17 Mart 2016 Perşembe

بارھواں باب: ارتقاءپسندوں کے دعوے ناقص کیوں ہیں؟

بارھواں باب:

ارتقاءپسندوں کے دعوے ناقص کیوں ہیں؟

چھلے بابوں میں نظریہ¿ ارتقاءکا فوصلی ثبوت کے ملنے اور سالماتی حیاتیات کے نقطہ¿ نظر سے ناقص ہوجانے کا تجزیہ کیا گےاہے۔ اس باب میں ان حیاتیاتی واقعات اور عمومی تصورات کو زیر غور لایا جائے گا جن کو ارتقاءپسند فکری اور نظریاتی ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ موضوعات خصوصی طور پر اس لئے بھی اہم ہیں کیونکہ یہ واضح کرتے ہیں کہ ارتقاءکو سہارا دینے کے لئے کوئی سائنسی دریافت موجود نہیں ہے۔ یہ موضوعات ارتقاءپسندوں کے جھوٹے اور فریبی ہتھکنڈوں سے پردے اٹھاتے ہیں۔

جاندار نسلیں اور تبدل

تبدل ایک جینیاتی اصطلاح ہے جس کا اشارہ اس جینیاتی واقعہ کی طرف ہے جس کے نتیجے میں کسی نسل کا ایک فرد یا پورا گروہ کسی دوسری نسل کی خصوصیات اپنالیتا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کے تمام لوگ تقریباً ایک ہی طرح کی جینیاتیمعلومات کے ہامل ہیں مگر پھر بھی کسی کی آنکھیں ترچھی ہوتی ہیں، کسی کے بال سرخ ہوتے ہیں، کسی کی ناک لمبی ہوتی ہے اور کسی کا قدم کم ہوتا ہے۔ یہ تمام فرق اس کے اندر موجود جینیاتی معلومات میں تبدل کے امکان پر منحصر ہوتا ہے۔ ارتقاءپسندکسی نسل کی اس تبدل کے امکان کو اپنے نظریئے کے ثابت ہونے پر محمول کرتے ہیں۔ حالانکہ تبدل ارتقاءکا ثبوت ہرگز نہیں ہے کیونکہ یہ تو کسی بھی جاندار کے اندر موجود جینیاتی معلومات کا مختلف طرح سے عمل پےرا ہونے کا نتیجہ ہے۔ تبدل کے ذریعے پہلے سے موجود جینیاتی معلومات میں کسی نئی خصوصیت کا اضافہ نہیں ہوتا۔ نظریہ¿ ارتقاءکے لئے اہم سوال تو یہ ہے کہ بالکل نئی معلومات کس طرح حاصل ہوتی ہیں جس کے ذریعے ایک نئی نسل وجود میں آجائے۔
کسی جسم مےں تبدل ہمیشہ پہلے سے موجو دجینیاتی معلومات کی حدود کے اندر واقع ہوتا ہے۔ جینیاتی سائنس میں یہ حدود” جین پول“ یا ”جینیاتی نشیب“ کہلاتی ہیں۔ کسی نسل کے جینیاتی نشیب میں موجود تمام خصوصیات مختلف طریقوں سے تبدل کے ذریعے سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر تبدل کے ذریعے مشترک کیفیتوں کے باوجود بڑے گروہ سے مختلف انواع کے لمبی دموں اور چھوٹی ٹانگوں کی خاصیت والے رینگنے والے جانوروں کی کچھ نسلوں میں آسکتی ہے کیونکہ اس انواع کی جینیاتی نشیب میں یہ معلومات موجود تھیں۔ لیکن اس تبدل سے رینگنے والے جانور پراگاکر پرندے نہیں بن سکتے اور نہ ہی ان کاتحول بدل سکتا ہے۔اس طرح کی تبدیلی ان کی جینیاتی معلومات میں اضافے پر مشروط ہے جوکہ تبدل کے طریقے سے ہرگز ممکن نہیںہے۔ جس وقت ڈارون نے اپنا نظریہ تشکیل کیا تھا اس وقت وہ ان ٹھوس سائنسی حقائق سے سراسر ناواقف تھا۔ اس کے نزدیک تبدل کی کوئی انتہا یا حد نہیں تھی۔ ۴۴۸۱ءمیں اپنے ایک مضمون میں وہ کہتا ہے:
نسلوں کے اندر تبدل ارتقاءکی دلیل نہیں ہے
variations,  نسلوں کے اندر تبدل ارتقاءکی دلیل نہیں ہے
اپنی کتاب ”اوریجن آف اسپیسز“ میں ڈارون نے دو مختلف تصورات کو الجھادیا۔ ایک تو ایک ہی نسل کے اندر تبدل اور دوسر ایک بالکل نئی نسل کی نموداری۔ مثال کے طور پر ڈارون نے کتوں کی مختلف اقسام کے اندر تبدل کا معائنہ کیا اور قیاس کیا کہ کتوں کی کچھ اقسام مختلف نسلوں میں تبدیل ہوجائیں گی۔حتیٰ کہ آج بھی ارتقاءپسند نسلوں کے اند تبدل کو ”ارتقائ“ کی شکل بناکر پیش کرنے پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ نسلوں کے اندر تبدل ارتقاءنہیں ہوتا۔ کتوں کی چاہے جتنی بھی اقسام ہوں وہ کتا ہی رہتی ہیں۔ کتوں اور کسی نسل کے جانور کے درمیان عبور کبھی بھی پیدا نہیں ہوگا۔
”قدرت میں تبدل کے نظام مےں کسی حد کا موجود ہونا کئی مصنفوں کے خیال مےں ممکن ہے جبکہ میں کسی ایک بھی ایسی سچائی کو ڈھونڈنے سے قاصر ہوں جس کی بنیاد پر اس یقین کی تعمیر کی گئی ہے۔“۳۴۱۔ اپنی کتاب اوریجن آف اسپیسیز میں اس نے مختلف مثالوں کے ذریعے تبدل کو اپنے نظریئے کا سب سے اہم ثبوت قراردیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈارون کے نزدیک جانوروں کی نسل کشی کرنے والے وہ لوگ جو مویشیوں کی مختلف انواع کی نسل کشی کے ذرےعے زیادہ دودھ دینے والے مویشی پیدا کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں وہ بالآخر ان مویشیوں کو ایک مکمل طور پر نئی جاندار نسل میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ لاحدود تبدل کے بارے میں ڈارون کے تصور کا اندازہ اس کی کتاب اوریجن آف اسپیسز کے اس اقتباس سے کیا جاسکتا ہے:
”مجھے اس بات میں کوئی مشکل نظر نہیں آتی کہ بھالوﺅں کی ایک ایسی نسل کی افزائش انتخاب طبعی کے ذریعے ہو جوکہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ آبی خصوصیات کی حامل ہو۔ ان کے منہ بڑے سے بڑے تر ہوتے جائیں جب تک کہ اےک وہیل مچھلی نما ضخیم مخلوق وجود میں آجائے“۔۴۴۱
ڈارون کا اس قدر عقل سے عاری مثال کا پیش کرنا صرف اس کے زمانے کی قدیم اور محدود سائنسی معلومات کی وجہ سے تھا ۔لیکن اس کے بعد ۰۲ صدی میں سائنس نے جینیاتی استقلال کا اصول قائم کردیا ہے جو کہ جانداروں کے اوپر کئے گئے کئی تجربات پر مبنی ہے ۔اس اصول کے تحت چونکہ نئی انواع کو تشکیل دینے کے مقصد سے کئے گئے نسل کشی کی تمام تجربات ناکام رہے تھے اسی لئے اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ جانداروں کی مختلف نسلوں کے درمیان سخت حدود متعین ہیں جس کی وجہ سے نسل کشی کرنے والوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ مویشیوں کی مختلف انواع کی آپس میں نسل کشی کے ذریعے کوئی اور نسل تشکیل کردیں جس طرح ڈارون کا مفروضہ تھا۔
نارمن میک بتھ اپنی کتا ب ’ڈارون ری ٹرائڈ ‘میں نظریہ¿ ڈارون کی تردید کرتا ہے اور لکھتا ہے:
”اس مسئلے کا مرکز یہ ہے کہ آیا جاندار نسلیں ایک دوسرے سے لامحدود حد تک مختلف ہیں ےا نہےں۔ لیکن ےہ بات تو ثابت ہے کہ تمام نسلوں میں استقلال ہے۔ ہم سب نے ان مایوس نسل کشوں کی کہانیاں سن رکھی ہیں جنہوں نے اپنا کام ہر حد تک کیا کہ وہ دیکھ سکیں کہ کوئی حیوانی یا نباتاتی نسل نقطہ¿ ابتداءپر واپس جاتی ہے کہ نہیں۔لیکن دو تین صدیوں کی شدید محنت کے بعد بھی آج تک کوئی کالا گلاب یا کالا کنول کا پھول پیدا نہیں ہوسکا“۔۵۴۱
لوتھربربانک کا شمار قابل ترین نسل کشوں میں ہوتا ہے اور اس نے اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ”ممکنہ ترقی کی کچھ حدود ہیں اور ان حدود کا تعین قانون کرتے ہیں۔“۶۴۱
ڈنمارک کا سائنسدان ڈی یو۔ایل۔ جوہانسن اس معاملے کا خلاصہ اس طرح پیش کرتا ہے:
”ڈارون اور والس نے جس تبدل کے اوپر زور دیا تھا وہ ایک خاص نقطے سے زیادہ بڑھ نہیں سکتا کیونکہ اس طرح کے تبدل کے اند ر’غیر معینا رخصت کا راز موجود نہیں ہوتا۔“ ۷۴۱
اسی طرح ڈارون نے گالا پاگوس کے جزیرے پر جوچڑیاں دیکھی تھیں وہ محض تبدل کی مثال ہیں ، ارتقاءکی نہیں۔ حالیہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ان چڑیوں کے اندر کسی قسم کا لامحدود تبدل پیش نہیں آیاتھا جس طرح کہ ڈارون نے دعویٰ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان چڑیوں کی زیادہ تر اقسام جوکہ ڈارون کے حساب سے ۴۱ مختلف نسلوں کی نشاندہی کررہی تھیں، وہ آپس میں نسل کشی بھی کرتی تھیں جس کے حساب سے یہ چڑیاں ایک ہی انواع کا تبدل تھا۔ سائنسی مشاہدے کے مطابق اس چڑیا کی چونچ، جو کہ تقریباً تمام ارتقائی کتب میں قیاس کے طور پر موجود ہے ،وہ دراصل تبدل کی ہی ایک مثال ہے اور اسی لئے نظریہ¿ ارتقاءکے ثبوت کے طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
پیٹراور روزمیری گرانٹ نے گالا پاگوس کے جزیروں پر کئی سال ان چڑیوں کی مختلف اقسام کے مشاہدوں کے ذرےعے ڈارون کے نظریئے کے ثبوت کی تلاش میں گزارے۔ ان کو بالآخر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ ایسے کسی قسم کے ارتقاءکا پیش آنا ممکن ہی نہیں جس کا نتیجہ نئی خصوصیات کا وجود میں آنا ہو۔۸۴۱

جراثیم کش دوا سے مزاحمت اور ڈی۔ ڈی۔ ٹی سے مدافعت ارتقاءکا ثبوت نہیں ہیں

ارتقاءپسند اپنے نظریئے کے ثبوت کے طور پر ایک مفروضہ جراثیموںکی جراثیم کش دوائیوں سے مزاحمت کا پیش کرتے ہیں۔ کئی ارتقائی ذرائع جراثیم کش دوا ﺅںسے مزاحمت کو جانداروں کی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی کے ذریعے ترقی کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دعویٰ ان کیڑوں کے بارے میں بھی کیا جاتا ہے جوکہ ڈی دی ٹی جیسی کیڑا مار دوائی کے خلاف مدافعتی قوت پیدا کرلیتے ہیں۔ لیکن ارتقاءپسند اس موضوع پر بھی شدید غلطی کا شکار ہیں۔
جراثیم کش دوائیں’ قاتل سالمے‘ ہوتے ہیں جوکہ خردحیاتی جاندار دوسرے خرد حیاتی جانداروں کے خلاف لڑنے کے لئے پیدا کرتے ہیں۔ سب سے پہلی جراثیم کش دوائی پینسلین تھی جو ایلگزانڈر فلیمنگ نے ۸۳۹۱ءمیں ایجاد کی۔ فلیمنگ کواندازہ ہوا کہ گیلی مٹی میں پیدا ہونے والا سالما ’اسٹافائلو کوکس ‘نامی جراثیم کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس کی اس دریافت سے طبی دنیا میں زبردست تبدیلی آئی۔ خردحےاتےاتی جانداروں سے حاصل کی گئی جراثیم کش دوائیاں دوسرے جراثیم کی خلاف بے حد کامیابی کے ساتھ استعمال کی جانے لگیں۔ پھر ا یک اور نئی اور حیران کن بات دریافت ہوئی۔ وہ یہ کہ جراثیم وقت گزرنے کے ساتھ جراثیم کش دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت تعمیر کرلیتے ہیں۔ یہ نظام کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ جراثیم کش دوائیوں کے زیر اثر آنے والے جراثیموں کا ایک بڑا حصہ مرجاتا ہے جبکہ کچھ جراثیم جوکہ اس دوائی کے اثر سے محفوظ رہتے ہیں وہ تیزی سے ایک دوسرے کی نقل کرکے کھوئی ہوئی آبادی کو دوبارہ آباد کرلیتے ہیں ۔اسی طرح سے رفتہ رفتہ جراثیم کی تمام آبادی اس جراثیم کش دوائی کی خلاف قوت مدافعت پیدا کرلیتی ہے ۔اس صورتحال کو ارتقاءپسند ’جراثیموںکا ماحول میں ڈھلنے سے ارتقاء‘کی طرح پیش کرتے ہیں اور اس میں ارتقائی پہلو نکال لیتے ہیں۔
سچائی اس سطحی تشریح سے بہت مختلف ہے۔ اسرائیلی حیاتیاتی ماہرِ طبیعیات لی اسپیٹنر کا شمار ان سائنسدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس موضوع پر بے انتہا اور تفصیلی تحقیق کی ہے۔ اسپیٹنر اپنی ۷۹۹۱ءمیں لکھی گئی کتاب ’ناٹ بائی چانس‘ یا ’ اتفاق سے نہیں ‘ کے لئے بھی مشہور ہے۔ اسپیٹنر کہتا ہے کہ گو کہ جراثیموں کی قوت مدافعت دو مختلف طریقوں سے پیش آتی ہے لیکن دونوں میں سے ایک بھی طریقہ نظریہ¿ ارتقاءکے ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دو طریقے ہیں۔
 وہیل مچھلی کا ریچھ کی ارتقائی
وہیل مچھلی کا ریچھ کی ارتقائی

شکل ہونے کی فرضی حکایت اوریجن آف اسپیسےز میں ڈارون اصرار کرتا ہے کہ وہیل مچھلیاں ان ریچھوں کی ارتقائی شکل ہیں جنہوں نے تیرنا شروع کردیا تھا۔ ڈارون نے یہ سوچنے میں غلطی کی تھی کہ نسلوں کے درمیان تبدل کے امکانات لامحدود ہیں۔ ۰۲ ویں صدی کی سائنس نے اس ارتقائی منظر نامے کو ایک فرضی حکایت ثابت کردیا ہے۔
۱۔ مدافعتی جینیات کی منتقلی جوکہ کسی جرا ثیم کے اند رپہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
۲۔ جینیاتی تبدیلی کے باعث جینیاتی معلومات کا کھونا جس کے نتیجے میں قوت مدافعت تعمیر ہوجاتی ہے۔۱۰۰۲ءمیں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں پروفیسر اسپیٹنر پہلے طریقہ¿ عمل کی وضاحت کرتا ہے:
”کچھ خرد نامیہ جانداروں کے اندر قدرتی طور پر ایسی جینیات موجود ہوتی ہیں جوکہ ان جراثیم کش دوائیوں کے خلاف مزاحمت کا اظہار کرسکتی ہیں۔ یہ مزاحمت اور مدافعت جراثیم کش دوائی کے سالمے کی توڑ پھوڑ یا اس کو خلئے سے مکمل طور پر نکال دینے کی صورت میں پیش آتی ہے۔ جن جانداروں کے اندر یہ مدافعتی جینیات موجود ہوتے ہیں وہ ان کو دوسرے جراثیم میں بھی منتقل کرسکتے ہیں اور ان کو بھی مدافعتی خصوصیات کا حامل بناسکتے ہیں۔ گوکہ ےہ مدافعتی خصوصیات ہر جراثیم کش دوائی کے لئے الگ ہوتی ہےں پھر بھی بہت سے مرض پیدا کرنے والے جراثیم کئی جینیاتی سلسلے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کے ذریعے وہ مختلف انوع و اقسام کی جراثیم کش دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرچکے ہیں“۔۹۴۱
اسپیٹنر پھر کہتا ہے کہ:
”ےہ سب ارتقاءکا ثبوت ہرگز نہیں ہے۔جراثیم کش دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت کو اس طریقے سے حاصل کرنا وہ طریقہ نہیں ہے جس کو ارتقاءکے ثبوت کے طور پر جینیاتی تبدیلی کا نقش اول سمجھ لیا جائے۔ اس نظریئے کو واضح کرتی ہوئی جینیاتی تبدیلی کا کام صرف جراثیم کے تولیدی مادے میں معلومات کا اضافہ کرنا نہیں بلکہ اس کی تمام زندگی سے متعلق نئی معلومات کا اصافہ کرنا ہے ۔جینیات کی افقی سطح پر منتقلی جینیات کو ان جینیات کے اطراف ہی پھیلاتی ہے جوکہ کچھ جاندار نسلوں میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں“۔۰۵۱
ےہاںکسی بھی طرح کے ارتقاءکی یہاں بات نہیں کی جاسکتی کیونکہ کسی بھی نوعیت کی نئی جینیاتی معلومات پیدا نہیں ہوئیں۔ وہ جینیاتی معلومات جو کہ پہلے سے ہی وجود میں تھی وہ صرف جراثیم کے درمیان منتقل ہوئی ہے۔ دوسری طرح کی قوت مدافعت جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے لیکن یہ بھی ارتقاءکے ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ اسپیٹنر لکھتا ہے:
”کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خرد نامیہ جاندار کسی جراثیم کش دوائی کے خلاف قوت مدافعت اپنی خلئے کے مرکز کا بے قاعدہ عمل کے ذریعے استبدال سے پیدا کرلیتا ہے۔ اسٹریپٹومائسین سلمن واکسمین اور الربٹ شاٹز نے ۴۴۹۱ میں دریافت کی۔یہ ایک ایسی جراثیم کش دوا ہے جس میں جراثیم اس طریقے سے قوت مدافعت پیدا کرلےتے ہیں۔ لیکن گوکہ جراثیم کے اندر ہونے والی اس طرح کی جینیاتی تبدیلی خرد نامیہ جاندار کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے پھر بھی اس تبدیلی کو جینیاتی تبدیلی کا وہ نقش اول قرار نہیں دیا جاسکتا جس کا دعویٰ نوڈاروینی نظریئے کوہے۔ وہ جینیاتیتبدیلی جو کہ اسٹرپٹومائسین کو قوت مدافعت بخشتی ہے وہ اس کے رائبوسوم یا RNA میں آشکار ہوتی ہے اور اس کے سالماتی جوڑ کو جراثیم کش دوائی کے سالمے سے توڑ پھوڑ دیتی ہے۔ خرد نامیہ جاندار کے RNA کی سطح میں رونما ہونے والی یہ تبدیلی اسٹرپٹومائسین سالمے کو جڑنے اور اپنی جراثیم کش ذمہ داریوں کو نبھانے سے روکتا ہے۔ یہ توڑ پھوڑ اس کے اندر خصوصیات کی کمی کی صورت میں ہوتی ہے اور اس سے جینیاتی معلومات میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اصل نقطہ تو یہ ہے کہ ارتقاءاس طرح کی جینیاتی تبدیلیوں یا بدہیئتیوں سے حاصل نہےں ہوسکتا چاہے کتنی ہی تعداد میں تبدیلیاں رونما ہوجائیں۔ ارتقاءان جینیاتی تبدیلیوں کو جمع کرنے سے عمل پذیر نہیں ہوسکتا جوکہ صرف خصوصیات میں کمی ہوتی ہے۔“۱۵۱
 بیکٹیریا, bacteria
ارتقاءپسندوں نے جراثیم کی جراثیم کش دواؤں سے مزاحمت کو ارتقاءکا ثبوت کہا ہے لیکن یہ ثبوت نہایت پر فریب ہے۔
خلاصہ یہ کہ وہ جینیاتی تبدیلی جوکہ جراثیم کے RNA میں تبدیلی لے کر آئے وہ اس جراثیم کی اندر اسٹرپٹومائسین کے خلاف قوت مدافعت پیدا کردیتی ہے۔ اس کی وجہ رائبوسوم کے RNA کے اندر جینیاتی تبدیلی کے ذریعے توڑ پھوڑ کا عمل ہے جس سے جراثیم کے اندر کسی بھی طرح کی نئی جینیاتی معلومات کا اضافہ نہیں ہوتابلکہ اس کے رائبوسوم کی ساخت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ۔یعنی کہ جراثیم معزور ہوجاتا ہے۔ (یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ جراثیم کا رائبوسوم صحت مند جراثیم سے کم کارگزر ہوتا ہے)۔ چونکہ اس معذوری کے تحت جراثیم کش دوائی رائبوسوم یا RNA سے جڑ نہیں سکتی اسی لئے جراثیم کش دوائی کے خلاف قوت مدافعت تعمیر ہوجاتی ہے۔ کسی بھی ایسی جینیاتی تبدیلی کی مثال سامنے نہیں ہے جوکہ جینیاتی معلومات میں اضافہ کرے۔
یہ وہی صورتحال ہے جس کے تحت کیڑے مکوڑوں کے اندر ڈی۔ ڈی۔ ٹی اور دوسری کیڑے مار دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان میں سے کئی حالات میں پہلے سے موجود مدافعتی جینیات استعمال میں آجاتے ہیں ۔ارتقائی ماہرِ حیاتیات فرانسسکو آئلا اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے:
”متعدد کیڑا ماردوائیوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کے لئے جن جینیاتی تبدیلیوں کی ضرورت تھی وہ غالباً ان تمام کیڑے مکوڑوں کی آبادیوں کے اند رپہلے سے موجود تھےں جن کے اوپر یہ انسان کے بنائے ہوئے مرکبات استعمال کئے گئے تھے“۔۲۵۱
اس مثال کی طرح دوسری کئی مثالوں کی وضاحت بھی جینیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کی جاسکتی ہے۔ جس طرح کہ اوپر والی مثال RNA میں جینیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے اسی طرح دوسری تمام مثالیں بھی کیڑے مکوڑوں کے اندر جینیاتی معلومات میں کمی کے باعث سامنے اآئی ہےں۔ ان تمام مشاہدات کی روشنی میں ثابت ہے کہ جراثیم اور کیڑے مکوڑوں کے اندر موجود قدرتی قوتِ مدافعت نظریہ¿ ارتقاءکے لئے کسی قسم کے ثبوت کی حیثیت نہےں رکھتی کیونکہ نظریہ¿ ارتقاءکا بنیادی دعویٰ تو یہی ہے کہ جاندار نسلیں جینیاتی تبدیلی کے ذریعے ترقی پاتی ہیں۔ اسپیٹنر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ نہ تو جراثیم کش دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت نہ کوئی اور دوسرا حیاتیاتی مظاہرہ کسی بھی ایسی جینیاتی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے:
”وسیع اور بسیط ارتقاءکے لئے جس نوعیت کی جینیاتی تبدیلیاں درکار ہیں ان کا آج تک کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ بے ترتیب طرح کی جینیاتی تبدیلیاں اس قسم کی جینیاتی تبدیلیوں کی آئینہ دار ہر گز نہیں ہیں جن کی نوڈاروینی نظریئے کو لازماً ضرورت ہے۔ ان کا سالماتی سطح پر معانہ بھی اس موضوع پر کسی نئی طرح کی معلومات کا اضافہ نہیں کر سکا۔ میر اسوال یہاں پر یہ ہے کہ جس طرح کی جینیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ اب تک کیا جاچکا ہے کیا وہ اس نظریئے کو سہارا دینے کے لئے کافی ہیں؟ اس کا جواب صرف ’نہیں‘ ہے“۔۳۵۱

باقیاتی اعضاءکے بارے میں کج فہمی

باقیاتی اعضاءوہ اعضاءہوتے جو کہ نظریہ¿ ارتقاءکے مطابق ارتقاءکے عمل کے دوران بے کار ہوگئے ہوں۔ بہت عرصے تک باقیاتی اعضاءکا تصور اور ذکر ارتقائی کتب میں ارتقاءکے ثبوت کے طور پر آتارہا ہے۔ جب اس تصور کی معذوری ظاہر ہونے لگی تو اس کو خاموشی سے ایک طرف کردیا گیا۔ لیکن کچھ ارتقاءپسند آج بھی ان اعضاءپر یقین رکھتے ہیں اور وقفے وقفے سے ان اعضاءکو ارتقاءکے اہم ثبوت کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں۔ باقیاتی اعضاءکا تصور ایک صدی پہلے متعارف ہوا تھا۔ ارتقاءپسندوں کے خیال سے کچھ مخلوقات کے اجسام میں ناکارہ اعضاءموجود تھے جو کہ انہوں نے اپنے مورث سے ورثے میں حاصل کئے تھے اور جو کہ متعدد سالوں تک استعمال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوگئے۔ یہ پورا مفروضہ سراسر غیرسائنسی ہے اور اس کی بنیاد ناکافی معلومات پر مبنی ہے۔یہ ناکارہ اعضاءدراصل وہ اعضاءتھے جن کی کارکردگی کا تعین نہیں ہوا تھا۔ اس کا ثبوت ارتقاءپسندوں کی تشکیل کی گئی باقیاتی اعضاءکی فہرست میں بتدریج کمی تھی۔ ایس۔ آر۔ اسکاڈنگ ایک ارتقاءپسند تھا جس نے رسالہ ”ایولوشنری تھیوری“ میں’ کیا باقیاتی اعضاءارتقاءکا ثبوت ہوسکتے ہیں؟ ‘کے عنوان سے چھپنے والے اپنے مضمون مےں اس حقیقت سے اتفاق رائے کا اظہار کیا:
”کیونکہ غیر مبہم طریقوں سے ناکارہ ساخت کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی اور چونکہ اس بحث کی نوعیت بھی سائنسی نہیں ہے اس لئے میں یہ نتیجہ نکالوں گا کہ باقیاتی اعضاءنظریہ¿ ارتقاءکے لئے کسی خاص قسم کا ثبوت فراہم نہےں کرتے۔“۴۵۱
 باقیاتی اعضاءکے بارے میں کج فہمی
آنکھ ً باقیاتی اعضاءکی تمام مثالیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بودی ثابت ہوگئی ہیں۔ مثلا کی ساخت کی نیم دائرہ نما تہ جس کا ذکر’ اوریجن‘ میں ایک باقیاتی عضو کے طور پر کیا گیا ہے وہ جدید دور میں اپنی مکمل کارکردگی کی بنیاد پر غلط ثابت ہوچکا ہے۔ آنکھ کی اس ساخت کے کارآمد ہونے کا علم ڈارون کے وقت میں نہیں تھا لیکن آج واضح ہوچکا ہے کہ آنکھ کا یہ حصہ آنکھ کے ڈھیلوں کو نم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
۵۹۸۱ ءمیں جرمنی کے ماہرِ تشریح الاعضاءآر۔ وائڈر شائم نے تقریباً ۰۰۱ باقیاتی اعضاءکی فہرست تشکیل کی جس میں اپینڈکس کی نلکی اور کوککس یا انسانی ریڑھ کی ہڈی کا نچلا مثلث نما سرا بھی شامل تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائنس کی ترقی نے یہثابت کیا کہ وائڈرشائم کی فہرست پر موجود تمام اعضاءکے نہایت اہم فرائض ہیں ۔مثال کے طور پر یہ پتہ چلا کہ اپینڈکس ایک باقیاتی اعضاءنہیں بلکہ ایک لمف نما عضو ہے جو کہ جسم میں بیماریوں سے دفاع کا کام کرتا ہے۔ یہ حقیقت ۷۹۹۱ءمیں مزید واضح ہوگئی تھی۔
دوسرے جسمانی اعضا اور ریشہ¿ لحمی مثلاً غدہ تیموسیہ، جگر، تلی، اپینڈکس، ہڈی کے اندر کا مادہ اور لمفیہ ریشہ¿ لحمی مثلاً گلے کے غدود اور چھوٹی آنت میں موجود پائر پیچ تمام لمفیہ نظام کا حصہ ہیں اور جسم کا بیماری سے دفاع میں مدد دےتے ہیں۔۵۵۱
اس کے علاوہ یہ بھی ثابت ہوا کہ گلے کے غدود جن کو باقیاتی اعضاءکی فہرست میں ڈالا گیا تھا وہ خصوصاً نوجوانی تک گلے کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں خاص کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سرے پر موجود کوکس کولہوں کے اطراف کی ہڈیوں کو سہارا دیتا ہے اور کچھ چھوٹے عضلات کا نقطہ ارتکاز ہے جس کی وجہ سے کوککس کے بغیر آرام سے بےٹھنا ممکن نہیں ہوتا۔ آنے والے سالوں میں پتا چلا کہ غدہ تیموسیہ انسانی جسم کے مامونیت کے نظام کو ٹی خلیوں کو حرکت میں لاکر شروع کرتا ہے، غدود صنوبری ضروری اعتدال پیدا کرنے والے مادے کی فراہمی کرتا ہے، غدہ درقیہ شیرخوار اور چھوٹی عمر کے بچوں کی متوازن افزائش کےلئے اہم ہے، اور غدہ نخامی کئی اعتدال پیدا کرنے والے مادے بنانے کے غدود کی درست کارکردگی میں معاون ہے۔ ان تمام اعضاءکا شمار ایک وقت باقیاتی اعضاءمیں ہوتا تھا۔
یہاں آنکھ کی نیم قمری تہہ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جس کو ڈارون نے باقیاتی اعضاءمیں شامل کیا تھا مگر جو کہ آنکھ کے ڈھیلوں کی صفائی اور ان کو نم رکھنے کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے۔ باقیاتی اعضاءکے متعلق ارتقائی دعوﺅں میں ایک اہم منطقی غلطی بھی موجود تھی ۔جس طرح کہ ثابت کیا گیا ہے یہ غلطی اس دعوے پر مبنی تھی کہ جانداروں میں موجود باقیاتی اعضاءان کو وراثت میں ملے ہیں لیکن بہت سے ازروئے دعویٰ باقیاتی اعضاءان نسلوں میں موجود نہیں ہیں جن کو انسانوں کا پرکھا کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اپینڈکس گوریلوں کی کچھ نسلوں میں موجود نہیں ہے جن کو ارتقاءپسند انسانوں کے آباءو اجداد کا نام دیتے ہیں۔ مشہور ارتقائی ماہرِ حیاتیات ایچ۔ اینوک باقیاتی اعضاءکے نظریئے پر اعتراض کرتے ہوئے اس منطقی غلطی کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
”گوریلوں کے اند راپینڈکس موجود ہے جبکہ ان کے دور کے رشتہ دار گوریلوں میں یہ عضو مفقود ہے۔ لیکن یہ نچلی سطح کے ممالیہ جانوروں مثلاً اپاسم (زیادہ تر درختوں پر رہنے والا امریکی کیسہ دار خاندان کا جانور جس کی دم گرفت دار ہوتی ہے) میں دوبارہ نمودار ہوجاتا ہے۔ ارتقاءپسند اس بات کا جواب کس طرح دے سکتے ہیں؟“۶۵۱
ےہاں یہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ ارتقاءپسندوں کی طرف سے پیش کیا گیا باقیاتی اعضاءکا منظر نامہ سنجیدہ منطقی غلطیوں سے بھرپور ہے اورہر زاوئےے سے غیر سائنسی ثابت ہوچکا ہے۔ انسانی جسم کے اندر ایک بھی باقیاتی عضو موجود نہیں ہے کیونکہ انسان کسی اتفاق کے ذریعے دوسری مخلوقات کی ارتقائی شکل نہیں بلکہ اس کو اﷲ نے جدید، مکمل اور بے عیب شکل میں تشکیل کیا ہے۔

مطابقت کی فرضی حکایت

مختلف نسلوں کے درمیان ساخت کے اعتبار سے جو تشابہت موجود ہے اس کو مطابقت کا نام دیا گیا ہے۔ ارتقاءپسند اس مطابقت کو ارتقاءکا ثبوت کہتے ہیں۔ ڈارون سمجھتا تھا کہ وہ مخلوق جن کے اعضاءایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ان کے درمیان ارتقائی رشتہ ہے اور یہ مشابہ اعضاءانہوں نے ایک مشترک پرکھا سے ورثے میں پائے ہیں۔ اس کے اس مفروضے کے حساب سے چونکہ کبوترں اور چیلوں کے پر ہوتے ہیں اسی لئے کبوتر، چیل اور دوسرے تمام پروالے پرندے ایک مشترک پرکھا کا ارتقائی نتیجہ ہیں۔ مطابقت کے اوپر بحث ایک پرفریب موضوع ہے جس کی بنیاد محض شکلی تشابہت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
ڈارون کے دور سے آج تک اس نظریئے کو ایک بھی ٹھوس سائنسی دریافت یاتجربہ ثابت نہیں کرسکا۔ دنیا مےں کہیں بھی ایسے کسی بھی خیالی مشترک پرکھا کا فوصل دریافت نہیں ہوا جس کو آپس میں ساخت کے اعتبار سے مطابقت رکھنے والے جانوروں کا پرکھا تسلیم کرلیا جائے۔ اسکے علاوہ مندرجہ ذیل نقاط بھی واضح کر تے ہیں کہ مطابقت کا نظریہ کسی طور سے یہ ثابت نہیں کرتا کہ ارتقاءکا کوئی سائنسی تصور ہے:
۱۔ مختلف جنس سے تعلق رکھنے والی مخلوق میں بھی مشابہہ اعضاءپائے جاتے ہیں جن کے درمیان ارتقاءپسند کسی بھی طرح کا ارتقائی رشتہ ثابت کرنے میں ناکام ہیں۔
۲۔ آپس میں مشابہ اعضاءرکھنے والی کئی مخلوق کی جینیاتی خفیہ تحریر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔
۳۔ مشابہ اعضاءکا قبل از پیدائش وجود میں آنے کی اشکال مختلف مخلوق میں مختلف ہے۔ اب ان تمام نقاط کا تفصیلی معائنہ کیا جائے گا۔
eaglebatfly
چیل، چمگادڑ اور کیڑے مکوڑے سب پردار جانور ہوتے ہیں لیکن ان کا محض مشترک اعضاءکا حامل ہونا اس بات کی علامت ہرگز نہیں ہے کہ وہ کسی مشترک پرکھا کی بھی تدریجی شکل ہیں۔

بالکل مختلف نسلوں کے جانداروں میں یکساں اعضاءکا موجود ہونا

ممالیہ جڑواں جومماثلت کی تردید کرتے ہیں
smilodon, thylacosmilus
دوبے تعلق معدوم قومی دانتوں والے ممالیہ

آنول نال کے حامل اور کیسہ دار ممالیہ ”جڑواں“ کے درمیان غیر معمولی مشابہت کی ایک اور مثال معدوم ممالیہ جانوروں اسمیلوڈون اور )نیچے ہیںجن کے آگے کے دانت )Above اور تھائلو کوسمیلس )اوپر )Below بے انتہا بڑے تھے۔ ان دونوں ممالیہ جانوروں کی کھوپڑیوں اور دانتوں کی ساخت کے درمیان وسیع پیمانے پر مشابہت، جن کے درمیان کسی قسم کا ارتقائی رشتہ بھی قائم نہیں کیا جاسکا، مطابقت کے بارے میں اس رائے کی تردید کرتا ہے کہ جانداروں کے درمیان ایک جیسی ساخت ارتقاءکا ثبوت ہیں۔
تسمانیہ کا بھیڑ یا اوراس کا شمالی امریکہ کا ساتھی
تسمانیہ کے بھیڑیئے کی کھوپڑی, شمالی امریکہ کے بھیڑیئے کی کھوپڑی
شمالی امریکہ کے بھیڑیئے کی کھوپڑی (Left)
تسمانیہ کے بھیڑیئے کی کھوپڑی (Right)
 ممالیہ جڑواں جومماثلت کی تردید کرتے ہیں
آنول نال کے حامل اور کیسہ دار ممالیہ جانوروں کے درمیان ”جڑواں“ نسلوں کی موجودگی دکھایا گیا )Above( مطابقت کے دعوے کے لئے ایک مہلک وار ہے- مثال کے طور پر اوپر کیسہ دار تسمانیہ کا بھیڑیا اور اس کے جڑواں شمالی امریکہ میں پائے جانے والے آنول نال کے حامل بھیڑیئے میں اس قدر غیر معمولی مشابہت ہے کہ وہ عقل کو حیران کرتی ہے۔ اوپر اس دونوں حیوانات کی کھوپڑیاں بھی نظر آرہی ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کسی قسم )Above( کے ارتقائی رشتے کی غیر موجودگی اور اس قدر مشابہت مطابقت کے ہر دعوے کی تردید کرتی ہے۔
کئی ایسی مختلف نسلوں کے جانداروں میں یکساں اعضاءپائے جاتے ہیں جن کے درمیان ارتقاءپسند بھی کسی قسم کا ارتقائی رشتہ ثابت کرنے سے قاصر ہیں۔ ان اعضاءکی ایک مثال پر ہیں۔ پرندوں کے علاوہ چمگادڑ جیسے ممالیہ جانداروں کے بھی پرہوتے ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کے بھی پر ہوتے ہیں حتیٰ کہ ڈائناساروں کے بھی پر ہوتے تھے جوکہ معدوم خزندے ہیں۔حیوانات کی ان چاروں مختلف اقسام کے درمیان کسی بھی قسم کا ارتقائی نوعیت کا خیالی رشتہ بھی موجود نہیں ہے۔ ایک اور حیران کن مثال مختلف جانداروں کی آنکھوں کے درمیان زبردست مطابقت اور ساخت کے اعتبار سے یکسانیت ہے۔ مثال کے طور پر ہشت پایہ جانور اور انسان دو مختلف نسلوں کے جاندار ہیں جن کے درمیان ناقابل بیان حد تک غیر یکسانیت ہے لیکن پھر بھی دونوں کی آنکھیں ساخت اور طریقہ عمل کے حساب سے مشابہ ہیں۔ آنکھوں کی اس یکسانیت کو بنیاد بناکر ارتقاءپسند بھی انسان اور ہشت پایہ کو کسی مشترک پرکھا کا نتیجہ ہونے کا مفروضہ پیش نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ دوسری کئی مثالیں ایسی ہیں جوکہ ثابت کرتی ہیں کہ اعضاءکی تشابہت پر مبنی ارتقائی دعوے سراسر غیر سائنسی ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یکساں اعضاءکا یہ نظریہ ارتقاءپسندوں کے لئے شرمندگی کا مقام ہے۔
مشہور ارتقاءپسند فرینک سالسبری اپنے بیان میں واضح کرتا ہے کہ دو بالکل مختلف جانداروں میں ایک جیسی آنکھوں کی موجودگی مطابقت کے تعطل کو کس طرح اور نمایاں کرتی ہے:
”آنکھ جیسی پیچیدہ چیز بھی کئی جگہ نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر قیر ماہی، فقاریہ جاندار اور انسان سے مشابہ جاندار۔ ان تمام جانداروں کی ابتداءکے بارے میں مفروضے پیش کرناہی کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ان جانداروں کو جدید مصنوعی لائحہ عمل کے ذرےعے کئی بار پیدا کرنے کے صرف خیال سے ہی مجھے چکر آنے لگتے ہیں“ ۔۷۵۱
کئی جاندار ایسے ہیں جوکہ اپنی شکل اور ساخت کے اعتبار سے مطابقت کے باوجود کسی قسم کے ارتقائی رشتہ داری کے مرتکب نہیں ہیں۔ اس کی ایک اور مثال آنول نال پر مبنی اور کیسہ دار ممالیہ جانوروں کے دو بڑے گروہ ہیں۔ ارتقاءپسندوں کے حساب سے یہ فرق ممالیہ جانوروں کی نموداری کے وقت ہی پیدا ہوگیا تھا اور ہر گروہ اپنی ارتقائی تاریخ دوسرے گروہ سے بے نیاز ہوکر جیتا رہا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آنول نال اور کیسہ دار ممالیہ جانوروں میں موجود ’جوڑے‘ تقریباً ایک جیسے ہیں۔ امریکی ماہر حیاتیات ڈین کینن اور پرسیول ڈےوس موضو ع پر رائے زنی کرتے ہیں:
”نظریہ¿ ڈارون کے حساب سے بھیڑیوں، بلیوں، گلہریوں، بھٹ سور، مورخور اور چوہے دو دفع پیدا ہوئے۔ ایک دفعہ آنول نال ممالیہ میں اور دوسری دفعہ آزادانہ طور پر کیسہ دار ممالیہ جانوروں میں۔ یہ حیرت انگیز دعویٰ کہ بے ترتیب اور بے سمت جینیاتی بے ترتیبی اور انتخاب طبعی کی وجہ سے مشترک اعضاءکئی دفعہ مختلف جانداروں میں نمودار ہوئے جن کی آپس میں کسی قسم کی کوئی رشتہ داری نہیں ہے اس بات سے مزید طول پکڑتا ہے۔“ ۸۵۱
اس طرح کی حیرت انگیز تشابہت اور یکساں اعضاءجن کو ارتقاءپسند ماہر حیاتیات صرف یکسانیت کے ثبوت کی طرح قبول ہی نہیں کرپاتے دراصل یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایک مشترک پرکھا سے ارتقاءکے مفروضے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ تو پھر جانداروں میں یکساں قسم کے اعضاءاور ساخت کی تشابہت کی سائنسی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈارون کے نظریئے کا سائنسی دنیا پر حکمرانی ہے۔
کارل لینیس وہ سائنسدان تھا جس نے جانداروں کی گروہ بندی ان کی ساخت کی یکسانیت کے اعتبار سے کی۔ اس نے اور ایک اور سائنسدان رچرڈ اوون نے ان یکساں ساخت کے جانداروں کو’ مشترک‘ تخلیق کا نمونہ قراردیا ہے۔ےعنی کہ یکساں اعضائ، یا جدید اصطلاح میں یکساں جینیات اس لئے ہوتی ہیں کیونکہ ان کو ایک مخصوص مقصد کے لئے بنایا گیا ہے نہ کہ اس لئے کہ وہ اتفاق کے ذریعے کسی مشترک پرکھا کی ارتقائی شکل ہیں۔ جدید سائنسی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ یکساں اعضاءکے متعلق مشترک پرکھا کے ہونے کا دعویٰ سراسر غلط ہے۔ اس کا صرف ایک ہی امکان ہے اور وہ ہے مشترک تخلیق جو کہ پھر اس حقیت کی تصدیق ہے کہ تمام جاندار صرف اﷲ کی تخلیق ہیں۔

مطابقت کا جینیاتی اور جنےنی تعطل

مطابقت کے بارے میں ارتقاءپسندوں کے تمام دعوﺅں کو درست اور سنجیدہ ہونے کےلئے یہ بھی لازم ہے کہ مختلف جانداروں میں یکساں اعضاءیکساں DNA کی معلومات سے بھی مزین ہوں ۔لیکن ایسا نہیں ہے ۔یکساں اعضاءایک دوسرے سے بالکل مختلف جینیاتی معلومات سے مزین ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف جانداروں کے کچھ یکساں جینیاتی معلومات کا تعلق بالکل مختلف اعضاءسے ہوتا ہے۔ مائیکل ڈنٹن ایک آسٹرالوی حیاتیاتی کیمیا کا پروفیسر ہے۔ اس نے اپنی کتاب ”ایوولوشن: اے تھیوری ان کرائسس“ یا ”ارتقائ: ایک پریشان حال نظریہ“ میں مطابقت کی تشریح سے متعلق جینیاتی تعطل کا معائنہ کرتے ہوئے کہا ہے:
”یکساں اعضاءاکثر غیر یکساں جینیاتی نظاموں سے پہچانے جاتے ہیں اور اس مطابقت کے تصور کو شاید ہی جنےنی مطالعہ تک لے جایا جاسکتا ہے۔“ ۹۵۱
human eyeoctopus eye
 
ساخت کے اعتبار سے انسانوں اور آکٹوپس نامی ہشت پایہ صدفے کے درمیان بے انتہا مماثلت ہے لیکن ان دونوں نسلوں کے درمیان ایک جیسے اعضاءکی موجودگی اس بات کا ثبوت کسی طور سے نہیں ہے کہ یہ دونوں نسلیں مشترک پرکھوں کی پیداوار ہیں۔کسی مشترک پرکھے کو بنیاد بناکر ارتقاءپسند بھی انسان اور آکٹوپس کی آنکھ کی مشابہت کو بیان کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اس معاملے کی ایک مشہو رمثال چوپایہ جانوروں کے پانچ ہندوسوں پر مبنی ساخت کے ڈھانچے کی ہے جسکا حوالہ تقریباً ہر ارتقائی نصاب کی کتاب میں دیا گیا ہے ۔چوپائے زمین پر رہنے والے فقاری جاندار ہوتے ہیں جنکے آگے اور پیچھے کے پاﺅں پر پانچ ہندسے ہوتے ہیں ۔گوکہ یہ نشانات ہوبہو ہندوسوں کی طرح ہی نہیں ہوتے لیکن ان کو پنج انگشتی ہونےکی وجہ سے اسی طرح گنا جاتا ہے۔ مینڈکوں، چھپکلیوں اور بندروں کے آگے اور پیچھے کے پاوﺅں کی یہی یکساں ساخت ہوتی ہے۔ پرندوں اور چمگادڑوں کی ہڈیوں کی ساخت بھی اسی بنیادی نقشے کے تحت بنی ہوتی ہے۔
ارتقاءپسندوں نے ہمیشہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ تمام جاندار ایک ہی مشترک پرکھا سے ارتقاءکا نتیجہ ہیں اور انہوں نے جانداروں کی پنج انگشتی خاصیت کو اس دعوے کا ثبوت قراردیا ہے۔ اس دعوے کا ذکر حیاتیات کے تمام اہم ذرائع میں ۰۲ صدی تک ارتقاءکا ایک ٹھوس ثبوت ہونے کی حیثیت سے موجود تھا۔ لیکن ۰۸۹۱ءکے سالوں میں ہونے والی جینیاتی تحقیق نے اس دعوے کی مکمل تردیدکردی جب پتہ چلا کہ مختلف جانداروں کی پنج انگشتی خاصیت مختلف جینیاتی معلومات کے زیر اختیار ہے۔
ارتقائی ماہر حیاتیات ولیم فکس پنج انگشتی ارتقائی مفروضے کا زمین بوس ہونا ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
”ارتقاءکی پرانی نصابی کتابوں میں مطابقت کے موضوع کو بڑھا چڑھاکر بیان کیا گیا تھا جس میں مختلف جانوروں کے اعضاءکے ڈھانچوں کی ظاہری تشابہت پر خاص زور تھا۔ پنج انگشتی ہڈیوں کا نقشہ انسان کے بازو میں بھی ہے، چڑیاکے پر میں بھی ہے اور وہیل مچھلی کے ربڑ کے پیزار میں بھی ہے اور اس مطابقت کو ان کے مشترکہ طریقہ ابتداءکا ثبوت جانا گیا ہے۔ اب اگر اسی مختلف ساخت کو یکساں جینیاتی جوڑے وقت کے ساتھ ساتھ خلیاتی بے ترتیبیوں اور ماحولیاتی انتخاب کے ساتھ ارسال کرتے تو اس دعوے میں تھوڑی بہت صداقت کا پہلو نکالا جاسکتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سےصورتحال اس کے عین مترادف ہے۔ اب پتہ چلا ہے کہ یکساں اعضاءبالکل مختلف نسلوں میں مختلف جینیاتی مرکبات سے تشکیل پاتے ہیں۔ ایک مشترک پرکھا سے یکساں جینیات حاصل ہونے کا مطابقت کا نظریہ مکمل طور پر توڑ پھوڑ کا شکار ہوچکا ہے۔“ ۰۶۱
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ مطابقت سے متعلق ارتقائی مفروضے پر سنجیدگی سے غور کرنے کےلئے یہ لازم ہے کہ ان جانداروں کے نڈے کے اندر یا ماں کے پیٹ میں جنینی ترقی کے مرحلے بھی آپس میں متوازی ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مختلف ساخت کے جانداروں میں جنینی ترقی کے مرحلوں کے درمیان معمولی سی بھی تشابہت یا مطابقت نہیں ہے۔ خلاصے کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جینیاتی اور جنےنی تحقیق سے ثابت ہوگیا ہے کہ ڈارون کا توضیح کردہ مطابقت کے تصور ’جانداروں کے ایک مشترکہ پرکھا سے ارتقاءکا نتیجہ، کسی بھی طرح کے ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملے میں سائنس نے ڈارون کے مفروضے کو ایک بار پھر غلط ثابت کردیا ہے۔

سالمی مطابقت کے دعوے کا ناقص ہونا

Professor Michael Denton
پروفیسرمائکل ڈنٹن ”نظریہ¿ ارتقاءخطرے میں ہے۔“
ارتقاءکے ثبوت کے طور پر مطابقت کا فروغ ناصرف شکلیاتی سطح پر ناقص ہے بلکہ سالمی سطح پر بھی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ارتقاءپسند کہتے ہیں کہ مختلف جاندار نسلوں کے DNA کے اشارات یا ہم آہنگ لحمیاتی ساخت یکساں ہوتی ہے اور یہی یکسانیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ جاندار نسلیں مشترک پرکھا سے یا ایک دوسرے سے ارتقاءکا نتیجہ ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ سالمی موازنات کے نتائج نظریہ¿ ارتقاءکے حق میں ہرگز نہیں ہیں۔ بظاہر یکساں اور آپس میں رشتہ دار مخلوق کے درمیان بھی وسیع سالمی فرق موجود ہے۔
مثال کے طور پر سائٹو کروم ۔ سی نامی لحمیہ جو کہ نظام تنفس کے لئے بے انتہااہم ہے وہ ایک ہی طبقے کے جانداروں میں حیرت انگیز طور پر مختلف ہے۔ اس موضوع پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق پرندوں کی دو مختلف نسلوں کے درمیان جو فرق ہے وہ ایک پرندے اور ایک مچھلی یا ایک مچھلی اور ایک ممالیہ جانور کے درمیان فرق سے زیادہ ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق کچھ پرندوں کے درمیان سالمی فرق انہیں پرندوں اور ممالیہ جانوروں کے درمیان فرق سے زیادہ ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ خرد نامیہ جانداروں کے درمیان سالمی فرق ان کی ساخت کی حیرت انگیز یکسانیت کے باوجود ممالیہ جانوروں اور بربحری جانوروں یا کیڑے مکوڑوں کے درمیان فرق سے کہیں زیادہ ہے۔ ۱۶۱ اسی طرح کے موازنے حمرة الدم، حمرة العضلائ، اعتدال پیدا کرنے والے مادے اور جینیاتی نظام میں بھی انہیں نتائج کے ساتھ کئے گئے ہےں۔ ۲۶۱ سالمی حیاتیات کے شعبے میں اس تحقیق کے متعلق ڈاکٹر مائیکل ڈانٹن کا کہنا ہے کہ:
”ہر طبقہ سالمی سطح پر ایک بے مثل، یگانہ اور وسطی اشکال کے اعتبار سے آزاد ہے۔ اسی لئے فوصلوں کی طرح سالمے بھی ان مبہم وسطی اشکال کو پیش کرنے سے قاصر ہیں جس کی تلاش اتنے عرصے سے ارتقائی حیاتیات کو ہے۔ سالمی سطح پر کوئی جاندار اپنے رشتہ داروں سے موازنی کے طور پر قدیم یا غیر ترقی یافتہ یا جدید نہیں ہے۔ اس بات میں بہت کم شک ہے کہ اگر یہ تمام سالمی ثبوت ایک صدی پہلے موجود ہوتا تو مربوط حیاتیات کا تصور نہ کبھی جڑ پکڑتا اور نہ ہی کبھی قبول کیا جاتا۔“ ۳۶۱

’زندگی کا درخت‘ ڈھے رہا ہے

۰۹۹۱ءکے سالوں میں کی جانے والی جانداروں کے جینیاتی اشاروں پر تحقیق نے ارتقاءپسندوں اور نظریہ¿ ارتقاءکے لئے اس معاملے کو مزید بگاڑدیا۔ ان نئے تجربوں میں لحمیاتی سلسلوں تک محدود سابقہ موازنوں کی بجائے RNA کے سلسلوں کا موازنہ کیا گیا ۔ اس تحقیق کے ذریعے ارتقائی سائنسدانوں کا مقصد ایک ارتقائی درخت کی تعمیر تھا لیکن تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج بے انتہا مایوس کن تھے۔ سائنسی ماہرِ حیاتیات ہر وے فیلیپ اور پیٹرک فورٹیر کے ایک ۹۹۹۱ءمیں چھپنے والے مضمون کے مطابق ”زیادہ سے زیادہ سلسلوں کی دستیابی کے باعث پتہ چلا ہے کہ سب سے زیادہ لحمیاتی امراضیات نہ صرف ایک دوسرے کی بلکہ RNA کے درخت کی بھی باہم متناقض ہیں۔“۴۶۱
RNA کے موازنوں کے علاوہ جانداروں کی جینیات میں موجود DNA کے اشارات کا بھی موازنہ کیا گیا لیکن اس کا نتیجہ ارتقاءپسندوں کے فرض کئے گئے زندگی کے درخت کے عین مترادف تھا۔ ماہرِ سالمی حیاتیات جیمز اے۔ لیک، روی جین اور ماریہسی۔ رےوےرا نے ۹۹۹۱ءمیں چھپنے والے ایک مضمون میں اس کی وضاحت کی ہے:
’سائنسدانوں نے مختلف جانداروں کی کثیر انواع کی جینیات کے تفصیلی معائنے سے نتیجہ اخذ کیا کہ ان کی ایک دوسرے سے رشتہ داری RNA کے معائنے سے بنائے گئے ارتقائی زندگی کے درخت سے مکمل متضاد حالت پر تھی‘۔۵۶۱
نہ تو لحمیات کے درمیان کئے گئے نہ RNAیا جینیات کے درمیان کئے گئے موازنے نظریہ¿ ارتقاءکی بنیادوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ کارل ووسی یونیورسٹی آف الےنائے کا ایک مشہور ماہرِ حیاتیات ہے جو کہ اعتراف کرتا ہے کہ نوعی ارتقاءنے سالمی تحقیق کی روشنی میں اپنا اعتماد اور وقار مکمل طور پر کھودیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
”ابھی تک پیدا کئے جانے والے کئی انفرادی لحمیاتی نوعی ارتقاءکے نمونوں میں سے ایک بھی باقاعدہ ارتقائی وجود حاصل نہیں ہوا ہے۔ نوعی ارتقاءمیں عدم توافق اس عالمی درخت میں ہر جگہ نمایاں ہے۔ اس کی جڑوں سے لے کر اہم شاخوں اور مختلف گروہوں کے درمیان ،یہاں تک کہ بنیادی گروہ بندیوں کی تشکیل میں بھی یہ بے جوڑ پن اور ناموافقت واضح ہے“۔661
یہ حقیقت کہ سالمی موازنوں کے نتیجے نظریہ ارتقاءکے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف ہیں رسالہ سائنس کے ایک ۹۹۹۱ءمیں ”ازاٹ ٹائم ٹو اپروٹ داٹری آف لائف؟“ یا ”کیا زندگی کے درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کا وقت آگیا ہے؟“ کے عنوان سے چھپنے والے مضمون میں واضح کی گئی ہے۔ مضمون کی مصنفہ الیزیبتھ پنیسی لکھتی ہے کہ وہ تمام جینیاتی تحقیق اور موازنات جو کہ ڈارون کے پیروکار ماہرِ حیاتیات نے’ زندگی کے درخت ‘کے اوپر روشنی ڈالنے کے مقصد سے کئے تھے وہ ان کی تو قعات کے عین برخلاف نتائج کے ساتھ الٹا ان کے ہی گلے پڑ گئے۔ اس کے علاوہ اس مضمون میں وہ اس تمام نئی معلومات کے بارے میں بھی بات کرتی ہے جوکہ ارتقائی منظر نامے کو مزید گرد آلود کررہی ہیں:
”ایک سال پہلے وہ ماہرِ حیاتیات جو کہ نئے سلسلوں کے تحت ترتیب دئے گئے ایک ڈزن کے قریب خرد نامیہ جانداروں کے تولیدی مادے کا معائنہ کررہے تھے ان کا خیال تھا کہ یہ نئی معلومات زندگی کی قدیم تاریخ سے متعلق قبول کئے گئے خاکے کو سہارا دینے میں کامیاب رہیں گی۔مگر انھوں نے جو دےکھا اس نے ان کو انگشت بدنداں کر دےا۔اس وقت دستیاب تولیدی مادے نے زندگی کی اہم گروہ بندیوں کی ابتداءسے متعلق تصویروں کو واضح کرنے کی بجائے ان کو مزید گڈمڈ اور دھندلا کردیا اور اب آٹھ نئے خردحیاتی سلسلوں کے ہاتھ میں آجانے سے صورتحال اور بھی الجھ گئی ہے۔ نئے ارتقائی ماہرِ حیاتیات کا خیال تھا کہ وہ اب غیر شفاف طریقے سے ہی سہی لیکن زندگی کی تین اہم بادشاہتوں کی ابتداءکا سراغ لگالیں گے۔ جب مکمل DNAکے سلسلوں نے دوسری طرح کی جینیات کے درمیان موازنے کے امکان کا دروازہ وا کیا تو تحقیق دان پر امید تھے کہ اب ان کا کام صرف ا س درخت کی تفصیلات حاصل کرنا رہ گیا ہے لیکن راکول، میری لینڈ کے انسٹیٹیوٹ فار جینومک ریسرچ یا تولیدی مادے کی تحقیق کے انسٹیٹیوٹ کی سربراہ کلیر فریسر کے الفاظ میں ”کوئی اور بات سچائی سے اسقدر دور نہیں ہوسکتی جتنی کہ یہ بات “۔ارتقاءکی امیدوں کے برخلاف انموازنوں سے حاصل ہونے والے زندگی کے درخت کی گوکہ کئی مختلف اشکال حاصل ہوئیں لیکن تمام اشکالRNAکے درخت اور ایک دوسرے کے عین برعکس تھےں“۔۷۶۱
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ جیسے جیسے سالماتی حیاتیات کی تحقےق میں ترقی ہوتی گئی اسی طرح مطابقت کا تصور بھی بے معنی ہوتا گیا۔ لحمیات RNA اور جینیات کے درمیان موازنوں نے صرف یہ ثابت کیا کہ وہ تمام مخلوق جن کو نظریہ¿ ارتقاءکے مطابق ایک دوسرے کا قریبی رشتہ دار تصور کیا جاتا تھا وہ دراصل ایک دوسرے سے ناقابل یقین حد تک مختلف ہیں۔ ایک ۶۹۹۱ءمیں کی جانے والی تحقیق نے ۸۸ لحمیاتی سلسلوں کو استعمال کرتے ہوئے خرگوشوں کی چوہے، گلہری اور اود بلاﺅ جیسے جانوروں کی بجائے حیوان رئیسیہ مثلاً بندروں اور انسانوں کے ساتھ گروہ بندی کردی۔ ۸۹۹۱ءمیں ۹۱ حیوانی نسلوں کے ۳۱ جینیات کی تحقیق نے چپٹے خارپوستوں کو حبل ظہری کے ساتھ ملادیا۔ ایک اور ۸۹۹۱ءمیں کی جانے والی ۲۱ لحمیات کی تحقیق نے گائے کو گھوڑوں سے دور اور وہیل مچھلی کے زیادہ قریب دکھایا۔ ماہرِ سالمی حیاتیات جوناتھن ویلز نے اس صورتحال کی تشریح ۰۰۰۲ میں ان الفاظ میں کی:
”مختلف سالموں کے ذریعے وجود میں آنے والے درختوں میں بے ربطیاں اور کچھ سالماتی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والے بدہیئت درختوں نے نوعی ارتقاءکے سالمی تصورات کو شدیدتباہی کی راہ میں دھکیل دیا ہے۔“۸۶۱
نوعی ارتقاءکے سالمی تصورات کو مصیبت کا شکار ہونے کا مطلب ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءبھی مصیبت کا شکار ہے۔(نوعی ارتقاءکااشارہ مختلف جانداروں کے درمیان ازروئے دعویٰ ’خاندانی رشتہ داریوں‘ کی طرف ہے جوکہ نظریہ¿ ارتقاءکی فرضیبنیاد ہے۔) ایک بار پھرسائنس اس بات کی تردید کرتی ہے کہ جاندار نسلیں ایک دوسری کی ارتقائی اشکال ہیں اور ثابت کرتی ہے کہ تمام جاندار گروہ انفرادی طور پر تخلیق کئے گئے ہےں۔

استرجاع کی خیالی کہانی

Haeckel
ہیکل ایک ایسا ارتقاءپسند تھا جس کو ڈارون سے بھی بڑھ کر پرجوش اور جذباتی کہا جاسکتا ہے۔ اس کو سائنسی معلومہ مواد مسخ کرنے اور مختلف جعل سازی کے طریقے ایجاد کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔
استرجاع کا نظریہ کافی عرصے پہلے سائنسی کتب سے خارج کیا جاچکا ہے لیکن اس کو پھر بھی آج کئی ارتقاءپسند جریدے ایک سائنسی حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس نظریئے کا خلاصہ یہ ہے کہ جنین پرورش پانے کے دوران اپنی نوع کی سابقہ ارتقائی صورتوں سے گزرتا ہے۔ ’خلاصہ روداد ‘کی یہ اصطلاح اس قول کا خلاصہ ہے کہ’ فرد کی ابتدائی نشوونما نوعی ارتقاءکو دہراتی ہے‘۔ اس قول کو ارتقائی ماہرِ حیاتیات ارنسٹ ہیکل نے ۹۱ صدی کے آخر میں تجویز کیا تھا۔ ہیکل کے اسنظریئے کے حساب سے جاندار جنین اس تمام ارتقائی عمل کے مرحلات سے گزرتے ہیں جن سے ان کے خےالی آباو اجداد بھی گزرے تھے۔ اس نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ اپنی ماں کے پیٹ میں انسانی جنین پہلے مچھلی کی خصوصیات ظاہر کرتا ہے پھر خزندے کی اور سب سے آخر وہ انسانی شکل میں بدل جاتا ہے۔
آج سائنس نے اس نظریئے کو مکمل طور پر رد کردیا ہے۔ اب یہ پتہ چلا ہے کہ انسانی جنین کی نشوونما کے اول دنوں میں نظر آنے والے مچھلی نما گلپھڑے دراصل کان کے وسطی حصے میں موجود نہر، غدہ ورقیہ سے ملا ہوا جز اور غدہ تیموسیہ کیاول اشکال ہیں ۔جنین کاوہ حصہ جس کو انڈے کی زردی کی تھیلی سے مشابہ سمجھا جاتا تھا درحقیقت وہ مخصوص تھیلی ہے جو کہ بچے کے لئے خون فراہم کرتی ہے۔ وہ حصہ جس کے بارے میں ہیکل اور اس کے پیروکاروں نے دم ہونے کا دعویٰ کیا تھاوہ ریڑھ کی ہڈی ہے۔ وہ دم جیسی شکل اس لئے پیش کرتی ہے کیونکہ یہ ٹانگوں سے پہلے تشکیل ہوجاتی ہے۔ یہ تمام باتیں سائنس کی دنیا کی کلیہ طور پر مانی جانے والی حقیقتیں ہیں جن کا ارتقاءپسند سائنسدانوں سے بھی زیادہ اعتراف کرتے ہیں۔ جورج گیلارڈ سمسن نوڈاروینی فلسفے کے بانیوں میں سے ایک ہے اور لکھتا ہے:
”ہیکل نے یہاں پر استعمال کئے گئے ارتقائی اصولوں کی غلط بیانی کی تھی۔ یہ اب اچھی طرح سے ثابت ہوچکا ہے کہ فرد کی ابتدائی نشوونما نوعی ارتقاءکوہرگز نہیں دہراتی۔رسالہ ”امریکن سائنٹسٹ“ کے ایک مضمون کے حساب سے 961
”غالباً حیاتیاتی جینیات کا قانون دروازے کی ایک کیل کی مانند مردہ ہے۔ اس کو حیاتیاتی نصاب کی کتابوں سے ۰۵۹۱ءکے سالوں میں ہی سختی کے ساتھ رد کردیاگےا تھا اور ۰۲۹۱ءکے سالوں میں ہی یہ ایک سنجیدہ مفروضے کے طور پر معدوم ہوچکا تھا۔“۰۷۱
”خلاصہ روداد“ کا ایک دلچسپ پہلو ارنسٹ ہیکل بذات خود تھا۔ وہ ایک جعل ساز تھا جوکہ جعلی خاکوں اور تصویروں سے اپنے جھوٹے نظریئے کا پرچار کرتا تھا۔ یہ انہیں جعلی خاکوں کا کمال تھا جنہوں نے مچھلی اور انسانی جنین کے درمیان مشابہت پیدا کرکے لوگوں کی عقل کو مفلوج کیا۔ جب اس کی جعل سازی پر سے پردہ اٹھا تو اس نے اپنے دفاع میں صرف یہ کہا کہ دوسرے ارتقاءپسند بھی اسی طرح کی غلطیوں میں ملوث ہیں:
”جعل سازی کے اس سمجھوتا نما اعتراف کے بعد میں یقینا اپنے آپ کو نامنظور اور شکست خوردہ تصور کرتا اگر مجھے اس بات کی تسلی نہ ہوتی کہ میرے ساتھ مجرموں کے اس گروہ میں سوﺅں کے حساب سے میری ہی طرح کے اور بھی مجرم موجود ہیں جن میں سے کچھ تو قابل اعتماد تماشائی ہیں اور کئی قابل ترین ماہرِ حیاتیات ہیں۔ بہترین حیاتیاتی نصابی کتابوں ، علمی مقالوں اور جریدوں میں موجود خاکوں کا بڑا حصہ اسی طرح کی جعل سازی کے الزامات کا حقدار ہے کیونکہ وہ سارے کے سارے غیر معین ہیں اور کم و بیش کسی انسان کی ذہنی تخلیق کا نتیجہ ہیں۔ یہ خاکےانسانی ذہنوں سے سوچے گئے اور انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے خفیہ کارروائیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔“۱۷۱
haeckel’s fraudulent drawıngs
ہیکل کے پرفریب خاکے انسان اور مچھلی کے جنین کے درمیان مشابہت کو ثابت کرنے کے لئے یہ خاکے ہیکل نے گھڑے ہیں۔ اگر اس کے خاکے کا ایک اصل انسانی جنین سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے دانستہ طور پر کئی اصل انسانی اعضاءکا استعمال اپنے خاکے میں نہیں کیا ہے۔ (Francis Hitching, “The Neck of the Giraffe: Where Darwin Went Wrong”, p. 205)
جعلی برانن ڈرائنگ
یقینا اس جرم مےں کئی سوﺅں کے حساب سے’ ساتھی مجرم موجود ہیں جن میں کئی تو انتہائی قابل اعتماد تماشائی اور قابل ترین ماہرِ حیاتیات ہیں ‘جن کی تحقیق متعصب نتائج، غلط بیانیوں، جعل سازیوں اور مسخ کئے ہوئے خاکوں سے بھرپور ہیں۔ ان سب مجرموں کی جیت کی وجہ لوگوں کا نظریہ¿ ارتقاءکو ہر حال میں درست مان لینے کا تہیہ ہے جس کے تحت ان کو اس کے خلاف واضح ترین ثبوت بھی اس لئے نظر نہیں آتا کہ گویا ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو۔ اس نظریئے کو ثابت کرنے کے لئے سائنس کی ایک دھجی بھی موجود نہیں لیکن پھر بھی مجرموں کا یہ حکایت نامہ دنیا بھر میں مقبول ہے۔

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder