17 Mart 2016 Perşembe

اٹھارھواں باب وقت کی اضافیت اور تقدیر کی اصلیت

اٹھارھواں باب

وقت کی اضافیت اور تقدیر کی اصلیت

اب تک بیان کی گئی ہر بات اس چیز کو واضح کردیتی ہے کہ انسان اصلیت کی سہہ ابعادی خلاءسے براہِ راست رابطہ کبھی بھی پیدا نہیں کرسکتا اور وہ اپنی تمام زندگی اپنے ذہن کے اندر ہی گزارتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز کا اعتراف کرنا ایک ایسے توہماتی عقیدے پر یقین کی طرح ہوگا جوکہ منطق اور سائنسی سچ دونوں سے دور ہے کیونکہ انسان بیرونی دنیا کے اصل سے کبھی بھی براہِ راست رابطہ نہیں کرسکتا۔ یہ حقیقت نظریہ¿ ارتقاءکی بنیادی تہ یعنی کہ مادیت کے فلسفے کی رو کو رد کردیتی ہے کیونکہ مادہ نہ تو حتمی ہے اور نہ ہی دائمی۔ مادی فلسفے کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ وقت بھی حتمی اور دائمی ہے۔ یہ مفروضہ بھی پہلے مفروضے کی طرح ہی ایک وہم ہے۔

وقت کا مشاہدہ

وقت ایک ایسا ذرےعہ ہے جس سے لمحوں کے درمیان موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی انسان کسی شے پر ہاتھ مارے تو اس کو ایک مخصوص آواز سنائی دیتی ہے۔ اگر اسی شے کو وہ پانچ منٹ بعد ہاتھ مارے تو اس سے مختلف طرح کی آواز آتی ہے۔ یہ قیاس کرتے ہوئے کہ دونوں آوازوں کے درمیان وقفہ ہے انسان اس وقفے کو ”وقت“ کا نام دیتا ہے۔ جب وہ دوسری آواز سنتا ہے تو اس وقت تک پہلی والی آواز اس کے ذہن میں ایک یاد بن جاتی ہے ےا تصور میں معلومات کا چھوٹا سا ٹکڑا۔انسان وقت کے مشاہدے کی تشکیل حال کے لمحے اور یادداشت کے لمحے کے درمیان موازنے کے ذریعے کرتا ہے۔ اگر وہ یہ موازنہ نہ کرے تو اس کو وقت کا مشاہدہ بھی نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح جب کوئی کسی کو دروازے سے داخل ہوکر کمرے میں پڑی کرسی پر بیٹھے دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں موازنہ پیدا ہوتا ہے۔ اس آدمی کے کرسی پر بیٹھنے تک دروازہ کھولنے اور کرسی تک آنے کے خاکے اس کی یادداشت میں معلومات کے ٹکڑوں کی صورت میں جمع ہوچکے ہوتے ہیں۔ وقت کا مشاہدہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کا موازنہ یادداشت میں موجود معلومات سے کیا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ وقت ذہن میں محفوظ معلومات کے درمیان موازنوں کا نتیجہ ہے۔ اگر انسان کے اند ریادداشت نہیں ہوتی تو اس کا ذہن ایسی تشریحات کرنے سے قاصر ہوتا اور اس کے اندر وقت کا کوئی مشاہدہ تشکیل نہیں پاسکتا۔انسان اپنے آپ کو ۰۳ سال کا اس لئے تصور کرتا ہے کیونکہ اس نے اپنے ذہن میں ۰۳ سالوں سے متعلق معلومات کا ذخیرہ جمع کیا ہوا ہوتا ہے۔ اگر اس کی یادداشت نہیں ہوتی تو وہ اپنی زندگی کے کسی گزشتہ دور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اور اس کے ذہن میں صرف وہ حالیہ لمحہ موجود ہوتا جس میں وہ جی رہا ہے۔

ابدیت کی سائنسی وضاحت

اس مخصوص موضوع کی وضاحت مختلف سائنسدانوں اور دانشوروں کے الفاظ میں بیان کی جاسکتی ہے۔ وقت کے پیچھے جانے کے بارے میں جو قیاس ہے اس پر مشہور دانشور اور نوبل انعام یافتہ جینیات کا پروفیسر فرانکوائس جیکب اپنی کتاب ”داپلے آف پوسیبیلیٹیز“ یا ”اتفاقات کا کھیل“ میں لکھتا ہے:
”الٹی چلائی جانے والی فلمیں ہم کو ایک ایسی تصوراتی دنیا میں لے جاتی ہیں جس میں وقت الٹا چلتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں چائے میں ملا دودھ الگ ہوکر، پیالی میں سے اچھل کر واپس دودھ دان میں چلا جاتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں دیواروں سے روشنی کی شعاعیں نکل کر روشنی کے ذریعے میں جمع ہوجاتی ہیں،بجائے اس کے کہ وہ اس ذریعے میں سے نکلیں۔ ایک ایسی دنیا جس میں پانی میں پھینکا ہوا پتھر پانی کے لاتعداد قطروںکے حیرت انگیز تعاون سے دوبارہ ایک جان ہوجانے سے اچھل کر پھینکنے والے کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔لیکن پھر بھی ایسے الٹے چلتے وقت کی مخالف خصوصیات سے مزین دنیا میں ہمارا ذہن اور یادداشت کا معلومات جمع کرنے کا نظام بھی الٹا ہی کام کرے گا۔ یہی بات ماضی اور مستقبل کے لئے بھی سچ ہے گوکہ دنیا ہم کو بالکل اسی طرح نظر آتی ہے جس طرح کی وہ حال میں ہے۔“۵۰۲
وقت کی اضافیت اور تقدیر کی اصلیت
وقت کی اضافیت خوابوں میں بہت واضح ہے۔ گوکہ خوابوں میں کئے گئے مشاہدے کئی گھنٹوں پر محیط محسوس ہوتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا دورانیہ کچھ منٹ اور بعض دفعہ کچھ سیکنڈ ہی ہوتا ہے۔
لیکن چونکہ انسانی ذہن کو واقعات محفوظ کرنے کے ایک مخصوص نظام کی عادت ہوچکی ہے اسی لئے اس کے لئے دنیا اوپر دئے گئے نقشے سے نہیں چلتی۔ انسانی ذہن ہمیشہ یہی مفروضہ کرتا ہے کہ وقت آگے جاتا ہے۔ یہ ایک ذہن کا کیا ہوا فیصلہ ہے اور اسی لئے سراسر اضافی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کبھی بھی ےہ جان نہیں سکتا کہ وقت کس سمت میں چلتا ہے اور آیا یہ چلتا بھی ہے کہ نہیں ۔اس کی وجہ ےہ ہے کہ وقت ایک حتمی حقیقت نہیں بلکہ مشاہدے کا ذریعہ ہے۔
وقت کا محض ایک مشاہدہ ہونے کی تصدیق آلبرٹ آئنسٹائن نے اپنی کتاب ”تھیوری آف جنرل ریلاٹیویٹی“ میں بھی کی ہے۔ لنکن بارنٹ اپنی کتاب ”دایونیورس اینڈ ڈاکٹڑ آئنسٹائن“ یا ”کائنات اور ڈاکٹر آئنسٹائن“ میں لکھتا ہے:
”حتمی خلاءکے ساتھ ساتھ آئنسٹائن نے حتمی وقت کا تصور بھی رد کردیا۔ اس کے نزدیک تسلسل سے بہتا ہوا لامحدود ماضی سے لامحدود مستقبل تک آتا ہوا کائناتی وقت ایک معزور مفروضہ تھا۔ نظریہ¿ اضافیت کو چھپانے والی دھندلاہٹ انسان کے وقت کی حس کو پہچاننے کے گریز سے ہے جوکہ رنگ کی حس کی طرح مشاہدے کی ایک شکل ہے۔ جس طرح خلاءبھی مادی اشیاءکی ممکنہ ترتیب ہے اسی طرح وقت بھی واقعات کی ممکنہ ترتیب کا نام ہے۔ وقت کی موضوعیت آئنسٹائن کے اپنے الفاظ میں بہترین طور سے بیان کی جاسکتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کسی انسان کے ذاتی مشاہدے ہم کو واقعات کی سلسلہ وار ترتیب معلوم ہوتی ہے۔ اس ترتیب میں ہم کو یاد رہنے والے واحد واقعات پہلے اور جلدی کے معیار پر ترتیب دیئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی لئے اس انسان کے لئے ایک ”میں“ کا وقت یا موضوعی وقت کا تصور موجود ہوتا ہے جس کی بذاتِ خود کوئی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ اسی لئے واقعات کے ساتھ ہندسے وابستہ کئے جاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ بڑا ہندسہ سب سے حالیہ واقعہ کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔“۶۰۲
جس طرح بارنٹ نے لکھا ہے کہ:
”آئنسٹائن کے تجزیئے سے ظاہر ہے کہ خلا اور وقت وجدان کی قسمیں ہیں جن کو شعور سے بالکل اسی طرح الگ نہیں کیا جاسکتا جس طرح کہ رنگ، پیمائش اور ظاہری شکل کے تصورات۔نظریہ¿ اضافیت کے مطابق وقت کا کوئی آزاد یا بے نیاز وجود نہیں ہے ماسوائے واقعات کی اس ترتیب کے جس کے ذریعے ہم اس کو ناپتے ہیں“۔۷۰۲
چونکہ وقت کا انحصار مشاہدوں پر ہے اسی لئے وقت مکمل طور پر مشاہدہ کرنے والے فرد کی مرضی کا غلام ہے جس کے نتیجے میں وقت صرف ایک اضافی نوعیت کا ایک تصوربن کر رہ جاتا ہے۔
وقت کے گزرنے کی رفتار اس کو ناپنے کے حوالوں پر منحصر ہے کیونکہ انسانی جسم کے اندر کوئی ایسی قدرتی گھڑی موجود نہیں ہے جس کے ذریعے وقت کے گزرنے کو ناپا جاسکے۔ جیسا کہ بارنٹ لکھتا ہے:
”بالکل اسی طرح جس طرح مشاہداتی آنکھ کی موجودگی کے بغیر رنگ کا کوئی وجود نہیں بالکل اسی طرح نشانی کے طور پر کسی واقعے کی موجودگی کے بغیر کسی بھی لمحے، گھنٹے اور دن کا بھی کوئی وجود نہیں ہے“۔۸۰۲
وقت کی اضافیت کا اندازہ خوابوں کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے۔ حالانکہ خواب میں دیکھے مشاہدات کئی گھنٹوں پر محیط ہوتے ہیں مگر حقیقتاً ان کا دورانیہ کچھ منٹ اور بعض دفعہ کچھ سیکنڈ ہوتا ہے۔ اس نقطہ کو ایک مثال سے واضح کیا جاتا ہے۔
فرض کرتے ہیں کہ کسی انسان کو ایسے خاص طور پر تعمیر کئے ہوئے کمرے میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے اندر ایک ہی کھڑکی ہوتی ہے اور اس کمرے میں اس کو مخصوص مدت کے لئے رکھا جاتا ہے۔ دیوار پر لگی ایک گھڑی اس کو وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ تمام وقت کے دوران کمرے کی کھڑکی سے وہ سورج کے ابھرنے اور غروب ہونے کا بھی اندازہ کرسکتا ہے۔ کچھ دن بعد اگر اس سے کمرے میں گزارے وقت کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ گھڑی کو دیکھتے رہنے اور کھڑکی سے سورج کے منظر کو دیکھنے کے ذریعے جمع کئے گئے مشاہدات پر مبنی جواب دے گا ۔مثلاً وہ کہے گا کہ اس نے کمرے میں چار دن گزارے ہیں ۔لیکن اگر یہ شخص کہے کہ اس نے کمرے میں صرف دودن گزارے ہیں اور کھڑکی سے نظر آنے والا سورج جعلی تھا اور کمرے کی گھڑی کی رفتار بہت تیز تھی توپھر ۴ دن کا اندازہ لگانے والے کا حساب و شمار غلط قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ کمرے میں موجود شخص کی بات کی سچائی کو جانچنے کا کوئی آلہ ایجاد ہی نہیں ہوا ہے۔ اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ وقت کے گزرنے کی رفتار کے بارے میں تمام معلومات مشاہدہ کرنے والے کے اوپر منحصر ہیں۔
وقت کی اضافیت اور تقدیر کی اصلیت
وقت کے اضافی ہونے کی حقیقت سائنسی علمی طریقہ کار سے بھی ثابت کردی گئی ہے۔ آئنسٹائن کے نظریہ¿ عمومی اضافیت کے حساب سے وقت کی رفتار کسی شے کی رفتار اور اس کے کشش ثقل سے فاصلے کے اوپر منحصر ہے اور ان دونوں چیزوں میں تبدیلی وقت کی رفتار میں بھی تبدیلی لاتی ہے۔ جیسے جیسے رفتار بڑھتی ہے اس طرح وقت کم ہوجاتا ہے یا گھٹ جاتا ہے اور آہستہ ہوتے ہوتے مکمل طور پر رک جانے کے قریب ہوجاتا ہے۔
آئنسٹائن نے یہاں جڑواں لوگوں کی مثال پیش کی ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ ایک جڑواں زمین پر رہتا ہے جبکہ اس کا ساتھی خلاءمیں نوری رفتار سے بھیج دیا جاتا ہے۔ واپس آنے پر خلاءوالے جڑواں کو پتہ چلے گا کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کا بھائی اس سے عمر میں زیادہ بڑا ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت نوری رفتار کے قریب سفر کرنے والے کے لئے آہستہ چلتا ہے۔پھر ایک مثال خلاءمیں سفر کرنے والے باپ اور اس کے بیٹے کی ہے جو کہ زمین پر رہ رہاتھا۔ اگر باپ سفر کے شروع میں ۷۲ سال کا تھا اور اس کا بیٹا ۳ سال کا تھا تو واپس آنے پر زمین کے وقت کے مطابق باپ کی عمر ۰۳ سال ہوگی جبکہ بیٹے کی عمر ۳۳ سال ہوگی۔۹۰۲
وقت کی یہ اضافیت آہستہ یا تیز ردوڑنے والی گھڑیوں کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ پورے مادی نظام کی کارروائی کے دوروں کی تفریق کا نتیجہ ہے جو کہ اتنے گہرے ہیں جتنے کہ ایٹم کے اندر واقع ذرات۔ وقت کے پھیل جانے کے کسی منظر میں انسان کی دل کی دھڑکن، خلیوں کی ہم نقلی ا ور ذہنی کارکردگی کی رفتار بھی آہستہ پڑجاتی ہے۔ انسان اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف رہتا ہے اور اس کو وقت کے آہستہ ہونے کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

قرآن میں اضافیت کا ذکر

جدید سائنسی تحقیق کے ذریعے یہ نتیجہ اخذ کیا گےا ہے کہ مادہ پرستوں کے خیال کے برخلاف وقت ایک حتمی حقیقت نہیں ہے بلکہ صرف ایک اضافی مشاہدہ ہے۔ مزید دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ یہ حقیقت ۰۲صدی تک سائنس سے توپوشیدہ رہی لیکن پوری انسانیت کو ۴۱ صدیوں پہلے قرآن کے ذریعے اس کا پیغام آچکا تھا۔وقت کا واقعات، مختلف منظروں اور صورتحال پر مبنی ایک ذہنی مشاہدہ ہونے کی سائنس کے ذریعے ثابت شدہ حقیقت قرآن کی کئی آیتوں سے ظاہر ہے کہ انسان کی پوری زندگی کا دورانیہ بے حد کم ہے۔ قرآن میں آیا ہے:
﴿ اور جس دن انہیں اٹھائے گا گویا دنیا میں نہ رہے تھے مگر اس دن کی ایک گھڑی آپس میں پہچان کریں گے کہ پورے گھاٹے میں رہے وہ جنہوں نے اﷲ سے ملنے کو جھٹلایا اور ہدایت پر نہ تھے۔ ﴾ (سورة یونس، آیت۵۴)
کچھ آیتوں میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مختلف لوگوں کا وقت کے بارے میں مختلف مشاہدہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ وقت کے کم دورانئے کو لمبا قراردیتے ہیں۔ روزِ محشر دو لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو اس بات کا واضح ثبوت ہے:
﴿ فرمایا تم زمین میں کتنا ٹھہرے برسوں کی گنتی سے بولے ہم ایک دن رہے یا دن کا حصہ تو گننے والوں سے دریافت فرمایا فرمایا تم نہ ٹھہرے مگر تھوڑا اگر تمہیں علم ہوتا۔ ﴾ (سورة مومنون، آیت ۲۱۱۔۴۱۱)
وقت کی اضافیت اور تقدیر کی اصلیت
وقت ایک ایسا تصور ہے جوکہ مشاہدہ کرنے والے پر مشروط ہے۔ وقت کا کوئی دورانیہ کسی شخص کو بہت لمبا محسوس ہوتا ہے جبکہ کسی دوسرے کے لئے یہی وقت بہت تیزی سے گزرجاتا ہے۔ دونوں میں سے صحیح اور غلط کا تعین کرنے کے لئے گھڑیوں اور کلینڈروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان آلات کے بغیر وقت کے متعلق درست فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔
کچھ آیتوں میں آیا ہے کہ وقت کی رفتار ماحول کے حساب سے بھی بدل جاتی ہے:
﴿ اور یہ تم سے عذاب مانگنے میں جلدی کرتے ہیں اور اﷲ ہرگز اپنا وعدہ جھوٹا نہ کرے گا او بے شک تمہارے رب کے یہاں ایک دن ایسا ہے جیسے تم لوگوں کی گنتی میں ہزار برس ﴾ (سورة حج، آیت۷۴)
﴿ ملائکہ اور جبریل اس کی بارگاہ کی طرف عروج کرتے ہیں وہ عذاب اس دن ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے ﴾ (سورة معارج، آیت ۴)
﴿ کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمان سے زمین تک پھر اسی کی طرف رجوع کرے گا اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے تمہاری گنتی میں۔ ﴾ (سورة سجدہ، آیت ۵)
یہ تمام آیات وقت کی اضافیت کے بارے میں واضع اور روشن اظہار ہیں۔ ۰۲ ویں صدی میں سائنس کو سمجھ آنے والی یہ حقیقت ۰۰۴۱ سال پہلے قرآن کے ذریعے تمام کائنات اور اوقات کے خالق اﷲ تعالیٰ نے انسانوں تک پہنچادی تھی۔قرآن کی کئی دوسری آیات میں بھی وقت کا ایک مشاہدہ ہونے کی حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے۔ یہ حقائق خاص طور پر قرآن میں موجود کہانیوں کے ذریعے انسانیت تک پہنچتی ہیں۔ مثال کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے اصحاب الکہف کی کہانی بیان کی ہے جن کو اس نے ۳ صدیوں تک گہری نیند میں رکھا۔ آنکھ کھلنے پر ان لوگوں کو محسوس ہوا کہ وہ نیند کی حالت میں صرف تھوڑی سی دیر ہی رہے تھے اور وہ اپنے سوئے رہنے کے وقت کا درست تعین کرنے سے قاصر تھے:
﴿ تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا پھر ہم نے انہیں جگایا کہ دیکھیں دوگروہوں میں کون ان کو ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے۔ ﴾ (سورة کہف، آیت۱۱۔۲۱)
﴿ اور یوں ہی ہم نے ان کو جگایا کہ آپس میں ایک دوسرے سے احوال پوچھیں ان میں ایک کہنے والا بولا تم یہاں کتنی دیر رہے، کچھ بولے کہ ایک دن رہے یا دن سے کم دوسرے بولے تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھہرے تو اپنے میں ایک کو یہ چاندی لے کر شہر میں بھیج پھر وہ غور کرے کہ وہاں کون سا کھانا زیادہ ستھرا ہے کہ تمہارے لئے اس میں سے کھانے کو لائے اور چاہئے کہ نرمی کرے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے ﴾(سورة کہف، آیت ۹۱)
ا یک اور آیت میں بھی وقت کا ذہنی مشاہدہ ہونا واضح ہے:
﴿ یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر اور وہ ڈھئی (مسمار ہوئی) پڑی تھی اپنی چھتوں پر بولا اسے کیونکر جلائے گا اﷲ اس کی موت کے بعد تو اﷲ نے اسے مردہ رکھا برسوں پھر زندہ کردیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا عرضکی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم فرمایا نہیں تجھے سو برس گزرگئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بو لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہوگیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اﷲ سب کچھ کرسکتا ہے۔ ﴾ (سورة بقرہ، آیت ۹۵۲)
وقت کو تخلیق کرنے والا اﷲ وقت کی پابندی سے آزاد ہے جبکہ انسان اتنا ہی زےادہ وقت کا پابند ہے جتنی کہ اﷲ کی مرضی۔ قرآن کی مندرجہ بالا آیت سے تو یہ تک ثابت ہے کہ انسان کو اس وقت کا بھی اندازہ نہیں ہوسکتا جتنا اس نے نیند کی حالت میں گزارا۔ اسی لئے مادہ پرستوںکی مسخ ذہنیتوں کی دوسری ہر سوچ کی طرح ان کا وقت کے بارے مےں حتمی ہونے کا دعوی ٰ بھی ایک نہایت نامعقول امر ہے۔

تقدیر

وقت کی تبدل پذیر اضافیت ایک اہم حقیقت پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔ وقت کا کوئی دور جو کہ ایک گروہ کو کڑوڑوں سال کے عرصے پر محیط لگے وہ کسی دوسرے دور میں شاید صرف ایک سیکنڈ کا لمحہ ہو۔ اس کے علاوہ دنیا کے شروع سے اس کے آخر تک کی طویل دورانئے کی مدت کسی اور دور میں شاید ایک لمحے کے برابر ہو۔ یہی حقیقت تقدیر کی بھی روح ہے لیکن اس کو لاتعداد لوگ خصوصاً مادہ پرست مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں ۔بلکہ مادہ پرست تو تقدیر کو رد کردیتے ہیں۔تقدیرماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کے مکمل علم کا نام ہے۔بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اﷲ ان واقعات کے بارے میں علم کس طرح رکھ سکتا ہے جوکہ ابھی تک پیش نہیں آئے؟ےہی وہ سوال ہے جس کی وجہ سے وہ تقدیر کی اصلیت کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ وہ واقعات جو انسانوں کو پیش نہیں آئے ان کا تعلق صرف انسانوں ہی کی ذات سے ہوتا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ وقت اور خلاءکا پابند نہیں ہے ۔وہ تو ان تمام چیزوں کا تخلیق کار ہے۔ اس وجہ سے ماضی، حال اور مستقبل اﷲ کے نزدیک ایک ہی درجہ رکھتے ہیں۔ اس کے لئے ہر چیز اور ہر واقعہ نہ صرف پیش آچکا ہے بلکہ اختتام پذیر بھی ہوچکا ہے۔
لنکن بارنٹ نے اپنی کتاب ”کائنات اور ڈاکٹر آئنسٹائن“ میں وضاحت کی ہے کہ نظریہ¿ عمومی اضافیت کس طرح اس معاملے پر روشنی ڈالتا ہے۔بارنٹ کے حساب سے ”کائنات کی اپنی کل شہنشاہیت میں حصار بندی صرف ایک کائناتی عاقل قوت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔“(۰۲۱) بارنٹ کی کہی گئی ”کائناتی عاقل قوت“ اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور علم ہے جوکہ تمام کائنات پر غالب ہے۔ جس طرح سے ایک مسطر کے شروع آخر اور درمیان کے سارے ہندسے دیکھنا ممکن ہے بالکل اسی طرح سے اﷲ تعالیٰ ہر جاندار کی زندگی کا شروع، آخر اور درمیان کے ہر لمحے کا علم رکھتا ہے۔ لوگوں کو مختلف واقعات اسی وقت پیش آتے ہیں جوا وقات اﷲ نے ان کے پیش آنے کے مقررکررکھے ہےں۔
یہاں پر مقدر کے بارے میں معاشرے کی مسخ شدہ سمجھ پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔ اس مسخ شدہ تصور نے اس بات پر توہماتی یقین پیدا کردیا ہے کہ گو کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر شخص کی تقدیر طے کردی ہے لیکن انسان پھر بھی اس تقدیر کو بدلنے پر قادر ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سخت بیماری سے شفا پالے تو لوگ اس طرح کے سطحی جملے بولتے ہیں کہ ”اس نے اپنی تقدیر کو ہرادیا“ حالانکہ کوئی بھی اپنی تقدیر کو بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ موت کے منہ سے واپس آنے والے شخص کی تقدیر میں اس وقت موت لکھی ہی نہیں گئی تھی۔ یہ بھی ان لوگوں کی تقدیر میں رقم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح کے جملوں سے فریب دیں کہ ”میں نے اپنی تقدیر کو ہرادیا“ اور اس طرح کے بے دےن ذہنی رجحان کا مظاہرہ کریں۔تقدیر اﷲ تعالیٰ کا دائمی علم ہے۔ اﷲ تعالیٰ تمام وقت کو ایک لمحے کی طرح جانتا ہے اور پورے وقت اور خلا کا حاکم ہے۔ہر چیز کا فیصلہ، شروعات اور اختتام تقدیر کے دائرے میں ہوتا ہے۔ قرآن میں موجود احکامات کی روشنی میں یہ بھی واضح ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے لئے وقت ایک ہے۔
لوگوں کو پیش آنے والے مستقبل کے کچھ واقعات قرآن میں اس طرح بیان کئے گئے ہیں گویا وہ بہت عرصے پہلے پیش آچکے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ آیات جن میں اس تمام حساب کی تفصیل ہے جوکہ لوگ اﷲ تعالیٰ کو حشر کے دن اپنے اعمال کے بارے میں دیں گے ان کا ذکر اس طرح سے کیا گیا ہے گویا حشر کا دن ماضی کا کوئی واقعہ ہو۔
﴿ اور صورت پھونکا جائے گا تو بے ہوش ہوجائیں گے جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں مگر جسے اﷲ چاہے پھر وہ دوبار ہ پھونکا جائے گا جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے اور زمین جگمگا اٹھے گی اپنے رب کے نور سے اور رکھی جائے گی کتاب اور لائے جائیں گے انبیاءاور یہ نبی اور اس کی امت کے ان پرگواہ ہوں گے اور لوگوں میں سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا اور ہر جان کو اس کا کیا بھرپر دیا جائے گا اور اسے خوب معلوم ہے جو وہ کرتے تھے اور کافر جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے گروہ گروہ یہاں تک کہ جب وہاں پہونچیں گے اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جوتم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے اور تمہیں اس دن کے ملنے سے ڈراتے تھے کہیں گے کیوں نہیں مگر عذاب کا قول کافروں پر ٹھیک اترا فرمایا جائے گا جاﺅ جہنم کے دروازوں میں اسمیں ہمیشہ رہنے تو کیا ہے برا ٹھکانا متکبروں کا اور جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کی سواریاں گروہ گروہ جنت کی طرف چلائی جائیں گی یہاں تک کہ وہ جب وہاں پہونچیں گے اور اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے سلام تم پر تم خوب رہے تو جنت میں جاﺅ ہمیشہ رہنے ﴾ (سورة زمر، آیت۸۶۔۳۷)
اس موضوع پر کچھ اور آیات بھی مندرجہ ذیل ہیں:
﴿ اور ہر جان یوں حاضر ہوئی کہ اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا ﴾ (سورة ق، آیت ۱۲)
﴿ اور آسمان پھٹ جائے گا تو اس دن اس کا پتلا حال ہوگا ﴾ (سوة الحاقہ، آیت ۶۱)
﴿ اور جہنم ہر دیکھنے والے پر ظاہر کی جائے گی۔ ﴾ (سورة نازعات، آیت ۶۳)
﴿ اور مجرم دوزخ کو دیکھیں گے تو یقین کریں گے کہ انہیں اس میں گرنا ہے اور اس سے پھرنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے۔ ﴾ (سورة کہف، آیت ۳۵)
جس طرح واضح ہے کہ انسانوں کو موت کے بعد پیش آنے والے واقعات لوگوں کے نقطہ¿ نظر سے قرآن میں اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ جیسے وہ پیش آچکے ہیں۔اﷲ تعالیٰ اضافی وقت کی اس چوکھٹ کا پابند نہیں ہے جس کا اس نے انسان کو پابند کردیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان تمام واقعات کو اپنی مرضی سے لازوال اوقات کا حامل بنادیا ہے۔ مندرجہ ذیل آیت میں واضح ہے کہ بڑا چھوٹا ہر واقعہ اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہے اور ایک کتاب میں محفوظ ہوتا جاتا ہے:
﴿ اور تم کسی کام میں ہو اور اس کی طرف سے کچھ قرآن پڑھو اور تم لوگ کوئی کام کرو ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس کو شروع کرتے ہو اور تمہارے رب سے وہ ذرہ بھر کوئی چیز غائب نہیں زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی کوئی چیز نہیںجو ایک روشن کتاب میں نہ ہو۔ ﴾ (سورة یونس، آیت۱۶)

مادہ پرستوں کی پریشانی

اس باب میں زیر بحث لائے گئے حقائق، خاص طور پر مادے اور وقت اور خلاءکے بارے میں لازمانی، بےحدواضح ہے۔ جس طرح پہلے بھی بتایا گیا ہے یہ باتیں کسی طرح کا فلسفہ یا طرزِ فکر نہیں ہے بلکہ شفاف اور ناقابل تردید سائنسی سچ ہے- اس موضوع پر موجود معقول اور منطقی ثبوت کسی اور بحث کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ انسانوں کے لئے کائنات اور اس کو تشکیل کرنے والا تمام مادہ اور اس میں نظر آنے والے سب جاندار نظر کا فریب ہیں۔ کائنات اوراس مےںموجود ہرشہ مشاہدوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کو انسان صرف اپنے ذہن میں محسوس کرتا ہے اور جس کی اصل حقیقت تک وہ براہِ راست کبھی نہیں پہنچ سکتا۔
اس بات کو سمجھنا مادہ پرستوں کے لئے ایک ناممکن فعل ہے۔ مثال کے طور پر پولٹزر کی گاڑی والی کہانی کو دوبارہ سامنے لے کر آتے ہیں۔ حالانکہ پولٹزر کو تکنیکی طور پر اچھی طرح پتا تھا کہ وہ اپنے مشاہدات سے باہر کبھی بھی نہیں نکل سکتا لیکن وہ اس کا اعتراف چند ہی جگہوں پر کرسکتا تھا۔ اس کے نزدیک واقعات ذہن میں اس وقت تک پیش آتے رہے جب تک کہ گاڑی کا حادثہ نہیں ہوگیا۔ حادثہ ہونے کے ساتھ ہی واقعات کسی طرح ذہن سے نکل کر طبیعیاتی حقیقت کا روپ دھارگئے۔ اس نقطے پر منطقی نقص واضح ہوجاتا ہے۔ پولٹزر نے وہی غلطی کی جوکہ مادہ پرست سیمیول جانسن نے یہ کہہ کر کی کہ ”میں نے پتھر کو لات ماری، میرے پیر میں درد ہوا، اس لئے کہ مادی وجود اصل ہے“ ۔پولٹزر یہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ حادثے کے بعد محسوس ہونے والا جھٹکا بھی محض ایک مشاہدہ تھا۔
مادہ پرستوں کا ان حقائق کو نہ سمجھنے کی تصعیدی وجہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے سامنے آنے والے نتائج کا خوف ہے۔ لنکن بارنٹ مادہ پرستوں کے اس خوف اور پریشانی کا ذکر کرتا ہے جو کہ اس موضوع کے بارے میں صرف سوچنے سے ہی مادہ پرستوں کے اندر پیدا ہوجاتی ہے:
”فلسفہ دانوں کا ظاہری حقائق کو مشاہدوں کی سایہ نما دنیا تک محدود کردینے کے علاوہ سائنسدان انسانوں کی حسیات کی انتہائی پریشان کن محدودیت کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرتے جارہے ہیں“۔۱۱۲
مادے کے اصل سے انسانوں کا ناممکن رابطہ اور یہ حقیقت کہ وقت بھی محض ایک مشاہدہ ہے مادہ پرستوں کے اندر شدید خوف پیدا کررہا ہے کیونکہ یہی وہ دو بنیادی تصورات ہیں جن کے اوپر وہ مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ ایک طرح سے وہ ان تصوراتکو قابل پرستش خدا کا درجہ دیتے ہےں کیونکہ ان کو اس بات کا یقین ہے کہ انسان کو مادے اور وقت نے بذریعہ ارتقاءتخلیق کیا ہے۔ لےکن جب ان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کائنات کے اصل تک نہیں پہنچ سکتے نہ ہی دنیا، اپنے جسم یا دوسرے لوگوں کے اصل تک پہنچ سکتے ہےں اور نہ ان مادہ پرست فلسفہ دانوں کا سراغ پاسکتے ہےں جن کے خیالات سے وہ متاثر ہےں تو پھر ان کے اوپر تمام چیزوں کی بے اعتباری غالب آنے لگتی ہے۔
ہر وہ چیز جس کے اوپر وہ اعتماد اور یقین رکھتے ہےںوہ اچانک غائب ہوجاتی ہے۔ ان کو مایوسی کی اس انتہا کا ادراک ہوتا ہے جوکہ ان کو روزِ حشر والے دن محسوس ہوگی۔ سورہ النحل میں آتا ہے: اور اس دن اﷲکی طرف عاجزی سے گریں گے اوران سے گم ہوجائیں گی جو بناوٹیں کرتے تھے۔ (سورة النحل، آیت۷۸)
اس وقت اےک مادہ پرست اور زوروشور سے اپنے آپ کو ےہ یقین دلانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے کہ اس کا سامنا بیرونی اصل مادے سے ہی ہے اور اس یقین کو مکمل کرنے وہ طرح طرح کا ثبوت بھی گھڑ لیتا ہے۔ وہ دیواروں پر مکے مارتا ہے، پتھروں کو لات مارتا ہے اور چیختا چلاتا ہے لیکن وہ پھر بھی حقیقت سے فرار حاصل نہیں کرسکتا۔ جس طرح مادہ پرست اپنے ذہنوں سے اس حقیقت کو نکال دینا چاہتے ہیں اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی اس حقیقت کو رد کردیں۔ ان کو احساس ہے کہ جس وقت مادے کی اصلیت عمومی طور پر لوگوں پر آشکار ہو گئی اسی وقت ان کے فلسفے کا غیر ترقی یافتہ پن اور نظریئے کی جہالت بھی ساری دنیا پر کھل جائے گی۔ ان کے پاس اپنے نظریوں کو کھڑا کرنے کے لئے زمین کا تھوڑا سا بھی ٹکرا نہیں بچے گا۔ ان کا یہ خوف ہی ان کو ان حقائق کے ہاتھوں پریشانی کا شکار رکھتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے دین لوگوں کا خوف روزِ محشر سوا ہوجائے گا۔ سورة انعام میں آتا ہے:
﴿ اور جس دن ہم سب کو اٹھائیں گے پھر مشرکوں سے فرمائیں گے کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جن کا تم دعویٰ کرتے تھے۔ ﴾ (سورة انعام، آیت ۲۲)
قیامت والے روز بے دین لوگ اپنے مال، اسباب، بچوں اور احباب کو خود سے دور ہوتا دیکھیں گے۔ ان تمام لوگوں کا خیال تھا کہ ان کا واسطہ دنیا کی اصل چیزوں سے ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو اﷲ کا شریک تصور کرلیا تھا۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ دیکھو کیسا جھوٹ باندھا خود اپنے اوپر اور گم گئیں ان سے جو باتیں بناتے تھے ﴾ (سورة انعام، آیت ۴۲)

ایمان والوں کا نفع

جہاں مادے کے غیر یقینی اور وقت کا فقط ایک مشاہدہ ہونے کی حقیقت مادہ پرستوں کو پریشانی کا شکار رکھتی ہے وہےں ایمان والوں کا احساس اس معاملے میں برعکس ہوتا ہے۔ ایمان والے اس بات سے خوشی محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے مادے کا راز پالیا ہے کیونکہ یہ اصلیت ہر سوال کا جواب ہے۔ اس راز سے وہ تمام اسرار ہی کھل جاتے ہیں جوکہ انسانی سمجھ سے بالا محسوس ہوتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے موت، جنت، دوزخ، روزِ حشر اور بدلتے ہوئے مختلف دوروں کے متعلق تمام سوالات کے جواب مادے کی حقیقت کو سمجھنے سے سامنے آجاتے ہےں۔
اﷲ کہاں ہے؟ اﷲ سے پہلے کیا تھا؟ اﷲ کو کس نے بنایا؟ قبر کی زندگی کتنی طویل ہوگی؟ جنت اور دوزخ کہاں ہیں؟ اور کیا جنت اور دوزخ ابھی موجود ہیں؟ جیسے تمام سوالات کے جوابات واضح ہوجاتے ہیں۔ جب ایک دفعہ یہ بات سمجھ میں آجائے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام کائنات خلاءسے تخلیق کی ہے تو کب؟ کہاں؟ اور کیوں؟ جیسے سوال بے معنی ہوجاتے ہیں۔ جب خلاءکی سمجھ آجاتی ہے تویہ حقیقت بھی آشکار ہوجاتی ہے کہ دوزخ، دنیا اور جنت بھی دراصل ایک ہی مقام پر موجود ہیں۔ جب لازمانی کا تصور ذہن میں واضح ہوجاتا ہے تو یہ بات بھی سمجھنا آسان ہوجاتی ہے کہ ہرچیز ایک ہی لمحے میں واقع پذیر ہوتی ہے۔ کسی بھی چیز کا انتظار لازمی نہیں ہے اور وقت گزرتا نہیں ہے کیونکہ ہر واقعہ پہلے ہی واقع ہوکرکر اختتام پذیر بھی ہوچکا ہے۔
اس راز کے آشکار ہوجانے سے دنیا ایمان والوں کے لئے اےک اےسی جنت بن جاتی ہے جس میں کسی بھی پریشانی، بے چینی، فکر اور خوف کا شائبہ تک نہیں رہتا۔ بندے کو زندگی کا اصل مفہوم سمجھ آجاتا ہے کہ پوری کائنات ایک ہی خالق کی تخلیق کردہ ہے جو کہ تنکے سے لے کر ہر چیز اور چیونٹی سے لے کر ہر جاندار کا بلاشرکت و غیرے خالق و مالک ہے اور انسان کا کام صرف اور صرف اسکی اطاعت کرنا ہے:
جب عمران کی بی بی نے عرض کی اے رب میرے میں تیرے لئے منت مانتی ہوں جو میرے پیٹ میں ہے کہ
﴿ خالص تیری ہی خدمت میں رہے تو تو مجھ سے قبول کرلے بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا۔ ﴾ (سورة آل عمران، آیت۵۳)
اس راز کو پالینا زندگی کی سب سے بیش قیمت دولت کو پالینا ہے ۔اس راز کے کھلنے سے قرآن میں بتائی گئی ایک اور اہم حقیقت کا بھی صحیح ادراک ہوجاتا ہے:
﴿ اور بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں۔ ﴾ (سورة ق، آیت ۶۱)
جس طرح کہ ہر ایک کو پتہ ہے کہ شہ رگ سے زیادہ قریب زندگی سے کوئی اور چیز نہیں ہوتی۔ جب یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ انسان کا اختیار اپنے ذہن کی حد سے نکلنے کا بھی نہیں ہے تو پھر اس آیت کا مفہوم بھی واضح ہوجاتا ہے۔سادہ اور اصل سچ صرف یہی ہے۔ اﷲ کے علاوہ انسان کا مددگار اور کفیل کوئی بھی نہیں۔ اﷲ کے علاوہ کوئی اور کامل اور مطلق نہیں۔ پناہ دینے والا، مدد کی پکار سننے والا اور انعام دینے والا صرف اﷲ ہے۔ اﷲ ہر سمت، ہر سو ہے، انسان کچھ بھی نہیں۔

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder