17 Mart 2016 Perşembe

دہشت گردی کی اصل فکریاتی جڑ: نظریہ¿ ڈارون اور مادّیت

دہشت گردی کی اصل فکریاتی جڑ: نظریہ¿ ڈارون اور مادّیت

بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءچارلس ڈارون کا تجویز کردہ ایک نظریہ ہے جس کو مکمل سائنسی ثبوت، مشاہد ات اور تحقیق کی حمایت حاصل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءکا بانی نہ تو ڈارون ہے اور نہ ہی اس نظریئے کی بنیاد سائنسی ثبوت ہے۔ یہ نظریہ دراصل مادّیت کے قدیم فلسفے کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ یہ نظریہ کسی بھی طرح کی سائنسی تحقیق کے بغیر ایک اندھے مادّی فلسفے کے سہارے کھڑا ہے۔ اس نظریے کی شدت پسندی اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ مختلف طرح کی تباہیوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس شدت پسندی نے نہ صرف نظریہ¿ ارتقاءاور مادّیت پسند فلسفے کو فروغ دیا ہے بلکہ انسان کیا ہے؟ کے جواب کو بھی بدل دیا ہے۔ لوگ اس سوال کا جواب اس کے بجائے کہ’ اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو تخلیق کیا ہے اور وہ اس کے بنائے ہوئے نظا م کے تحت زندگی گزارتے ہیں‘، اب یہ دینے لگے ہیں کہ’ انسان اتفاقاً وجود میں آیاہے اور وہ ایسا جانور ہے جو کہ طبعی انتخاب کے نتیجے میں ترقی پاتا گیا۔ یہ دھوکے سے بھرپور نظریہ انسانیت کو بہت مہنگا پڑا ہے کیونکہ اس کی جڑوں سے نسل پرستی، فسطائیت، اشتراکیت اور دیگر دوسری وحشیانہ اور ظالمانہ پر تشدد فکریات نے جنم لیا ہے۔ یہ مضمون خاص طور پرنظریہ¿ ڈارون کا دنیا پر تباہی کا معائنہ کرے گا اور اس کے اور دہشت گردی کے درمیان رشتے کو ثابت کرے گا جو کہ موجودہ دور کا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔

نظریہ ڈارون کا جھوٹ : “ زندگی ایک جدوجہد ہے۔”

دہشت گردی
ڈارون کا اپنے نظریے کو فروغ دینے کے لئے بنیادی اصول تھا کہ ”جانداروں کی ترقی ان کی اپنی بقاءکی جنگ پر منحصر ہے۔ جو طاقتور ہیں وہ ےہ جنگ جیت جاتے ہیں اور جو کمزور ہیں وہ ناکام و معدوم ہوجاتے ہیں۔“
ڈارون کے نزدیک قدرت میں ایک بے رحم نوعیت کی حفاظتی جدوجہد اور کبھی نہ ختم ہونے والی کشمکش موجود ہے۔ طاقتور ہمیشہ کمزور پر حاوی ہوجاتا ہے۔
یہی وہ نظریہ ہے جو کہ اس کی کتاب ”اوریجن آف اسپیسشیزOrigin of Species“ کا ذیلی عنوان ہے ”جانداروں کا نقطہ¿ آغاز بذریعہ قدرتی چناﺅ یا زندگی کی جدوجہد میں برتر نسلوں کا بچاﺅ“ اس کے علاوہ ڈارون نے اپنے نظریئے کا ایک پہلو یہ بھی پیش کیا ہے کہ بقاءکی جنگ انسانی نسلی گروہوں کے درمیان بھی واقع ہوتی ہے۔ اس نرالے دعوے کے مطابق پسندیدہ، یا برتر نسلیں اس بقاءکی جنگ میں کامیاب رہیں گی۔
ڈارون کے نزدیک پسندیدہ یا برتر نسلیں سفید یورپی ہےں جبکہ ایشیائی اور افریقی نسلیں ان کمتر لوگوں پر مشتمل ہےں جو کہ اس جنگ میں ناکامی کا سامنا کریں گی۔ اپنے اس دعوے کو مزید ایک قدم آگے لے جاتے ہوئے ڈارون کا قیاس تھا کہ یہ کمترنسلیں نہ صرف بقاءکی جنگ میں ناکام رہیں گی بلکہ روئے زمین سے مکمل طور پر غائب ہوجائیں گی۔ اس کے الفاظ میںےہ وقت
”مستقبل کے کسی دور میں ہے جوکہ صدیوں دور کوئی دور نہیں ہے ۔انسان کی مہذب نسلیں وحشی نسلوں کا دنیا بھر میں خاتمہ کردیں گی۔ اسی وقت انسان نما گوریلے بھی فنا ہوجائےں گے۔ اس صورتحال میں آدمی اور اس کے قریبی ساتھیوں کے درمیان فاصلہ بھی زیادہ ہوجائے گا کیونکہ اس وقت شاید سفید فام آدمی مزید ترقی یافتہ اور مہذب ہوچکا ہو۔ جو فاصلہ آج کل ایک ببون (بندر کی نسل) اور افریقی سیاہ فام کے درمیان ہے یا ایک آسٹریلیا کے باشندے اور ایک گوریلے کے درمیان ہے وہ وقت کے ساتھ انسانی ترقی سے اور کمتر نسلوں کے ضائع ہوجانے کی وجہ سے بڑھ جائے۔“ ۱
ہندوستان کی اےک ماہرِ بشریات تفصیلاً بیان کرتی ہیں کہ ڈارون کے نظریئے نے سماجیات کے اوپر نسل پرستی کس طرح حاوی کی۔
”ڈارون کا صرف برتر نسلوں کے بچ جانے کے نظریئے کا اس کے دور کے سماجی سائنسدانوں نے بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا یہ خیال تھا کہ انسانی نسل ارتقاءکی کئی منزلیں طے کرتے ہوئے بالآخر سفید فام انسانوں کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
یہ خیال آہستہ آہستہ اتنا زور پکڑ گیا کہ انیسویں صدی کے آخری حصے تک نسل پرستی کو کثیر تعداد کے مغربی سائنسدانوں نے صرف ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک حقیقت تسلیم کرلیا تھا۔“ ۲

ڈارون کی سوچ کا وسیلہ: مالتھس کا بے دردانہ نظریہ

THOMAS MALTHUS, تھامس رابرٹ مالتھس
تھامس رابرٹ مالتھس
اپنے پورے نظریئے کے متعلق ڈارون کی سوچ کا وسیلہ ایک انگریز ماہر معاشیات تھامس مالتھس THOMAS MALTHUS کی کتاب An Essay on the Principle of Population یا آبادی کے نظام کے اوپر ایک مضمون تھی۔ اپنے طور سے مالتھس نے یہ اندازہ لگایا کہ انسانی آبادی بہت تیزی سے بڑھے گی۔ اس کے نزدیک آبادی کو قابو کرنے کی بنیادی طرےقے جنگ، افلاس اور بیماریاں تھیں۔ اس ظالمانہ دعوے کے حساب سے کچھ انسانوں کا حق زندہ رہنا تھاجبکہ دوسروں کا نصیب مرجانا تھا۔ زندہ رہنے کا مفہوم مستقل جنگ بن گیا۔ انیسویں صدی میں مالتھس کے خیالات کو وسیع پیمانے پر سراہا گیا۔ یورپ کے پڑھے لکھے طبقے نے خاص طور پر مالتھس کے اس ظالم نظریے کی بے پناہ حمایت کی۔ ایک مضمون THE SCIENTIFIC BACKGROUND OF THE NAZI RACE PURIFICATION PROGRAMME یا ’نازی نسلی صفائی پروگرام کا سائنسی پس منظر‘، میں اس اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو کہ انیسویں صدی یورپ مالتھس کے آبادی سے متعلق خیالات کو دیتا تھا۔
”انیسویں صدی کی شروعات میں یورپ کے ہر کونے سے حاکم طبقوں کے سب با اختیار لوگ جمع ہوئے اور اس نئی ”مسئلہ آبادی“ کی دریافت کو زیر بحث لایا گیا۔ اس اجتماع کا اہم مقصد مالتھس کے ضابطوں پر عملدرآمد کے طریقے اور غریبوں کی شرح اموات کو بڑھانے کے طریقوں پر غور و فکر تھا۔
”بجائے اس کے کہ ہم غریبوں کو صفائی کی تلقین کریں ہمیں چاہئے کہ کہ ہم ان کو اس کے برعکس عادتیں اپنانے کا پرچار کریں۔ ہمیں ہمارے قصبوں کی سڑکوں کی چوڑائی کو کم کردینا چاہئے، گھروں میں زیادہ لوگوں کو ٹھونس دینا چاہئے اور طاعون کے واپس آنے کا ماحول بنادینا چاہئے۔ ہمارے قصبوں اور گاﺅں کو گندے پانیوں کے تالابوں کے نزدیک ہونا چاہئے۔ ایسے گندے اور بیماری سے بھرپور پانیوں اور ماحول میں ہمیں زیادہ تر غرباءکو رکھنا چاہئے۔“ ۳
ان ظالمانہ ضابطوں کا مقصد یہ تھا کہ کمزور اور لاچار لوگ جو اپنی بقاءی جنگ لڑنے کے قابل نہ ہوں وہ خود بہ خود قدرتی طریقوں سے فنا ہوجائیں اور اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں توازن پیدا ہوجائے۔ ان غریبوں پر جبر کے اصولوں پر انیسویں صدی برطانیہ میں عمل بھی شروع ہوگیا۔ ایک صنعتی نظام تشکیل دیا گیا جس کے تحت آٹھ اور نو سالہ بچوں کو سولہ گھنٹوں تک کوئلے کی کانوں میں کام کروایا جاتا تھا۔ اس سفاک ماحول کی وجہ سے ہزاروں بچے موت کے گھاٹ اترگئے۔ مالتھس کے نظریہ ”برتر کے بچاﺅ“ نے لاکھوں برطانوی انگریزوں کی زندگی جہنم بنادی۔
ڈارون ان تمام حالات اور خیالات سے بے پناہ متاثرتھا اور اس نے یہ اصول پوری قدرت پر لاگو کردیا اور اعلان کیا کہ طاقتور اور برتر نسلیں ہی اس بقاءکی جنگ کو جیتنے کا حق رکھتی ہیں۔ اس نے مزید یہ بھی دعویٰ کیا کہ بقاءکیءیہ جنگ قدرت کا ناقابل تردید اور برحق اصول ہے۔ اس نے لوگوں کو اکسانا شروع کیا کہ وہ تخلیق کے ہر اصول کو غلط تسلیم کرتے ہوئے اپنے دینی عقائد سے کنارہ کشی کرلیں۔ ڈارون کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ کوئی بھی انسان اپنے مذہب کے دائرے میں رہ کر بقاءکیجنگ کے اصولوں پر عمل نہیں کرسکتا کےونکہ کوئی بھی مذہب اپنے پیروکاروں کو غیر اخلاقی اور انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں نہیں سکھاتا۔ اس لئے بقاءکی جنگ کے سفاک عظائم ایک دین اور مذہب سے مکمل طور پر بے بہرہ شخص ہی پورا کرسکتا ہے۔ بیسویں صدی میں انسانیت نے ان بے حس نظریات کے پھیلنے سے شدید نقصان اٹھایا ہے۔ یہ انہیں نظریات کا نتیجہ ہے کہ لوگوں کے اندر ظلم اور بے رحمی کے عناصر نمایاں ہوگئے ہیں۔

اس جنگل کے قانون کا نتیجہ: فسطائیت

ایڈولف ہٹلر
جیسے جیسے نظریہ¿ ڈارون نسل پرستی کی پرورش کرتے ہوئے انیسویں صدی میں پہنچا، دنیا کے سامنے نازیت کی صورت میں اس کا ایک اور ہولناک نتیجہ سامنے آیا۔ نازی فکریات میں ڈارون کے نظریوں کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اڈالف ہٹلر اور آلفرڈ روزنبرگ کے تشکیل شدہ نازی نظریے کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو اس میں قدرتی انتخاب، انتخابی نسل کشی اور نسلوں کے درمیان بقاءکی جدوجہد جیسے اقتصابات عام پائے جاتے ہیں جو کہ ڈارون کے ادب کا خاص حصہ ہیں۔ جب ہٹلر نے اپنی کتاب کا نام ”میری جدوجہد“رکھاتھا تو یہ نام اس نے دراصل ڈارون کے بقاءکی جنگ اور سب سے توانا کی جیت کے نظریوں سے متاثر ہوکر رکھا تھا۔ ہٹلر خاص طور پر نسلوں کے درمیان جدوجہد پر رائے زنی کرتا ہے۔
”تاریخ ایک نئی شاندار سلطنت کی ابتداءدیکھے گی جس کی بنیاد ایک ایسی اعلیٰ نسل ہوگی جس کا انتخاب خود قدرت کرے گی۔“ ۴
۳۳۹۱ءکی نیورمبرگ کے اجتماع میں ہٹلر نے اعلان کیا کہ ”برتر نسلیں کمتر نسلوں پر حکمرانی کرسکتی ہیں۔ یہ وہ حق ہے جو ہمیں قدرت میں نظر آتا ہے اور یہی وہ اصول ہے جو کہ انسانیت کا واحد قابل فہم حق ہے۔“ تمام تاریخ دان اس نقطے پر متفق ہیں کہ تمام نازی پرست نظریے ڈارون سے متاثر تھے۔ تاریخ دان ہکمین ہٹلر کے اوپر ڈارون کے اثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
”ہٹلر ارتقاءکا گھٹا ہوا مبلغ اور معتقد تھا۔ ہٹلر کے اس شدید دماغی خلل کی پیچیدگی کی خواہ کوئی بھی وجہ ہو، یہ بات کم از کم طے ہے کہ اس کے لئے انسانی جدوجہد کا عنوان بے حد ضروری تھا۔ اس نے اپنی کتاب ”میری جدوجہد“ میں کئی ذاتی ارتقائی خیالات کا اظہار کیا ہے بالخصوصجدوجہد، توانائی کی جیت اور بہتر سماج کے لئے کمزور اور لاغر کا غرق ہوجانا شامل ہیں۔“ ۵
ہٹلر ان خیالات کے ساتھ منظرعام پر ابھرا اور دنیا کو ایک ناقابل یقین ظلم کی کہانی سنائی۔ لاتعداد سیاسی اور نسلی گروہ، خاص طور پر یہودی، نازی قیدیوں کے مرکزوں میں اس عظیم بربریت اور ظلمکا نشانہ بنے۔
دوسری عالمی جنگ کی ابتداءنازی حملوں سے ہوئی اور اس میں مرنے والوں کی تعداد ۵۵ لاکھ تھی۔ دنیا کی تاریخ کے اس سب سے افسوس ناک واقعے کے پیچھے صرف اور صرف ڈارون کا نظریہ اور بقاءکی جنگ کا اصول تھا۔

نظریہ ڈارون اور اشتراکیت: ایک خونی اتحاد

فسطائیت پسندوں کو نظریہ ڈارون کا قدامت پرست طبقہ کہا جاسکتا ہے اور اشتراکی اس نظریہ کا انتہا پسند پہلو ہیں۔ اشتراکی دراصل نظریہ¿ ڈارون کے سب سے شدید حمایتی رہے ہیں۔ اشتراکیت اور نظریہ¿ ڈارون کے مابین اس اٹوٹ رشتے کی بنیاد ان دونوں نظریوں کے بانیوں نے رکھی۔ اشتراکیت کے بانیوں مارکس اور اینگلز نے ڈارون کی کتاب’ ’اوریجن آف اسپیسےز“ اس کے چھپتے ہی پڑھی اور وہ اس کتاب کی جدلیاتی مادہ پرست رجحان سے بے حد متاثر ہوئے۔ مارکس اور اینگلز کے درمیان خط و کتابت اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ڈارون کے نظریئے میں قدرتی تاریخ میں اشتراکیت کا پہلو ڈھونڈ لیا تھا۔ ڈارون کی کتاب سے متاثر ہوکر لکھی گئی اینگلز نے اپنی کتاب ”قدرت پر مباحثہ“ میں ڈارون کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے اور ایک باب میں خاص طور پر ڈارون کے نظریے پر اپنے خیالات کا اضافہ کیا۔ اس باب کا عنوان تھا ”گوریلا سے آدمی بننے میں مزدور کشوں کا کردار“
مارکس اور اینگلز کے ہم نوا روسی اشتراکی مثلاً پلیخانوو، لینن، ٹراٹسکی اور اسٹالن بھی ڈارون کے نظریہ¿ ارتقاءکے حمایتی تھے۔ پلیخانوو جو کہ روسی اشتراکیت کا بانی ہے وہ اشترایت کو نظریہ¿ ڈارون کو سماج کا سائنسی پہلو کہتا ہے۔“ 6 ٹراٹسکی کہتا ہے ”ڈارون کی دریافت مربوط مادے پر سب سے شاندار مباحثہ ہے۔“ ۷
ڈارون کے نظریئے اور اس سے متعلق تعلیم نے اشتراکی نظام قائم کرنے میں اہم کردار اد اکیا ہے۔ مثال کے طور پر تاریخ دانوں کے حساب سے اسٹالن اپنی نوجوانی میں مذہبی رجحان رکھتا تھا لیکن ڈارون کی کتابوں اور منطق کے زیر اثر آکر وہ دہریہ ہوگیا۔۸ 8
ماﺅ نے چین میں اشتراکی نظام قائم کیا جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ موت کے گھاٹ اترگئے۔ ماﺅ صاف صاف اس بات کا اعتراف کرتا تھا کہ چینی اشتراکیت کی بنیاد ڈارون اور نظریہ¿ ارتقاءہے۔۹ 9
ہارورڈ یونیورسٹی کے تاریخ دان جیم ریووپوسی نے اپنی کتاب چین اور چارلس ڈارون، میں نظریہ¿ ڈارون کا ماﺅ اور چینی اشتراکیت کے اوپر اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔۰۱ ۔مختصراً ےہ کہ نظریہ¿ ارتقاءاور اشتراکیت کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ اس نظریئے کے مطابق جاندار نسلیں محض اتفاق کا نتیجہ ہیں اور یہی بات دہریت کے لئے سائنسی ثبوت بن جاتی ہے۔ اشتراکیت ایک دہریہ نظریہ ہے اور اسی وجہ سے اس کا نظریہ¿ ڈارون کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءکا یہ بھی دعویٰ ہے کہ قدرت میں ترقی صرف جدوجہد یا بقاءکی جنگ یا جدوجہد سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ یہ نظریہ¿ منطقی مناظرے کا بھی حامی ہے جو کہ اشتراکیت کا ایک اور بنیادی اصول ہے۔ اگر ہم اشتراکیت کی اس منطقی لڑائی کا جائزہ لیں جس نے بیسویں صدی میں ایک قاتل مشین کے طور پر بیسویں صدی میں ۰۲۱ لاکھ لوگوں کا خاتمہ کردیا تو ہمیں اس عظیم نقصان کا اندازہ ہوسکتا ہے جو انسانیت نے ڈارون کے نظریئے کے ہاتھوں اٹھایا۔ 10

نظریہ¿ ڈارون اور دہشت گردی

دہشت گردی, 11 september attack
دنیا بھر میں دہشت پھیلانے والے لوگ چاہے منہ سے کسی بھی نظریئے کا دعویٰ کریں لیکن درحقیقت وہ ڈارون ہی وہ ¿ سب ڈارون کے ہی پیروکار ہیں۔ فلسفہ اکیلا فلسفہ ہے جوکہ نہ صرف ہر طرح کے تنازعے کو اہم گردانتا ہے بلکہ اس کو فروغ بھی دیتا ہے۔
ڈارون کا نظریہ ان تمام پرتشدد حکمیات کی جڑ ہے جنہوں نے بیسویں صدی میں انسانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ ان تمام حکمیات کا بنیادی تصور اور طریقہ کار ہے ”ان سب سے لڑو جو ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔“ اس کی مزید تشریح ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ دنیا میں مختلف نظریات، فلسفے اور عقائد ہیں جن کے درمیان فرق اور وجہ تنازع ہونا ایک قدرتی فعل ہے۔ لیکن یہ مختلف خیالات ایک دوسرے کو مندرجہ ذیل میں سے ایک طریقے سے پرکھ سکتے ہیں۔
۱۔ ایک دوسرے کو عزت دی جائے اور باہمی تعلقات اور مذاکرات میں ایک دوسرے کی عزت کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ طریقہ قرآن کا بھی بتایا ہوا طریقہ ہے۔
۲۔ ایک دوسرے سے لڑائی کی جائے اور اےک دوسرے کو قتل و غارت گیری سے جانوروں کی طرح نقصان پہنچایا جائے۔ یہ طریقہ کار مادّیت اور دہریت کا ہے۔دہشت گردی کے تحت جو نقصانات سامنے آتے ہیں وہ دوسرے طریقے کو اپنانے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان دونوں طریقوں کے درمیان فرق کا معائنہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ڈارون کے اصولوں کے تحت اختیار کیا گیا دوسرا طریقہ انسانی سوچ اور نظریات پر زیادہ اثر انداز ہے جو کہ انسان کو ایک لڑتے بھرتے جانور کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ جو افراد اور گروہ اس طریقہ کار کواپناتے ہیں انہوں نے شاید ڈارون اور اس کے نظریوں کو کبھی سنا بھی نہ ہو لیکن ان کی منطق کا دارومدار صرف اور صر ف ڈارون کے فلسفے کے اطراف ہی گھومتا ہے۔ ان کے عمل اور ڈارون کے نظریئے کے بیچ مطابقت ان نعروں کے ذریعے نظر آتی ہے۔ ”دنیا میں صرف طاقتور ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔“، ”بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھاجاتی ہیں۔“، ”جنگ ایک وصف ہے“، ”انسان جنگ سے ترقی کرتا ہے۔“ اگر ان سب نعروں سے ڈارون کے نظریئے کے اثرات ہٹادیئے جائیں تو ان میں کچھ نہیں بچتا۔بلکہ اگر دیکھا جائے تو ان نعروں سے ڈارون کے اثرات نکال دینے کے بعد ان میں لڑائی کا ہی کوئی فلسفہ نہیں بچتا۔ دنیا کے تین سب سے بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت تشدد کے سخت خلاف ہیں۔ یہ مذاہب دنیا میں امن اور نظام لانے کی سعی کرتے ہیں اور مظلوموں کے ناحق قتل اور ظلم کے خلاف ہیں۔ جنگ، دہشت گردی اور تشدد اﷲ کے بنائے ہوئے نظام سے مکمل اختلاف کرتے ہیں۔ یہ غیر طبعی اور غیر ضروری تصورات ہیں۔ لیکن ڈارون کی منطق ان کو قدرتی، حق بجانب اور دوست تصورات کی طرح پیش کرتی ہے۔ اسی وجہ سے جو لوگ اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی آڑ لے کر مذہب کے نام پر دہشت گردی میں ملوث ہیں وہ لوگ مسلمان، عیسائی یا یہودی ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ لوگ صرف کٹر ڈارون کے پیروکار ہیں جو کہ مذہب کے لبادے میں چھپے وہ منافق ہیں جن کے عمل اور دین کے احکامات میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔
یہی لوگ مذہبوں کے اصل دشمن ہیں جو کہ وہی سب کام کرتے ہیں جن کی مذہب میں سختی سے ممانعت ہے اور اس طرح وہ مذہب کو بدنام کرتے ہیں۔ اس لئے دہشت گردی جو کہ دنیا میں طاعون کی طرح پھیلتی جارہی ہے اس کی جڑ دہریت اور دورِ حاضر میں دہریت کا مفہوم نظریہ¿ ڈارون اور مادّیت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

اسلام دہشت گردی کی وجہ نہیں بلکہ اس کا حل ہے

بہت سے لوگ جو اپنے کاموں کو مذہب کا نام دیتے ہیں وہ دراصل نہ تو مذہب کو صحیح طور پر سمجھتے ہیں اور نہ اس کے احکامات پر صحیح طور پر عمل پیرا ہوتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے بیانات پر یقین کرتے ہوئے کسی بھی مذہب کے بارے میں رائے قائم کرنا غیر مناسب ہے۔ مذہب کو سمجھنے کا سب سے صحیح طریقہ اس کی اصل کتابوں اور احکامات کامطالعہ کرنا ہے۔ اسلام کا اصل سرچشمہ قرآن ہے۔ قرآن میں علم الاخلاق اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی ممالک کے عام تاثر میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ قرآن کی اخلاقی اقدار حسن عمل، محبت، رحم، عاجزی، قربانی، صبر و ضبط اور امن پر مبنی ہیں۔ قرآن کے احکامات پر عمل پیرا ایک شخص انہیں سب اقدارات کا مجسم ہوگا۔ وہ خو دبھی امن پسند ہوگا اور اپنے اطراف بھی محبت، عزت، امن، نظم اور سکون پھیلانے کے لئے کوشاں رہے گا۔
لفظ اسلام عربی زبان میں امن کو کہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اس مذہب کے ذریعے ایک مکمل اور پر سکون نظامِ حیات انسانیت کے لئے تشکیل کردیا ہے جس سے لوگ نہ صرف زمین پر ایک دوسرے کے ساتھ امن اور محبت کے ساتھ رہیں بلکہ اﷲ کی خوشنودی حاصل کرکے آخرت میں بھی فلاح پائیں۔ قرآن کے ذریعے اﷲ کے احکامات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ رحم دلی اور محبت کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کی گئی ہے۔ سورة البقرہ کی آیت نمبر ۸۰۲ میں اﷲ تعالیٰ ایمان والوں سے فرماتے ہیں:
﴿ µاے ایمان والو! اسلام میں پورے داخل ہوجاﺅ اور شیطان کے قدموں پرنہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ﴾
دہشت گردی
اﷲ تعالیٰ لوگوں کو امن اور تحفظ کی طرف بلاتا ہے جبکہ بے دین فلسفے لڑائی اور خوف و ہراس کو ہوادیتے ہیں۔
اس آیت میں واضح ارشاد ہے کہ تحفظ صرف اسلام کے دائرے میں داخل ہونے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اس سے مراد قرآن کے تحت زندگی گزارنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ظلم اور شرپسندی کی مذمت کی ہے اور لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بدی سے دور رہیں۔ اﷲ نے بے ایمانی، بداخلاقی، بغاوت، ظلم، تشدد، قتل اور غارت گری کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ جو لوگ ان کاموں میں ملوث ہیں اﷲ نے ان کو شیطان کے قدموں پر چلنے سے تشبیہ دی ہے اور ان کو گناہگاروں کا درجہ دیا ہے۔ سورة الرعد کی آیت نمبر ۵۲ میں آیا ہے۔
﴿ اور وہ لوگ جو ڈرتے ہیں اﷲ سے کئے ہوئے عہد کو بعد اس کو پختہ کرلینے کے اور قطع کرتے ہیں ان (رشتوں) کو کہ حکم دیا ہے اﷲ نے ان کے ملانے کا اور فساد مچاتے ہیں زمین میں، یہی لوگ ہیں کہ ہے ان پر لعنت اور ان کے لئے ہے برا گھر ﴾ (سورة الرعد،آیت ۵۲ )
سورة قصص کی آیت نمبر ۷۷ میں آیا ہے:
﴿ اور طلب کر اس میں سے جو دے رکھا ہے تجھے اﷲ نے، گھر آخرت کا اور نہ فراموش کر اپنا حصہ۔ ﴾
ان تمام آیات سے اﷲ تعالیٰ کی دہشت گردوں اور ظالموں کے لئے سخت ناپسندیدگی واضح ہے۔ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا سے بدی کو دور کریں اور دوسرے لوگوں کو نیکی اور فلاح کی طرف آنے کی تلقین کریں۔ اسلام رواداری اور آزادی¿ اظہار کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ قرآن میں لڑائی، منفی خیالات، گالی گلوچ اور بدزبانی کے خلاف واضح احکامات ہیں ۔جس طرح سے اسلام دہشت گردی اور تشدد کے خلاف ہے اسی طرح سے اس نے لوگوں کے اوپر نظریاتی اور فکریاتی دباﺅ ڈالنے سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ فلاح کا راستہ اور طریقہ بدی سے صاف طور پر الگ کردیا گیا ہے۔ جو کوئی جھوٹے خداﺅں کو رد کرکے اﷲ کی رسی مضبوطی سے تھام لے اﷲ نے اس کے لئے فلاح اور تحفظ کا وعدہ کیاہے۔ بے شک اﷲ سب سننے، سب سمجھنے والا ہے۔
نہیں کوئی زبردستی دین کے معاملہ میں بیشک صاف صاف طور پر الگ ہوچکی ہے ہدایت گمراہی سے سو جس نے انکار کیا طاغوت کا اور ایمان لایا اﷲ پر تو یقینا اس نے تھام لیا ایک ایسا مضبوط سہارا جو کبھی ٹوٹنے
﴿ والا نہیں۔ اور اﷲ سب کچھ سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے  سورة بقرہ آیت نمب ۶۵۲
﴿ نہیں ہو تم ان پر کوئی جبر کرنے والے ﴾ سورة غاشیہ آیت نمبر ۲۲
لوگوں کے اوپر مذہبی معاملات میں زبردستی اور احکامات کو ماننے کا دباﺅ اسلام کی رو سے منفی ہے۔ اسلام کے نزدیک سچا ایمان صرف مرضی اور ایک صاف ضمیر کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کا اہم فریضہ دوسرے لوگوں کو کسی قسم کے بھی ذاتی اور ذہنی دباﺅ اور دھمکی کے بغیر اسلام کی دعوت دینا ہے۔ اس دعوت میں دباﺅ کے علاوہ کسی دنیاوی لالچ کا بھی دخل نہیں ہوسکتا۔
قرآن اور اسلام کے اس بتائے گئے ضابطہ¿ حیات کے برعکس معاشرے کا اگر تجزیہ کیا جائے توعموماََ ایک اےسا نظام سامنے آتا ہے جس میں لوگوں پر مذہب اور دین کے معاملوں میں جبر کیا جاتا ہے۔ یہ معاشرہ اسلامی معاشرے کے برعکس ہے کیونکہ اسلام میں عبادت صرف اسی وقت قابل قبول ہے جب یہ خوشنودی اور رضا سے کی جائے۔ اگر کوئی معاشرتی نظام عبادت اور عقیدے کے معاملے میں جابر ہو تو وہ عبادت اور عقیدے ڈر اور خوف کے تحت پیدا ہوں گے۔ مذہب کے نقطہ¿ نظر سے عبادت صرف خدا کی خوشنودی کے لئے کی جاتی ہے نہ کہ اس کے بندوں کی اور یہ خوشنودی صرف اس وقت ممکن ہے جب یہ عبادت جبر سے عاری ہو۔

اﷲ تعالیٰ نے بے گناہ اور معصوم کے قتل کو گناہ کبیرہ قراردیا ہے

قرآنی تعلیمات کے مطابق گناہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ایسے شخص کا قتل ہے جس کا کوئی قصور نہ ہو۔ سورة الماعدہ میں آیا ہے۔
﴿ اسی وجہ سے فرض کردیا ہم نے بنی اسرائیل پر کہ جس نے قتل کیا کسی انسان کو بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا فساد مچایا ہو زمین میں تو گویا اس نے قتل کر ڈالا سب انسانوں کو اور جس نے زندگی بخشی ایک انسان کو تو گویا اس نے زندہ کیا سب انسانوں کو۔ اور بے شک آچکے ہیں ان کے پاس ہمارے رسول واضح احکام لے کر پھر بھی یقینا بہت سے لوگ ان میں سے اس کے بعد بھی زمین میں زیادتیاں کرتے ہیں۔ ﴾ ۲۲
سورة فرقان میں بھی آیا ہے
﴿ اور وہ لوگ جو نہیں شریک کرتے پکارنے میں اﷲ کے ساتھ کسی اور معبود کو اور نہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے حرام کردیا ہے اﷲ نے مگر جائز طریقے سے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی کرے گا ایسا تو وہ پائے گا بدلہ اپنے گناہوں کا ۸۶ ﴾
جو لوگ بے گناہوں کے قتل میں ملوث ہیں ان کو سخت عذاب کی نوید ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک انسان کا قتل پوری انسان کے قتل کے برابر ہے ۔جو شخص قرآن اور اﷲ کی بتائی ہوئی حدود کا لحاظ اور خوف کرتا ہو وہ ایک شخص کو بھی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ ہزاروں کا قتل تو بہت دور کی بات ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں انصاف اور سزا سے بچ جائیں گے وہ غفلت میں ہیں کیونکہ ان کو بالآخر اﷲ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ایمان والوں کو اندازہ ہے کہ وہ اﷲ کے سامنے ہر بات کے لئے جواب دہ ہوں گے اور اسی لئے وہ ہر ایسی حرکت سے بچتے ہیں جو ان کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے انصاف کی پکڑ میں لے آئے۔

اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں کو رحم اور نرم دلی کا حکم دیا ہے

اسلام میں اخلاقیات کا اندازہ سورة بلد کی اس آیت سے ہوتا ہے۔
﴿ پھر ہو بھی یہ (کھلانے والا) ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور نصیحت کرتے رہے ایک دوسرے کو صبر و استقامت کی اور وصیت کرتے رہے ایک دوسرے کو رحم کی ﴾ سورة بلد آیات نمبر ۷۱
﴿ یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے ﴾ سورة بلد آیات نمبر ۸۱
ان آیات سے ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بتائی گئی اخلاقی اقدار میں ایک دوسرے کو رحم دلی کی تلقین کرنا بھی شامل ہے جس کے ذریعے انسان اﷲ تعالیٰ کے رحم اور تحفظ کا حقداراور جنت میں جگہ پاسکتا ہے۔
قرآن نے اسلام کو ایک ترقی یافتہ، روشن خیال اور سماجی اصلاح کی طرف مائل مذہب کہا ہے۔ مسلمان ایک امن پسند باشندہ ہے جس کے اندر جمہوریت، روشن خیالی، دیانت اری، اور سائنس اور فنون لطیفہ کی حس پائی جاتی ہے۔ جس مسلمان کے اندر قرآن کے اخلاقی احکامات کا پاس ہو وہ ہر دوسرے انسان کو اسی محبت اور اخلاق سے برتتا ہے جتنا اﷲ تعالیٰ اور قرآن کا حق ہے۔ وہ ہر دوسرے خیال کی عزت اور جمالیات کی قدر کرتا ہے۔ کسی بھی انتشار کی صورت میں وہ مصالحت پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے اور سماجی ہلچل یا فشار کی صورت میں معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ جس سماج کے افراد ان اصولوں پر کاربند ہوں گے وہ ایک ترقی یافتہ تہذیب ہوگی جس کی سماجی اخلاقیات مضبوط ہوں گی ۔اس معاشرے میں زیادہ سکون، خوشی، تحفظ اور برکت ہوگی۔ اگر غیر جانبدارانہ طور سے دیکھا جائے تو یہ تمام قدریں آج کے دور کی بڑی بڑی نام نہاد ترقی یافتہ ترین اقوام میں بھی ناپید ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے برداشت اور درگزر کا حکم دیا ہے

خوشی, امن
قرآن میں درگزر اور برداشت کا تصور سورة اعراف کی اس آیت سے واضح ہے
﴿ اختیار کرو طریقہ درگزر کا اور تلقین کرو نیک کام کی اور نہ الجھو جاہلوں سے ﴾ ۹۹۱
یہ تصور اسلام کے اہم ترین بنیادی تصورات میں سے ایک ہے۔ اسلام کی تاریخ کا اگر معائنہ کیا جائے تو مسلمانوں کا اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کی زندہ مثالیں جابجا ملتی ہیں جس کے ذریعے وہ معاشرے محفوظ ترین اور اخلاقیات سے بھرپور تھے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ آزادی اور درگزر کی فضا قائم کی ہے اور غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدار کا خاتمہ کیا ہے۔ مسلمانوں نے مختلف مذاہب، زبانوں اور تہذیبات کے لوگوں کو ایک ساتھ مل جل کر ایک چھت کے نیچے امن اور نظم کے ساتھ رہنے کے طریقے سکھائے۔
سلطنت عثمانیہ کا صدیوں تک قائم رہنا اسی رواداری، درگزر اور باہمی اتفاق کا نتےجہ تھا جو اسلام اپنے ساتھ اس علاقے میں لے کر آیا تھا۔ مسلمان اپنی درگزر اور محبت کی خصوصیات کی وجہ سے صدیوں سے سب سے زیادہ رحم دل اور انصافپسند گروہ کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ کئی مختلف تہذیبوں کے ایک ملک میں موجود ہونے کے باوجود مسلمانوں کی حکومت میں تمام گروہوں کو مذہب اور خیالات کی آزادی حاصل تھی۔
اصل برداشت اور درگزر صرف اس وقت دنیا میں فلاح اور امن لاسکتے ہیں جب ان پر قرآن کے احکامات کے دائرے میں عمل کیا جائے۔

اختتام

ان تمام باتوں سے ثابت ہے کہ اسلام کی سکھائی ہوئی اخلاقیات انسانیت کوامن، نظم اور انصاف کے نزدیک کرتی ہیں۔ دنیا کو آج کل جس بربریت نے جکڑ رکھا ہے اور جس کو دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے وہ بے عقل، بے دین اور عقل سے بے بہرہ ان لوگوں کا کام ہے جن کا قران کی تعلیمات سے یا کسی بھی مذہب سے کوئی لین دین نہیں ہے۔ ان لوگوں کی بے عقلی اور جاہلیت کا واحد حل ان کے دلوں کو قرآنی اخلاقیات کی تعلیم سے منور کر ناہے ورنہ یہ لو گ ا سی طرح مذہب کے لبادے میں مذہب اور مسلمانوں کو بدنام کرتے رہیں گے۔ اسلام اور قرآنی تعلیم دہشت گردی کا علاج اور حل ہیں، اس کے حامی نہیں۔

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder