17 Mart 2016 Perşembe

ارتقاءکی جعل سازیاں



ارتقاءکی جعل سازیاں


گو کہ گوریلانماآدمی کے مشہور خاکے کو سہارا دینے کے لئے کسی بھی طرح کا ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے لےکن پھر بھی یہ نقش تشہیراتی ذرائع اور ارتقائی تعلیمی حلقوں کے ذریعے پھیلایا جارہا ہے۔ ارتقائی مصور اپنے ہاتھوںمیں برش تھامے خیالی مخلوقات بنائے چلے جارہے ہیں لیکن ان تصویروں کی فوصلوں کے ساتھ غیر مطابقت ان کے لئے پریشانی کا سبب ہے۔ اس سلسلے کا حل انہوں نے اس طرح نکالا کہ وہ خود ان فوصلوں کی تعمیر کرلیں جن کی انہیں ضرورت ہو۔ سائنسی تاریخ کا سب سے بڑا رسواکن نمونہ ’پلٹ ڈاﺅن مین ‘ اس طریقے کو استعمال کرنے کا بہترین ثبوت ہے۔

پلٹ ڈاﺅن مینن یا پلٹ ڈاﺅن کا آدمی: آورنگوٹین بندر کا جبڑا اور انسانی کھوپڑی

 
دھوکے کی ایک کہانی
1
چارلس ڈاسن کے دریافت شدہ فوصل سرآرتھر اسمتھ وڈورڈ کودے دیئے گئے۔ انسانی ارتقاء جھوٹ
2
پرزوں کی نوتعمیرات کے ذریعے مشہور کھوپڑی بنادی گئی۔

1: انسانی کھوپڑی کے ٹکڑے
2: اورینگوٹین کا جبڑا
piltdown skull, انسانی ارتقاء جھوٹ
3
اپنی دریافت کے ۰۴ سال بعد تحقیق دانوں کے ایک گروہ نے پلٹ ڈاﺅن کے فوصل کو ایک دھوکہ ثابت کردیا۔ انسانی ارتقاء جھوٹ
4
After 40 years of its discovery, the Piltdown fossil is shown to be a hoax by a group of researchers. انسانی ارتقاء جھوٹ
۲۱۹۱ءمیں ایک جانا پہچانا ڈاکٹر اور قدیم بشری رکازیات کا شائق چارلس ڈاسن نے یہ اعلان کیاکہ اس کو انگلستان کے مقام پلٹ ڈاﺅن کے ایک گڑھے سے ایک جبڑے کی ہڈی اور کھوپڑی کا حصہ ملا ہے۔ اگرچہ جبڑے کی ہڈی گوریلا نما تھی لیکن دانت اور کھوپڑی انسانی کھوپڑی سے مشابہ تھیں۔ ان نمونوں کو ’پلٹ ڈاﺅن مین یا پلٹ ڈاﺅن آدمی ‘ کا نام دیا گیا۔ اس وقت کہا گیا کہ یہ فوصل ۰۰۰,۰۰۵ سال پرانے ہیں اور ان کی انسانی ارتقاءکے مطابق ثبوت کے طور پر کئی عجائب گھروں میں نمائش کی گئی۔ ۰۴ سال سے زیادہ کے عرصے میں اس پلٹ ڈاﺅن مین کے اوپر کئی مضمون لکھے گئے، اس کی کئی تشریحات ہوئیں، اس کے کئی خاکے بنائے گئے اور ےہ انسانی ارتقاءکا ایک ضروری ثبوت مان لیا گیا۔ حتیٰ کہ اعلیٰ ترین اسناد کے لئے اس کے اوپر تقریباً ۰۰۵ کے قریب مقالے تک لکھے گئے ہیں . ۴۶
۱۲۹۱ءمیں انگلستان کے عجائب گھر کے دورے کے دوران ایک نامور امریکی ماہرِ قدیم بشری رکازیات ہنری فیرفیلڈ آسبارن نے کہا:”ہم کو ےہ بار بار یاد دلایا جانا ضروری ہے کہ قدرت تضادپر مشتمل ہے۔“آسبارن نے پلٹ ڈاﺅن مین کو ”انسان کی ماقبل تاریخ کی تجربے سے بالاتر دریافت“ کہا ہے۔
۹۴۹۱ءمیں انگلستان کے عجائب گھر کے معدوم حیوانات و نباتات کے شعبے کے کینتھ اوکلی نے ’فلورین ٹیسٹ ‘ نامی ایک نئے تجربے کے ذریعے فوصلوں کی عمر جانچنے کی کوشش کی۔ پلٹ ڈاﺅن مین کے فوصل کے اوپر بھی اس نئے طریقے کے ذریعے تحقیق کی گئی اور اس کا نتیجہ حیران کن نکلا۔
تجربہ کے ذریعے پتہ چلا کہ اس پلٹ ڈاﺅن مین کے جبڑے کی ہڈی میں فلورین بالکل نہیں تھا ےعنی کہ یہ ہڈی صرف چند سال سے ہی دفن رہی تھی۔ کھوپڑی میں فلورین صرف تھوڑی سی مقدار میں موجود تھا جس سے اس کی عمر چند ہزار سال پرانی ظاہر ہو رہی تھی۔ مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ اس کے جبڑے میں موجود دانت ایک اورنگوٹین بندر کے تھے جن کو نقلی طریقوں سے ِگھس کر پرانا بنایا گیا تھا۔ فوصل کے ساتھ موجود جو قدیم اوزار تھے وہ بھی نقلی تھے جن کو لوہے کی مختلف مشینوں سے تیز کیاگیاتھا۔۶۶
جو سف وائنز نے اس تجربہ کی مزید تحقیق کی اور اس دھوکہ دہی کی تفصےلات کو دنیا کے آگے ۳۵۹۱ءمیں پیش کےا۔ پلٹ ڈاﺅن مین کی کھوپڑی ایک ۰۰۵ سال پرانے آدمی کی تھی جبکہ اس کا جبڑا ایک ممالیہ مرے ہوئے گوریلے کا تھا۔ اس کے دانتوں کو خاص طور پر ترتیب دے کر جبڑے میں لگایا گیا تھا اور اس کی داڑھوں کی سطح کو اس طرح گھساگیا تھا کہ وہ انسانی داڑھوں سے مشابہ ہوگئے۔ ان تمام چیزوں کو پوٹاشیم ڈائکرومیٹ سے رنگ کر پرانا بنادیا گیا۔ تفصیلی تحقیق کے دوران جب ان تمام چیزوں کو تیزاب میں ڈبویا گیا تو یہ تمام رنگ غائب ہوگئے۔ اس دھوکے کی تحقیق کے گروہ میں سرولفرڈ لاگرو کلارک بھی شامل تھا اور اس تمام صورتحال پر اپنی حیرت کا مظاہرہ اس نے ان الفاظ میں کیا:”نقلی رینجھنے کے اس عمل کا ثبوت فوراً ہی واضح ہوگیا۔ یہ اتنا زیادہ واضح تھا کہ سمجھ نہیں آتا کہ اس غلطی کو پہلے کیوں نہیں پکڑا گیا۔“ ۷۶
اس تمام سائنسی ثبوت کے سامنے آتے ہی پلٹ ڈاﺅن مین کو انگلستان کے عجائب گھر سے فوراً ہٹادیا گیا جہاں پر وہ بڑی شان سے ۰۴ سال سے زائد عرصے سے ایساتذہ تھا۔

بنراسکا کا آدمی: سور کا دانت

 انسانی ارتقاء جھوٹ, nebraska 
اوپر دکھائی گئی تصویر ایک واحد دانت کو بنیاد بناکر بنائی گئی اور یہ السٹیریٹڈ لندن نیوز میگزین میں جولائی ۴۲، ۲۲۹۱ءمیں شائع ہوئی۔ لےکن ارتقاءپسندوں کو تھوڑے عرصے بعد نہایت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ دانت نہ تو گوریلا نما مخلوق کا تھا اور نہ انسان کا بلکہ یہ ایک معدوم سور کی نسل کا دانت تھا۔
۲۲۹۱ءمیں امریکہ کے قدرتی تاریخ کے عجائب گھر کا منظم اعلیٰ ہنری فیر فیلڈ آسبارن نے اعلان کیا کہ اس کو ریاست نبراسکا کے مغرب میں موجود اسنیک بروک سے پیلیوسین دور کا ایک داڑھ کا فوصل ملا ہے۔ اس دانت میں ازروئے دعویٰ انسان اورگوریلے کی مشترکہ خصوصیات موجود تھیں۔ اس فوصل کے گرد تفصیلی سائنسی بحث گردش کرنے لگی اور اس کا نام’ نبراسکا کا آدمی‘ رکھ دیا گیا۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ داڑھ پتھکانتھرو پس ارکٹس کا تھا جبکہ دوسرے مصر تھے کہ یہ ایک انسانی داڑھ تھا۔ نبراسکا کے آدمی کا فوراََ اےک سائنسی نا م ’ ہسپےروپتھیکس ہارلڈکوکی ‘ رکھ دیا گیا ۔ ا س کے علاوہ بہت سی تنظیمات نے آسبارن کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ بھی کرلیا۔اس واحددانت کو سامنے رکھتے ہوئے نبراسکا کے آدمیکے سر اور جسم کی نوتعمیر کردی گئی۔ مزید یہ کہ اس تصوراتی آدمی کا پورا خاندان بھی اس کی بیوی اور بچوں سمیت ایک قدرتی پس منظر میں بناکر دکھایا گیا ۔ارتقائی حلقوں کو اس خیالی آدمی کے اوپر اس قدر اعتماد تھا کہ جب ولیم برائن نامی ایک تحقیق دان نے نبراسکا کے آدمی سے متعلق متعصب نتیجوں سے اختلاف کیا تو اس کی شدید نکتہ چینی کی گئی۔
لےکن۷۲۹۱ءمیں اس ڈھانچے کے دوسرے حصے بھی مل گئے جن کے حساب سے یہ دانت نہ تو کسی انسان کا تھا نہ گوریلے کا بلکہ یہ ایک پراستھینوپس نامی معدوم جنگلی امریکی سور کی نسل کا تھا۔ رسالہ سائنس میں ولیم گریگوری کا ایک مضمون چھپا جس میں اس نے اس سچائی کا اعلان کیا۔ ’ہسپیروپتھیکس ہیرالڈ کوکی‘68 اورا س کے خاندان کی ساری تصویریں ارتقائی ادب سے فوراََ ہٹالی گئیں۔
 

اوٹابینگا: پنجرے میں موجود افریقی

انسانی ارتقاء جھوٹ, ota benga, اوٹابینگا پنجرے میں موجود افریقی
اپنی کتاب ”ڈیسنٹ آف مین“ ےا انسان کا سلسلہ نسب کے ذریعے جب ڈارون نے اپنے دعوے کو فروغ دیا کہ انسان دراصل گوریلہ نما مخلوق کی تدریجی ترقی کا نتیجہ ہے تو پھر اس کو اس دعوے کے لئے ثبوت جمع کرنے کی بھی فکر ہوئی جو کہ صرف فوصل کی صورت ہی ہوسکتا تھا۔ بہت سے ارتقاءپسندوں کو یقین تھا کہ اس آدھے انسان آدھے گوریلا نما مخلوق کے نشانات نہ صرف فوصلی ریکارڈ میں موجود ہوں گے بلکہ یہ دنیا کے کچھ حصوں سے شاید انہیں ےہ ’ عبوری کڑےاں ‘ زندہ بھی مل جائےں۔
بیسویں صدی کی شروعات میں ان زندہ عبوری کڑیوں کی تلاش کے ہاتھوں کئی افسوسناک واقعات دیکھنے میں آئے۔ ان میں سے سب سے ایذارساں کہانی اوٹابینگا نامی افریقہ کے بالشتئے کی ہے۔ اوٹابینگا کو ۴۰۹۱ءمیں ایک ارتقائی تحقیق دان نے افریقہ کی ریاست کانگو میں قید کیا۔ اس کی اپنی زبان میں اس کے نام کا مطلب ”دوست“ تھا اور اس کی بیوی اور دو بچے بھی تھے۔ پنجرے میں زنجیروں سے قید کرکے اس کو امریکہ لایا گیا جہاں ارتقائی سائنسدانوں نے اس کی نمائش گوریلوں کی کئی دوسری نسلوں کے ساتھ انسان سے سب سے قریبی عبوری کڑی کے طور پر سینٹ لوئی کے عالمی میلے میں کی۔ دوسال بعد یہ لوگ اس کو نیویارک کے برانکس کے چڑیا گھر لے گئے اور اس کو انسان کا قدیم پرکھا کے نام سے پیش کیا۔
یہاں پر اوٹابینگا کے ساتھ کچھ چمپانزی بندر، ڈائنا نامی گوریلا اور ڈوہنگ نامی اورنگوٹین بندر بھی موجود تھے۔ چڑیا گھر کا ارتقاءپسند منظم اعلیٰ ڈاکٹر ولیم ٹی ہارناڈے نے لمبی لمبی تقریریں کیں کہ اس غیر معمولی عبوری کڑی کا اس کے چڑیا گھر میں ہونا اس کے لئے کس قدر فخر کی بات تھی۔ پنجرے میں قید اوٹابینگا کے ساتھ ایک عام جانور کی طرح سلوک کیا گیا۔ آخر کاراس تمام سلوک کو مزید برداشت نہ کرنے کی سکت کے باعث اوٹابینگا نے خودکشی کرلی۔۹۶
پلٹ ڈاﺅن مین، نبراسکا کا آدمی اور اوٹابینگا ایسے رسوا انگیز واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے نظریوں کو فروغ دینے کے لئے ارتقائی سائنسدان کسی بھی طرح کا طریقہ کار اپنانے سے گریز نہیں کرتے۔ اس نقطے کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب اس طرح کے دوسرے انسانی ارتقاءسے متعلق خیالی کہانیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس طرح کے اور بھی واقعات سامنے آتے ہےں۔ مندرجہ ذیل ایک ایسی ہی خیالی حکایت اور اس کو ثابت کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والوں کی ایک ارتقائءپسند فوج کا قصہ ہے جو کہ اس کہانی کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے ہر حربہ آزمانے کو تیار ہیں۔

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder