔ انسانوں اور دوسرے جانداروں کے درمیان کسی بھی نوعیت کی ظاہری تشابہت اس خلاءکو پر نہیں کرسکتی۔ گوکہ روح تمام جانداروں میں موجود ہے لیکن قدرت میں باشعور روح صرف انسان کی ہے۔

اﷲ اپنی مرضی سے تخلیق کرتا ہے

ارتقاءپسندوں کے پیش کردہ منظر نامے کے واقع ہوجانے سے کیا کوئی فرق پڑتا ؟ ہرگز نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءکے ہاتھوں آگے بڑھایا ہوا ہر مرحلہ جو کہ اتفاق پر مبنی ہے وہ صرف ایک معجزے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اگر زندگی ارتقاءپسندوں کے مطابق مرحلہ در مرحلہ وجود میں آئی بھی ہے تو ہر مرحلہ صرف ایک شعوری مرضی کے تحت ہی نمودار ہوا ہوگا۔ ان مرحلوں کے اتفاق سے وجود میں آجانے کے امکانات صرف غیر معقول ہی نہیں بلکہ حتمی طور پر ناممکن ہیں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ لحمیات کا ایک سالمہ قدیم ماحولیاتی اثرات کے تحت وجود میں آیا تھا تو اس بات کو ذہن میں رکھنا لازم ہے کہ امکانات، حیاتیات اور کیمیا کے تمام قوانین کے حساب سے ثابت کیا جاچکا ہے سالمے کا اس طرح وجود میں آجانا کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر پھر بھی ضد کی جائے کہ یہ ناموافق ماحول کے باوجود وجود میں آگیا تو پھر اس بات کا اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ اس کا وجود خالق کی مرضی کا نتیجہ ہے۔ یہی اصول ارتقاءپسندوں کے تشکیل کردہ پورے مقولے پر لاگو ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اس بات کا نہ تو کوئی علمِ معدوم حیاتیات و نباتات کی حساب سے کوئی ثبوت ہے اور نہ کوئی طبعیاتی، کیمیائی، حیاتیاتی اور منطقی طور پر کوئی جواز ہے کہ مچھلی پانی سے جست لگاکر زمین پر پہنچ گئی اور زمین پر بسنے والےجانور کا روپ دھارگئی۔ لیکن اگر پھر بھی ضد کی جائے کہ ہاں ایسا ہی ہوا ہے کہ مچھلی کود کر زمین پر پہنچ گئی اور خزندوں میں تبدیل ہوگئی تو اس دعوے کو تخلیق کرنے والے کو یہ سچائی بھی تسلیم کرلینی چاہئے کہ ہاں اےسے خالق کا وجود بے شک موجود ہے جو صرف اپنے حکم ”کن“ یا ”ہوجا“ سے اپنی مرضی کے ہرچیز تخلیق کرنے کی مکمل طاقت رکھتا ہے۔ اس معجزے کی کوئی اور وضاحت اپنی تردید آپ کرتی ہوئی عقل و فہم سے بے بہرہ ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ حقیقت تو صاف اور واضح ہے کہ زندگی ایک بہترین نقشے اور اعلیٰ تخلیق کا نتیجہ ہے جوکہ اﷲ جیسے خالق کے وجود کی موجودگی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ تمام کائنات اس کی لامحدود قوت، علم اور حکمت کا منہ بولتا نمونہ ہے۔ تخلیق کرنے والا صرف اﷲ ہے جو کہ زمین اور آسمان اوراس کے درمیان موجود ہر چیز کا مالک اور قادرالمطلق ہے۔
نظریہ¿ ارتقاءکی شکستگی نظریہ تخلیق کی حقیقت
نظریہ¿ ارتقاءکی شکستگی نظریہ تخلیق کی حقیقت, SRF
حالیہ دور میں مقبولیت پانے والی ارتقاءپسند تشہیر عوامی عقائد اور اخلاقی اقدار کے لئے ایک زبردست خطرہ ہے۔ سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن اس سنگین صورتحال سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اس نے ترکی کی عوام کو اس معاملے کے سائنسی پہلو سے آگاہ کرنا اپنا اہم فریضہ بنالیا ہے۔

پہلا اجلاس، استنبول
سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن کی طرف سے منعقد کئے جانے والے بین الاقوامی اجلاسوں میں سے پہلا اجلاس اپریل ۴ ارتقاءکی شکستگی: تخلیق کی حقیقت“ یہ اجلاس نہایت کامیاب رہا اور اس میں تمام دنیا سے اس شعبے کے نامور ماہروں نے شرکت کی۔ ¿ کا عنوان تھا ”نظریہ ارتقاءکی سائنسی تردید پیش کی۔ ترکی ¿ اس اجلاس نے پہلی دفعہ ارتقاءکے اوپر بحث و مباحثے کے لئے ایک ایسا پائیدان مہیا کیا جس نے ترکی میں نظریہ کے کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس اجلاس میں شرکت کی اور جو اس اجلاس میں شریک نہیں ہوپائے انہوں نے ٹیلی ویژنوں کے ذریعے اس کی ہرکارروائی گھروں میں بیٹھ کر دیکھی۔

ارتقاءکے پس پردہ مقاصد کے اوپر تقاریر کیں۔ اس کے بعد فاؤنڈیشن کی طرف ¿ اجلاس میں سب سے پہلے سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن کے ممبران نے نظریہ سے بنائی جانے والی ویڈیو دستاویز دکھائی گئیں۔ ڈاکٹر ڈوان گش اور ڈاکٹر کینتھ کمنگ امریکہ کے انسٹیٹیوٹ فارکریشن ریسرچ کے بین الاقوامی شہرت کے ارتقاءکے ناقص ہونے کا مظاہرہ پیش کیا۔ اجلاس میں ¿ حامل ماہرِ حیاتیاتی کیمیا اور ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات ہیں۔ انہوں نے ٹھوس ثبوت کے ساتھ نظریہ ترکی کے مشہور سائنسدان ڈاکٹر کیوٹ بابونا نے انسانی تخلیق کے ہر مرحلے کے معجزہ کو ایسی تصویری دستاویزات کے ذریعے پیش کیا جنہوں نے ارتقاءکے ”اتفاقی مفروضے“ کو جڑوں تک ہلادیا۔
SRF, duane gishSRF, duane gish
پروفیسر ڈوان گش

”فوصلی ریکارڈ نظریہ¿ ارتقاءکی تردید کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ جاندار نسلیں زمین کے اوپر مکمل اور بہترین شکلوں میں نمودار ہوئیں۔ الله تعالیٰ کی تخلیق کا اس سے زیادہ ٹھوس ثبوت اور کچھ نہیں ہوسکتا۔“ بین الاقوامی شہرت کا حامل ماہرِ ارتقاءڈاکٹر ڈوان گش ڈاکٹر نیوزات یا لسنٹاس کے ہاتھ سے اپنا سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن کا یادگار لوح لے رہے ہیں۔ ڈاکٹر یالسنٹاس ترکی کے پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں۔

دوسرا اجلاس: استنبول
SRF, edward boudreaux
روفیسر ایڈورڈ بوڈرو ”جس دنیا کے اندر ہم رہتے ہیں اس کے قدرتی قوانین تخلیق ً کار نے انسانوں کے صریحا فائدے کے لئے ہی بنائے ہیں۔“
اس سلسلے کا دوسرا بین الاقوامی اجلاس تین مہینے بعد ۵ جولائی ۸۹۹۱ ءکو استنبول کے کیمل ریسٹ ری کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں چھ امریکن اور ایک ترکی مقرر نے ¿ جدید سائنس کے ہاتھوں نظریہ ڈارون کی شکست کے موضوع پر تقاریر کیں۔ اس کانفرنس ہال میں ہزار لوگوں کی گنجائش تھی لیکن اس سے کہیں زیادہ محو سامعین کھچاکھچ ہال میں بھرے ہوئے تھے۔اجلاس میں موجود مقرروں اور ان کی تقاریر کے موضوعات مندجہ ذیل ہیں :

پروفیسر مائکل بی گیروآرڈ سدرن لوزیانا یونویورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر ہیں اور ان کی تقریر کا موضوع تھا ”کیا زندگی کی ابتداءاتفاق کے ذریعے ممکن ہے۔“پروفیسر گیروآرڈ نے اپنی تقریر میں مختلف مثالوں سے زندگی کی بنیادی اکائیوں لحمیات کی پیچیدگی کو بیان کیا اور یہ خلاصہ پیش کیا کہ لحمیات کا وجود صرف کسی ماہر نقشے کے تحت ممکن ہوا ہے۔
SRF, david menton
پروفیسر ڈیوڈ منٹن ”میں نے جانداروں کی تشریح الاعضاءکا معائنہ ۰۳ سال تک کیا ہے اور میں نے نتیجے میں جو کچھ دیکھا وہ الله تعالیٰ کی تخلیق کا ثبوت ہے۔“
ڈاکٹر ایڈورڈ بوڈرو یونیورسٹی آف نیواورلینز میں کیمیا کے پروفیسر ہیں اور ان کے تقریر کا عنوان تھا ”کیمیا میں نقش و نگاری“ ۔اپنی تقریر میں ڈاکٹر بوڈرو نے خاص طور پر اس پہلو پر روشنی ڈالی کہ کسی تخلیق کا رنے نہایت اعلیٰ پیمانے پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیمیائی عناصر کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ اس سے زندگی ممکن ہوئی ہے۔
پروفیسر کارل فلائر مینز انڈیا نا یونیورسٹی کے مشہور خرد نامیہ حیاتیات کے پروفیسر اور سائنسدان ہیں جوکہ امریکہ کے محکمہ دفع کے تعاون سے کی جانے والی ”جراثیم کے کیمیائی فاضل مواد کی تعدیل“ کے اوپر تحقیق بھی کررہے ہیں۔ ڈاکٹر فلائر مینز نے ارتقائی دعوؤں کی خرد نامیہ حیاتیاتی سطح پر تردید کی۔

پروفیسر ایڈپ کیحا حیاتیاتی کیمیا کے پروفیسر ہیں اور اس اجلاس کے واحد ترکی مقرر تھے۔ انہوں نے خلئے کے بارے میں بنیادی معلومات پیش کیں اور اس بات پر زوردیا کہ خلیہ صرف بے عیب تخلیق کا نتیجہ ہے۔
 SRF, carl fliermans
پروفیسر کارل فلائرمینز جدید حیاتیاتی کیمیاءثابت کرتی ہے کہ جاندار بہترین نقشے کے تحت تخلیق کئے گئے ہیں۔ یہ حقیقت اکیلی ہی ایک تخلیق کار کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔“
پروفیسردیوڈ منٹن واشنگٹن یونیورسٹی میں تشریح الاعضاءکے پروفیسر ہیں اور ان کی تقریر کے ساتھ ایک نہایت دلچسپ کمپیوٹر مظاہرہ بھی دکھایا گیا جس میں پرندوں کے پروں کی ساخت اور خزندوں کے کھپروں کے درمیان موازنہ کیا گیا۔ اس موازنے نے اس مفروضے کو ناقص ثابت کردیا کہ پرندے خزندوں کی ارتقائی شکل ہیں۔

پروفیسر ڈاون گش مشہور ماہرِ ارتقاءہیں۔ ان کی تقاریر کا عنوان تھا ”انسان کی ابتدائ“ جس نے انسان کی گوریلے کی ارتقائی شکل ہونے کے مفروضے کو غلط ثابت کردیا۔

پروفیسر جان مورس انسٹیٹیوٹ فارکریشن ریسرچ کے صدرہونے کے علاوہ ایک مشہور ماہرِ ارضیات بھی ہیں۔ ان کی تقریر کا عنوان ارتقاءکے دائرے میں موجود فکریاتی اور فلسفیانہ قراردادوں کے متعلق تھا۔

انہوں نے مزید اس بات کی وضاحت کی کہ اس نظریئے کو اتنا کٹر عقیدہ کیوں بنادیا گیا ہے اور اس کے حمایتی ڈارون کے اس نظریئے کو مذہب کا درجہ کس بنےادپر دیتےہیں۔

ارتقاءایک ایسا کٹر عقیدہ ہے جس کی سائنس ہر پہلو سے تردید ¿ ان تمام تقاریر کو سننے کے بعد سامعین کے ذہن میں کوئی شک نہیں رہا کہ نظریہ ارتقاءکی شکستگی: تخلیق کی حقیقت“ کے عنوان سے تصاویر کی نمائش بھی لوگوں میں بے ¿ کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ کانفرنس ہال میں موجود ”نظریہ انتہادلچسپی کا مرکز بنی۔اس نمائش کی ۵۳ تصاویر ارتقاءکے بنیادی دعووں اور تخلیق کے ثبوت کے بارے میںتھےں۔


تیسرا اجلاس: انقرہ
اس سلسلے کا تیسرا بین الاقوامی اجلاس ۲۱ جولائی ۸۹۹۱ ءکو انقرہ کے شیراٹن ہوٹل میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں حصہ لینے والے تین امریکن اور ایک ترکی شرکاءنے جدید سائنس کے ہاتھوں نظریہ ¿ ڈارون کی معذوری کے متعلق واضح اور وقیع ثبوت پیش کیا۔

گوکہ شیراٹن ہوٹل کا یہ ہال بھی ہزار لوگوں کے لئے تھا لیکن اجلاس میں آنے والوں کی تعداد ۰۰۵,۲ سے بھی اوپر تھی۔ جو لوگ اندر نہیں آسکے ان کے لئے ہال کے باہر ہی نشریاتی اسکرینیں لگادی گئی تھیں۔ اس اجلاس میں بھی ”نظریہ رتقاءکی شکستگی: تخلیق کی حقیقت“ پر مبنی تصویری نمائش کی گئی جو کہ زبردست توجہ کی حامل رہی۔ اجلاس کے اختتام پر مقرروں کو پرجوش خراجِ تحسین پیش کیا گیا جس سے اندازہ ہوا کہ عوام ارتقاءکے دھوکے اور تخلیق کی حقیقت کو جاننے کے لئے کس قدر بے چین ہے۔

ان تمام بین الاقوامی اجلاسوں کی زبردست کامیابی کے بعد سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن نے ترکی میں جگہ جگہ اسی طرح کے اجلاس منعقد کرنے شروع کردئے۔ اگست ۸۹ ءسے لے کر ۵۰۰۲ ءتک ترکی کے ۲۷ شہروں اور ۰۵۱ ضلعوں میں اسی موضوع پر ۰۰۸,۲ اجلاس منعقد کئے جاچکے تھے۔ اس کے علاوہ سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن نے برطانیہ، ہولینڈ، برونائی، ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، آذربائیجان، آسٹریلیا، امریکہ اور کینیڈا میں بھی اسی طرح کے لاتعداد اجلاس کروائے ہیں۔

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder