17 Mart 2016 Perşembe

تیرھواں باب: نظریہ¿ ارتقائ: ایک مادی جواب دہی

تیرھواں باب:

نظریہ¿ ارتقائ: ایک مادی جواب دہی

اس کتاب میں موجود تمام معلومات سے صرف یہ ثابت ہوا ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءکی کوئی سائنسی بنیاد نہیں بلکہ تمام ارتقائی دعوے سائنسی حقائق سے میلوں دور ہیں۔ ےعنی کہ تخلیق کو سہارا دینے والی طاقت سائنس نہیں ہے۔ گوکہ نظریہ¿ ارتقاءجیسی فرضی حکایت کو کئی سائنسدانوںنے اپناحوالہ دیا ہے لیکن ارتقاءکی کہانی کو زندہ رکھنے میں کسی اور طاقت کا ہاتھ ہے۔ یہ دوسری طاقت مادیت پسند فلسفہ ہے۔
مادیت پسند فلسفہ دنیا کے پرانے ترین عقیدوں میں سے ایک ہے اور مادے کو اپنا بنیادی اصول بناتا ہے۔ اس نظریئے کے حساب سے مادہ ہمیشہ وجود میں رہا ہے اور دنیا میں موجود ہر چیز مادے سے تشکیل ہوئی ہے- اس نظریئے کے تحت خالق کے اوپر یقین ناممکن ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر مادہ ہمیشہ وجود میں رہا ہے اور ہر چیز مادے سے ہی بنی ہوئی ہے تو کسی بھی ایسے خالق کا تصور کرنا ہی محال ہے جس نے اس مادے کو تخلیق کیا ہو۔ اسی لئے مادیت ہمیشہ ہر اس عقیدے کے خلاف رہی ہے جو خدا پر یقین پرزور دیتا ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مادیت پسند نقطہ نظر درست ہے؟
کسی بھی فلسفے کی سچائی کو جانچنے کا ایک طریقہ اس کا سائنس کے متعلق کئے گئے بیانات کو سائنسی طریقوں سے پرکھنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ۵۱ ویں صدی میں کسی نے د عویٰ کیا کہ چاند کی سطح پر ایک الوہی درخت ہے جس کی شاخوں پر تمام جاندار پھلوں کی صورت میں اگے اور پھر پکنے کی صورت میں زمین پر گرگئے تو شاید کچھ لوگوں کے لئے یہ فلسفہ بے انتہا دلچسپ اور قابل یقین ہو۔ لیکن ۰۲ ویں صدی میں جب انسان چاند پر چہل قدمی کرکے واپس آچکا ہے تو اب اس فلسفے کوسنجیدگی سے برتنا کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔ اس درخت کی موجودگی کا تعین مشاہدے اور تجربے جیسے سائنسی طریقوں سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اس مادیت پسند دعوے کا بھی سائنسی طریقوں سے باضابطہ تحقیق کرنا ممکن ہے کہ مادہ ہمیشہ ہمیشہ سے موجودرہا اور اس کے اندر اپنے آپ کو کسی بھی خالق مطلق کی مدد کے بغیر جاندار اشکال میں ترتیب دے لےنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جب سائنسی طریقوں سے اس دعوے کی تحقیق شرو ع کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مادیت پسند فلسفہ تو کب کا زمین بوس ہوچکا ہے کیونکہ مادے کا ہمیشہ سے موجود ہونے کا خیال ’بگ بینگ تھیوری‘ یا کائنات کا ایک زبردست مادی دھماکے سے وجود میں آنے کے نظریئے کے تحت رد کیا جاچکا ہے۔
یہ دعویٰ کہ مادے نے اپنے آپ کو خود ترتیب دے کر زندگی کی تخلیق کرلی دراصل وہی نظریہ¿ ارتقاءہے جس کے متعلق اس کتاب میں تفصیلی تحقیق کی گئی ہے اور اس کے تباہ ہوجانے کوبھی ثابت کردیا گیا ہے۔ لیکن اگر کوئی مادیت پر یقین رکھنے پر مصر ہو اور مادیت پسند عقیدے پر اعتقاد کو ہرچیز سے افضل مانتا ہو تو اس کا ردِعمل مختلف ہوگا۔ اگر وہ مادیت پسند پہلے اور ایک سائنسدان بعد میں ہوتو وہ ارتقاءکو سائنس کے ہاتھوں رد کئے جانے کے باوجود اپنے مادیت پسند عقیدوں سے کنارہ کشی نہیں کرے گا۔ اس کے برخلاف وہ ہر صورت میں ارتقاءکو سہارا دیتے ہوئے اپنے مادی عقائد کی بھرپور حمایت کرےگا۔ یہ من و عن وہی پریشان کن صوتحال ہے جس کے اندر آج نظریہ¿ ارتقاءکے حمایتی ارتقاءپسند بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً وہ اپنی اس پریشانی کا اعتراف بھی کردیتے ہیں۔ رچرڈ سی۔ لیوانٹن ہاروڈ یونیورسٹی کا ایک جانا پہچانا مشہور ماہرِ جینیات اور صاف گو ارتقاءپسند ہے- لیوانٹن ان الفاظ میں اپنے مادیت پسند پہلے اور سائنسدان بعد میں ہونے کا صاف اعتراف کرتا ہے:
”بات یہ نہیں ہے کہ سائنسی طریقے او ررواےات ہم پر دنیا کے بارے میں مادیت پسند وضاحتوں کو ماننے پر زور لگاتے ہیں مگر اس کے برخلاف ہم خود اپنے مادیت پسند عقیدوں پر سختی سے جمے رہنے پر مجبور ہیں۔ اس مجبوری کے تحت ہم وہ تمام تحقیقی آلات اور عمومی تصورات تشکیل کرلیتے ہیں جن کے نتائج مادیت پسند ہی ہوں۔ چاہے یہ نتیجے کتنے ہی عقل کے برخلاف اور ناقابل فہم ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمارے لئے مادیت حتمی ہے اور اس معاملے میںہم کسی خدا یا نہ مداخلت کا تصور بھی برداشت نہیں کرسکتے۔“۲۷۱
لیوانٹن اپنی بحث میں ایک فلسفی اصطلاح استعمال کرتا ہے جس کا اشارہ ایک ایسے تصور کی طرف ہے جس کی بنیاد ہر قسم کے تحقیقاتی علم سے عاری ہے۔ کوئی معموملی سی بھی سوچ اس طرح کا تصور بن سکتی ہے اگر اس کو درست مانتے ہوئے اس کی تصدیق سے متعلق معلومات موجود ہوتے ہوئے بھی اس کو قبول کرلیا جائے۔ ارتقاءپسند لیوانٹن صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ ارتقاءپسندوں کے لئے مادیت ایسا ہی ایک تصور ہے جس کو درست ثابت کرنے کی کاوشوں میں وہ سائنس کو اس حساب سےڈھال لیتے ہیں کہ اس کی تصدیق سائنس کے ذریعے ہو سکے۔ چونکہ مادیت کا بنیادی دعویٰ ہی خالق کی ذات سے انحراف ہے اس لئے مادیت پسند اپنے سامنے موجود اس واحد راستے کا چناﺅ کرلیتے ہیں جوکہ اس مقصد اور عقیدے کی تکمیل تک جاتا ہے اور وہ ہے نظریہ¿ ارتقاءپر یقین اور مکمل اعتقاد ۔ان سائنسدانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ سائنس نے ارتقاءکو رد کردیا ہے کیونکہ انہوں نے ارتقاءکے ہر اصول کو آنکھ بند کرکے سچا مان لیا ہے۔اس متعصبانہ رویئے کے تحت ارتقاءپسندوں کا یہ عقیدہ بن گیا ہے کہ بے جان مادے نے اپنی تشکیل خود کرلی ہے، جوکہ ناصرف سائنس بلکہ منطق کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ رابرٹ شاپیرو نیویارک یونیورسٹی میں کیمیا کا پروفیسر اور ماہرِ DNAہے۔ اس کی رائے اس کتاب میں پہلے بھی استعمالکی جاچکی ہے۔ شاپیرومندرجہ ذیل الفاظ میں ارتقاءپسندوں کے اس عقیدے اور مادیت پسند فلسفے کے کٹرپن پر رائے زنی کرتا ہے:
”ہم کو سادے قدرتی کیمیا کے مرکابت سے پہلی اثر انگیز نقل پذیری کے آلے کے درمیان کا فاصلہ طے کرنے کے لئے ایک اور ارتقائی اصول کی ضرورت ہے۔ یہ اصول نہ تو ابھی تک تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے اور نہ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن اس کی امید ابھی تک برقرار ہے اور اس کو کیمیائی ارتقاءاور مادے کی خود تشکیلی صلاحیت جیسے نام بھی دے دئے گئے ہیں۔ اس اصول کی فرضی موجودگی کو جدلیاتی مادیت پسند فلسفے میں قبولیت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ بلکہ ایلکسزانڈر اوپارن نے زندگی کی ابتداءپر اس اصول کو لاگو بھی کردیا ہے“ ۔۳۷۱
مغربی تشہیراتی ذرائع اور مشہور اور نامور سائنسی رسالوں میں جتنی بھی ارتقاءپسند عقیدوں کی تبلیغ اور پرچار نظر آتا ہے وہ اسی فکریاتی ضرورت کا نتیجہ ہے۔ چونکہ ارتقاءکو ناگزیر خیال کرلیا گیا ہے اس لئے اس کو سائنس کے معیار بنانے والے حلقوں نے ایک قابل پرستش گائے کی حیثیت دے دی ہے۔ کچھ سائنسدان اپنے آپ کو ایسے مقام پر پاتے ہیں جہاں پر وہ اس ناقابل یقین نظریئے کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں یا کم از کم اس کے خلاف کچھ بھی بولنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کی ساکھ اورنام کا اس قسم کی مخالفت سے متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں علمی اداروں سے منسلک لوگوں کا مخصوص طرح کے سائنسی جریدوں میں اپنے مضامین کا چھپنا ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو ثابت کرنے کے لئے نہایت اہم ہوتا ہے۔ حیاتیات سے متعلق تمام جریدے ارتقاءپسندوں کے قابو میں ہیں اور وہ ان میں کسی بھی طرح کے غیر ارتقائی رجحان کے مضامین کا چھپنا ناممکن بنادیتے ہیں۔اسی وجہ سے ماہرحےِاتیات اپنے تمام تجربات کو نظریہ¿ ارتقاءکے تسلط کے زیر اثر رکھنے پرمجبور ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس منظم تحریک کا حصہ بننے پر مجبور ہیں جوکہ ارتقاءکو ایک فکریاتی ضرورت کا درجہ دیتی ہے۔ اسی لئے یہ تمام سائنسدان اس کتاب میں پیش کئے گئے تمام ناممکن اتفاقات پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔

مادیت پسندوں کے اعترافات

جرمنی کا ماہرِ حیاتایت ہوائمروان۔ ڈٹفرتھ ایک نامور ارتقاءپسند ہونے کے ساتھ ساتھ کٹر مادیت پسندانہ ذہنیت کی بہترین مثال بھی ہے۔ زندگی کی بے انتہا پیچیدہ ترتیب کی ایک مثال دینے کے بعد اس کا اتفاق سے نمودار ہونے کے امکان کے سوال کے جواب میں وہ کہتا ہے:
”صرف اتفاق کے ذریعے نمودار ہونے والا یہ نظم کیا واقعی ایک حقیقت ہوسکتی ہے؟ تمام حیاتیاتی ارتقاءکے بارے میں یہی ایک بنیادی سوال ہے۔ اس سوال کا جواب’ ہاں’ یا’ ممکن ہے‘ ، میں دینا اس طرح ہے جیسے جدید قدرتی سائنس پر اعتقاد کی تجدید کی جائے۔ تنقیدی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں جوکوئی بھی جدید قدرتی سائنس کو قبول کرتا ہو اس کے پاس ”ہاں“ کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ اس کا مقصد قدرتی واقعات کو قابل فہم طریقوں سے بیان کرنا ہے اوراس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ یہ نتائج کسی بھی مافوق الفطرت مداخلت کے بغیر قدرتی قوانین سے اخذ کرے۔ البتہ اس نقطے پر ہرچیز کو قدرتی قوانین کے تحت بیان کرنا کہ یہ صرف اتفاقات کا نتیجہ ہیں اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس شخص کے پاس ایسا کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ وہ اتفاقات پر یقین رکھنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے؟“ ۴۷۱
نظریہ ¿ ڈارون اور مادیت
سائنس کی واضح تردید کے باوجود نظری ¿ ڈارون کی مستقل حمایت اس کے اور مادیت کے درمیان قریبی واسطہ ہے۔ ڈارون نے مادی فلسفے کو مادی دنیا کے مطالعے سے تعلق رکھنے والے علوم پر لاگو کردیا اور اب اس فلسفے کے تمام حمایتی جن میں مارکسی صفِ اول ہیں، نظریہ ڈارون کی حمایت ہر قیمت پر کئے چلے جاتے ہیں۔ ارتقاءکاایک مشہور دور حاضر کا حمایتی ہے۔ فوٹائما لکھتا ہے: ¿ ڈگلس فوٹائما ایک ماہرِ حیاتیات اور نظریہ ارتقاءمشین کاری اور مادیت کے چبوترے کا ایک نہایت اہم تعمیراتی تختہ ¿ ”مارکس کے تارےخ کے اوپر مادی نظریئے کے ساتھ ڈارون کا نظریہ تھا۔“ ارتقاءکی حمایت مادہ پرستوں کے لئے ناگزیر کیوں ہے۔ ۱ ¿ فوٹائما کایہ بیان اس بات کو واضح کرتا ہے کہ نظریہ ایک اور مشہور ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات ارتقاءپسند اسٹیفن جے گولڈ کا کہنا ہے کہ: ”ڈارون نے قدرت کی تشریح کے لئے ایک مستقل مادی فلسفے کا استعمال کیا تھا۔“ ۲ لیون ٹروٹسکی لیلن کے ساتھ روس کے اشتراکی انقلاب کا ہدایتکار تھا۔ اس کا کہنا تھا: ”ڈارون کی دریافت مربوط مادے کے پورے میدان میں منطقی مناظرے کی سب سے بڑی فتح ہے۔“ ۳ ڈارون مادیت کے لئے جیت نہیں تھی بلکہ اس فلسفے کی تباہی کا نشان ¿ ان تمام بیانات کے برعکس سائنس نے آج یہ ثابت کردیا ہے کہ نظریہ تھا۔

leon trotsky, ٹروٹسک charles darwin,  ڈارونkarl marks, مارکس
ٹروٹسکڈارونمارکس

1- Douglas Futuyma, Evolutionary Biology, 2nd ed., Sunderland, MA: Sinauer, 1986, p. 3
2- Alan Woods and Ted Grant, "Marxism and Darwinism", Reason in Revolt: Marxism and Modern Science, London, 1993
3- Alan Woods and Ted Grant. "Marxism and Darwinism", London, 1993
ڈٹفرتھ کے بیان کے مطابق مادیت پسند سائنسی طریقہ عمل اپنے بنیادی اصول کے طور پر زندگی کو مافوق الفطرت مداخلت کے تحت بیان کرنے کا عقیدہ اپناتا ہے۔ یعنی کہ وہ تخلیق کو مکمل طور پر رد کردیتا ہے۔ جب اس اصول کو اپنالیا جاتا ہے تو ناممکن ترین مفروضوں پر بھی یقین کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ تقریباً تمام ارتقائی کتب میں اس کٹر نوعیت کی ذہنیت کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ ترکی کا مشہور ارتقائی نظریوں کا وکیل پروفیسر علی ڈیمر سوئے بھی اس ذہنیت کی بہترین مثال ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے، ڈیمر سوئے کے حساب سے ”زندگی کے اہم ترین لحمیہ سائٹوکروم ۔سی کے اتفاقی وجود میں آنے کا امکان اتنا ہی ہے جتنا کہ ایک بندر کا ٹائپ رائٹر کی مدد سے بغیر کوئی غلطی کئے انسانیت کی تاریخ کو لکھنا۔“۵۷۱
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے کسی امکان کو قبول کرنے کا مطلب ہے کہ عقل اور منطق کے بنیادی اصولوں کو مکمل طور پر رد کردیا جائے۔ کسی صفحے پر صحیح ٹائپ ہوا ایک خط بھی بلاشبہ اس بات کی تصدیق ہے کہ اس کے پیچھے ایک انسانی ہاتھ ہے۔اگر دنیا کی تاریخ کی کوئی کتاب دیکھی جائے تو یہ بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس کو ایک مصنف نے بڑی محنت سے مکمل کی ہے۔ کوئی بھی عقلمند شخض اس بات پر یقین نہیں کرسکتا کہ اتنی بڑی کتاب میں موجود حروف اتفاق سے خود بہ خود ترتیب ہوگئے۔ اسی لئے یہ بات اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ پروفیسر علی ڈیمرسوئے جیسا ارتقائی سائنسدان اس طرح کا غیر منطقی مفروضہ قبول کرسکتا ہے:
”حقیقت میں سائٹو کروم۔ سی سلسلے کی تشکیل کا امکان صفر کی طرح ہے۔ یعنی کہ اگر زندگی کو کسی مخصوص سلسلے کی ضرورت ہو تو اس تمام کائنات میں اس سلسلے کے وجود میں آنے کا امکان صرف ایک ہوگا۔ ورنہ تو پھر کسی ہماری سمجھ سے بالامابعدالطبیعیاتی قوت نے اس کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے۔ چونکہ بعد والی صورتحال کو زیر غور لانا سائنسی طور پر نامناسب ہے اس لئے ہم کو پہلے والے مفروضے کو ہی درست ماننا پڑے گا۔“۶۷۱
ڈیمر سوئے لکھتا ہے کہ وہ ناممکن کو قبول کرنے کو زیادہ ترجیح دے گا تاکہ اس کو بعد الطبیعیاتی طاقت کا اعتراف نہ کرنا پڑے، یعنی تاکہ اس کو کسی خالق کے وجود کا اعتراف نہ کرنا پڑے۔ یہ بات تو اچھی طرح واضح ہے کہ اس نوعیت کے طریقہ¿ کار کا سائنس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اسی لئے ڈیمر سوئے کی ایک اور موضوع پر رائے بھی زیادہ حیران کن نہیں لگتی۔ خلئے کے اندر موجود خیطی ذروں (اکثر تولیدی خلیوں میں پایا جانے والا جسمےہ جس میں تنفس اور توانائی کی پیدائش کے لئے خامرے موجود ہوتے ہیں) کو بھی ڈیمر سوئے اتفاقیہ وجود میں آنا کہتا ہے گوکہ یہ خیال اس کے نزدیک سائنسی سوچ کے مترادف ہے:
”مسئلے کا مرکز یہ ہے کہ آخرخیطی ذروں نے اپنی یہ خاصیت کس طرح حاصل کی کیونکہ اس خصوصیت کا اتفاقی طور پر ایک انسانی جسم میں بھی وجود میں آنے کا مطلب اتنے شدید امکانات کی موجودگی ہے کہ جن کا تصور بھی محال ہے۔ یہخیطی ذرے تنفس میں مدد دیتے ہیں اور ہر مرحلے پر عامل غیر مبدل کے طور پر پورے نظام کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہر خلئے میں اس سالمے کا مکمل سلسلسہ موجود ہونا لازمی ہے ورنہ وہ خلیہ ناکارہ ہے۔ یہاں پر حیاتیاتی سوچ کے برخلاف کسی اور کٹر وضاحت یا قیاس سے بچنے کے لئے ہم ہچکچاتے ہوئے ہی سہی لیکن اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ تنفس کے سالمے خلیوں کے اندر مکمل طور پر خلئے کے آکسیجن سے رابطہ ہونے سے پہلے سے موجود تھے“۔۷۷۱
مادیت کی سائنسی موت
ارتقاءکے سہارے کے طور پر ۹۱ ویں صدی کی ¿ نظریہ مادیت یہ دعویٰ کرتی تھی کہ تمام کائنات ابد سے موجود ہے ،یہ تخلیق نہیں کی گئی اور مربوط دنیا کو مادے کے باہمی تعامل کے ذریعے سمجھانا ممکن ہے۔لیکن ۰۲ ویں صدی کے سائنس نے ان تمام مفروضوں کی مکمل تردید کردی ہے۔گوکہ یہ قیاس کافی عرصے تک تھا کہ کائنات ازل سے موجود ہے لیکن مادی دھماکے کے نظریئے یا ’بگ بینگ تھیوری‘ کی دریافت سے اس قیاس کا خاتمہ ہوگیا ۵۱ کروڑ سال پہلے واقع ہوا اور اس ً ۔یہ مادی دھماکہ اندازا کے حساب سے کائنات کی تمام مادی اشیاءخلا سے نمودار ہوئیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ تخلیق کی گئی ہیں۔ مادیت کے ایک نمایاں حمایتی اور دہریہ فلسفہ دان اینتھنی فلو کہتا ہے:

”گوکہ اعتراف کرنا بدنام ہونے کے مترادف ہے لیکن میں پھر بھی اعتراف کروںگا کہ کسی بھی دہریہ انسان کےلئے جدید مادی دھماکے پر عمومی اتفاق شرمندگی کا باعث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ایسا لگتا ہے جیسے تمام ماہرِ کونیات کائنات کی شروعات کا سائنسی ثبوت پیش کررہے ہوں۔“

مادی دھماکہ اپنے ہر مرحلے میں یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ کائنات ایک با اختیار تخلیق کار کے ہاتھوں وجود میں آئی ہے۔ مادی دھماکے کے بعد پیدا ہونے والا نظم اس بات کا اہم ثبوت ہے۔ اس نظم کا کسی بے اختیار دھماکے کی صورت میں تشکیل ہونا ناممکن ہے۔ مشہور طبیب پال ڈیوس اس صورتحال پر ان الفاظ میں تبصرہ کرتا ہے:

”اس تصور کو رد کرنا بہت مشکل ہے کہ کائنات کی موجودہ ساخت ،جو اعداد کی خفیف حرکت سے بھی متاثر ہوجاتی ہے، وہ بہت احتیاط اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وجود میں آئی ہے۔ اعدادی اوصاف کی بظاہر معجزاتی ہم جائی جوکہ قدرت کی طرف سے اس کے بنیادی اجزاءکو عطا ہوئی ہے وہ کائناتی نقشے کا سب سے جبری ثبوت ہے۔“

یہی حقیقت امریکی کلیات کے پروفیسر جورج گرینسٹائن کو یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ:

”جیسے جیسے ہم تمام کوائف کا مشاہدہ کرتے ہیں، ایک ہی سوچ بار بار ذہن میں ابھرتی ہے کہ کائنات کی اس تخلیق میں ضرور کسی ماورائی ذریعے کا اثر ہے۔“۳

غرضیکہ یہ مادی مفروضہ کہ زندگی کو صرف مادے کے باہمی تعامل کے ذریعے ہی بیان کیا جاسکتا ہے ، سائنس کی تمام جدید دریافتوں کے سامنے زمین بوس ہوگیاہے۔ اس مفروضے کو سب سے زیادہ نقصان جینیاتی معلومات کی ابتداءکے متعلق سائنسی تحقیق نے پہنچایا کہ کسی بھی مادی ذریعے سے نہیں کی ً جاندار وجود کی توضیح خالصتا رتقاءکا ایک نامور حمایتی ¿ جاسکتی ۔جورج ولیمز نظریہ ہے۔اس حقیقت کا اعتراف وہ اپنے ایک ۵۹۹۱ ءمیں لکھے گئے مضمون میں کرتا ہے:

”ارتقائی ماہرِ حیاتیات اس بات کو سمجھنے سے قاصر اثرات ¿ ہیں کہ وہ دراصل کم و بیش دو ناقابل پیمائش دائرہ کی حدود میں کام کرتے ہیں۔ ایک معلومات کا اور دوسرا مادے کا۔ جین کوئی شے نہیں بلکہ معلومات کا ذخیرہ ہوتی ہے جس سے مادہ اور معلومات حیات کے دو مختلف دائرہ اثرات میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ لازم ہے کہ ان دونوں پر کیا جانے والا کوئی بھی مباحثہ ان کے ان دائروں کی مخصوص شرائط کے تحت ہی کیا جائے۔“ ۴

یہ صورتحال اس مادی حکمت کا ثبوت ہے جوکہ جینیاتی معلومات کو ممکن بناتی ہے۔ مادے کا خود ساختہ طور پر معلومات پیدا کرنا ناممکن ہے۔جرمنی کے جرمن انسٹیٹیوٹ آف فیزکس اینڈ ٹکنولوجی کے ناظم اعلیٰ پروفیسر ورنر گرٹ کا کہنا ہے:

”تمام ذاتی مشاہدے اس بات کو صاف ظاہر کرتے ہیں کہ اپنی مرضی سے سوچتے اور عمل کرتے جاندار کے اندر عقل اور تخلیقی صلاحیت کاموجود ہونا لازم ہے۔ قدرت کے اندر کوئی ایسا قانون، عمل یا واقعات کا سلسلہ موجود نہیں جس کے ذریعے مادے میں معلومات خود بہ خود وجود میں آسکیں۔“ ۵

یہ تمام سائنسی حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ الله تعالیٰ نے اپنی حکمت اور قوت سے پوری کائنات اور اس میں موجود ہر جاندار چیز کو تخلیق کیا۔ جہاں تک مادیت کا سوال ہے تو اس صدی کے ایک نامور فلسفہ دان آرتھرکوسٹلر کا کہنا ہے کہ ”مادیت اب کسی بھی طور سے ایک سائنسی فلسفہ نہیں کہلایا جاسکتا۔“ ۶

Henry Margenau, Roy A. Vargesse, Cosmos, Bios, Theos, La Salle IL, Open Court Publishing, 1992, p. 241----1
Paul Davies, “God and the New Physics”, New York: Simon and Schuster, 1983, p. 189----2
Hugh Ross, “The Creator and the Cosmos”, Colorado Springs, CO:Nav-Press, 1993, p. 114-15-----3
George C. Williams, “The Third Culture: Beyond the Scientific Revolution”, New York,----4
Simon and Schuster, 1995, p. 42-43 Werner Gitt, “In the Beginning was Information”, CLV, Bielefeld, Germany, p. 107, 141----5
Arthur Koestler, “Janus: A Summing Up”, New York, VIntage Books, 1978, p. 250-----6
ان تمام بیانات سے یہ خلاصہ سامنے آتا ہے کہ ارتقاءایک ایسا نظریہ ہرگز نہیں ہے جس کی بنیاد سائنسی تحقیق ہے۔ اس کے برخلاف اس نظریئے کا ظاہر اور باطن مادیت پسند فلسفہ کی ضروریات نے اپنے تحکمانہ ہدایات کے تحت تشکیل دیا ہے۔وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ یہ فکریاتی نظام ایک کٹر عقیدے کا روپ دھارگیا۔ تمام ارتقائی کتب سے صاف ظاہر ہے کہ ارتقاءپسندوں کی تمام محنت کے پیچھے ایک خاص مقصد ہے جس میں جانداروں کی تخلیق پر یقین مکمل طور پر مفقود ہے چاہے اس طرزِ سوچ کی کوئی بھی قیمت ہو۔ ارتقاءپسند اس مقصد کو ”سائنس“ کا نام دیتے ہیں۔ دراصل ارتقاءکی جس خاصیت کو وہ سائنس کا نام دیتے ہیں وہ مادیت کا فلسفہ ہے۔
مادیت حتمی طور پر مادے کے علاوہ ہر قوت کی نفی کرتی ہے جس کے اندر مابعدالطبیعیاتی قوت بھی شامل ہو۔ سائنس کا ایسے کسی کٹر عقیدے پر اعتقاد لازم نہیں ہے۔ سائنس کے معنی قدرت کی تحقیق اور اس تحقیق کے ذریعے اخذ کئے گئے نتائج ہیں۔ اگر ان نتائج کا خلاصہ یہ ہو کہ قدرت کو تخلیق کیا گیا ہے تو سائنس پر اس نتیجے کو درست ماننا لازم ہے۔ ایک سچے سائنسدان کا یہ اولین فرض ہے۔ اس کا فرض کسی بھی طور پر ۹۱ ویں صدی کے فرسودہ مادیت پسند عقائد کو سینے سے لگاکر ناممکن منظر ناموں کی حمایت کرنا نہیں ہے۔


Hiç yorum yok:

Yorum Gönder