17 Mart 2016 Perşembe

دسواں باب ارتقاءکا سالمی تعطل

دسواں باب

ارتقاءکا سالمی تعطل

کتاب کے پچھلے حصوں میں بتایا گیا ہے کہ فوصلی ریکارڈ کس طرح نظریہ¿ ارتقاءکو ناقص بنادیتا ہے۔ یہ ثبوت پیش کرنے کی درحقیقت کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ارتقاءکے متعلق تمام نظریئے فوصلی ثبوت تک پہنچنے سے پہلے ہی زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ وہ موضوع جو کہ اس نظریئے کو شروع سے ہی بے معنی بنادیتا ہے وہ زندگی کا زمین پر نموداری کا سوال ہے۔
اس سوال کے جواب میں نظریہ¿ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ زندگی ایک واحد خلئے سے شروع ہوئی جو کہ اتفاقاً وجود میں آگیا تھا۔اس منظر نامے کے حساب سے چار کروڑ سال پہلے کئی بے جان کیمیائی مرکبوں کے درمےان زمین کے قدیمی ماحول میں رد عمل پیش آیا جس کی وجہ سے گرج چمک اور ماحولیاتی دباﺅ کے سبب سے پہلا جاندار خلیہ وجود میں آگیا۔ یہاں پر پہلی وضاحت تو یہ کرنا لازمی ہے کہ محض یہ دعویٰ کہ بے جان چیزیں آپس میں مل کر جاندار چیز پیدا کرسکتی ہیں دراصل ایک ایسا غیر سائنسی دعویٰ ہے جس کی تصدیق کوئی تجربہ یا مشاہدہ آج تک نہیں کرسکا۔ زندگی صرف زندگی سے وجود میں آتی ہے۔ ہر جاندار خلیہ کسی دوسرے جاندار خلئے کی نقل ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی آج تک غیر جاندار اشیاءکو آپس میں ملاکر جاندار خلیہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ حتیٰ کہ دنیا کی جدید ترین تجربہ گاہیں بھی ایسا کوئی معجزہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔البتہ نظریہ¿ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ وہ جاندار خلیہ جو کہ انسانی عقل، علم اورفنیات کی تمام طاقت مل کر نہیں بناسکی وہ زمین کے کروڑوں سال پہلے کے قدیم ماحول میں محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ اس باب میں ہم اس بات کا تفصیلی معائنہ کریں گے کہ ارتقاءپسندوں کا یہ دعویٰ کس طرح سے سائنس اور منطق کے بنیادی اصولوں سے مکمل انحراف کرتا ہے۔

اتفاقاً پیدا ہونے واے خلئے کی کہانی

اگر کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ جاندار خلیہ محض اتفاق سے وجود میں آگیا تو اس کو مندرجہ ذیل کہانی پر یقین لانے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ یہ ایک چھوٹے سے شہر کی کہانی ہے۔
ایک دن بنجر زمین پر موجود پتھروں کے بیچ پھنسی ہوئی کچھ مٹی بارش کے پانی سے گیلی ہوگئی۔ یہ گیلی مٹی سورج کے نکلنے کے بعد سوکھ کر سخت ہوگئی اور اس کے اندر قوت مدافعت پیدا ہوگئی۔بعد میں یہ پتھر جنہوں نے سانچے کا کام بھی کیا تھا اس کے کسی طرح ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوگئے اور پھر ایک صاف ستھری شکل کی مضبوط اینٹ کی شکل دھارگئے۔ یہ اینٹ اسی قدرتی ماحول میں سالوں ایک اور اپنی جےسی اینٹ کے بننے کا انتظار کرتی رہی۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس جگہ پر ہزاروں اسی طرح کی اینٹیں جمع نہیں ہوگئےں۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی اینٹ کسی نقصان کا شکار نہیں ہوئی ۔ باوجود ہزاروں سال کے طوفانوں، بارشوں، ہواﺅں، سورج کی تیز روشنی اور شدید ٹھنڈ کے باوجود کسی بھی اینٹ میں معمولی سی بھی دراڑ نہیں پڑی اور نہ وہ ٹوٹیں یا اپنی جگہ سے ہلیں بلکہ نہایت قطعیت سے ایک ہی جگہ پر دوسری اینٹیں بننے کاانتظار کرتی رہیں۔
جب کافی مقدار میں اینٹیں جمع ہوگئیں تو انہوں نے ماہرانہ طور پر اپنے آپ کو ترتیب دیتے ہوئے ایک بہترین عمارت تعمیر کرلی۔ ان کی ترتیب کسی ہوا، طوفان یا آندھی کا بے ترتیب نقشہ نہیں تھا بلکہ ایک انتہائی منظم تعمیر کاثبو ت تھا۔ ان کو جوڑنے والے سیمنٹ اور مٹی کے مرکبات بھی ان کی طرح قدرتی عوامل کے ذریعے وجود میں آئے اور ان اینٹوں کے درمیان خود ہی گھس کر ان کو چپکانے اور آپس میں جوڑنے کا اہم کام انجام دیتے رہے۔ ان تمام واقعات کے دوران زمین کے نیچے قدرتی حالات کے تحت لوہا بننا شروع ہوگیا جو کہ خاص طور پر اس عمارت کی بنیادوں میں استعمال ہوگا جوکہ ان اینٹوں سے بنے گی۔ اس تمام عمل کے نتیجے میں ایک مکمل عمارت اپنی تمام تر ضروری لوہے اور لکڑی کے پرزوں اور بجلی کی تاروں سمیت کھڑی ہوگئی۔
ظاہر ہے کہ ایک عمارت صرف بنیادوں، اینٹوں اور سیمنٹ ہی کا مرکب نہیں ہوتی۔ تو پھر باقی دوسری چیزیں کہاں سے آئیں گی؟ اس کا جواب آسان ہے۔ جس طرح کا سامان اس عمارت کی تعمیر کے لئے ضروری ہے وہ سب اس زمین کے اندر موجودہے جس کے اوپر وہ عمارت کھڑی ہے مثلاً شیشوں کے لئے سیلیکون، بجلی کی تاروں کے لئے تانبا، بنیادوں کے ستونوں اور پانی کے پائپوں کے لئے لوہا وغیرہ سب زمین کے اندر وافر مقدار میں موجود دھاتیں ہیں۔ صرف قدرتی کیفیات کی ہنرمندی سے یہ دھاتیں ضرورت کے تحت اشکال میں ڈھل کر عمارت کے اندر پہنچ جائیں گی۔ اینٹوں کے اس ڈھانچے میں تمام پائپ، لکڑی کا کام اور دوسری ضروری چیزیں اڑتی ہوا، بارش اور زلزلوں کی مدد سے اپنی صحیح جگہ پر پہنچ جائیں گی۔ہرچیز اتنے منظم اور مکمل طریقے سے تعمیر ہوگی کہ اینٹوں نے صحیح جگہوں پر کھڑکیوں کی جگہ بھی چھوڑدی ہو گی تاکہ قدرتی عوامل بعد میں شیشہ نامی چیز بناکر یہاں پر کھڑکیاں لگادیں۔ اس کے علاوہ اینٹیں، پانی، بجلی اور ایئرکنڈیشنر کے نظام کے لئے مناسب جگہ بھی موجود ہو گی جو کہ بعد میں محض اتفاقاً ہی وجود میں آجائیں گے۔ ہر چیز بہترین طریقے سے وجود میں آتی ہے ۔غرضےکہ اتفاقات اورقدرتی عوامل ایک مکمل عمارت تعمیر کردےں گے۔
اگر کسی کو اب بھی اس کہانی کے سچ ہونے کا یقین ہے تو اس کو اس شہر کی دوسری عمارتوں، سڑکوں، کارخانوں، چھوٹی عمارتوں اور گھروں کا بھی ا سی طرح سے وجود میں آنے پر بھی مکمل یقین آجائے گا۔ اگر کسی کے اندر تکنیکی سمجھ بوجھ ہو اور جو اس موضوع سے تھوڑا آشنا ہو تو اس کو ایک ایسی سائنسی نوعیت کی کتاب لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی جس کے اندر وہ شہر کے نظامِ نکاسی اور دوسری عمارتوں کے ساتھ اس عمارت کی ہم آہنگی کے اوپر اپنا ذاتی ارتقائی سائنسی مقالہ پیش کرے۔ ذہانت کے اس بھرپور مظاہرے پر بہت ممکن ہے کہ ایسے مصنف کو کئی تعلیمی انعامات سے نوازا جائے اور مصنف خود کو ایک غیر معمولی ذہنی اور تخلیقی صلاحیت کا حامل سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہ کرے۔ نظریہ¿ ارتقاءبھی اسی طرح سے دعویٰ کرتا ہے کہ زندگی اتفاقاً وجود میں آئی اور یہ نظریہ¿ اس کہانی ہی کی طرح واہیات اور نامعقول ہے کیونکہ جسم کی تمام تر ذمہ دارےاں، رابطے، نقل و حمل اور انتظامی نظام تو اےک طرف، ایک واحد خلیہ بھی کسی ایک پورے شہر سے کم پیچیدہ اور اہم نہیں ہے۔

خلئے کا معجزہ اور ارتقاءکا اختتام

ایک زندہ خلئے کی پیچیدہ ساخت ڈارون کے زمانے میں سامنے نہےں آئی تھی۔ اس زمانے میں ارتقاءپسندوں کا زندگی کی ابتداءکو اتفاقات اور قدرتی عوامل کا نتیجہ ہونا کہہ دینا ہی لوگوں کو اس دھوکے میں لانے کےلئے کافی تھا۔ لیکن ۰۲ صدی کی تکنیکی اور سائنسی مہارت نے زندگی کے اس سب سے چھوٹے ترین پرزے کے اندر جاکر اس کی اصلیت کو جاندار اجسام کی پیچیدہ ترین تنظیم ثابت کردیا ہے۔ آج پوری دنےا کو پتہ ہے کہ خلیوں کے اندر طاقت کے کارخانے لگے ہیں جوکہ خلئے کو کارآمدرکھنے کے لئے مستقل طاقت پیدا کرتے ہیں۔ یہ ان لحمیوں کو پیدا کرنے کا کارخانہ ہیں جو کہ مخصوص حیاتیاتی کیمیائی ردعمل میں عمل انگیز کا کام کرتے ہیں۔خلئے ایک ایسا بینک ہیں جن میں ان تمام انتضامات کے متعلق معلومات داخل ہوتی ہیں جو اس نے جسم میں پیدا کرنے ہیں۔ خلیہ ایک پیچیدہ نقل و حمل کا نظام ہے اور جسم کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں انتضامی اشیاءاور خام مال لے کر جانے کا نہایت اہم کام بھی انجام دیتا ہے۔خلئے کی شکل میں جسم میں نہایت ترقی یافتہ تجربہ گاہیں موجود ہیں جو کہ باہر سے آنے والے خام مال کو توڑنے اور قابل استعمال بنانے والے کارخانے بھی ہیں۔ خلیوں کی مخصوص لحمیاتی جھلی اس کے اندر آنے والے اور باہر جانے والے اجزاءکو قابو میں رکھتی ہے۔ یہ تمام کام خلیوں کے نہایت پیچیدہ نظام کی ہلکی سی جھلک ہے۔
خلئے کی پیچیدگی
ارتقاءکا سالمی تعطل
خلیہ انسانی ذہن اور عقل کے سامنے سب سے زیادہ پیچیدہ اور اعلیٰ نظام ہے۔ حیاتیات کے پروفیسر مائیکل ڈنٹن نے اپنی

کتاب ”ایوولوشن اے تھیوری ان کرائسس“ یا ”ارتقائ: ایک پریشان حال نظریہ“ میں خلئے کی پیچیدگی کی وضاحت کی ہے: ”سالماتی حیاتیات کے ذریعے سامنے لائی گئی زندگی کی حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے ہمیں ایک خلئے کو ایک ہزار لاکھ سے ضرب دے کر اتنا بڑا کرنا پڑے گا کہ اس کا قطر بیس کلومیٹر ہوکر ایک عظیم ہوائی جہاز کے مشابہ ہوجائے جوکہ لندن اور نیویارک جیسے بڑے شہروں کو بھی ڈھک دے۔ اس وقت ہمارے سامنے ایک ایسی شے آئے گی جوکہ پیچیدگی اور صلاحیت کے اعتبار سے بے مثل ہوگی۔ a موافقت کی

خلئے کی سطح پر لاکھوں مہین سوراخ نظر آئیں گے جس طرح کہ ایک بہت بڑے جہاز کے پہلو میں روشن دان ہوتے ہیں۔ یہ سوراخ مستقل کھلنے اور بند ہونے کے عمل میں ہوتے ہیں تاکہ مختلف اجزاءاس کے اندر اور باہر جاسکیں۔ اگر ہم ان میں سے کسی سوراخ سے خلئے کے اندر داخل ہوجائیں تو ہم اپنے آپ کو انتہائی ترقی یافتہ اور تکنیکی دنیا میں پائیں گے جس کی پیچیدگی کا تصور بھی محال ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو کہ اتفاق کی مکمل ضد ہے۔ خلئے ساخت اور انتظام کی مہارت انسانی عقل کے ذریعے بنائی گئی کسی بھی چیز سے کہیں زیادہ ممتاز اور اعلیٰ ہےں۔
ارتقائی سائنسدان ڈبلیو۔ایچ۔ تھارپ کہتا ہے ”سب سے سادے خلئے کے اندر بھی ایک ایسا نظام موجود ہے جس کو بنانا تو دور کی بات، انسان نے تصور بھی نہیں کیا ہے۔“۵۰۱
ایک خلئے کی ساخت اس قدر پیچیدہ ہے کہ جدید ترین تکنیکی صلاحیت بھی اس کو بنانے سے قاصر ہے۔ خلیہ بنانے کی ہر کوشش ہمیشہ سے ناکام رہی اور اس لئے سائنسدانوں نے اب ایسی کسی کوشش کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا ہے۔ لےکن نظریہ¿ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ یہ نظام جس کی نقل انسان اپنی تمام تر عقل، تعلیم اور جدید ترین تکنیکی صلاحیتوں کے باوجود نہیں کرسکا وہ زمین کے قدیم ترین ماحول کے زیر اثر محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ خلئے کے اچانک وجود میں آجانے کی ایک اور مثال ایسی ہے جیسے کہ کتابوں کے طباعت خانے میں دھماکے ہوجانے کی بناءپر ایک بہترین کتاب کا وجود میں آجاناہے۔
انگریز ماہرِ ریاضی اور ہیئت دان سرفریڈ ہائل نے رسالہ ”نیچر“ کی ۲۱ نومبر ۱۸۹۱ءکی اشاعت میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں اسی طرح کا ایک موازنہ کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ خود ایک ارتقاءپسند ہے ہائل کہتا ہے کہ: ”اعلیٰ زندگی کی اقسام کا اس طرح اتفاق سے وجود میں آنا اسی طرح کی بات ہے کہ گویا ایک آندھی کا کباڑ خانے سے گزرنے پر اس میں موجود ٹین ٹبار کے ساتھ ایک بوئنگ ۷۴۷ طیارہ وجود میں آجائے۔“۶۰۱
اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ خلیوں کا محض اتفاق کی بناءپر وجود میں آجانا ممکن ہی نہیں۔ خلئے صرف تخلیق کے ذریعے وجود میں آئے ہیں۔ایک اور بنیادی وجہ جس کی بناءپر نظریہ ارتقاءخلیوں کی ابتداءبیان کرنے سے قاصر ہے وہ اس کے اندر موجود ”ناقابل تخفیف پیچیدگی“ ہے۔ ایک جاندار خلیہ اپنے آپ کو کئی ترکیبی حصوں کے تعاون سے زندہ رکھتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی حصہ ناکارہ ہوجائے تو خلیہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ خلیہ کے پاس کسی انتخابِ طبعی یا جینیاتی بے ترتیبی جیسے غیر شعوری طریقہ¿ عمل کا انتظار کرنے کا وقت نہیں ہوتا جوکہ اس کو ترقی دینے یا زندہ رہنے میں مدد دے سکے۔ اسی لئے زمین پر پہلا خلیہ بے شک اور لازماً ایک مکمل خلیہ تھا جس کے اندر تمام ترکیبی نظام اور کارگزاری کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ اس لئے خلیہ صرف تخلیق ہی کیا جاسکتا ہی، اتفاقاً نہیں بن سکتا۔

لحمیات اتفاق کو للکارتے ہیں

خلیہ تو دور کی بات ہے نظریہ¿ ارتقاءتو خلیہ کے تعمیراتی اجزاءکو بیان کرنے میں بھی ناکام ہے۔ قدرتی ماحول کے زےرِاثر خلئے کے کئی ہزار تعمیراتی لحمی سالموں میں سے کسی ایک لحمیہ کے وجودمےں آنے کا جواب دینا بھی ناممکن ہے۔ لحمیات بہت بڑے سالمی وجود ہوتے ہیں جوکہ ”امینوترشے“ نامی مزید چھوٹے ارکان کا مرکب ہوتے ہیں جوکہ مخصوص سلسوں اور مخصوص تعداد اور ساخت کے حساب سے خلئے کے اندر ترتیب وار موجود ہوتے ہیں۔ ”امینو ترشوں“ کے یہ ارکان جاندار لحمیوں کے تعمیراتی اجزاءہوتے ہیں۔ سب سے سادہ لحمیہ بھی ۰۵ امینو ترشوں کا مرکب ہوتا ہے جبکہ کئی لحمیوں کے اندر ہزاروں کی تعداد میں امینو ترشے موجود ہوتے ہیں۔ یہاں پر ضروری نقطہ یہ ہے کہ کسی بھی لحمیہ کی ساخت میں ایک بھی امینو ترشے کی غیر موجودگی، اضافہ یا بے دخلی اس لحمیہ کو ایک بے کار سالمیاتی ڈھیر میں تبدیل کردیتا ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءجس کے دعوے کے مطابق زندگی محض اتفاق ہے وہ اس ترتیب کی حقیقت کے سامنے بے بس ہے کیونکہ ےہ بے ترتیبی کسی اتفاقیہ واقعہ کے ذریعے بیان نہیں کی جاسکتی۔ (اس کے علاوہ یہ نظریہ لحمیات کی اتفاقی ابتداءکو بھی بیان نہیں کرسکتا جیسے کہ آگے بتایا جائے گا)
הודאות של חסידי אבולוציה
oparin
ایلکسزانڈراوپارن ”خلیہ کی ابتداءابھی تک ایک سوال ہے۔“
ارتقاءکو سب سے زیادہ پریشانی زندگی کی ابتداءکو بیان کرنے میں پیش آتی ہے۔ اس کی وجہ ¿ نظریہ یہ ہے کہ مربوط سالمے اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ان کی تشکیل کو محض اتفاق کہہ دینا ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح مربوط خلئے کا بھی اتفاق اور حادثے کی بدولت وجود میں آجانا قطعی ناممکن ہے۔ارتقاءپسندوں کو زندگی کی ابتداءسے متعلق سوالوں کا سامنا ۰۲ ویں دی کی دوسری چوتھائی میں ہوا۔ روسی ارتقاءپسند ایلکسنرانڈر اوپارن سالمی ارتقاءکا ایک سربرآوردہ سائنسدان ہے۔ اس نے اپنی ۶۳۹۱ ءمیں چھپنے والی کتاب ”دااوریجن آف لائف“ یا ”زندگی کی ابتدائ“ میں لکھا ہے:
ارتقاءکا تاریک ترین پہلو ¿ ”بدقسمتی سے خلئے کی ابتداءایک ایسا سوال ہے جوکہ بلاشبہ پورے نظریہ ہے۔“ ۱
Jeffrey Bada
جفری بادا ”سب سے بڑا غیر حل شدہ مسئلہ: ”زمین پر زندگی کی ابتداءکیسے ہوئی؟“
اوپارن کے بعد بھی کئی ارتقاءپسندوںنے لاتعداد تجربوں، ہر نوعیت کی تحقیق اور مشاہدوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خلیہ اتفاق سے وجود میں آیا ہے۔ لیکن ان کی ہر کوشش صرف اسکے برعکس خلئے کی انتہائی پیچیدہ ساخت کومزےد واضح کرتی چلی گئی اور انکے ہر دعوے کی تردید مضبوط تر ہوتی گئی۔ یونیورسٹی آف جوہانس، گوٹنبرگ میں حیاتیاتی کیمیاءکے انسٹیٹیوٹ کا سربراہ پروفیسر کلاس دوس کہتا ہے:
”کیمیائی اور خردنامیاتی ارتقاءکے شعبوں کے ذریعے زندگی کی ابتداءکے بارے میں ۰۳ سے زائد سال کی تحقیق زمین پر زندگی کی ابتداءکے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس کو مزید الجھاتی چلی گئی ہے۔ آج اس موضوع پر تمام بنیادی نظریئے اور تحقیقات یاتو اس سوال کو تعطل میں ڈال دیتے ہیں یا پھر بے علمی کے اعتراف پر ختم ہوتے ہیں۔“ ۲
سان ڈیگو کے اسکرپس انسٹیٹیوٹ کے ارضیاتی کیمیا دان جفری بادا اس تعطل کے متعلق ارتقاءپسندوں کی بے چارگی میں کہتا ہے:
”آج بیسویں صدی کو چھوڑتے ہوئے ہمارے سامنے وہی عظیم غیر حل شدہ سوال موجود ہے جوکہ بیسویں صدی میں داخل ہونے پر تھا۔ ”زمین پر زندگی کی ابتداءکس طرح ہوئی؟‘ ۳


1 Alexander I. Oparin, Origin of Life, (1936) NewYork: Dover Publications, 1953 (Re print), p..196
2 Klaus Dose, «The Origin of Life: More Questions Than Answers», Interdisciplinary Science Rewievs, Vol 13, No. 4 1988, p. 348
Jeffrey Bada, Earth, February ,1998 p. 40
4 Nicholas Wade, “Life’s Origins Get Murkier and Messier”, The New York Times, June 13, 2000, p. D1-D2
حقیقت تو یہ ہے کہ لحمیات کی عملی ساخت کا اتفاق سے وجود میں آنا ایک سراسر ناممکن بات ہے ۔ اس کا ثبوت ایک سادہ سے حساب شمار کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے جس کو کوئی بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ۸۸۲ امینوترشوں پر مبنی عام سالمی لحمیہ کی ۲۱ مختلف امینو ترشوں کو ۰۰۳۰۱ مختلف طریقوں سے ترتیب دی جاسکتی ہے۔ (یہ ایک بے انتہا بڑی تعداد ہے جس میں ۱ کے ہندسے کے بعد ۰۰۳ صفر لگتے ہیں) یہ تمام ممکنہ ترتیبیں صرف ایک ہی مطلوبہ سالمی لحمیہ بناسکتی ہیں۔ باقی ساری امینوں ترشوں کی زنجیریں یا تو مکمل طور پر ناکارہ ہو گےں یا پھر جانداروں کے لئے مضر ۔
دوسرے الفاظ میں صرف ایک سالمی لحمیہ کے بننے کا امکان ۰۰۳۰۱ میں ۱ ہے۔ اس ۱ کے واقع ہونے کا امکان تقریباً صفر ہے۔ (عملی طور پر اےسے کم امکانات جوکہ ۰۵۰۱ سے زیادہ ہوتے ہیں ان کو صفر امکان ہی سمجھا جاتا ہے) اس کے علاوہ وہ سالمیاتی لحمیہ جو کہ ۸۸۲ امینو ترشوں کا مرکب ہوتا ہے ایک کافی پر تکلف صورتحال ہے کیونکہ کچھ بہت بڑے سالماتی لحمیات کے اندر ہزاروں کی مقدار میں امینو ترشے موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان زخیم سالمیاتی لحمیوںکے اوپر یہی حساب شمار کرکے اصول لاگو کئے جائیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ صورتحال کو بیان کرنے کے لئے لفظ ”ناممکن“ نہایت غیر موزوں ہے۔ اگر ارتقائی زندگی کے لائحہ عمل میں ایک اور قدم آگے بڑھایا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ ایک واحد لحمیاتی جز کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں ہے۔
cythochrome-C protei, ارتقاءکا سالمی تعطلncythochrome-C protein, ارتقاءکا سالمی تعطل
 
(Left) لٹے ہاتھ پر موجود سائٹو کروم۔ سی کے ایک بھی لحمئے کی کیمیائی ساخت اسقدر پیچیدہ ہے کہ اس کی کسی بھی اتفاق کے ذریعے توضیح ناممکن ہے۔ ترکی کا ارتقاءپسند حیاتیات کا پروفیسر علی ڈیمرسوئے اعتراف کرتا ہے کہ واحد سائٹوکروم۔ سی سلسلے کی اتفاقی تشکیل بھی اس طرح ہے گویا ”کسی بندر کا ٹائپرائٹر استعمال کرتے ہوئے انسانیت کی پوری تاریخ بغیر ایک بھی غلطی کئے لکھنا۔“
سب سے چھوٹا دریافت ہونے والا جراثیم مائکروپلازمہ ہومینس ۹۳H میں اور اس کے اندر ۰۰۶ مختلف طرح کے لحمیات موجود ہیں۔ اس صورتحال میں حساب و شمار کے اوپر بتائے گئے تمام اصولوں کو ہر لحمیات کے لئے دہرانا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ لفظ ’ناممکن ‘کے تمام عمومی تصورات کو شرمسار کردیتا ہے۔ ان تمام باتوں کو پڑھنے والے کچھ لوگ جنہوں نے نظریہ ارتقاءکو ایک سائنسی نظریہ کے طور پر قبول کرلیا ہے وہ شاید شک کریں کہ یہ تمام حسا ب و شمار کے اصول بڑھاچڑھاکر لکھے گئے ہیں اور سچائی کی صحیح عکاسی نہیں کرتے۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی ارتقاءپسند بھی جھٹلانہیں سکتا۔ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ کسی واحد سالمیاتی لحمئے کا حادثتاً وجود میں آنے کا امکان اتنا ہی ناممکن ہے کہ جتنا ایک بندر کا ٹائپ رائٹر استعمال کرتے ہوئے بغیر کوئی غلطی کئے انسانی تاریخ کا لکھناہے۔۷۰۱ لیکن چونکہ دوسری صورتحال تخلیق کا اعتراف ہے جس سے ےہ لوگ مکمل طور پر منکر ہےں اسی لئے ےہ لوگ اندھادھند اس ناممکنہ صورتحال کی حمایت کئے چلے جاتے ہیں۔
پھر بھی اس صورتحال کی سچائی کو کئی ارتقاءپسند مانتے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نامور ارتقائی سائنسدان ہیرلڈاےف۔ بلوم کہتا ہے ’ کسی دس سے زائد امائنی ترشوں سے بننے والے مخلوطے کا بے ساختہ وجود میں آنا ممکنات کی ہر حدود سے باہر ہے‘۔ (۸۰۱)ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے کہ سالمےاتی ارتقاءبہت لمبے عرصے پر محےط دورانئے میں پیش آیا اور اسی لئے ناممکن ممکن بن گیا۔ لیکن چاہے جتنے بھی عرصے کے دوران ارتقاءکا نام نہاد عمل وجود میں آیا ہو یہ پھر بھی امینو ترشوں کے لحمیات بننے کے لئے اتفاقی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ امریکی ماہرِ ارضیات ولیم اسٹوکس نے اپنی کتاب ”اسنشلز آف ارتھ ہسٹری“ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ:
”ایسا ہونے کے امکان اس قدر کم ہیں کہ یہ کروڑوں سالوں کے دوران ان کروڑوں سیاروں پر بھی نہیں ہوسکتا چاہے ان تمام سیاروں کو اےسے پانی کی چادر سے ڈھک دیا جائے جس کے اندر تمام ضروری امینو ترشے موجود ہوں۔“۹۰۱
پھر ان تمام باتوں کا کیا مطلب ہوا؟ کیمیا کے پروفیسر ہیری ریوواس سوال کا جواب دیتا ہے:
”اگر کوئی ان تمام وسیع ممکنہ مرکبات کا جائزہ لے جو کہ ایک قدیم سوکھتے ہوئے تالاب میں سادہ سے بے ترتیب امینو ترشوں کی یکجائی سے وجود میں آسکتے ہیں تو ذہن اس بات کو ماننے سے انکار کردیتا کہ زندگی کی ابتداءاس طرح ہوسکتی ہے۔ یہ صورتحال زیادہ قابل فہم ہے کہ ایک عظیم ٹھیکیدار نے ایک بہترین نقشے کے ذریعے اس کام کو انجام دیا ہے۔“۰۱۱
اگر ایک بھی لحمیہ کا اتفاقاً وجود میں آنا ہی ناممکن ہے تو پھر یہ کروڑہا بار اور بھی ناممکن ہے کہ ایک لاکھ کے قریب یہ لحمیات نہ صرف وجود میں آئیں بلکہ اتفاقاً مکمل ترتیب کے ساتھ ایک خلئے کی شکل دھارلیں۔لحمیات کے علاوہ خلئے کے اندر نیوکلیائی ترشے، پانی میں حل نہیں ہونے والے نامیاتی مرکبات، حیاتین اور کئی دوسرے کیمیا مثلاً پگھلانے اور حل کرنے پر برقی توانائی ترسیل کرنے والا مادہ ساخت اور کارگزاری کی حیثیت سے ایک واضح تناسب، توازن اور نقشہ کی شکل میں ترتیب دئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر جز کئی طرح کے خلیوں کے ترکیبی حصوں میں تعمیراتی ٹکڑوں یا ذیلی سالمیات کا کام انجام دیتے ہیں۔
رابرٹ شاپیرو نیویارک یونیورسٹی میں کیمیا کا پروفیسر اور DNA کا ماہر ہے۔ شاپیرو نے ایک جراثیم کے اندر موجود ۰۰۲ مختلف لحمیات کا ریاضی کے عمل کے ذریعے حادثتاً وجود میں آنے کی ممکنات کا اندازہ لگایا۔ (ایک انسانی خلئے میں ۰۰۰,۰۰۲مختلف طرح کے لحمیات موجود ہوتے ہیں) شاپےرو کا نتیجہ ۰۰۰۴۰۱ کے اوپر ۱ تھا ۔۱۱۱ (یہ ایک ناقابلِ یقین ہندسہ ہے جس میں۱ کے بعد ۰۰۰,۰۴ صفر ہیں) ویلنر کے یونیورسٹی کالج کارڈف کا عملی ریاضی اور علمِ ہیئت کا پروفیسر چندراوکراماسنگھے اس بارے میں کہتا ہے:
”غیر جاندار مادے سے اضطراری طور پر زندگی کے وجود میں آنے کا امکان کسی عدد کے آگے ۰۰۰,۰۴ صفر لگانے کے بعد ۱ ہے۔ یہ معاملہ اتنا بڑا ہے کہ ڈارون اور اس کا تمام نظریہ¿ ارتقاءاس میں دفنایا جاسکتا ہے۔ نہ ہی کوئی ابتدائی یا قدیم سیال اس سیارے یا کسی بھی اور سیارے پر موجود تھا۔ اسی لئے اگر زندگی کی ابتداءبے ترتیب نہیں تھی تو یہ لازماً ایک عقلمند اور سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔“۲۱۱
سرفریڈ ہائل بھی ان حیران کن اعداد پر رائے زنی کرتا ہے:
”لازماً یہ نظریہ (کہ زندگی عقلمندی کا نتیجہ ہے) اس قدر واضح ہے کہ دماغ سوچ و بچار پر مجبور ہو جاتا ہے۔اگر اس نظریئے کو ایک ایسی حقیقت کے طور پر نہیں قبول کیا گیا جو کہ اپنے آپ کو خود منوالیتی ہے تواس کو قبول نہ کرنے کی وجہ سائنسی سے زیادہ نفسیاتی ہے۔“۳۱۱
ہائل کا لفظ ’ نفسیاتی‘ استعمال کرنے کی وجہ ارتقاءپسندوں کا تحت الشعوری جذباتی رکاوٹ کے باعث اس حقیقت کی نفی کرنا ہے کہ زندگی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات کو مسترد کرنا ان کا بنیادی مقصد ہے۔ صرف اسی واحد وجہ کے لئے وہ ان تمام غیر منطقی نظریوںکی حمایت کرتے چلے جاتے ہیں جن کے ناممکن ہونے کا ان کو بھی بخوبی اندازہ ہے۔

چپ دست لحمیات

اب اس بات کا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں کہ لحمیات کی تشکیل کا ارتقائی منظر نامہ ناممکن کیوں ہے۔ امینو ترشوں کی بالکل مکمل اور درست ترتیب بھی ایک عملی طور پر درست سالمیاتی لحمیہ کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے۔ ان تمام ضروریات کے پورا ہونے کے علاوہ لحمیات کی تشکیل کے لئے جن ۰۲ مختلف طرح کے امینو ترشوں کا ہونا ضروری ہے ان کا چپ دست ہونا بھی لازم ہے۔ تمام عضوی سالمیات کی طرح امینو ترشے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں چپ دست یا الٹے ہاتھ والے یا سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے۔ ان کے درمیان فرق کسی انسان کے سیدھے اور الٹے ہاتھ کے درمیان سہ ابعادی ساخت میں اصل اور عکس کا باہمی توافق کی طرح ہے جس سے ےہ دو طرح کے امینو ترشے آسانی سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاتے ہیں۔ لیکن تحقیق کے ذریعے لحمیات کی ایک حیرت انگیز صفت سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ اس سےارے کے تمام حےوانی اور نباتاتی لحمےات،سب سے سادہ جاندار سے لے کرسب سے پیچیدہ ساخت والے جانداروں تک ،چپ دست امینو ترشوں سے بنے ہوئے ہیں۔ اگرایک بھی سیدھے ہاتھ والاامینو ترشہ کسی لحمیہ کی ساخت سے جڑ جائے تو وہ لحمیہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔ کئی سلسلہ و ار تجربوں سے حیرت انگیز طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ جراثیم جو کہ سیدھے ہاتھ والے امینو ترشوں کے ساتھ جوڑے گئے تھے انہوں نے امینو ترشوں کو ہلاک کردیا۔ صرف چند حالات میںٹوٹے پھوٹے اجزاءسے ان جراثیم نے استعمال کے لائق چپ دست امینو ترشے تشکیل کرلئے۔
ایک لمحے کے لئے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ زندگی ارتقاءپسندوں کے دعوے کے مطابق اتفاق کا نتیجہ ہے۔ اس صورتحال میں چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے جو کہ اتفاقاً وجود میں آئے ہیں وہ بھی قدرت میں تقریباً برابر تناسب میں موجود ہونے چاہئےں۔ اس لئے تمام جانداروں کے اندر چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے موجود ہونا چاہئیں کیونکہ ارتقاءکے حساب سے دونوں طرح کے امینو ترشوں کا کیمیائی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مل جانا ممکن ہے۔
لیکن حقےقت ےہ ہے کہ اصل دنیا میں تمام جاندار اجسام کے اندر موجود لحمیات صرف چپ دست امینو ترشوں سے بنے ہوئے ہیں۔ اب سوال ےہ ہے کہ لحمیات سارے امینو ترشوں میں سے صرف چپ دست امینو ترشوں کا ہی انتخاب کیوں کرتے ہیں اور ایک بھی سیدھے ہاتھ والا امینو ترشہ زندگی کے عمل میں شامل کےوں نہیں ہوتا؟ ےہ ایک ایسی پریشانی ہے جس کا حل ارتقاءپسند آج تک تلاش کررہے ہیں۔ اتنا مخصوص اور باشعور انتخاب نظریہ¿ ارتقاءکے لئے ایک اور بہت بڑا تعطل ہے کےونکہلحمیات کی یہ صفت ارتقاءپسندوں کے ”اتفاق“ سے متعلق مسئلے کو اور پیچیدہ بنادیتی ہے۔ کسی پر معنی لحمیہ کی تشکیل کے لئے اس کے اندر امینو ترشوں کا مخصوص اعداد اور سلسلے میں ہی موجود ہونا ہی کافی نہیں اور نہ ہی اس کا سہ ابعادی شکل میںہونا کافی ہے بلکہ اس کے علاوہ ان تمام امینو ترشوں کا چپ دست ہونا بھی لازم ہے۔ ان میں سے ایک امینو ترشہ بھی سیدھے ہاتھ والا نہیں ہوسکتا۔ لیکن ایسا کوئی قدرتی انتخابی نظام موجود نہیں ہے جو کہ اس بات کی نشاندہی کرسکے کہ غلطی سے سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے کا شمار سلسلے میں ہوگیا ہے اور اب اس کو امینو ترشوں کے سلسلے یا زنجیر سے نکالنا ضروری ہے۔ یہ صورتحال ہمیشہ کے لئے اتفاق اور حادثے کے امکان کو زائل کردیتی ہے۔
بریٹانیکا سائنس انسائکلوپیڈیا ارتقاءکی منہ پھٹ حمایتی ہے اور اس کا بیان ہے کہ زمین پر رہنے والے تمام جانداروں کے امینو ترشے اور لحمیات کے تعمیراتی اجزاءکے اندر ایک ہی طرح کی ناموزونیت موجود ہے۔ مزید یہ بھی لکھا ہے کہ یہ اس طرح ہے کہ جس طرح کسی سکے کو ایک لاکھ دفعہ اچھالا جائے اور ہر دفعہ سر ہی آئے۔ اسی انسائکلوپیڈیا کے مطابق یہ سمجھنا بہت ہی ناممکن ہے کہ سالمیا کس طرح چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے بن جاتے ہیں اور اس انتخاب کا زمین پر زندگی کی ابتداءسے حیرت انگیز طور پر تعلق بھی ہے۔۴۱۱
اگر ایک سکہ ہمیشہ ہی سر کے بل گرے تو کیا اس کو اتفاق قراردینا زیادہ منطقی بات ہے یا پھر اس بات کو مان لینا زیادہ عقلمندی کی علامت ہے کہ اس تمام معاملے میں ایک شعوری عمل و دخل موجود ہے؟جواب بہت واضح ہونا چاہئے۔ لیکن جواب چاہے جتنا بھی واضح کیوں نہ ہو ارتقاءپسند پھر بھی اتفاق کی چادر میں منہ چھپانا زےادہ پسند کرتے ہیں صرف اس لئے کیونکہ وہ منطقی عمل و دخل کی موجودگی کا اقرار کرنا ہی نہیں چاہتے۔
امینو ترشوں کی چپ دستی سے ملتی جلتی صورتحال نیوکلیوٹائڈ یا فاسفوری گروپ سے منسلک نیوکلیو سائڈ پر مشتمل ایک نامیاتی مرکب کے متعلق بھی موجود ہے ۔نیوکلیوٹائڈ DNA اور RNA یا کروموسومی جز کا سب سے چھوٹا جز ہوتا ہے۔ لحمیات کے مقابلے میں، جس میں صرف چپ دست امینو ترشوں کا ہی انتخاب ہوتا ہے، نیوکلیوئڈ کے لئے پسندیدہ اجزاءہمیشہ سیدھے ہاتھ والے ہوتے ہیں۔ یہ ایک اور ایسی حقیقت ہے جس کو اتفاق کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ خلاصے کے طور پر یہ کہ کسی بھی شک و شبہ کے بغیر تمام ممکنات کے ذریعے ثابت کیا جاچکا ہے کہ زندگی کی ابتداءکو اتفاق کہہ کر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اگر حساب و شمار کے ذریعے ایک عام ناپ کے ۰۰۴ امینو ترشوں پر مشتمل عام ناپ کے لحمیہ کا صرف ایک چپ دست امینوترشوں سے انتخاب کا امکان کا اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ امکان ۰۰۴۲ میں سے ۱ یا ۰۲۱ ۰۱ میں ۱ ہے۔ موازنے کے طور پر یا درکھنا ضروری ہے کہ پوری کائنات میں الیکٹروں یا منفی بار کے حامل مستقل ابتدائی ذروں کی تعداد اندازاً ۹۷۰۱ ہے جو کہ کافی بڑا ہندسہ ہے مگر پھر بھی اتنا بڑا نہیں۔ ان امینو ترشوں کا قابلِ ضرورت سلسلہ اور عملی شکل اختیار کرنے کا امکان اس سے بھی بڑے ہندسوں کی شکل میں ہوگا۔ اگر ان تمام امکانات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملادیا جائے اور اگر اس سے بھی زیادہ بڑے ہندسوں اور لحمیات کی مختلف اشکال کے امکانات کے اوپر کام کیا جائے تو اس حساب و شمار کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

صحیح تعلق لازمی ہے

amino acids, ارتقاءکا سالمی تعطل
قدرت میں دو طرح کے امینوترشے موجود ہیں: سیدھے ہاتھ والے اور الٹے ہاتھ والے ان دونوں کے درمیان فرق اسی طرح ہے جس طرح ایک انسان کے سیدھے اور الٹے ہاتھ میں ہوتا ہے یعنی کہ دونوں میں اصل اور عکس کی طرح باہمی توافق اور ہم آہنگی ہوتی ہے۔
نظریہ¿ ارتقاءکو اےک واحد لحمیہ کی تشکیل سے متعلق جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ صرف اب تک بتائی گئی مشکلات ہی نہیں ہیں۔ امینو ترشوںکا صرف درست تعداد، سلسلوں اور لازمی سہ ابعادی ساخت میں ترتیب وار موجود ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ لحمیات کی تشکیل کے لئے ےہ بھی ضروری ہے کہ امینو ترشوں کے سالمیات جو کہ ایک سے زائد بازو پر مشتمل ہوتے ہیں وہ ا ےک دوسرے کے ساتھ مخصوص طریقوں سے جڑے ہوئے ہوں۔ ایسے جوڑ کو ’پےپٹائڈ بونڈ‘ کہتے ہیں۔ امینو ترشےایک دوسرے کے ساتھ مختلف جوڑ بناسکتے ہیں لیکن لحمیات صرف اور صرف ان امینو ترشوں سے بن سکتے ہیں جوکہ’ پےپٹائڈ بونڈ‘ کے جوڑ کے ذریعے جڑے ہوتے ہوں۔
ایک موازنہ اس نقطہ کی وضاحت کرسکتا ہے۔ فرض کریں کہ موٹر کار کے تمام حصے مکمل اور درست طریقے سے تشکیل دیئے گئے ہوں سوائے اس کے کہ ایک پہیہ صرف تار کے ایک ٹکڑے سے جڑا ہوا ہو۔
 ارتقاءکا سالمی تعطل
لحمیوں کو تشکیل کرنے والے امینو ترشوں کے سالمے ایک دوسرے کے ساتھ ”پیپٹائڈ جوڑ“ کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ جوڑ کا طریقہ قدرت میں موجود کئی ممکنہ جوڑوں میں سے ایک ہے۔ اگر یہ جوڑ نہ ہو تو امینو ترشوں کی زنجیریں ناکارہ ہوجاتی ہےں اور کوئی لحمیات وجود میں نہیں آسکتے۔
ایسی گاڑی کے لئے باوجود اس کی تکنیکی مہارت اور انجن کے طاقتور ہونے کے ذرا سا فاصلہ بھی طے کرنا ناممکن ہے۔ پہلی نظر میں تو یوں لگے گا جیسے ہرچیز اپنی جگہ پر مکمل ہے لیکن اس ایک پہئے کے غلط جوڑے جانے کی وجہ سے پوری گاڑی ناکارہ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سے کسی سالمیاتی لحمیہ میں ایک بھی امینو ترشے کا دوسرے سے پےپٹائڈ بونڈ کے علاوہ کسی اور جوڑ کے ذریعے جوڑے جانے سے پورا سالمیہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔ تحقیق کے ذریعے ثابت ہوا ہے کہ پےپٹائڈبونڈ سے امےنو ترشے صرف ۰۵ فےصد دفعہ ہی بے ترتیبی سے جڑتے ہےں۔ باقی دفعہ لحمےات مےں غےر موجود مختلف جوڑوں کا وجودمےں آنا دےکھا گےاہے۔احسن کارکردگی کے لئے لازم ہے کہ ہر امےنو ترشہ جو کہ لحمےات مےں موجود ہے وہ دوسرے کے ساتھ صرف پےپٹائڈ بونڈکے ذریعے ہی جڑا جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس کا صرف چپ دست ہونا بھی لازم ہے۔صرف پےپٹائڈ بونڈ سے ہی اس کے جوڑے جانے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہے جتنا کہ ہر امینو ترشے کا چپ دست ہونے کا امکان۔ اگر کسی ایسے لحمیہ کی مثال لی جائے جس میں ۰۰۴ امینو ترشے موجود ہیں تو ان تمام امینو ترشوں کا آپس میں صرف پیٹیائڈ بونڈ کے ذریعے جڑنے کا امکان ۹۹۳۲ میں ایک ہے۔

صفر امکان

جس طرح کہ آگے آئے گا ایک ۰۰۵ امینو ترشوں پر مشتمل سالمیاتی لحمیہ کے وجود میں آنے کا امکان ۱ کے نیچے ۱ کے ساتھ ۰۵۹ صفر لگانے کی طرح ہے۔ یہ ایک ایسا عدد بن جاتا ہے جو کہ انسانی ذہن کے لئے ناقابل تصور ہے۔ یہ امکان صرف کاغذ پر لکھ کر ہی دکھایا جاسکتا ہے۔ عملی طور پر اس طرح ہونے کا امکان صفر ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا ریاضی میں ۰۵۰۱ میں ۱ سے چھوٹے کسی بھی امکان کا وجود میں آنا ازروئے شماریات کے حساب سے صفر ہے۔ اسی لئے ۱ کے نیچے ۰۵۹۰۱ کاامکان ناممکنات کی ہر قابل تصور حد کو بھی پار کر جاتا ہے۔
جب کسی ۰۰۵ امینو ترشوں پر مشتمل سالمیاتی لحمیہ کے وجود میں آنا اس حد تک بعید از امکان ہوجاتا ہے تو ذہن کو اور بھی اونچی سطح پر متشبہ حدود کو پار کروانے کی کوشش کرکے دیکھا جاتا ہے۔ حمرت الدّم ےا ہیموگلوبن ایک ناگزیر لحمیہ ہے جس کا سالمیہ ۴۷۵ امینو ترشوں پر مشتمل ہے جوکہ اوپر بتائے گئے لحمیہ سے بھی زیادہ ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ جسم میں موجود کڑوڑوں خون کے سرخ خلیوں میں ۰۰۰,۰۰۰,۰۸۲ یا ۰۸۲ لاکھ ہیموگلوبن کے سالمات موجود ہوتے ہیں۔ کرہ ارض کی قیاس کی گئی عمر ایک واحد لحمیہ کی بھی آزمائشی تجرباتی طریقے سے وجود میں آنے کے لئے ناکافی ہے۔ خون کے اےک سرخ خلئے کابھی اس طرح وجود میں آنا ایک بے انتہا ناممکن سوچ ہے۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ امینو ترشوںکی آپس میں جوڑ توڑ کرہ¿ ارض کے وجود میں آنے کے بعد وقت ضائع کئے بغیر آزمائشی تجرباتی طریقے سے وجود میں آئی ہے تو جتنا وقت ایک واحد سالمےاتی لحمیہ کو بننے میں درکار ہوتا ہے، جس کا امکان ۰۵۹۰۱ ہے ، وہ کرہ¿ ارض کی اندازاً عمر سے تصور سے بھی بڑھ کر زیادہ ہے۔ خلاصہ کے طور پر یہ کہ ایک واحد لحمیہ کے وجود میں آنے کے معاملے میں بھی نظریہ¿ ارتقاءشدید قسم کی ناممکنات کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔

کیا قدرت میں آزمائشی تجربے کا نظام موجود ہے؟

بالآخر اختتام ممکنات کے حساب و شمار کی بنیادی منطق سے متعلق ایک اہم نقطے سے کیا جاتا ہے جس کی اور بھی مثالیں پیش کی جاچکی ہیں۔ اس بات کو واضح کیا جاچکا ہے کہ اب تک کئے گئے حساب و شمار کی ممکنات نہایت بسیط و عظیم نوعیت کی ہیں اور اس کا اصلیت میں ظاہر ہونے کے کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن یہاں پر ارتقاءپسندوں کو مزید اہم اور تباہ کن حقائق کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور وہ یہ کہ قدرتی ماحول کے اندر کسی بھی طرح کے آزمائشی تجربات کا بسیط و عظیم خلافِ معمول امکان کے باوجود شروع ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہےں ہوتا کیونکہ قدرت میں کسی طرح کا آزمائشی تجربے کا نظام موجود ہی نہیں جس کے ذریعے لحمیات وجود میں آسکیں۔
10950=
100.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000. 000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000.000000.
امینو ترشوں پر مشتمل ایک عام لحمیہ کے سالمے کا درست مقدار اور سلسلے میں تشکیل ہونا اور اس کے اندر تمام امینو ترشوں کا صرف الٹے ہاتھ والے ترشے بھی ہونا اور درست والے جوڑ یعنی پیپٹائڈ جوڑ سے جڑے ہونے کا امکان ۰۵۹۰۱ میں ۱ ہے۔ یہ ہندسہ ۱ کے بعد ۰۵۹ صفر لگانے سے حاصل ہوتا ہے یعنی.
اوپر دئے گئے ۰۰۵ امینو ترشوں پر مبنی لحمیہ کے وجود میں آنے کے لئے امکان کا حساب و شمار صرف ایک جائز آزمائشی تجرباتی ماحول پر لاگو ہوتا ہے جس کا حقیقی زندگی میں کوئی گزر نہیں۔ وہ یہ کہ ایک کارآمد لحمیہ حاصل کرنے کا امکان ۰۵۹۰۱ میں ۱ صرف اس وقت ہو گا جس وقت ایک ایسا خیالی نظام بھی وجود میں ہو جس میں ایک نادیدہ ہاتھ ۰۰۵ امینو ترشوں کو بے قاعدہ طور پر جوڑدے اور پھر یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ یکجائی درست نہیں ہے ان کو دوبارہ ایک ایک کرکے الگ کرتا جائے اور پھر نئے سرے سے ان کی مختلف ترتیب دیتا جائے اور یہ سلسلہ وہ اس وقت تک جاری رکھے جب تک کہ اس کو مطلوبہ سلسلہ حاصل نہ ہوجائے۔ ہر نئے آزمائشی تجربے میں امینو ترشوں کو ایک ایک کرکے الگ کرنا پڑے گا اور بالکل نئی شکل میں ترتیب دیناہوگا۔ یہ پیوند کاری ۰۰۵ نمبر کے امینو ترشے کے شامل ہونے کے بعد رک جانی چاہئے اور پھر اس بات کا یقین لگانا چاہئے کہ اس تجربے میں ایک بھی زائد امینو ترشہ استعمال نہیں ہوا ہے۔اب اس تجربے کو روک کر اس بات کا تجزیہ لگانا چاہئے کہ آیا ایک کارگزر لحمیہ وجود میں آیا ہے کہ نہیں اور اگر تجربہ ناکام رہا ہے تو پورے تجربے کو ازسر نو شروع کردینا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہر تجربے میں کوئی بھی فاضل وجود غلطی سے بھی شامل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بھی لازم ہے کہ تجربے کے نتیجے میں بننے والی زنجیر پورے تجربے کے دوران ۹۹۴ نمبر کی کڑی تک پہنچنے سے پہلے نہ تو الگ ہو اور نہ اس کو کسی قسم کا کوئی اور نقصان پہنچے۔ ان تمام شرائط کے پورا ہونے کا مطلب ہے کہ اوپر دی گئی تمام ممکنات صرف ایک باضابطہ ماحول میں انجام پائیں جہاں پر ایک باشعور عملی نظام تمام معاملات کے اوپر شروع سے لے کر آخر تک ہدایت کرنے کے علاوہ اس عمل کے وسطی دور کی بھی نگرانی کرے جہاں پر صرف ’امینو ترشوں کا ایک درست انتخاب ‘ ہی بے اختیار رہے۔ ایسے کسی بھی ماحول کا قدرتی حالات کے زیر اثر موجود رہنا ایک ناممکن بات ہے۔ اسی لئے قدرتی ماحول میں لحمیہ کی تشکیل تکنیکی اور منطقی حساب سے ناقابل فہم اور ناممکن ہے۔ بلکہ ایسے کسی واقعہ کے بارے میں بات بھی کرنا سراسر غیر سائنسی ہے۔
کچھ لوگ ان معاملات کا وسیع منظر نہیں دیکھ پاتے بلکہ ایک سطحی نقطہ نظر استعمال کرتے ہوئے لحمیہ کی تشکیل کو ایک سادہ کیمیائی رد عمل سمجھتے ہیں۔ وہ غیر حقیقی خلاصوں پر یقین کرلےتے ہیں کہ امینو ترشے ردِ عمل کے ذریعے جڑ جاتے ہیں اور لحمیات کی شکل دھارلیتے ہیں ۔حقےقت تو ےہ ہے کہ بے جان اشکال میں حادثاتی کیمیائی ردِ عمل کا نتیجہ صرف سادہ اور غیر ترقی یافتہ تبدیلیاں ہیں جن کی تعداد مخصوص اور طے شدہے۔ کسی بہت ہی بڑے اور پیچیدہ کیمیائی مادے کو وجود میں لانے کے لئے عظیم کارخانوں، کیمیائی صنعت خانوں، اور تجربہ گاہوں کا استعمال لازمی ہے۔ دوائیاں اور روزمرہ زندگی کے کئی دوسری کیمیائی اجزاءاسی طرح بنائے جاتے ہیں۔ لحمیات کارخانوں میں بنائے گئے ان کیمیا سے کہیں زیادہ پیچیدہ ساخت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی لئے تخلیق کے عظیم انسانی نمونے لحمیات کا ، جس کا ہر حصہ بہترین ترتیب اور نظم کا شاہکار ہے، حادثاتی اور بے ترتیب کیمیائی ردعمل کے ذریعے وجود میں آنے کی بات صرف غیر سائنسی ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔اگر ایک لمحے کے لئے تمام حقائق و ثبوت کو ایک طرف رکھ کر فرض بھی کر لےا جائے کہ ایک کار آمد سالمیاتی لحمیہ حادثاتی ردِ عمل کا نتیجہ ہے تو پھر بھی ارتقاءکے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اس لحمیہ کو زندہ رہنے کے لئے اس کو اپنےقدرتی ماحول سے الگ کرنا پڑتا اور اس کی نگہداشت خاص الخاص حالات میں کرنی پڑتی۔ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ لحمیہ کرہ¿ ارض کی قدرتی ماحولیاتی اثرات کے تحت تباہ ہوجاتا یا پھر دوسرے ترشوں، امینو ترشوں یا کیمیائی مرکبات کے ساتھ مل جاتا جس صورت میں وہ اپنے مخصوص اثاثے کھودیتا اور ایک مکمل طور پر الگ اور ناکارہ مادے کی شکل دھارلیتا۔

زندگی کی ابتداءسے متعلق ارتقائی تنازعہ

جاندار کیسے نمودار ہوئے؟ کا سوال ارتقاءپسندوں کے لئے اسقدر سنگین تعطل کی سطح پر ہے کہ وہ اس موضوع سے دور رہنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اس سوال کا جواب وہ ےہ دیتے ہیں کہ زمےن کے اوپر پہلے جاندار پانی کے اندر بے ترتیبواقعات کے نتیجے میں وجود میں آئے ۔ ارتقاءپسند اب ایک ایسی بند گلی پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ تمام ارتقائی قدیم بشری رکازیات کی بحث و مباحثہ کے باوجود اس موضوع پر ان کے پاس کسی قسم کے فوصل موجو دنہیں ہیں جن کو وہ مسخ کرکے اپنی مرضی کی تشریح کے ذریعے اپنے بے بنیاد دعوﺅں کے سہارے کے لئے استعمال کرسکیں۔ اسی لئے نظریہ¿ ارتقاءشروع سے ہی بذریعہ دلیل رد ہوچکا ہے۔
صفر امکان
پروٹینپروٹین
سب سے بڑھ کر جس نقطے کو ذہن میں رکھناضروری ہے وہ یہ کہ: اگرارتقائی عمل کا ایک مرحلہ بھی بذریعہ ثبوت غلط ثابت ہوجائے تو یہ اس بات کی بھاری دلیل ہے کہ پورا نظریہ ہی جھوٹا اور بے کار ہے۔ مثال کے طور پر لحمیات کی بے ترتیب تشکیل کا ناممکن ثابت ہونا ارتقاءکے باقی تمام آنے والے مرحلوں کی تردید ہے۔ اس کے بعد انسان اور گوریلوں کی کھوپڑیاں لے کر ان کے بارے میں غور و فکر اور قیاس کرنا بھی ایک انتہائی بے معنی فعل ہے ۔بے جان مادے سے جانداروں کے وجود میں آنے کے موضوع پر ارتقاءپسندوں نے کافی عرصے تک بات ہی نہیں کی۔ لیکن مستقل نظر انداز کرنے کے باوجود اس سوال کا کبھی نہ کبھی تو جواب دینا ہی تھا۔ ۰۲ ویں صدی کی دوسری چوتھائی میں اس مسئلہ کا حل کئی تجربات پر مبنی سلسلوںکے ذریعے نکالنے کی کوشش کی گئی۔
سب سے اہم سوال ےہ تھاکہ کرہ¿ ارض کے قدیم ماحول میں پہلا جاندار خلیہ کس طرح نمودار ہوا؟ اس سوال کے ذریعے دراصل یہ پوچھا گیا تھا کہ ارتقاءپسندوں کی اس مسئلے کے بارے میں کیا رائے ہے۔ تمام جوابات کو تجربات کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ گوکہ ارتقائی سائنسدانوں اور تجربہ دانوں نے کئی تجربوں کے ذریعے جوابات دینے کی سرتوڑ کوشش تو کی لیکن ان کے نتیجے کسی بھی دلچسپی کا سبب نہیں بن سکے۔
حالیہ ارتقاءپسند ذرائع کا ملر کے تجربے کے اوپر نا اتفاقی
ملر تجربہ
آج ملر کا تجربہ ارتقاءپسند سائنسدانوں نے بھی رد کردیا ہے۔ مشہور ارتقائی سائنسی جریدی ”ارتھ“ کی فروری ۸۹۹۱ ءکی اشاعت میں ”لائف کروسیبل“ کے عنوان سے چھپنے والے ایک مضمون میں آیا تھا:

”ماہر ارضیات کا اب یہ خیال ہے کہ زمین کا قدیم ماحول بنیادی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن گیسوں پر مشتمل تھا۔ یہ گیسیں ۳۵۹۱ ءکے تجربے میں استعمال کی گئی گیسوں سے کم متعامل ہوتی ہیں۔ اگر فرض کرلیں کہ ملر کا پیش کیا گیا ماحول واقعی سچ تھا تو پھر امینو ترشوں جیسے سادے سالموں کو اس ضروری کیمیائی تبدیلی سے کس طرح گزارنا ممکن ہے جوکہ ان کو لحمیوں جیسے پیچیدہ مرکبات میں بدل دے؟ ملر نے خود پہیلی کے اس پہلو پر لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ اس نے بے چارگی سے اعتراف کیا تھا کہ ”یہ ایک مسئلہ ہے۔ آپ مرکبات کس طرح بناسکتے ہیں؟ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔“ ۱

صاف ظاہر ہے کہ ملر نے خود اس حقیقت کا اعتراف کرلیا تھا کہ اس کا تجربہ زندگی کی ابتداءکی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ ارتقاءپسندوں کا پھر بھی جوش و خروش سے اس ¿ تجربے کو قبول کرنا اور اس کا پرچار کرنا نظریہ ارتقاءکے حامیوں کی مایوسی اور ناکامی کی بربادی اور ناکامی ¿ کھلی دلیل ہے۔ ان کا نظریہ کی دہلیز پر اسی وقت تھا اور ان کو اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ بھی تھا۔

مارچ ۸۸۹۱ ءمیں نیشنل جیوگرافک کی اشاعت میں ”داایمرجنس آف لائف آن ارتھ“ یا ”زمین پر زندگی کی نموداری“ کے عنوان سے چھپنے والے ایک مضمون میں آیا تھا:

”کئی سائنسدانوں کو اب شبہ ہے ۔قدیم ماحول ملر کے فرضی ماحول سے بہت مختلف تھا۔ ان کے خیال سے وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن سے تشکیل تھا جبکہ ملر کا خیال کہ یہ ہائیڈروجن، میتھین اور امونیا پر مشتمل تھا۔ ایک غلط مفروضہ تھا۔ کیمیا دانوں کےلئے یہ بری خبر ہے۔ جب وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن کو آپس میں جوش دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو نتیجہ حقیر مربوط سالموں کی شکل میں نکلتا ہے جوکہ اس طرح ہے جیسے رنگ کے ایک قطرے کو بڑے سے تیراکی کے تالاب میں ملادیا جائے۔سائنسدانوں کا اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ زندگی اس رقیق مائع سے نمودار ہوئی ہے۔“ ۲

غرضیکہ نہ تو ملر کا تجربہ نہ اس کے جیسا کئے جانے والا کوئی تجربہ زمین پر زندگی کی نموداری کو بیان کرسکا۔ تمام تحقیق تخلیق کی تصدیق کرتی وجود ً ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ زندگی کا اتفاقا میں آنا سراسر ناممکن ہے۔

Earth, “Life’s Crucible”, February 1988, p.34-----1
National Geographic, “The Rise of Life on Earth”, March
زندگی کی ابتداءسے متعلق سب سے قابل ذکر مطالعہ ملر ایکسپیریمنٹ یا ملر کا تجربہ سمجھا جاتا ہے جوکہ ۳۵۹۱ءمیں امریکی تحقیق دان اسٹینلی ملر نے کیا۔ اس تجربے کو ’ ےوری ملر تجربہ‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ملر کے استاد یونیورسٹی آف شکاگوکے ہیرلڈ ےوری نے بھی اس میں ملر کی مدد کی تھی۔یہ تجربہ دراصل ارتقاءپسندوں کا اپنا ’سالمیاتی ارتقاءکا مقالہ‘ ثابت کرنے کا واحد ذرےعہ ہے۔ یہ اس کو زندگی کی ابتداءثابت کرنے والے ازروئے دعویٰ ارتقائی عمل کے پہلے مرحلے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن آدھی صدی گزرنے اور شاندار تکنیکی ترقی کے باوجود کوئی بھی اس تجربے کو ایک قدم اور آگے نہیں لے کر جاسکا۔ باوجود اس ناکام صورتحال کے ملر کا تجربہ آج بھی نصابی کتابوں میں اولین ترین جاندار نسلوں کے ارتقائی ثبوت کے طور پر موجود ہے۔ ارتقاءپسند تحقیق دانوں کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ تمام معلومات ان کے مقالے کی تصدیق نہیں بلکہ مکمل تردید کرتی ہیں اور اسی لئے یہ لوگ جان بوجھ کر اس تجربہ کی جدید تفصیلات یا اس طرح کے نئے تجربوں کا بیڑا اٹھانے سے مکمل طور پر گریز کرتے ہیں۔

ملر کا تجربہ

اس تجربے کے ذریعے اسٹینلی ملر کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ لحمیات کے تعمیراتی جز، امینو ترشے ایک بے جان کرہ¿ ارض پر کڑوڑوں سال پہلے ارتفاقی طور پر وجود میں آئے ہیں۔ اپنے تجربے میں ملر نے گیس کا وہ مرکب استعمال کیا جو کہ اس کے حساب سے قدیم زمین پر موجود تھا (یہ نظریہ بعد میں غیر حقیقی ثابت ہوگیا) ۔اس گیس میں امونیا، میتھین، ہائڈروجن اور آبی بخارات شامل تھے۔ چونکہ یہ تمام گیسیں ایک دوسرے کے ساتھ قدرتی حالات میں کوئی ردِ عمل پیدا نہیں کرسکتیں اس لئے اس نے اس مرکب میں ردِ عمل پیدا کرنے کے لئے توانائی ملادی۔ مزید قیاس کرتے ہوئے کہ قدیم حالات کے دوران یہ توانائی آسمانی بجلی کے ذریعے ہی آسکتی تھی، اس نے اپنے تجربے میں برقی توانائی کا استعمال کیا۔ملر نے پھر گیس کے اس مرکب کو ایک ہفتے تک ۰۰۱ سینٹی گریڈ پر گرم کیا اور پھر اس میں برقی توانائی ملادی۔ اےک ہفتے کے اختتام پر ملر نے ان کیمیائی اجزاءکا معائنہ کیا جو بوتل کے پیندے میں جمع ہوگئے تھے۔
پتا چلاکہ ۰۲ امینو ترشوں میں سے تین جو کہ لحمیات کے بنیادی جز تھے وہ مربوط ہوچکے تھے۔ اس تجربے سے ارتقاءپسند حلقوں میں ایک بے قابو خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس تجربے کو ایک ممتاز اور نمایاں کامیابی قراردیا گیا ۔اور تو اور کئی رسالوںنے مدہوش خوشی کے عالم میں یہ سرخیاں تک چھاپ دیں کہ ملر نے زندگی تخلیق کرلی ہے۔ دراصل ملر صرف کچھ بے جان سالمیات کی مربوط شدہ شکل پیدا کرنے میں کامیاب ہو اتھا۔اس تجربے کی کامیابی سے حوصلہ پاتے ہی ارتقاءپسندوں نے فوراً نئے منظر نامے پیش کرنے شروع کردئے۔ امینو ترشوں کی تخلیق کے بعد کے مرحلے بھی جلدی جلدی قیاس کرلئے گئے جن کے مطابق امینو ترشے بعد میں حادثاتی طور پر درست سلسلے قائم کرتے ہوئے لحمیات میں تبدیل ہوتے چلے گئے ۔اتفاقی طور پر نمودار ہونے والے کچھ لحمیات نے خلیوں کی جھلی کی شکل بھی دھارلی اور کسی نامعلوم طریقے سے بالآخر ایک پہلا خلیہ تشکیل ہوگیا۔ تمام خلئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی خلیوں پر مبنی جانداروں کی شکل میں زمین پر چلنے پھرنے لگے۔ ملر کا تجربہ ایک خیالی کہانی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور یہ کئی زاویوں سے اپنا جھوٹا ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔

ملر کا تجربہ صرف مغالطے پر مبنی تھا

ملر کے تجربے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ زمین کے قدیم ماحولیاتی اثرات میں امینو ترشے خود بہ خود وجود میں آگئے لیکن اس تجربے میں کئی بے ربطگیاں ہیں۔
۱ ۔ ’ ٹھنڈا جال‘ نامی ایک طریقہ عمل استعمال کرتے ہوئے ملر نے امینو ترشوں کو عام ماحول سے ان کے وجود میں آتے ہی الگ کردیا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ ماحولیاتی اثرات جس میں یہ امینو ترشے وجود میں آئے تھے وہ ان سالمیات کوفوراً تباہ کردیتے۔ اس بات میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا کہ قدیم زمینی ماحول میں اس طرح کا باشعور نظامِ علےحدگی موجود نہیں تھا۔ اس نظام کے بغیر اگر امینو توترشے قدیم زمین پر تشکیل ہو بھی جاتے تو وہ فوراً تباہ بھی ہوجاتے۔ کیمیا دان رچرڈ بلس اس معاملے کے تضاد کو اس طرح بیان کرتا ہے:”دراصل اس جال کے بغیر کوئی بھی کیمیائی پیداوار توانائی کے ذریعے سے ہی تباہ ہوجاتی۔“۵۱۱
اور یہ بات درست بھی ہے کیونکہ اپنے تمام سابقہ تجربوں میں ملز انہیں اجزاءکے استعمال سے ایک بھی امینو ترشہ بغیر اس مخصوص ’ ٹھنڈے جال’ کے نہیں بناسکاتھا۔
۲۔ جس قدیم ماحول کی نقل ملر نے اپنے تجربے میں کرنے کی کوشش کی وہ سراسر غیر حقیقی تھا۔ ۰۸۹۱ءکے سالوں میں سائنسدان اس بات پر متفق ہوگئے کہ اس تجربے میں بنائے گئے نقلی ماحول میں ملر کو میتھین اور امونیا کے بجائے نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ استعمال کرنا چاہئے تھی۔ ایک لمبی خاموشی کے بعد ملر نے خود اس بات کا اعتراف کرلیا کہ اس تجربے میں استعمال کیا گیا ماحول حقیقی نہیں تھا۔۶۱۱ تو پھر ملر نے ان مخصوص گیسوں پر زور کیوں دیا؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ اس لئے کہ امونیا کے بغیر کسی بھی امینو ترشے کی تشکیل ناممکن تھی۔ رسالہ ”ڈسکوور“ میں چھپنے والے ایک مضمون میں کیون مکینن اس کے بارے میں لکھتا ہے:
”ملر اور ےوری نے زمین کے قدیم ماہول کی نقل میتھین اور امونیا کے مرکب سے کی۔ ان کے حساب سے کرہ¿ ارض دھات، پتھر اور برف کاایک ہم اصل اور سچا مرکب تھا۔ لیکن حالیہ تحقیق کے مطابق یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ اس قدیم زمانے میں کرہ¿ ارض کا درجہ حرارت بے انتہا گرم تھا اور اس کی ساخت پگھلے ہوئے نکل اور لوہے پر مبنی تھی۔ اسی وجہ سے اس دورکا کیمیائی ماحول بھی نائٹروجن CN2، کاربن ڈائی آکسائڈ (Co2) اور آبی بخارات سے بنا ہوا ہونا چاہئے تھا ۔لیکن یہ اجزاءمربوط سالمیات کی تشکیل کے لئے میتھین اور امونیا جتنے موزوں نہیں ہیں۔“ ۷۱۱
امریکی سائنسدان جے۔ پی فیرس اور سی۔ٹی۔ چین نے بھی ملر کے تجربے کو کاربن ڈائی آکسائڈ، ہائڈروجن، نائٹروجن اور آبی بخارات سے بھرپور احول میں دہرانے کی کوشش کی لیکن ایک بھی امینو ترشے کا سالمیہ حاصل نہیں ہوسکا۔۸۱۱
۳۔ ملر کے تجربے کی تردید کرنے والا ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ قدےم ماحول میں آکسیجن کی مقدار اس قدر زیادہ تھی کہ یہ تمام امینو ترشوں کا خاتمہ کرنے کے لئے کافی تھی۔ ملر نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا تھا لیکن اس کا ثبوت ۵۳ کروڑ سال پرانے پتھروں میں ملا ہے جن میںآکسےڈاز لوہے اور یورینیم کے نشانات موجود ہیں۔( ۹۱۱) اس کے علاوہ اور بھی طرح کی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اس وقت ہوا میں آکسیجن کی مقدار ارتقاءپسندں کی بتائی گئی مقدار سے کہیں زیادہ تھی۔
تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اس وقت کرہ¿ ارض پر پڑنے والی ورائے بنفشی ارتقائی اندازوں سے ۰۰۰,۰۱ گنا زیادہ تھی۔ اس شدید نورافگنی کے نتیجے میں تمام آبی بخارات اور کاربن ڈائی آکسائڈ نے تحلیل ہوکر آکسیجن کو ہوا میں آزاد کردیا ہوگا۔ یہ صورتحال ملر کے تجربے کے خلاف جاتی ہے جس میں آکسیجن کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا تھا۔ اگر تجربے میں آکسیجن استعمال کی جاتی تو میتھین کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی میں تبدیل ہوجاتی اور امونیا نائٹروجن اور پانی کی شکل دھارلیتا۔ دوسری صورت میں ایک آکسیجن سے عاری ماحول میں اوزون کی دبیز تہہ بھی موجود نہیں ہوتی اور امینو ترشے فوراً ہی تباہ ہوجاتے کیونکہ وہ اوزونی تہہ کے بغیر شدید نورافگنی کی تاب نہیں لاسکتے تھے۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آکسیجن کے ساتھ یا آکسیجن کے بغیر، دونوں صورتےں قدیم ماحول مےں امینو ترشوں کے لئے مہلک ثابت ہوتےں۔
ملر کے تجربے کے اختتام پر کئی ایسے مربوط ترشے وجود میں آچکے تھے جن کی خصوصیات جانداروں کی ساخت اور کارکردگی کے لئے نقصان کا سبب ہوتےں۔ اگر امینوترشوں کو الگ نہیں کیا جاتا اور نئے کیمیائی اجزاءکے ساتھ ایک ہی ماحول میں چھوڑدیا جاتا تو ان کی تباہی یا کیمیائی ردِ عمل کے ذریعے مختلف مرکبات میں تبدیل ہوجانا ناگزیر تھا۔ تجربے کے اختتام پر کئی سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے بھی تشکیل ہوچکے تھے۔۰۲۱ ان امینو ترشوں کی موجودگی اس نظریئے کی اپنے حدود کے اندر ہی تردید کردیتی ہے کیونکہ سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے جاندار اجسام کی تشکےل کے لئے بےکار ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملر کے تجربے میں امینو ترشے جن حالات کے تحت تشکیل ہوئے تھے وہ زندگی کے لئے موزوں حالات نہیں تھے۔ ملر کا بناےا گیا ماحول ایک اےسا ترشی مرکب تھا جو کہ حاصل ہونے والے کارآمد سالمیات کو بھی آکسیجن کی آمیزش کے ذریعے تباہ کردیتا۔
یہ تمام حقائق ایک ہی سچائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں او روہ یہ کہ ملر کا تجربہ جانداروں کے قدیم ارضی ماحول میں اتفاق سے وجود میں آنے کے دعوﺅں کو ثابت کرنے میں ناکام ہے۔ یہ پور اتجربہ امینوترشوں کا اےک سوچا سمجھا باضابطہ عمل کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ تجربے میں استعمال ہونے والی گیسوں کی نوعیت اور مقدار کا انتخاب امینو ترشوں کے لئے سب سے سازگار ماحول فراہم کرنے کے نقطہ نظر سے کیا گیا۔ تجربے میں استعمال کی گئی توانائی نہ بہت زیادہ تھی اور نہ بہت کم بلکہ اس درست مقدار میں ترتیب دی ہوئی تھی جس کے زیر اثر مطلوبہ ردِ عمل حاصل ہوسکے۔تجرباتی آلات کو بھی الگ تھلگ کردیا گیا تھا تاکہ ان کے ذرےعے کوئی مضر، مہلک یا دوسرے قسم کے اجزاءاندرنہ جاسکیں جو امینو ترشوں کی تشکیل کے سازگار ماحول پر اثر انداز ہوں۔ کسی ایسے عناصر، معدنیات، یا مرکبات کا استعمال اس تجربے میں نہیں کیا گیا جو کہ گو کہ اس وقت زمےن پر تو موجود تھے مگر جس سے مطلو بہ ردِ عمل پر فرق پڑتا ۔آکسیجن ان مہلک عناصر میں سے ایک ہے جوکہ آمیزش کے ذریعے امینو ترشوں کی تشکیل کو ناممکن بناسکتا تھا۔ اس بہترین افزائشی ماحول کے باوجود کسی بھی تشکیل کئے گئے امینو ترشوں کا ’ٹھنڈے جال‘ کے بغیر تباہی سے بچے رہنا ناممکن تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے اس تجربے کے ذریعے ملر نے اس ارتقائی دعوے کی دھجیاں اڑادیں کہ ”زندگی لاشعوری اتفاقات کا نتیجہ ہے“ ۔ اگر اس تجربے سے کچھ ثابت ہوا بھی ہے تو وہ یہ کہ امینو ترشے صرف ایک اےسے باضابطہ تجربہ گاہی ماحول میں ہی تشکیل دئے جاسکتے ہیں جہاں کی تمام ماحولیاتی خصوصیات ایک باشعور مداخلت کا نتیجہ ہوں۔ یعنی کہ زندگی کو وجود میں لانے والی طاقت ایک بے شعور اتفاق نہیں بلکہ باشعور تخلیق ہے۔ ارتقاءپسندوں کا اس حقیقت سے انکار ان کا اندھاا ور غیر سائنسی تعصب ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اپنے طالب علم اسٹینلی ملر کے ساتھ مل کر ملر کے تجربے کو ترتیب دینے والا ہیرلڈےوری نے اس موضوع پر اعتراف کیا کہ:
”ہم میں سے جو بھی زندگی کی ابتداءکا مطالعہ کرتا ہے اس پر ادراک ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ ہم اس معاملے کی گہرائی میں جاتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ زندگی ارتقائی عمل کے لئے بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ گو ہم سب لوگ عقیدے کے طور پر یقین رکھتے ہیں کہ زندگی کی ابتداءسیارے کے مردہ مادے سے ہوئی لیکن پھر بھی اس کی پیچیدگی اس قدر زخےم ہے کہ ارتقاءکا تصور بھی بے انتہا مشکل ہے۔“۱۲۱

دنیا کا قدیم ماحول اور لحمیات

تمام بے ربطگیوں کے باوجود ارتقائی ذرائع ملر کے تجربے کو امینو ترشوں کی ابتداءسے متعلق تمام سوالات کا جواب دینے کے لئے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ یہ غلط تاثر دیتے ہوئے کہ یہ موضوع اس ناکارہ تجربے کے ذریعے حل ہوچکا ہے ،وہ دراصل نظریہ¿ ارتقاءمیں موجود دراڑوں کو پر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔لیکن زندگی کی ابتداءسے متعلق دوسرے مرحلے کو بیان کرنے کے موقع پر ارتقاءپسندوں کو امینوترشوں کی تشکیل سے بھی بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ لحمیات کی ابتداءہے۔ لحمےات زندگی کا تعمیراتی جز ہوتے ہیں جن کے اندر ہزاروں مختلف امینو ترشے ایک دوسرے کے ساتھ مخصوص شکل اور ترتیب کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔یہ دعویٰ کہ لحمیات قدرتی ماحول کے زیر اثر وجود میں آئے اس دعوے سے بھی بڑھ کر غیر حقیقی اور غیر منطقی ہے کہ امینو ترشے اتفاق سے وجود میں آئے۔ گزرنے والے صفحات میں ریاضی کی رو سے امینو ترشوں کے بے ہنگم ملاپ کا درست سلسلوں کی صورت میں لحمیاتی اشکال پیدا کرنے والی ناممکنات کا ممکنہحساب و شمار کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اب لحمیات کا قدیم ارضی ماحول کے تحت کیمیائی اثرات کے ذریعے پیدا ہونے کی ناممکنات کا جائز لیا جائے گا۔
دنیا کا قدیم ماحول اور لحمیات
 
ارتقاءپسندوں کا گھمبیر ترین فریب ان کا تصویر میں دکھایا گیا قدیم زمین پر زندگی کی بیک وقت نموداری کا منظر نامہ ہے۔ اپنے دعوؤں کو ملر جیسے تجربوں سے ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن سائنسی حقائق سے ان کو ہمیشہ مات ہوتی رہی ہے۔ ۰۷۹۱ ءکے تجربوں سے حاصل کئے گئے نتائج سے ثابت ہوگیا ہے کہ قدیم زمین کا جو ماحول ارتقاءپسندوں نے فرض کیا تھا وہ زندگی کےلئے نہایت غیر موزوں تھا۔

لحمیات کی ترکیب پانی میں ممکن نہیں ہے

جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا ہے کہ لحمیات کی تشکیل کے دوران امینو ترشے ایک دوسرے کے ساتھ مخصوص جوڑ بناتے ہیں جس کو ’پےپٹائڈ بونڈ ‘ کہتے ہیں ۔اس جوڑ کی تشکیل کے دوران پانی کا ایک سالمہ خارج ہوتا ہے۔ یہ حقیقت لازمی طور پر اس ارتقائی دعوے کی تردید کرتی ہے کہ قدیم زندگی کی ابتداءپانی میںہوئی کیونکہ کیمیاءکے ’لاشےٹےلےرپرنسےپل‘ کے مطابق کوئی ایسا ردِ عمل جو کہ پانی خارج کرتا ہو (بستہ کرنے کا ردِ عمل) وہ آبی ماحول میں پیش نہیں آسکتا۔آبی ماحول میں اس طرح کے ردعمل کے پیش آنے کا تمام کیمیائی ردِ عمل میں سے سب سے کم امکان ہے۔ اسی لئے گوکہ سمندر کو زندگی کی شروعات اور امینو ترشوں کی ابتداءگاہ قراردیا جاتا ہے ،وہ دراصل امینو ترشوں کا لحمیات کی شکل اختیار کرنے کے لئے سب سے زیادہ غیر موزوں اور ناممکن ماحول ہے۔ دوسری طرف ارتقاءپسندوں کا اپنا یہ بیان بدل دینا اور یہ کہنا شروع کردینا کہ زندگی کی ابتداءدراصل زمین پر ہوئی تھی بھی خلاف منطق ہے کیونکہ امینو ترشوں کاورائے بنفشی سے محفوظ رہ کر وجود میں آنا صرف اور صرف پانی کے اندر ہی ممکن تھا۔ زمین کے اوپر ورائے بنفشی ان کو فوراً تباہ کردیتے۔ ”لاشےٹےلےر پرنسیپل“ یا ”لاسٹیلر اصول“ زندگی کی پانی کے اندر ابتداءکی مخالفت کرتا ہے۔ یہ ایک اور مسئلہ ہے جو کہ ارتقاءپسندوں کو درپیش ہے۔

فوکس کا تجربہ: ایک اور مایوس کن کوشس

پروٹین
فوکس نے اپنے تجربے میں ”پروٹینائڈ“ نامی مادی ذرات تیار کئے جو کہ امینو ترشوں کے بے ترتیب مرکب تھے۔ جاندار اجسام کے لحمیوں کے برعکس پروٹینائڈ بے کار اور غیر فعال کیمیائی اجزاءتھے۔ یہاں برقیہ خوردبین کے ذریعے پروٹینائڈ کے ذرے نظر آرہے ہیں۔
اوپر بتائے گئے مسئلے سے للکارے جانے کے باعث ارتقاءپسندوںنے اپنے نظریوں کی تردید کرتے ہوئے اس پانی کے مسئلے کے حل کے طور پر غیر حقیقی منظر ایجاد کرنے شروع کردئے۔ سڈنی فوکس ان تحقیق دانوں میں سب سے مشہور تحقیق دان تھا۔ فوکس نے مندرجہ ذیل نظریئے کو اس مسئلے کے حل کے طور پر آگے بڑھانا شروع کردیا۔ فوکس کے مطابق پہلے امینو ترشے قدیمی سمندر میں تشکیل پانے کے بعد ایک آتش فشاں کے نزدیک پہاڑیوں پر کسی طرح پہنچ گئے۔ ان امینو ترشوںکے اندر موجود پانی میں پہاڑیوں کے امینو ترشے بھی شامل ہوگئے۔ یہ تمام پانی سخت درجہ حرارت کے باعث خشک ہوگیا۔ اس طریقے سے سوکھ جانے والے امینوترشے آپس میں جڑ کر لحمیات کی شکل اختیار کرگئے۔ اس پیچیدہ طریقے کو اس حلقے کے سائنسدانوںنے قبول کرنے سے انکا رکردیا کیونکہ امینو ترشے اتنا شدےددرجہ حرارت برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے۔ تحقیق کے ذریعے ثابت ہوچکا ہے کہ امینو ترشے بہت زیادہ درجہ حرارت کے باعث تباہ ہوجاتے ہیں۔لیکن فوکس نے اب بھی ہار نہیں مانی۔ اس نے تجربہ گاہ میںمخصوص ماحول کے اندر امینو ترشوں کو ہر طرح کی آلائش اور ملاوٹ سے پاک کردیا اور ان کو ایک خشک ماحول میں گرم کیا۔ گوکہ امینو ترشے آپس میں مل گئے لیکن لحمیات اب بھی حاصل نہیں ہوئے۔ فوکس کو سادہ اور بے ترتیب امینو ترشوں کے گچھے حاصل ہوئے جوکہ ایک دوسرے سے ناکافی واقفیت سے جڑے ہوئے تھے۔ ان گچھوں اور کسی زندہ لحمیہ کے درمیان کسی قسم کی مماثلت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر فوکس ان امینو ترشوں کو ایک باقاعدہ درجہ حرارت پر مزےد اور وقت کے لئے رکھتا تو امینوترشوں کے یہ ناکارہ گچھے بکھرجاتے۔۲۲۱
ایک اور نقطہ جو کہ فوکس کے تجربے کو ناقص بناتا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ملر کے تجربے سے حاصل کئے گئے بے کار اجزاءکا استعمال نہیں کیا بلکہ اس نے جانداروں کے خالص امینو ترشوں کو استعمال کیا تھا۔ چونکہ اس کا تجربہ ملر کے تجربے کا تسلسل تھا اسی لئے اس کو ملر کے حاصل کردہ نتیجوں سے ہی شروع ہونا چاہئے تھا ۔لیکن نہ فوکس نہ کسی اور تحقیق دان نے ان ناکارہ امینو ترشوں کو استعمال کیا جوکہ ملر نے اپنے تجربے سے حاصل کئے تھے۔۳۲۱
فوکس کے تجربے کا ارتقاءپسند حلقوں میں کسی طرح کا خیر مقدم نہیں کیا گیا کیونکہ صاف ظاہر تھا کہ اس تجربے کے ذریعے اس نے جوامینو ترشوں کی زنجیریں حاصل کی تھیں جن کو اس نے ”پروٹینائڈ“ (پروٹین یعنی لحمیہ سے پروٹینائڈ) کا نام دیا تھا وہ کسی بھی طرح کے قدیم قدرتی ماحول میں وجود میں نہیں آسکتے تھے۔ اس کے علاوہ زندگی کا بنیادی لحمیہ آج تک کسی انسانی کوشش سے پیدا نہیں کیا جاسکا۔ لحمیات کی ابتداءسے متعلق تمام مسائل غیر حل شدہ ہی ہےں۔ مشہور سائنسی رسالے ”کیمیکل انجینئرنگ نیوز“میں ۰۷۹۱ءکے سالوں میں چھپنے والے ایک مضمون میں فوکس کے تجربے کے بارے میں لکھا گیا تھا کہ:
”سڈنی فوکس اور دوسرے تحقیق دانوںنے امینو ترشوں کو ”پروٹینائڈ“ کی شکل میں جوڑنے سے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ مخصوص حرارت کے ذریعے ایسی صورتحال میں کی ہے جوکہ درحقیقت کرہ¿ ارض کے قدیمی وقت میں موجود ہی نہیں تھی۔ ان کے علاوہ ان لوگوں کو جانداروں کےاندر موجود عام لحمیات کے متعلق مکمل طور پر علم ہی نہیں تھا۔ ان کے تجربے کا نتیجہ صرف ناکارہ اور بے رتیب کیمیائی دھبے ہیں۔ ان کو اس بات کا بھی واضح طور پر علم تھا۔ الغرض کوئی سالمے ابتدائی وقت کے دور میں وجود میں آبھی جاتے تو وہ لازماً تباہ بھی ہوجاتے۔“ ۴۲۱
بے جان مادہ زندگی نہیں پیدا کرسکتا
ملر اور فوکس کے تجربوں جیسے ارتقائی تجربوں کا مقصد اس دعوے کو سچ ثابت کرنا تھا کہ بے جان مادہ خود اپنے آپ کو ترتیب دے کر پیچیدہ جاندارا جسام کی شکل دھارسکتا ہے۔ یہ ایک نہایت غیر سائنسی عقیدہ ہے۔ ہر مشاہدے اورتحقیق نے ناقابلِ انکار سطح پر ثابت کردیا ہے کہ مادے کے اندر اس طرح کی کوئی صلاحیت نہیں ہوتی۔ مشہور انگریز ہیئت داں اور ریاضی داں سر فرےڈ ہائل کہتا ہے کہ دانستہ دخل اندازی کے بغیر مادہ زندگی پیدا نہیں کرسکتا۔

”مادے کا اگر کوئی بنیادی اصول ہوتا جس کے تحت تمام مربوط نظام زندگی کی طرف چلے جاتے تو اس عمل کا ثبوت با آسانی تجربہ گاہوں میں حاصل ہوجانا چاہئے تھا۔مثال کے طور پر تیراکی کے ایک تالاب کو قدیم مائع تصور کرلیتے ہیں۔ اس تالاب کو اپنی مرضی کے ہر غیر حیاتیاتی کیمیا سے بھردیتے ہیں۔ اب چاہے اس کے اوپر گیس ڈالیں یا اس کے اندر وہ آپ کی مرضی ہے اور پھر اپنی مرضی سے اس کو نورافگنی کے عمل سے بھی گزاردیتے ہےں۔ اس تجربے کو ایک سال تک جاری رکھیں اور دیکھیں کہ ۰۰۰۲ میں سے کتنے خامرے اس پانی میں نمودار ہوتے ہیں )خامرے وہ لحمئے ہوتے ہیں جو مخصوص حیاتی کیمیائی ردِ عمل میں عمل انگیز کا کام کرتے ہیں(۔ اس کا جواب میں آپ کو دے سکتا ہوں اس لئے آپ خود اس تجربے کو کرنے کا وقت، مشکل اور خرچا بچالیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا ماسوائے تارکول سے آلودہ امینو ترشوں پر مشتمل گندہ پانی اور دوسرے سادہ مربوط کیمیا“۔ ۱

ارتقائی ماہرِ حیاتیات اینڈرواسکاٹ بھی یہی اعتراف کرتا ہے:

”مادے کی تھوڑی سی مقدار لے لیں اور اس کو گرم کرتے ہوئے ہلائیں۔ یہ کسی شے کی تخلیق کی جدید صورت ہے۔ باقی کا کام کشش ثقل، برقناطیسی عمل اور مضبوط اور کمزور نیوکلیائی قوت کرتی ہے۔ لیکن اس بظاہر صاف ستھری کہانی کا کتنا حصہ تسلیم شدہ ہے اور کتنا پرامید مفروضوں پر مبنی ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہر بڑے مرحلے کا میکانیکی عمل، کیمیائی عمل سے نکلنے والے مادے سے لے کر پہچان کے لائق پہلے خلیوں تک، سخت تنازعہ اور مکمل بدحواسی کا شکار ہے“۔

Fred Hoyle, “The Intelligent Universe”, New York, Holt, Rinehard & Winston, 1983, p. 256-----1
Andrew Scott, “Update on Genesis”, New Scientist, vol. 106, May 2nd, 1985, p. 30------2
اور واقعی یہ بات درست بھی تھی کہ فوکس کو حاصل ہونے والے پروٹینائڈ اصل لحمیات سے ساخت اور کارکردگی کے اعتبار سے بالکل مختلف تھے۔ ان کے درمیان فرق ایسا تھا جیسے کسی جدید تکنیکی صلاحیت رکھنے والے آلات اور خام لوہے کےڈھیر کے درمیان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان بے ترتیب امینو ترشوں کی زنجیروں کا قدیم ماحول میں زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ شدید ورائے بنفشی اور دوسرے بے ربط قدرتی ماحولیاتی اثرات کے تحت پیدا ہونے والے مصر طبعیاتی اور کیمیائی ردِ عمل کے باعث یہ لحمیات فوراً تباہ ہوجاتے۔ ”لاسٹیلر پرنسپل“، یا ”لاسٹیلر اصول“ کے تحت یہ بھی ناممکن تھاکہ یہ امینو ترشے پانی کے اندر تشکیل پاتے جہاں پر وہ ورائے بنفشی سے مکمل طور پر محفوظ رہتے۔
ان تمام اہم نقطوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس خیال نے سائنسدانوں کے درمیان متفقہ طور پر دم توڑ دیا کہ پروٹینائڈ یا نقلی طور پر حاصل کئے گئے لحمیات زندگی کی بنیاد ہوسکتے ہیں۔

معجزاتی سالمے: DNA (یا اپنی مثل پیدا کرنے والا مادہ):

dna
DNA نامی سالمے انسانی جسم کے ۰۰۱ کھرب خلیوں کے مرکزوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کے اندر اس مخصوص انسانی جسم کی تعمیر کے لئے مکمل نقسہ موجود ہوتا ہے۔ اس انسان کی ظاہری ہیئت سے لے کر اندرونی اعضاءکی ساخت سے متعلق تمام معلومات DNA کے اندر محفوظ ہوتی ہیں۔
اب تک بیان کئے گئے تجزیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ سالمیاتی سطح پر نظریہ¿ ارتقاءایک شدید الجھن کا شکار ہے۔ ارتقاءپسند ابھی تک امینو ترشوں کی ابتداءکے معاملے پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکے۔ لحمیات کی تشکیل بھی ایک اور راز ہے ۔لیکن یہ تمام مسئلے صرف امینو ترشوں اور لحمیات تک محدود نہیں ہیں۔ یہ تو صرف شروعات ہے جس سے آگے خلئے کی بے انتہاپیچیدہ ساخت ارتقاءپسندوں کو اےک اور تعطل پر لاکر کھڑا کردیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیہ صرف امینو ترشوں سے بنےہوئے لحمیات کا ڈھیر نہیں ہے بلکہ انسان کے سامنے موجود سب سے زیادہ اور ناقابل تصور طور پر پیچیدہ نظام ہے۔ جہاں ایک طرف نظریہ¿ ارتقاءکو خلئے کے بنیادی جز سالموں کے بارے میں کوئی قابل فہم توضیح فراہم کرنے میں شدید دشواری پیش آرہی تھی وہیں جینیاتی سائنس میں ترقی اور نیوکلیک ترشوں DNA اور RNA کی دریافت نے اس نظریئے کے لئے نئی مشکلات کھڑی کردیں۔ ۳۵۹۱ءمیں جیمز واٹسن اور فرانسس کرک نے حیاتیات میں ایک نئی نسل کی ابتداء DNA کے حیران کن طور پر پیچیدہ ساخت کو درےافت کرکے کی۔ DNA نامی سالمے جسم کے ۰۰۱ کھرب خلیوں کے اندر موجود ہوتے ہیں اور ان کے اندر اس مخصوص جسم کی ساخت پیدا کرنے کی تمام معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے۔
DNA کے اندر اس انسان کو تمام طبعیاتی اور اندرونی اعضاءکے حساب سے مکمل کرنے سے متعلق معلومات چار مخصوص بنیادوں کے سلسلوں میں موجود ہوتی ہیں جو کہ ایک بہت بڑے سالمے کی شکل میں موجود ہوتا ہے۔ ان بنیادوں کو G,T,A اور Cکہتے ہیں جو کہ ان کے ناموں کے پہلے حرف ہےں۔ تمام انسانوں کے درمیان فرق ان کے DNA کے فرق پر منحصر ہوتا ہے جو کہ ایک طرح سے چار بنیادوں پر کھڑا بینک ہے۔ DNA کے حروف یا بنیادوں کی سلسلہ وار ترتیب ایک انسان کی معمولی ترین خاصیت کا بھی تعین کرتی ہے۔ قد، آنکھوں، بالوں اور جلد کے رنگ کے علاوہ ایک واحد خلئے میں موجود DNA میں ۶۰۲ ہڈیوں، ۰۰۶ عضلہ، ۰۰۱ کروڑ اعصابی خلیوں، ۰۰۰,۱ کھرب اعصابی جوڑوں، ۰۰۰,۷۹ کلو میٹر رگوں اور ۰۰۱ کھرب جسمانی خلیوں کے خاکے بھی موجود ہوتے ہیں۔ اگر DNA میں موجود تمام معلومات کو لکھا جائے تو ایک وسیع کتب خانہ بن جائے گا جس میں ۰۰۵ صفحات پر مبنی ۰۰۹ کتابیں ہوں گی۔یہ تمام معلومات ایک خلئے کے مرکز میں بخوبی موجود ہوتی ہیں جوکہ خلئے کی ۰۰۱/۱ ملی میٹر لمبائی سے بھی کہیں چھوٹا ہوتا ہے۔

DNA اتفاق سے وجود میں کیوں نہیں آسکتا

اس نقطے پر ایک اور اہم تفصیل قابل غور ہے۔ وہ یہ کہ کسی جین کی ترتیب میں نیوکلیوئڈ کے سلسلوں میں ذراسی بھی غلطی اس تمام جین کو ناکارہ بنادیتی ہے۔ (جین نسلی توریث کی اکائی ہوتی ہے جو RNA یا DNA پر مشتمل ہوتی ہے) اگر ان ۰۰۰,۰۳ کے قریب انسانی جسم کے اندر موجود جین کو مدِنظر رکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے ان میں موجود لاکھوں مرکزوں کا بالکل درست سلسلوں میں محض اتفاق سے وجود میں آجانا ناممکن ہے۔ ارتقائی ماہرِ حیاتیات فرینک سالسبیری نے اس ناممکنصورتحال کے اوپر رائے دی ہے کہ:
”ایک درمیانی لحمیہ کے اندر ۰۰۳ امینوترشے موجود ہوتے ہیں۔ ان کو قابو میں رکھنے والے DNA کی جینیاتی زنجیر کے اندر ۰۰۰۱ مرکز یا نیوکلیوئڈ موجود ہوں گے۔ چونکہ DNA زنجیرمیں چار طرح کے مرکز یا نیوکلیوئڈ ہوتے ہیں۔ ایک ۰۰۰۱ کڑیوں پر مبنی زنجیر ۰۰۰,۱۴ اشکال میںموجود ہوسکتی ہے۔ تھوڑے سے الجبرا کی مدد سے یہ دیکھا جاسکتا ہے ۰۰۰۶۰۱=۰۰۰۱۴۔۰۱ کو اپنے آپ سے ۰۰۶ دفعہ ضرب دینے سے ۱ کے بعد ۰۰۶ صفر پر مشتمل عدد بن جاتا ہے۔ یہ عدد ہماری عقل کے لئے ناقابل فہم ہے“۔۵۲۱
واٹسن اور کرک, dna
واٹسن اور کرک DNA کے سالمے کے سہ ابعادی نمونے کے ساتھ
۰۰۰۱۴ کا عدد ۰۰۶۰۱ کے برابر ہے جس کا مطلب ہے کہ ۱ کے بعد ۰۰۶ صفر لگے ہوئے ہیں۔ اگر ۱ کے ساتھ ۲۱ صفر لگانے سے ایک کھرب بن جاتا ہے تو پھر ۰۰۶ صفر کس قدر ناقابل فہم عدد بنے گا اس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔DNA اور RNAکے نیوکلیوئڈ کے اتفاقی طور پر مجتمع ہونے سے وجود میں آنے کی ناممکنہ صورتحال کو فرانسیسی سائنسدان پال آگر ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
”نیوکلیوئڈ جیسے پیچیدہ سالموں کا کیمیائی واقعات کے ذریعے اتفاقی طور پر وجود میں آنے کا دو مخصوص مرحلوں میں جائزہ لینا ضروری ہے۔ نیوکلیوئڈ کا ایک ایک کرکے وجود میں آنا اور پھر ان نیوکلیوئڈ کا مخصوص سلسلوں کی شکل میں جڑ جانا ۔ پہلا مرحلہ نسبتاََ ممکن ہے جبکہ دوسرا مرحلہ اتفاق کے تحت سراسر ناممکن ہے“ ۔۶۲۱
کئی سالوں تک فرانسس کرک کو سالموں کے ارتقائی نظریئے پر مکمل اعتقاد رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کو اعتراف کرنا پڑا کہ اس قدر پیچیدہ سالمے کسی بھی ارتقائی عمل کے نتیجے میں اتفاقی اور اضطراری طریقوں سے وجود میں نہیں آسکتے:
”کوئی بھی ایماندار آدمی جو کہ جدید سائنسی علم سے لیس ہو وہ صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ زندگی کی ابتداء ایک معجزے سے کم دکھائی نہیں دیتی“ ۔۷۲۱
ترکی کا ارتقائی پروفیسر علی دمرسوئے ارتقاءکے موضوع پر مندرجہ ذیل اعتراف کرنے پر مجبور ہے:
”حقیقت تو یہ ہے کہ لحمئے اور نیوکلیک ترشے (DNA-RNA) کے وجود میں آنے کا امکان ایک ایسا امکان ہے جس کا اندازہ بھی ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ ایک مخصوص لحمیاتی زنجیر کے اچانک وجود میں آجانے کا امکان اتنا کم ہے کہ اس کو صرف بسیط و عظیم ہی کہا جاسکتا ہے“ ۔۸۲۱
اس نقطے پر ایک نہایت دلچسپ متضاد بات سامنے آتی ہے۔ اگرچہ DNA صرف مخصوص خامرہ نامی لحمیات کی مدد سے نقل کا کام انجام دے سکتاہے ،ان لحمیات کو مرکب بنانے کا عمل صرف اورصرف DNA کے اندر موجود معلومات کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔چونکہ یہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اسی لئے ان کی نقل کے لئے بیک وقت موجود ہونا لازمی ہے یا پھر ایک کو دوسرے سے پہلے وجود میں آنا ضروری ہے۔ امریکی ماہر خرد حیاتیات ہومرجیکسن کہتا ہے:
”جینیاتی ارادوں کی تولید کے راستوں کا تعین کرنے کے لئے ،جن میں توانائی اور موجودہ ماحول سے کشیدگی، افزائشی عمل کا سلسلہ اور تمام افزائش کے اندر مستعملی نظام شامل ہے ، ےہ ضروری تھا کہ تمام نظام زندگی کی ابتداءکے وقت ایک ساتھ موجود ہوں ۔افزائش سے متعلق ان تمام نظاموں کا بیک وقت موجود ہونا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے اور اسی لئے اکثر اس کو متبرک مداخلت کا نام دیا جاتا ہے۔“ ۹۲۱
اوپر دیا گیا بیان واٹسن اور کرک کا DNA کی ساخت دریافت کرنے کے دوسال بعد کا ہے لیکن تمام سائنسی ترقی کے باوجود ارتقاءپسند وں کا یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔ دوجرمن سائنسدانوں جنکر اور شریرر کے حساب سے کیمیائی ارتقاءکے لئے مقصود اہم سالموں کی ترکیب کے لئے مخصوص ماحول درکار ہے ۔ان اجزاءکی ترکیب مختلف طریقوں سے اخذ کئے جانے کا امکان صفر ہے:
”ابھی تک ایسا کوئی تجربہ ایجاد نہیں ہوا ہے جس کے ذریعے ہم کیمائی ارتقاءکے لئے لازم سالموں کو حاصل کرسکیں۔ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ مختلف سالمے مختلف جگہوں پر نہایت موزوں ماحول کے زیر اثر پہلے تو بنائے جائیں اور پھر ان کورد عمل کے تجربے کے لئے آب پاشیدگی اور ضیانخزی عمل سے محفوظ رکھتے ہوئے دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔“۰۳۱
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءکسی بھی نام نہادر ارتقائی مرحلے کو ثابت کرنے سے قاصر ہے جو کہ سالمی سطح پر رونما ہوتا ہے۔بجائے اس کے کہ ان سوالات کے جواب مہیا کئے جاتے سائنسی ترقی نے الٹا ان کے جوابات کا حصولمزید پیچیدہ اور الجھن آمیز بنادیا ۔ قابل دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کئی ارتقاءپسند نہ صرف اس نظریئے پر بلکہ اس جیسی اور بھی سائنسی رام کہانیوں پر اتنا یقین کرتے ہیں کہ گویا یہ سچی ہوں۔ چونکہ انہوں نے اپنی عقل کو تخلیق کے خلاف بند کرلیا ہے اس لئے ان کے پاس ان کہانیوں پر اعتقاد رکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ آسٹریلیا کا مشہور ماہر حیاتیات مائیکل ڈنٹن اپنی کتاب ”ایولوشن، اے تھیوری ان کرائسس“ یا ”ارتقائ: ایک مصیبت زدہ نظریہ“ میں اس موضوع کے اوپر لکھتا ہے:
”کسی تنقید دان کے لئے محض ترقی یافتہ جانداروں کی جینیاتی معلومات کی ،جو کہ کئی ہزار لاکھ معلوماتی جز پر مشتمل ہے جس کا ایک چھوٹے کتب خانے کی ۰۰۰,۱ کتابوں سے موازنہ کیا جاسکتا ہے اور جس کے اندر ہزاروں لاتعداد باریک بین لوگاردم موجود ہیں جوکہ مستقل کھربوں خلیوں کو قابو میں رکھنے، ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے اور ان کی افزائش کے بھی ذمہ دار ہیں ،کسی خالص بے ترتیب عمل سے وجود میں آنے کی تجویز عقل اور منطق کے منافی ہے لیکن ڈارون پرست اس نظریئے پر شک کی ایک ہلکی سی بھی لہر کے بغےر بلا تامل اندھا اعتقاد کرلیتے ہیں“۔۱۳۱

ایک اور ناکام ارتقائی کوشش : RNA کی دنےا

۰۷۹۱ءکی دریافت کہ کرہ¿ ارض کے قدیم ماحول میں موجودہ گیسوں سے امینو ترشوں کی ترکیب کا عمل ناممکن تھا ،سالموں کی ارتقاءکے نظریئے کے لئے ایک سنگین دھچکا تھا۔ ارتقاءپسندوں کو پھر اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑا کہ اسٹینلی ملر، سڈنی فوکس، سیرل پونمپیروما کے قدےم ماحول کی نقل کر کے کئے گئے تجربے ناقص تھے۔ اس وجہ سے ۰۸۹۱ءکے سالوں میں ارتقاءپسند ایک بار پھر کمر باندھ کر میدان میں اترگئے اور نتیجتاً RNA دنیا کا مفروضہ آگے بڑھایا گیا۔ اس منظر نامے کے مطابقلحمیات کی بجائے RNA کے سالمے جو کہ لحمیات کے لئے معلومات کا ذخیرہ ہوتے ہیں پہلے وجود میں آئے۔ اس مفروضے کو ہارورڈ کے کیمیا دان والٹر گلبرٹ نے ۶۸۹۱ میں تشکیل کیا۔ اس کی بنیاد تھامس سک کی دریافت ”رائبوزائم“ تھی۔ اس مفروضے کے حساب سے کروڑوں سال پہلے RNA کا ایک سالمہ جس کے اندر اپنے آپ کو نقل کرنے کی صلاحیت موجود تھی وہ حادثتاً وجود میں آگیا ۔پھر یہ RNA کا سالمہ بیرونی اثرات کے زیر اثر لحمیات پیدا کرنے لگا۔ان تمام معلومات کو دوسرے سالمے میں جمع کرنے کی ضرورت کے پیش نظر اتفاقی طور پر DNA کا پہلا سالمہ وجود میں آیا۔یہ ناقابل یقین منظر نامہ جس کا ہر مرحلہ ناممکنات کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والے زنجیر ہے کسی بھی صورت زندگی کی ابتداءسے متعلق کوئی حل پیش نہیں کرتا بلکہ اس مسئلے کو کئی گنا زیادہ بڑھاکر مسئلے میں مزید سوالات کا اضافہ کردیتا ہے۔مثلاََ:
۱۔ اگر RNA کو بنانے والے کسی ایک نیوکلیوئڈ کی اتفاقی تخلیق ہی ناقابل فہم ہے تو پھر ان خیالی نیوکلیوئڈ کا مخصوص سلسلوں میں جڑ کر RNA بن جاناکیسے مانا جاسکتا ہے؟ ارتقاءپسند جان ہارگن RNA کے اتفاقاً وجود میں آنے کی ناممکنہ صورتحال پر کہتا ہے:
”جیسے جیسے تحقیق دان RNA کی دنیا کے اصولوں کا جائزہ کرتے چلے جاتے ہیں مزےد مسئلے سراٹھاتے جاتے ہیں مثلاََ RNA کی اصل ابتداءکیا ہے؟ RNA اور اس کے اجزاءبہترین ماحول کے تحت کسی تجربہ گاہ میں بھی ترتیب نہیں دئے جاسکتے تو پھر ان کا اتفاقی حالات کے تحت وجود میں آنا کیسے ممکن ہے۔“ ۲۳۱
پروفیسر فرانسس کرک
پروفیسر فرانسس کرک ”زندگی کی ابتداءایک معجزہ لگتی ہے۔“
۲۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ RNA اتفاقی طور پر وجود میں آیا ہے تو پھر ایک نیوکلیوئڈ زنجیر پر مبنی RNA نے خود بہ خود دوسرا بننے کا فیصلہ کس طرح کرلیا؟ پھر ےہ خود نقلی کا عمل اس نے کس طرح کا نظام استعمال کرتے ہوئے کیا؟ اس کو نئے RNAبنانے کے لئے نیوکلیوئڈ کہاں سے ملے؟ ماہر خرد حیاتیات جیرلد جوئس اورلسلی اورگل نے بھی اپنی کتاب ”ان دا RNA ورلڈ“، یا ”RNA کی دنیاکے اندر‘ ‘ اس مایوس کن صورتحال کے بارے میں رائے زنی کی ہے:
” اس تمام بحث کا محور ایک طرح سے ایک گھاس پھوس کا آدمی ہے: خود نقلی کرتا ہوا ایک RNA کے سالمے کی خےالی کہانی جو کہ کثیر تعداد نیوکلیوئڈ کے بے ترتیب آبی آمیزے میں وجود میں آتا ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی خیال نہ صرف جدید حالیہ قبل از زندگی کیمیا کی تحقیق کے حساب سے غیر حقیقی ہے بلکہ یہ خیال تو کسی خود اندیش کی RNA کے اندر موجود کیٹالسٹ کی طاقت کے بارے میں سادہ لوحی پر بھی شدید دباﺅ ڈالنے کے قابل ہے۔“ ۳۳۱
۳۔ اگر یہ فرض کربھی لیا جائے کہ قدیم ارضی ماحول میں خود نقلی کی صلاحیت رکھنے والا RNA موجود تھا، RNA کے استعمال کے لئے کئی اور طرح کے امینوترشے بھی دستیاب تھے اور یہ ناممکنات کسی طرح واقع ہو بھی گئیں توتمام صورتحال پھربھی کسی ایک بھی لحمیہ کی ترتیب کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔ اس کی وجہ ےہ ہے کہ RNA صرف لحمیات کی ساخت سے متعلق معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے جبکہ امینو ترشے خام مال کی حیثیت رکھتے ہیں۔صرف RNA کی موجودگی لحمیات کی تشکیل کے لئے کافی ہونا اتنا ہی مضحکہ خیز خیال ہے جتنا کہ یہ سوچ لینا کہ ایک موٹر کار خود بہ خود ایک خاکے کو لوہے کے ڈھیر پر پھینک دینے سے وجود میں آجائے گی۔کوئی بھی خاکہ یا نقشہ اس وقت تک موٹر کار نہیں بناسکتا جب تک کہ اےک کارخانہ اور اس میں موجود کارکن تمام حصوں کی تشکیل اس خاکے کے مطابق نہ کردیں۔ بالکل اسی طرح RNAکے اندر جاندار جسم کا خاکہ موجود ہوتا ہے جوکہ خود بہ خود لحمیات نہیں پیدا کرسکتا جب تک کہ اس کو خلئے کے ان دوسرے تمام اجزاءکا تعاون حاصل نہ ہو جو کہ RNA میں موجود ہدایت نامے کو مکمل طور پر نافذ نہ کردیں۔ لحمیات رائبوسوم کے کارخانے میں تشکیل پاتے ہیں۔ (رائبوسوم RNA اور متعلقہ لحمیات پر مشتمل مہین ذروں کو کہتے ہیں)۔ لحمیات کی تشکیل میں کئی سالموں کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ تشکیل خلئے کے اندر نہایت پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ رائبوسوم خلئے کا پیچیدہ جز ہوتا ہے جو کہ لحمیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس صورتحال سے ایک اور غیر منطقی مفروضہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ پھر تو رائبوسوم کو بھی اتفاقاً اسی وقت وجود میں آجانا چاہئے تھا۔نوبل انعام جیتنے والے جاک موناڈ نظریہ¿ ارتقاءاور لادینیت کا شدد پسند حمایتی ہے۔ موناڈ کی توضیح کے مطابق لحمیات کی ترکیب محض نیوکلیک ترشے کے اندر موجود معلومات پر منحصر نہیں ہے:
”ےہ خفیہ تحریر ا س قت تک بے کار ہے جب تک کہ اس کا ترجمہ نہ کرلیا جائے۔ جدید خلئے کی ترجمانی کا نظام کم از کم ۰۵ کلاں سالماتی اجزاءپر مشتمل ہے جن کے بارے میں تمام معلومات DNA کے اندر خفیہ طور پر تحریر ہوئی ہوتی ہےں۔ اس تحریر کا ترجمہ صرف وہ جز کرسکتے ہیں جوکہ خود بھی ترجمے کا نتیجہ ہوں۔ یہ اومنی و یوم ایکس اوروہ کا جدید اظہار ہے۔ یہ حلقہ کب اور کس طرح سے بند ہوا؟ یہ قیاس کرنا نہایت دشوار ہے“ ۔۴۳۱
لحمیہ
قدیم ارضی ماحول میں رہنے والی ایک RNA کی زنجیر اس طرح کا فیصلہ کس طرح کرسکتی تھی اور اس نے کس طرح کے طریقے اپناتے ہوئے لحمیات کی تشکیل اپنے ۰۵ مخصوص ذرات سے کام لےتے ہوئے کی؟ حسبِ دستور ارتقاءپسندوں کے پاس ان تمام سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ڈاکٹرلسلی اورگل یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سین ڈئے گو میں اسٹینلی ملر اور فرانسس کرک کی ایک ہم منصب تھی۔ اس نے اس منظر نامے کی اصلاح کے لئے اپنا مضمون ”دا اوریجن آف لائف“، یا”زندگی کی ابتدائ“ پےش کےا ہے جس میں اس نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہRNA کے اندرنہ صرف ان تمام ناممکنات کو ممکن بنانے کے لئے کن خصویات کا ہونا لازم تھا بلکہ ان تمام خصوصیات کا اس کے اندر موجود ہونا ہی دراصل کتنا ناممکن فعل تھا۔اس کا مضمون ۴۹۹۱ءاکتوبر میں رسالہ ”امریکن سائنٹسٹ“ میں چھپا تھا:
”یہ صورتحال اس قت پیش آسکتی تھی اگر قبل از زندگی RNAکے اندر وہ دونوں خصوصیات موجود ہوتیں جوکہ آج مفقود ہیں۔ ایک تو لحمیات کی مدد کے بغیر خود نقلی کی صلاحیت اور دوسرا لحمیات کی ترکیب کے عمل کے ہر لمحے کو تیزی سے آگے بڑھانے کی صلاحیت کا موجود ہونا ۔“ ۵۳۱
اس وقت یہ واضح ہوجانا چاہئے کہ اوپر دئے گئے دونوں پیچیدہ اور بے انتہا ضروری عملیات کا RNAجیسے سالمے سے توقع رکھنا صرف ایک ارتقاءپسند نقطہ نظر سے ہی ممکن ہے۔ صرف ایک ارتقائی نوعیت کا تصور ہی اس کو ممکن بناسکتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت اور امکان نہیں ہے۔ ٹھوس سائنسی ثبوت اس بات کو صاف و صریح طور پر واضح کردیتا ہے کہ RNA کی دنیا کا مفروضہ ،جوکہ زندگی کی اتفاقی ابتداءکے لئے پیش کیا گیا نیا نقشہ ہے، وہ ایک سراسر غیر معقولاور توہمات پر مبنی کہانی ہے۔ ٹیکساس کی یونیورسٹی کے حیاتیاتی کیمیا دان گوڈرن ملز اور سین فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرِ خرد نامیہ حیاتیات ڈین کینن RNA کی دنیا کے منظر نامے میں موجود ڈارون کا معائنہ اپنے مضمون ”دا RNA ورلڈ اے کریٹیک“ یا ”RNAکی دنیا، ایک تنقید“ میں کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
”RNA ایک بے انتہا غیر معمولی سالمہ ہے لیکن RNAکی دنیا کا مفروضہ کچھ اور ہی بات ہے ۔ہم کو کوئی ایسا جواز نہیں ملتا جس کے تحت ہم اس مفروضے کو درست مان کر اس کی تصدیق کرسکیں۔“ ۶۳۱
ارتقاءپسندوں کے اعترافات
ارتقاءپسندوں کے اعترافات
حساب شمار کا احتمال اس بات کو واضح کردیتا ہے کہ لحمیات اور RNA اور DNA جیسے پیچیدہ سالمے اتفاق سے اور ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر وجود میں نہیں آسکتے۔ ارتقاءپسندوں کو اس سے زیادہ بڑا مسئلہ اس بات کے ثابت ہوجانے سے پیش آرہا ہے کہ ان تمام پیچیدہ سالموںکا زندگی کو قائم رکھنے طور ً قطعا ¿ کےلئے بیک وقت موجود ہونا لازمی ہے۔ اس ضرورت سے ارتقائی نظریہ پر سراسیمگی کا شکار ہے۔ اس نقطے پر آکر کئی سربرآوردہ ارتقاءپسند اعتراف اسٹینلی ملر اور فرانسس کرک کا یونیورسٹی آف سین ً پر مجبور ہوگئے ہیں ۔مثلا ڈیگو، کیلیفورنیا کا قریبی منصب دار نامور ارتقاءپسند ڈاکٹر لسلی اور گل کہتا ہے:

”یہ نہایت ناممکن ہے کہ لحمیات اور نیوکلیائی ترشے جو کہ دونوں ساخت کے اعتبار سے پیچیدہ ہیں، بیک وقت ایک ہی جگہ ایک ہی وقت نمودار ہوئے ۔لیکن ایک کے بغیر دوسرے کا موجودہونا بھی ناممکن ہے۔ اسی لئے پہلی نظر میں ہی یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ زندگی کی ابتداءکیمیائی طریقوں سے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔“

اسی حقیقت کا اعتراف دوسرے سائنسدان بھی کرتے ہیںکہ خامروں کی مدد کے بغیر DNA نہ اپنا کام صحیح طور پر کرسکتا ہے اور نہ ہی نئے DNA کی تشکیل کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ DNA کے بغیر لحمیات وجود میں نہیں آسکتے اور نہ ہی لحمیات کے بغیر DNA تشکیل ہوسکتا ہے۔ ۲

اپنے ترجمے کے طریقہ عمل یعنی رائبو سوم اور RNA کے ذروں کے ساتھ جینیاتی اشارے کس طرح وجود میں آئے؟ اس مقام پر ہم اپنے اپ کو کسی جواب کے بجائے صرف ستعجاب اور حیرت سے ہی تسلی دے سکتے ہیں۔ ۳

نیویارک ٹائمز کا سائنسی مصنف نکولس ویڈ ۰۰۰۲ میں لکھے گئے ایک مضمون میں کہتا ہے:

”زمین کے اوپر زندگی کی ابتداءکے متعلق ہرچیز ایک راز ہے۔ لگتا ہے کہ اس معاملے میں جتنا ہمارا علم بڑھتا ہے اتنا ہی یہ راز شدت اختیار کرتا جاتا ہے“۔ ۴

Leslie E. Orgel, “The Origin of Life on Earth”, Scientific American, vol. 271, October 1994, p. 78--------1
John Horgan, “In the Beginning”, Scientific American, vol. 264, February 1991, p. 119------2
Douglas R. Hofstadter, Godel, Escher, Bach: “An EteRNAl Golden Braid”, New York, Vintage Books,-----3 p. 548 ,1980
Nicholas Wade, “Life’s Origins Get Murkier and Messier”, The New York Times, June 13, 2000, pp. D1, D2-----4
سائنسی مصنف برگ کلائس اپنے ۱۰۰۲ میں چھپنے والے مضمون میں لکھتا ہے کہ ارتقائی سائنسدان اس موضوع پر بے حد ضد اور کٹر پن کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ اب تک ملنے والا ہر ثبوت ان کی ہر کوشش اور عقیدے کو ناکارہ اور ناقص ثابت کرتا ہے:
” RNAکی دنیا پر کی گئی تمام تحقیق ایک درمیانی نوعیت کی صنعت ہے۔ تمام تحقیق صرف یہ ثابت کرتی ہے کہ کرہ¿ ارض کے قدیم ماحول میں بے جان مادے سے جاندار خلیوں کا اتفاق سے وجود میں آجانا ایک ناقابل تصور طور پر دشوار فعل ہے۔ صرف اس فعل کی دشواری کا ثابت ہونا ہی سائنس کے لئے ایک اہم قدم ہے۔ آنے والے وقت میں اور بھی قیمتی تحقیق سامنے آتی جائے گی۔لیکن اس کے باوجود ارتقاءپسندوں کی یہ ضد کہ زندگی بے جان کیمیا سے اضطراری اور بے ارادی طور پر وجود میں آئی ایک بڑی قابل مہم بات ہے جوکہ ان پرانے زمانے کے کیمیا دانوں کے کام کے مشابہ ہے جوکہ سیسے کو سونا بنانے کی پرامید اور سرتوڑ کوششیں کرتے رہتے تھے“۔۷۳۱

زندگی کا تصور سالموں کے ڈھیر سے بالا تر ہے

dna, پروٹین
ابھی تک تو یہ دیکھا گیا ہے کہ زندگی کی حادثاتی ابتداءکتنی ناممکن بات ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے ان تمام ناممکنات کو نظر انداز کردیتے ہیں اور فرض کرلیتے ہیں کہ لحمیہ کا سالمہ بے حد غیر موزوں اور بے قابو قدیم ارضی دور کے ماحول میں وجودمیں آگیا ۔چونکہ صرف ایک لحمیہ کی تشکیل ہی تو کافی نہیں تھی اس لئے اس ایک لحمیہ کو صبر سے ہزاروں یا شاید لاکھوں سال اس بے قابو اور غیر موزوں ماحول میں کسی بھی قسم کا نقصان اٹھائے بغیر اس وقت تک انتظار کرتے رہنا پڑا ہوگا جب تک کہ اس کا ہو بہو ایک اور لحمیہ اتفاقی طور پر اسی ماحول میں نمودار ہوجاتا ۔پھر سے تاریخ دہرائی جاتی جب تک کہ مزید لحمئے اسی طرح محض اتفاقی طور پر نمودار نہیں ہوجاتے۔ پہلے بننے والے لحمےوں پرباوجود شدید ورائے بنفشی اور سخت میکانیکی اثرات کے اپنے آپ کو بچائے رکھ کر صبر سے دوسرے لحمیوں کے بننے کا انتظار کرنا لازم ہوتا۔ جب تمام لحمئے درست تعداد میں وجود میں آجاتے ،جو کہ ایک ہی جگہ پر اتفاقاً تشکیل ہوگئے، تو پھر وہ آپس میں اےک سوچی سمجھی اور پر معنی ترتیب کے تحت جڑ کر خلئے کے بنیادی جز کی شکل دھارلیتے۔ اس تمام ترکےب مےںکسی بھی فاضل اجزائ، مضر سالمہ یا ناکارہ لحمیہ کی زنجیر کا عمل دخل نہیں ہوسکتا۔پھر اس عظیم تعاون اور یکجہتی کے تحت ایک بہترین نقشے کے زیر اثر آپسمیں مل جانے کے بعد وہ اپنے ساتھ تمام ضروری خامروں کو بھی شامل کرلیتے اور خلئے کی مخصوص جھلی سے اپنے آپ کو ڈھک لیتے جس کے اندر ایک مخصوص قسم کا سیال موجود ہوتا جو کہ ان کی افزائش کے لئے موزوں ماحول فراہم کرتا۔ اگر فرض کے طور پر یہ تمام اعلیٰ سطح کی ناممکنات اتفاقی طور پر ممکن ہو بھی جاتیں تو کیا سالموں کا یہ ڈھیر زندہ ہوجاتا؟ ہرگز نہیں کیونکہ تحقیق کے تحت زندگی پیدا کرنے والے تمام ضروری اجزاءکا صرف آپس میں مل جانا ہی زندگی شروع کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اگر زندگی سے متعلق تمام لحمیات کو ایک تجرباتی نلکی میں ڈال دیا جائے تو یہ زندہ نہیں ہوسکتےں۔ اس سلسلے میں کئے گئے تمام تجربے ناکام رہے ہیں۔تمام تحقیقات اور مشاہدات صرف یہ ثابت کرتے ہیں کہ زندگی زندگی سے آگے بڑھتی ہے،بے جان اجزاءسے نہےں۔ یہ دعویٰ کہ زندگی کا ارتقاءغیر جاندار اجزاءسے یا ”تولید حیات از غیر حیات“ طریقے سے ہوا ہے ایک ایسا مفروضہ ہے جو کہ ارتقاءپسندوں کے خوابوں کا حصہ ہے اور ہر تجربے اور مشاہدے کے منافی ہے۔ اسی طرح زمےن پر نمودار ہونے والی پہلی جان بھی کسی جاندار کا نتیجہ ہوگی۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی صفت ”حیّ“ یعنی زندگی کا مالک کی طرف واضح اشارہ ہے۔ زندگی صرف اس کی مرضی سے شروع، برقرار اور ختم ہوسکتی ہے ۔جہاں تک نظریہ¿ ارتقاءکا سوال ہے تو یہ نہ صرف زندگی کی ابتداءسے متعلق کوئی جواب دے سکتا ہے بلکہ یہ بھی واضح نہےں کرسکتا کہ زندگی کو چلانے کے لئے لازم اجزاءکس طرح وجود میں آکر مرکب کی شکل اختیار کرکے زندہ اجسام میں تبدیل ہوگئے۔ چاندرہ وکراماسنگھا اپنے آپ کو ایک ایسا سائنسدان کہتا ہے جس کو تمام زندگی یہ بتایا گیا تھا کہ زندگی اتفاقات کی کڑیوں کا نتیجہ ہے۔ حقیقت کا علم ہونے پر وہ لکھتا ہے:
”سائنسدان کے طور پر میری تربیت کے اول دور میں میری دماغ شوئی کی گئی تھی کہ سائنس کسی بھی طرح کی سوچی سمجھی تخلیق کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکتی۔ لےکن اب تکلیف دہ طور پر ہی سہی لیکن میں نے اس خیال کو چھوڑدیا ہے۔ اس وقت میرے پاس کسی طرح کی ایسی منطقی بحث موجود نہیں ہے جوکہ مجھے خدا کی طرف مڑنے کے راستے میں حائل ہوسکے۔ ہم بہت کھلا ذہن رکھتے تھے لیکن اب ہمیں احساس ہورہا ہے کہ زندگی کی ابتداءکے لئے سب سے استدلالی جواب صرف تخلیق ہے نہ کہ کوئی گھسٹتی پھسلتی حادثاتی بے ترتیبی“ ۔۸۳۱
حرحرکیات ارتقاءکی نفی کرتی ہے
حر حرکیات کا دوسرا قانون جو کہ طبیعیات کے بنیادی قوانین میں سے ایک ہے، اس کے حساب سے عام حالات کے اندر اپنے حال پر چھوڑدیئے گئے تمام نظام گزرتے وقت کے براہِ راست تناسب سے بے ترتیب، منتشر اور مسخ ہوجاتے ہیں۔ ہر چیز چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان گھس جاتی ہے، بگڑ جاتی ہے، سڑ جاتی ہے یا ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہے۔ یہ ہی ہر جاندار کا قطعی انجام ہے اور اس قانون کے مطابق اس عمل سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا اور ہر کسی نے اپنی زندگی میں اس کا عملی مظاہرہ بھی یقینا دیکھا ہے اگرکوئی اپنی گاڑی کو صحرا میں لے جاکر چھوڑدے ً ۔مثلا

تو وہ یقینا اس بات کی توقع نہیں کرسکتا کہ وہ گاڑی اس کو کئی سال بعد واپسی پر اسی حالت یا اس سے بہتر حالت میں ملے گی ۔ اس کے برخلاف گاڑی کے پہیوں کی ہوا نکل چکی ہوتی ہے، اس کے شیشے ٹوٹ چکے ہوتے ہیں، اس کا لوہا زنگ آلود ہوچکا ہوتا ہے اور انجن بھی ناکارہ ہوچکا ہوتا ہے ۔یہی عمل جانداروں پر بھی صادق آتا ہے۔ حر حرکیات کا دوسرا قانون اس قدرتی عمل کی طبیعیاتی مساوات اور ریاضی کی جمع شمار کے ذریعے واضح ہے۔ طبیعیات کا یہ مشہور قانون ”لا آف اینٹروپی“ بھی کہلاتا ہے۔ طبیعیات میں اینٹروپی کسی نظام کی حر حرکی توانائی کے میکانیکی ضروریات کے لئے ناقابل حصول ہونے کی مقدار کو جانچنے کا ایک پیمانہ یا اندازہ وہتا ہے۔ جیسے جیسے کوئی نظام ترتیب، تنظیم اور منصوبہ بندی سے دور ہوکر بے ترتیبی، انتشار اور غیر منصوبہ بندیوں کی طرف جانے لگتا ہے اسی حساب سے ا س کی اینٹروپی بڑھتی جاتی ہے۔ جتنا زیادہ کسی نظام میں بے ترتیبی ہوگی اتنی ہی زیادہ اس کے اندر اینٹروپی کا تناسب ہوگا۔ اینٹروپی کے قانون کے مطابق تمام کائنات ناگزیر طور پر بے ترتیبی، بدتنظیمی اور انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اینٹروپی کے قانون کی سچائی تجربوں اور فکر و نظر سے ثابت کی جاچکی ہے۔ تمام معروف سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ اینٹروپی کا قانون مستقبل میں اس نظریئے یا ضابطہ کار کا مثالی نمونہ رہے گا۔ اس دور کے سب سے بڑے سائنسدان آلربٹ آئنسٹائن نے اس قانون کو ”سائنس کا اعلیٰ ترین قانون“ کہا ہے۔ سر آرتھر ایڈنگٹن کے الفاظ میں یہ قانون ”پوری کائنات کا بالاترین مابعدالطبیعیاتی قانون ہے۔“

لیکن ارتقائی نظریہ طبیعیات کے اس بنیادی قانون کو نظر انداز کردیتا ہے۔ ارتقاءجو طریقہ عمل پیش کرتا ہے وہ ارتقاءکے ¿ طبیعیات کے دوسرے قانون کی ضد ہے۔ نظریہ مطابق بے ترتیب، منتشر اور بے جان ایٹم یا اقل بنیادی اور DNA، RNA اکائیاں وقت گزرنے کے ساتھ یکجا ہوکر لحمیات جیسے انتہائی پیچیدہ سالموں کا روپ دھارگئیں اور اس کے ذریعے ان سے بھی زیادہ پیچیدہ ساخت کے ارتقاءکے مطابق ¿ حامل لاکھوں جاندار وجود میں آئے۔ نظریہ یہ ازروئے دعویٰ عمل جوکہ ہر مرحلے پر قدرتی عمل سے بھی زیادہ نظم و ترتیب پیچیدگی اور تشکیل کی اعلیٰ صلاحیت مانگتا ہے، وہ خود بہ خود قدرتی ماحول کے زیر اثر ظہور پذیر ہوتا چلا گےا۔ اینٹروپی کا قانون بہت واضح کردیتا ہے کہ یہ خیالی ارتقائی عمل طبیعیات کے تمام قوانین کی ضد ہے۔

ارتقائی سائنسدان بھی اس مسئلے سے آگاہ ہیں۔ جے۔ ایچ۔ رش کہتا ہے :

”اپنی ارتقاءکے پ یچیدہ دور سے گزرتے ہوئے زندگی حر حرکیات کے دوسرے قانون سے واضح طور پر متضاد کیفیات کا اظہار کرتی ہے۔“ ۲

ارتقاءپسند مصنف راجر لوون ارتقاءکے حرحرکیاتی تعطل کا ذکر رسالہ سائنس میں چھپنے والے ایک مضمون میں کرتا ہے:

”ماہر حیاتیات کو پیش آنے والا ایک مسئلہ حر حرکیات کے دوسرے قانون اور ارتقاءکے درمیان موجود ناقابل تردید تضاد ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر نظام توڑ پھوڑ کا شکار ہوجاتا ہے اور ابتر حالت اختیار کرتا ہے نہ کہ بہتر۔“ ۳

ارتقاءکا ایک اور حمایتی جورج اسٹیو روپولس ¿ نظریہ زندگی کی اچانک تشکیل کی حر حرکیاتی ناممکنات اور پیچیدہ جاندار نظاموں کی قدرتی قوانین کے ذریعے توضیح کی مشکلات کی وضاحت مشہور ارتقائی جریدے ”امریکن سائنٹسٹ“ میں کرتا ہے:

”عام حالات کے اندر کسی بھی طرح کا پیچیدہ مربوط سالمہ اچانک اور غیر ارادی طور پر وجود میں آہی نہیں سکتا بلکہ ایسے حالات میں اس کے منتشر ہوجانے کے امکان زیادہ ہیں کیونکہ یہی دوسرے قانون کی شرط ہے۔ جتنا زیادہ پیچیدہ کوئی نظام ہوگا اتنا ہی وہ غیر مستحکم ہوگا اور جلد یا بدیر اس کا بکھرنا اور ٹوٹنا لازم ہے۔ نوری تالیف اور دوسرے تمام زندگی سے متعلق اعمال حتیٰ کہ زندگی بذات خود حر حرکیات یا دوسری کسی مکمل سائنس کے ذریعے سمجھی نہیں جاسکتی ،باوجود اس کے کہ اس کام کے لئے بھٹکانے اور دانستہ طور پرسراسیمہ کرنے کی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔“ ۴

جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ حر حرکیات کا دوسرا قانون ارتقائی منظر نامے کے لئے سائنس اور منطق کے حساب سے ایک ناقابل عبور رکاوٹ ہے۔ ارتقاءپسند چونکہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے کوئی بھی سائنسی اور متوازن وضاحت دینے سے قاصر ہیں اسی لئے وہ اس کام کے لئے اپنے تصورات کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جانا پہچانا ارتقاءپسند جیریمی رفکن اپنے عقیدے کے بارے میں کہتا ہے کہ ارتقاءطبیعیات کے اس قانون کو جادوئی طاقت سے مات کردیتی ہے:

”اینٹروپی کا قانون کہتا ہے کہ ارتقاءزمین پر موجود زندگی کے لئے ناگزیر پوری قوت کو نابود کردیتا ہے۔ ارتقاءکے متعلق ہمارا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ارتقاءکسی جادوئی طریقے سے زمین کے اوپر زیادہ قدر اور نظام پیدا کرتا ہے۔“ ۵

ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ارتقاءایک سائنسی مقالہ نہیں بلکہ ایک کٹر عقیدہ ہے۔
کھلے نظام کی فرضی حکایت
ارتقاءکے کچھ حامی اس معاملے میں اس بحث سے مدد لیتے ہیں کہ حر حرکیات کا دوسرا قانون صرف ”بند نظاموں“ پر ہی لاگو ہوتا ہے اور کھلے نظام اس قانون کے دائرے سے باہر ہیں۔

”کھلا نظام“ وہ حرحرکیاتی نظام ہوتا ہے جس میں قوت اور مادہ اندر اور باہر کی طرف بہتے ہیں۔ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے کہ دنیا ایک کھلا نظام ہے کیونکہ یہ مستقل سورج کی توانائی کی زد میں ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اینٹروپی کا قانون دنیا پر مکمل طور پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ منظم اور پیچیدہ جاندار بے ترتیب، سادہ اور بے جان ساخت سے وجود میں آسکتے ہیں ۔لیکن اس منظر میں ایک واضح تصحیف ہے۔ کسی نظام میں قوت کے اندر جانے کی صلاحیت کا موجود ہونا اس نظام کو منظم بنانے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس قوت کو کارآمد بنانے کے لئے مخصوص طریقہ ¿ عمل کا ہونا بھی لازم ہے۔ مثال کے طور پر گاڑی کو چلنے کے لئے ایک انجن، ترسیل کا نظام اور اختیار میں رکھنے کے لئے مختلف آلے چاہئےں جوکہ پیٹرول میں موجود قوت کو کارآمد بناسکیں۔ قوت کی تبدیلی کے مختلف نظاموں کے بغیر گاڑی پیٹرول میں موجود قوت کو استعمال نہیں کرسکتی۔

یہی اصول زندگی کا بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ سورج کی توانائی زندگی کو قوت بخشتی ہے لیکن شمسی توانائی جانداروں کے اندر موجود ناقابل یقین طور پر پیچیدہ قوت کے ردوبدل کے نظام کے ذریعے کیمیائی قوت مےں تبدیل ہوتی ہے ،جیسے کہ پودوں میں نوری تالیف کا نظام اور انسانوں اور حیوانوں میں نظامِ انہضام ۔کوئی بھی جاندار قوت کی اس تبدیلی کے نظام کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر تبدیلی کے یہ نظام نہ ہوں تو سورج کی گرمی صرف جلانے، سکھانے اور پگھلانے کا ذریعہ بن کر رہ جائے۔

اس تمام وضاحت سے ثابت ہوتا ہے توانائی کے ردوبدل کے طریقہ کار کے بغیر حرحرکیاتی نظام ارتقاءکے لئے کارآمد ہو ہی نہیں سکتا چاہے وہ کھلا نظام ہو یا بند۔ کوئی اس بات پر اصرار نہیں کرسکتا کہ جاندار جیسے پیچیدہ اور باشعور نظام قدرت میں قدیم زمین کے ماحول کے زیر اثر نمودار ہوسکتے تھے۔

ارتقاءپسندوں کو درپیش اصل مسئلہ تو یہ سوال ہے کہ پودوں کے اندر قوت کی ردوبدل کے لئے نوری تالیف کا پیچیدہ نظام ،جس کو جدید تکنیکی صلاحیت بھی نقل کرنے سے قاصر ہے ،خود اپنے آپ سے وجود میں کس طرح آےا۔ دنیا کے اندر شمسی توانائی کا مسلسل بہاؤ بھی اس طرح کا نظام برآمد کرنے کا اہل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ درجہ حرارت چاہے جتنا بھی بڑھ جائے امینو ترشے ترتیب سے جوڑ بنانے کی مزاحمت نہےں کرتے ۔ توانائی بذات خود لحمیات کے پیچیدہ سالموں سے امینو ترشے نہیں کشید سکتی اور نہ ہی وہ خلیوں کی مزید پیچیدہ اور ترتیب وار ساخت سے لحمیات بناسکتی ہے۔ ہر سطح پر تنظیم اور ترتیب کا اصل اور اہم ذریعہ بے عیب تخلیق ہے۔
مادے کی خوود تشکیلی
کی فرضی حکایت

اس بات کے ثابت ہوجانے سے کہ حر حرکیات کا دوسرا قانون ارتقاءکو ناممکن بنادیتا ہے کچھ ارتقاءپسند سائنسدانوں نے قیاس آرائی پر مبنی طریقوں کے ذریعے ارتقاءکے امکان کو ثابت کرنے کے لئے دونوں کے درمیان موجود دائرے کے رقبہ کے برابر مربع بنانے کی کوشش شروع کردی۔ لیکن ان تمام کوششوں نے بھی صرف یہ ثابت کیا ارتقاءکو ایک ناقابل فرار تعطل درپیش ہے۔ حر ¿ کہ نظریہ حرکیات اور ارتقاءکے ملاپ کی کوششوں کے لئے بیلجیم کا سائنسدان الیا پیروگینین کافی جانا پہچانا ہے۔ انتشار کے نظریئے سے ابتداءلیتے ہوئے پیروگینین نے کئی مقالے پیش کئے جن میں انتشار سے نظم و ضبط پیدا ہوتے بتایا گےا۔ اس نے بحث کی کہ کچھ کھلے نظام بیرونی توانائی کے مسلسل اندر آنے کی وجہ سے اینٹروپی میں کمی دکھانے لگتے ہیں۔ اس کے ذریعے پیدا ہونے والے احکامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مادہ اپنے آپ کو خود تشکیل دے سکتا ہے۔ اس وقت سے مادے کی ’خود تشکیلی کا تصور ‘ارتقاءپسندوں اور مادہ پرستوں میں کافی مقبولیت اختیار کرگیا ۔

ان لوگوں کا اب یہ رویہ ہے گویا ان کو زندگی کی پیچیدگی کے لئے مادی ابتداءاور زندگی کی ابتداءکے مسئلے کا مادی حل مل گیا ہے ۔لیکن تفصیلی تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ بحث مکمل طور پر خیالی اور درحقیقت صرف ایک آرزومندانہ سوچ ہے۔ اس کے علاوہ اس کے اندر ایک نادان فریب بھی شامل ہے۔ یہ فریب دو الگ الگ تصورات ”ترتیب“ اور ”تنظیم“ کا دانستہ الجھاؤ ہے۔“ ۶

اس بات کو ایک مثال سے واضح کیا جاتا ہے۔ ایک ہموار سمندری ساحل کا تصور کریں ۔جب طاقتور لہریں ساحل پر آتی ہیں تو ساحل کی سطح پر ریت کے چھوٹے اور بڑے تودے وجود میں آجاتے ہیں۔ یہ ”احکامات“ کا عمل ہے۔ ساحل ایک کھلا نظام ہے اور توانائی کی لہر پانی کی لہریں ہیں جوکہ اس تک آنے کی وجہ سے تودوں کی شکل میں مختلف نقش بناتی ہیں جوکہ بظاہر تو بہت عام لگتی ہیں۔ حر حرکیات کے نظر سے لہروں نے بغیر ترتیب کی کسی جگہ پر ترتیب ¿ نقطہ پیدا کی۔ لیکن یہاں پر اس بات کو واضح کردینا بھی لازم ہے کہ یہ سمندری لہریں ساحل پر کوئی ریت کی عمارت نہیں کھڑی کرسکتیں۔ اگر یہاں پر کوئی عمارت نظر آبھی گئی تو اس بات میں کوئی شک نہیں ہوسکتا کہ اس کو کسی باشعور قوت نے تشکیل کیا ہے کیونکہ عمارت ایک منظم نظام ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کے اندر واضح نقشہ اور معلومات موجود ہیں۔ اس کا ہر حصہ ایک عقل مند قوت نے باقاعدہ نقشے کے تحت تشکیل کیا ہوگا۔

ریت اور اس پر تعمیر ریت کی عمارت کے درمیان یہ فرق ہے کہ پہلی چیز ایک منظم پیچیدگی ہے جبکہ دوسری چیز میں صرف ترتیب ہے جوکہ سادی تکرار سے پیدا ہوئی ہے۔ تکرار سے پیدا ہوئی ترتیب اس طرح ہے جیسے کسی شے )یعنی کہ قوت کے بہاؤ کا کسی نظام میں داخل ہونا( کا ٹائپرائٹر کے اوپر کسی ایک حرف پر گرجانے سے اس حرف کا کئی سو دفعہ کاغذ پر ٹائپ ہوجانا۔ کسی حرف کی سطروں کی اس نوعیت کی تکرار میں نہ تو کوئی معلومات ہیں اور نہ پیچیدگی۔پیچیدہ حرف کو ملاکر باقاعدہ الفاظ بنانے کے لئے عقل و فہم کا موجود ہونا لازم ہے ۔یعنی کہ ایسے حرف، الفاظ، مضمون یا کتاب بغیر سوچے سمجھے نقشے کے بغیر بن ہی نہیں سکتے۔

یہی اصول اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کسی گرد آلود کمرے میں ہوا آتی ہے۔ ہوا کے ذریعے ہموار سطح میں پڑی ہوئی مٹی کمرے کے ایک کونے میں جمع ہوجاتی ہے۔ یہ بھی ایک ترتیب وار صورتحال ہے جس میں حر حرکیاتی نقطہ سے پہلے کی نسبت زیادہ ترتیب موجود ہے۔ لیکن مٹی کے انفرادی ذرے زمین کے اوپر منظم شکل اختیار کرتے ہوئے کسی کی باقاعدہ شکل نہیں بناسکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچیدہ منظم نظام قدرتی عوامل کا نتیجہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ترتیب کی سادہ مثالیں گاہے بگاہے نظر تو آسکتی ہیں لیکن یہ ایک مخصوص حد سے تجاوز کبھی بھی نہیں کرسکتیں ۔لیکن ارتقاءپسند قدرتی عوامل سے پیدا ہونے خود ترتیبی کو ارتقاءکا سب سے اہم ثبوت ً فوقتا ً والی وقتا کہتے ہیں اور ان مثالوں کو اس بات کی تجویز کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جاندار نظام اپنی مرضی سے قدرت کے ایسے واقعات اور کیمیائی ردِ عمل کے ذریعے وجود میں آتے ہیں اور ترقی پاتے ہیں۔ پریگوگین اور اس کے حامیوں کے استعمال شدہ تمام طریقے، تجربے اور مشاہدے اسی پرفریب منطق پر کھڑے کئے گئے ہیں۔

امریکن سائنسدان چارلس تھیکسٹن، والٹر بریڈلی اور روجر اولسن نے اپنی کتاب ”دامسٹری آف لائف اوریجن“ یا ”یا زندگی کی ابتداءکا بھید“ میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

”ہر صورتحال میں کسی بھی مائع میں سالموں کی بے ترتیب حرکت ایک بے پناہ ترتیب وار انداز و اطوار سے اچانک اور اضطراری طور پر بدل جاتی ہے۔ پریگوگین، ایگن اور دوسروں کا یہ خیال ہے کہ اسی سے ملتی جلتی خود ترتیبی مربوط کیمیا میں بھی فطری ہے اور شاید ان پیچیدہ کلاں سالموں کی وجہ ہے جوکہ جاندار نظاموں کے لئے ناگزیر ہیں۔ لیکن ان تمام مماثلوں کا زندگی کی ابتداءکے سوالات کے ساتھ بہ مشکل ہی کوئی رابطہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ترتیب اور پیچیدگی کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ ترتیب اس کثیر تعداد معلومات کا ذخیرہ نہیں کرسکتی جوکہ جاندار نظاموں کو درکار ہیں۔ اس کے لئے بے شک ترتیب لیکن مطلوبہ ساخت زیادہ اہم طور پر درکار ہے۔ یہ ارتقاءپسندوں کی پیش کی گئی مماثلت میں سنجیدہ غلطی ہے۔ ایسے نظاموں میں قوت کے بہاؤ کی وجہ DNA سے اچانک اور بے ربط پیدا ہونے والی ترتیب اور اور لحمیات جیسے کلاں سالموں کی تشکیل کے لئے درکار کام کے درمیان کسی قسم کا بظاہر رابطہ نہیں ہے۔“ ۷

حتیٰ کہ پریگوگین نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سالماتی سطح پر اس کے پیش کئے گئے نظریئے خلیوں جیسے جاندار نظاموں پر لاگو نہیں ہوتے۔ وہ کہتا ہے: ”حیاتیاتی ترتیب کے مسئلے میں سالماتی کارروائی سے خلئے کی اعلیٰ سالمی ترتیب تک عبور کا سوال بھی شامل ہے۔ یہ مسئلہ حل ہونے سے بہت دور ہے۔“ ۸

تو پھر ارتقاءپسند ”مادے کی خود ترتیبی“ جیسے منظر ناموں پر یقین کیوں رکھتے ہیں یہ جاننے کے باوجود بھی کہ ان منظر ناموں کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے؟ وہ جاندار نظاموں میں واضح عقل و فہم اور ترتیب کو رد کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب ان کا مادیت پر کٹر یقین اور اس بات پر اعتقاد ہے کہ مادے کے اندر زندگی تخلیق کرنے کی کوئی پراسرار قوت موجود ہے۔

کا DNA نیویارک یونیورسٹی میں کیمیا کا پروفیسر اور ماہر رابرٹ شاپیرو ارتقاءپسندوں کا مادے کی خود ترتیبی پر اعتقاد اور ان کی گھٹی میں پڑے کٹرمادی فلسفے کو اس طرح بیان کرتا ہے:

”سادے قدرتی کیمیاءکے مرکبات اور پہلے کارآمد نقل پذیری کے آلے کے درمیان خلاءکو پر کرنے کے لئے ایک اور ارتقائی قانون کی ضرورت ہے۔ اس قانون اور اس کی کسی بھی تفصیل کو ابھی تک بیان نہیں کیا گیا لیکن اس کی امید بہرحال ہے۔ اس قانون کو کیمیائی ارتقاءاور مادے کی خود ترتیبی کا نام دیا گیا ہے۔ اس قانون کی موجودگی کو جدلیاتی مادےت کے فلسفے میں قبول کرلیا گیا ہے جس طرح سے ایلکسزانڈر اور پارن کی ’زندگی کی ابتدائ‘ پر لاگو ہوتا ہے۔“ ۹

یہ تمام صورتحال صاف اور منطقی طور پر ثابت کرتی ہے کہ ارتقاءایک کٹر نظریہ ہے جوکہ اختیاری سائنس کے خلاف ہے اور یہ کہ زندگی کی ابتداءصرف اور صرف مافوق الفطرت قوت کی مداخلت سے بیان کی جاسکتی ہے۔ وہ مافوق الفطرت قوت الله تعالیٰ کی تخلیق ہے جس نے تمام کائنات کو خلاءسے تخلیق کیا۔ سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ ارتقاءحر حرکیات کی رو سے بھی ناممکن ہے اور زندگی کی موجودگی کا تخلیق کے علاوہ کوئی اور جواز نہیں ہے۔

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder