17 Mart 2016 Perşembe

چودھواں باب: ذرائع ابلاغ: نظریہ¿ ارتقاءکے لئے آکسیجن کا خیمہ

چودھواں باب:

ذرائع ابلاغ: نظریہ¿ ارتقاءکے لئے آکسیجن کا خیمہ

ب تک پیش کی جانے والی تمام معلومات سے ثابت ہوا ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءکا تکیہ کسی سائنسی تحقیق کے اوپر نہیں ہے ۔لیکن دنیا کے زیادہ تر لوگ اس نظریئے کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ارتقاءنتےجوں اور دلائل کے ذریعے ثابت کی گئی سائنسی سچائی ہے۔ اس دھوکے کی سب سے بڑی وجہ ذرائع ابلاغ کا ارتقاءکے متعلق منظم تشہیرا ور طویل تلقین ہے۔ اسی وجہ سے ضروری ہے یہ اس منظم تشہیر اور تلقین کے لائحہ عمل پربھی روشنی ڈالی جائے۔اگر مغربی ذرائع ابلاغ کا غور سے معائنہ کیاجائے تو پتہ چلے گا کہ ےہاں نظریہ¿ ارتقاءکے متعلق کثیر تعداد میں خبریں چھپتی رہتی ہیں۔ نمایاں ذرائع ابلاغ کے ادارے اور جانے پہچانے قابل عزت رسالے وقتاً فوقتاً اس موضوع کو ابھارتے رہتے ہیں۔
ارتقاءکے موضوع پر اگر ان شائع کردہ بیانات کو ایک عام اور سائنسی حقائق سے نابلد شخص کے نقطہ¿ نظر سے پڑھا جائے تو ارتقاءکا ایک اےسا ثابت کردہ حقیقت ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا جس کے اوپر مزید کسی بحث و مباحثہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔عام لوگ اس طرح کی خبریں پڑھ کر قدرتی طور پر یہی سوچنے لگتے ہیں کہ ارتقاءکا وجود ریاضی کے کسی قانون کی طرح مسلم ہے۔ امتیازی ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی ارتقاءکے متعلق خبروں کو تمام رسالے، اخبار اور دوسرے جریدے بھی چھاپنے لگتے ہیں۔ ان کی سرخیاں جلی حروف میں کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں ”ٹائم میگزین کے مطابق ”فوصلی زنجیر کی خالی جگہ کو پر کرنے والا فوصل دریافت ہوگیا ہے“ یا ”رسالہ نیچر کی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے ارتقائی نظریئے کے غیر حل شدہ معاملوں کا سراغ پالیا ہے۔“ یہ ارتقائی زنجیر کی خالی جگہ کو پر کرنے والے فوصل کا مل جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتاکیونکہ جب ارتقاءکے متعلق ہی کوئی ایک ثبوت بھی موجود نہیں تو پھر یہ خالی جگہ کا پر ہونا چہ معانی؟
جیسے کہ پچھلے بابوں میں بتایا گیا ہے کہ آج تک ارتقاءکے متعلق سامنے لاےا گیا ہر ثبوت جھوٹا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے علاوہ سائنسی ذرائع، انسائیکلوپیڈیا اور حیاتیاتی کتب میں بھی ارتقاءکے متعلق چھپنے والا ہر لفظ جھوٹ ہے۔ ذرائع ابلاغ اور تعلےمیحلقے جو کہ خلاف دین عناصر کے طاقت ور مرکزوں کے رحم و کرم پر ہیں انہوں نے بھی اپنا ایک کٹر ارتقاءپسند نقطہ نظر بنالیا ہے جس کو وہ معاشرے پر اپنی مختلف تحریکوں کے ذریعے ٹھونستے رہتے ہیں۔ ان کی انہیں پراثر تحریکوں کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاءایک کبھی نہ رد کئے جانے والے نظریئے کی شکل دھارگیا ہے۔ ارتقاءکی نفی کرنے کو سائنس سے انحراف کرنا جانا جاتا ہے اور ارتقاءکے انکار کو بنیادی حقائق سے انکار گردانا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس نظریئے مےں خاص طور پر ۰۵۹۱ءسے لے کر اب تک کئی خامیوں کے سامنے آنے اور ان خامیوں کا کئی ارتقاءپسند سائنسدانوں کے منہ سے اعتراف سننے کے باوجود سائنسی حلقوں یا ذرائع ابلاغ میں نظریہ¿ ارتقاءکے بارے میں معمولی سا بھی تنقیدی پہلو تلاش کرنا ناممکن ہے۔ سائنٹیفک امریکن، نےچر، فوکس، ڈسکووری، سائنس اور نیشنل جیوگرافک حیاتیات اور قدرت کے موضوع پر مغرب کے امتیازی، نامور اور باعزت ترین رسالے ہیں جو کہ نظریہ¿ ارتقاءکو ایک سرکاری فکریاتی نظام کے طور پر اپناتے ہوئے اس کو دنیا کے سامنے ایک ثابت کردہ حقیقت کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔

خوبصورت کاغذ میں لپٹے ہوئے جھوٹ

ارتقاءپسندوں کی ایک نہایت عمدہ کہانی
وہیل
تمام عجیب و غریب ارتقائی کہانیوں میں سے ایک وہیل مچھلی کے ارتقاءسے متعلق نیشنل جیوگرافک میں چھپنے والی ےہ کہانی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس رسالے کا شمار دنیا کے چوٹی کے سنجیدہ سائنسی رسالوں میں ہوتا ہے: ساٹھ ) ۰۶ ( لاکھ سال قبل شروع ہوا جب بال دار، ً ”وہیل مچھلی کا اس کے موجودہ عظیم حجم تک پہنچنے کا سفر غالبا چوپایہ ممالیہ جانداروں نے غذا یا پناہ کی تلاش میں پانی کا رخ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان جانداروں میں تبدیلیاں آگئیں ان کی پچھلی ٹانگیں غائب ہوگئیں اور اگلی ٹانگیں تیراکی کرنے والے مخصوص بازوؤں میں تبدیل ہوگئےں۔ ان جانوروں کے بالوں کی جگہ موٹی، چکنی چربی نے لے لی، نتھنے سر کے اوپر چلے گئے، دم چوڑی ہوکر دو ابھرواںحصوں میں بدل گئی اور وہیل مچھلی پانی کی دنیا کا سب سے بڑا جانور بن گئی۔“ ۱

اس کہانی کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے کسی ایک بھی سائنسی ثبوت کی غیر موجودگی کے علاوہ یہ حکایت قدرت کے ہر قانون کے خلاف بھی ہے۔ اس کہانی کانیشنل جیوگرافک جیسے رسالے میں چھپنا اس جیسے دوسرے نام نہاد مشہور، سائنسی رسالوں کے مغالطے سے بھرپور اور ناقص دلائل پر مبنی مضامین کی نشاندہی کرتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے ذرےعے مہےا کئے گئے دماغ شوئی کے طریقوں سے ارتقاءپسند دل بھر کے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کئی لوگ ارتقاءکے اوپر اس غیر مشروط انداز میں یقین رکھتے ہیں کہ وہ ”کیسے“ اور ”کیوں“ جیسے سوالات پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے ارتقاءپسندوں کو اپنے جھوٹ اور مبالغہ آرائیوں کو اور بھی کھلے عام لپٹ لپٹ کر بانٹنے کی چھوٹ مل گئی ہے۔ مثال کے طور پر اعلیٰ ترین معیار کی ”سائنسی“ ارتقائی کتابوں میں بھی پانی سے زمین پر منتقلی کو ،جو کہ ارتقاءکا سب سے بڑا ناقابل فہم معاملہ ہے ،نہایت بیوقوفانہ سادگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ارتقاءکے مطابق زندگی پانی میں شروع ہوئی اور سب سے پہلے بننے والی مخلوق مچھلیاں تھیں۔ ایک دن یہ مچھلیاں کسی وجہ سے زمین کے اوپر اچھل اچھل کر آنے لگیں۔ قحط کو اکثر اس کی وجہ کہا جاتا ہے۔ وہ مچھلیاں جنہوں نے زمین کے اوپر مستقلاً رہنے کا فیصلہ کرلیا ان کے کھپروں کی جگہ پےر اور گلپھڑوں کی جگہ پھیپھڑے تھے۔
ارتقاءکی زیادہ تر کتابیں اس موضوع کے ”کیسے“ کے متعلق بات نہیں کرتیں حتیٰ کہ معتبر ترین ”سائنسی“ ذرائع میں بھی ’پانی سے زمین پر منتقلی حاصل ہوگئی‘ جیسے جملوں کے پیچھے چھپی واضح نامعقولیت بھی لوگوں کو سچائی دکھانے سے قاصر ہے۔ یہ منتقلی کس طرح حاصل ہوئی تھی؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مچھلی پانی سے باہر چند منٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ یہ قحط واقع ہوا اور مچھلیوں کو زمین کی طرف آنا پڑا تو مچھلیوں کا کیا حال ہوا ہوگا؟ اس کا جواب تو واضح ہے کہ پانی سے نکلنے والی مچھلیاں ایک ایک کرکے مرتی چلی گئی ہوں گی۔
اگر یہ عمل ۰۱ لاکھ سال کے عرصے پر بھی محیط رہا ہو تو بھی اس کا جواب وہی رہے گا کہ مچھلیاں ایک ایک کرکے مرتی چلی جائیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھیپھڑے جیسا مکمل اور پیچیدہ عضو اچانک کسی اتفاقی حادثے یا جینیاتی بے ترتیبی کے ذریعے حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر ارتقاءپسند یہ کہیں کہ پہلے مرحلے میں آدھا پھیپھڑا حاصل ہوگیا اور باقی پھپھڑا تھوڑے عرصے بعد تشکیل ہوا تو یہ بات اور بھی زیادہ عقل سے عاری اور مضحکہ خیز ہوگی کیونکہ آدھا پھیپھڑا مچھلی تو کیا کسی اور جاندار کے بھی کسی کام کا نہیں۔اس حقیقت کے باوجود ارتقاءپسند ےہ دعویٰ کئے چلے جاتے ہیں ۔پانی سے زمین پر منتقلی اور زمین سے ہوا میں منتقلی ان کے پسندیدہ ترین موضوعات ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اور ازروئے دعویٰ جستیں انہیں غیر منطقی اصطلاحوں کے ذریعے بیان کی جاتی ہیں۔ لےکن جب بیحد پیچیدہ اعضاءیعنی کہ آنکھ اور کان کی تشکیل کی بات آتی ہے تو ارتقاءپسند سائنسدان خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔سڑک پر چلتے عام آدمی کو سائنس کی ان من گھڑت حکایتوں سے متاثر کرنا آسان ہے۔
سب سے پہلے پانی سے زمین پر منتقلی کے تصوراتی خاکے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پانی میں موجود مخلوق کے لئے، زمین پر اس کے رشتہ دار کے لئے اور ان دونوں کے درمیان وسطی عبوری نوعیت کی خیالی مخلوق کے لئے بھاری بھرکملاطینی نام ایجاد کئے جاتے ہیں۔ آخر میں ساری کڑیوں کو جوڑنے کے لئے ایک لمبا سفید جھوٹ تجویز کیا جاتا ہے کہ ”یوستھینوپٹرون پہلے اپیتھسشین کروسوپرجین میں تبدیل ہوگیا اور پھر کئی ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد اکتھویو سٹیگا میں ڈھل گیا“۔ اگر ان الفاظ کو موٹا چشمہ اور سفید کوٹ پہنے سائنسدان کے منہ میں ڈال دیا جائے تو اس جھوٹ سے لاکھوں لوگ با آسانی متاثر ہوسکتے ہیں کیونکہ ذرائع ابلاغ بھی مکمل طور پر اس سائنسدان اور اس کی نئی دریافت کی نہ صرف حمایت کرے گا بلکہ پوری دنیا میں اس خبر کو زبردست جوش و خروش کے ساتھ پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کریگا۔

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder