17 Mart 2016 Perşembe

تعارف نظریہ¿ ارتقاءکیوں؟

تعارف

نظریہ¿ ارتقاءکیوں؟

کچھ لوگوں کےلئے نظریہ¿ ارتقاءیا نظریہ¿ ڈارون کا مفہوم صرف سائنسی ہے جس سے ان کی زندگی پرکوئی خاص یا براہِ راست اثر نہیں پڑتا۔ یہ ایک عام غلط فہمی ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءصرف ایک حیاتیاتی سائنس کے دائرے میں رہنے والا مسئلہ نہیں بلکہ مادّیت جیسے پر دھوکہ فلسفہ کی بنیاد ہے جو لاکھوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہا ہے۔ مادیت فلسفہ صرف مادے کو پہچانتا ہے اور انسانی وجود کو صرف مادے کا ڈھیر تصور کرتا ہے۔ اس فلسفے کے حساب سے انسان ایک جانور سے بڑھ کر اور کچھ نہیں جس کے زندہ رہنے کا واحد طریقہ جنگ یا تنازع ہے۔ مادّیت کو اگرچہ ایک ترقی یافتہ سائنسی فلسفے کے طور پر فروغ دیا گیا ہے لیکن دراصل مادیت ایک قدیم اور غیر سائنسی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کی تخلیق قدیم یونان میں ہوئی تھی اور اس کو اٹھارویں صدی کے دہرےہ فلسفہ دانوں نے بازیافت کیا۔ یہ عقیدہ انیسویں صدی میں کئی سائنسی شاخوں میں کارل مارکس، چارلس ارون اور سگمنڈفرائڈ جسے مفکروں نے داخل کردیا۔ لیکن یہ داخلہ ہرگز انسانی فلاح کے لئے نہیں تھا بلکہ ان مفکروں کے اپنے خیالات کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ سائنس کو مسخ کرکے مادّیت کے لئے جگہ بنائی گئی تھی۔
پچھلی دو صدیاں مادّیت کے ہاتھوں ایک خونی اکھاڑہ بنی رہیں ہےں۔ مادّیت پر مبنی عقیدوں نے دنیا بھر میں سر اٹھانا شروع کردیا۔ ان میں مسابقتی نوعیت کے وہ عقیدے بھی تھے جو کہ بظاہر تو مادّیت کے مقابلے پر تھے لےکن جن کے بنیادی اصول مادّیت پر ہی مبنی تھے۔ ان عقیدوں کے ہاتھوں دنیا نے عظیم جنگوں، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا سامنا کیا۔ لوگوں کی سوچ مادّیت کے نعرے ’ زندگی ایک جدوجہد ہے‘ سے گمراہ ہوچکی تھی جس کے نتیجے میں لوگوں نے اپنی زندگی کو ایک انسان کی دوسرے انسان کے ساتھ کشمکش کی صورت میں جانچنا شروع کردیا اور نتیجتاً دنیا میں ایک طرح کا جنگل کا قانون رائج ہوگیا۔ اس فلسفے کے اثرت پچھلی دو صدیوں مےں انسانی تخلیق کردہ تباہیوں اور ان کے پیچھے عقیدوں میں با آسانی تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔اس تباہی میں دورِ حاضر کے وہ تمام دہشت گرد شامل ہیں جو کہ مذہب کی آڑ لے کر انسانیت کے خلاف سب سے سنگین جرم اور ظلم معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل کے مرکتب ہوئے ہیں۔
نظریہ¿ ارتقاءیا نظریہ¿ ڈارون اس موقع پر اس پہیلی کو حل کرنے میں کام آتا ہے کیونکہ اس نظریے کے مطابق مادیت ایک سائنسی خیال ہے۔ اسی لئے اشتراکیت اور جدلیاتی مادیت کے بانی کارل مارکس نے اپنے عالمی جائزے کے لئے لکھا ہے کہ نظریہ¿ ڈارون قدرتی تاریخ کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ بنےاد درحقیقت ایک گلی سڑی بنیاد ہے کیونکہ جدید سائنسی دریافت اور تحقیقات نے بارہا ثابت کردیا ہے کہ ڈارون کے نظریے اور سائنس کے مابین یہ مقبول تعلق سراسر جھوٹ ہے۔
کارل مارکسکارل مارکس
کارل مارکس نے اس بات کو واضح کردیا کہ نظریہ¿ ڈارون مادہ پرستی اور اشتراکیت کی ٹھوس بنیاد ہے- ڈارون سے اپنی ہمدردی کے اظہار کے طور پر اس نے اپنی سب سے اہم تصنیف تصور کی جانے والی کتاب ”ڈاسکیپیٹا“ کو بھی ڈارون کے نام وقف کردیا۔ کتاب کی جرمن اشاعت میں اس نے لکھا ہے۔ ”ایک وفادار مداح کی طرف سے چارلس ڈارون کے لئے“
سائنسی تحقیق نظریہ¿ ڈارون کو تفصیلاً غلط ثابت کرتی ہے اور بار بار اس حقیقت کو باور کراتی ہے کہ جانداروں کا وجود تدریجی ترقی سے نہیں بلکہ تخلیق کے عمل سے واقع ہواہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تمام کائنات اور اس میں موجود ہر جاندار اور انسان کو پیدا کیاہے۔ اس کتاب کا مقصد اس حقیقت کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس کتاب کی پہلی اشاعت ترکی میں ہوئی اور اس کے بعد سے کئی ممالک میں لاکھوں لوگوں نے اس کتاب کو پڑھا اور سراہا ہے۔ ترکی زبان کے علاوہ یہ کتاب انگریزی، جرمن، اتالوی، ہسپانوی، روسی، چینی، لوسنین، عربی، آلبینین اردو، ملائے اور انڈونیشین زبانوں میں مترجم ہوچکی ہے۔ اس کتاب کو انٹرنیٹ کے اس پتے سے مفت پرنٹ کیا جاسکتا ہے: www.evolutiondeceit.com کتاب ارتقائی دھوکے کے مخالف نظریات رکھنے والے افراد بھی معترف ہیں۔
اس کے مصنف ہارون یحییٰ نیوسائنٹسٹ رسالے کے مضمون برننگ ڈارون، یا ڈارون کاجل جانا کا موضوع تھے۔ اس مشہور رسالے کی ۲۲ اپریل ۰۰۰۲ کی اشاعت نے ہارون یحییٰ کو ایک عالمی ہیرو کا خطاب دیتے ہوئے اس بات پر پریشانی کا اظہار کیا کہ ان کی کتابیں اسلامی دنیا کے ہر کونے میں پھیل گئی ہیں۔ سائنسی دائروں کے مشہور جرےدے سائنس نے ہارون یحییٰ کی کتابوں کے نمایاں اثرات اور تصنع کو خاص طور پر سراہا ہے۔ اس جریدے کے ۸۱ مئی ۱۰۰۲ کے مضمون یورپ اور ایشیاءکے ملاپ پر تخلیق کی جڑ، کے مطابق ترکی میں ہارون ےحےیٰ کی کچھ کتابیں مثلاََ ’ ارتقائی دھوکہ اور نظریہ¿ ڈارون کاسیاہ چہرہ‘ ملک کے کچھ حصوں میں نصابی کتابوں سے زیادہ مقبول ہوگئی ہیں۔ اس مضمون کا مصنف مزید یہ بھی کہتا ہے کہ ہارون یحییٰ کی کتابوں نے شمالی امریکہ سے باہر دنیا کی مضبوط ترین خلافِ ارتقاءتحریکوں کی بنیاد ڈالی ہے۔اگرچہ یہ تمام سائنسی جریدے ارتقائی دھوکے کے اثرات کے معترف ہیں لیکن پھر بھی یہ ان کتابوں میں موجود بحث کا کوئی سائنسی جواب دینے سے قاصر ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کےلئے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ نظریہ¿ ارتقاءایک مکمل تعطل کا شکار ہے اور اس کا ثبوت اس کتاب میں واضح طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پڑھنے والے خود اندازہ کرلیں گے کہ نظریہ¿ ڈارون ایک سائنسی نظریہ نہیں بلکہ ایک ایسا نیم سائنسی عقیدہ ہے جو کہ اختلافی تردید اور کھلی تردید کے باوجود فقط مادیت کے سہارے کھڑا ہے۔ ہماری امید ہے کہ ےہ کتاب لمبے عرصے تک ان تمام مادیت پسند نظریہ¿ ڈارون کے عقیدوں کی تردید کا کام انجام دیتی رہے گی جو کہ انیسویں صدی سے اب تک انسانیت کو گمراہ کررہے ہیں۔ان عقیدوں کی تردید کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کو ان کے خالق کی پہچان کروانے کے علاوہ اس کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کی اہم ذمہ داری بھی باور کروائے گی۔

دانشورانہ نقشہ یا تخلیق

یہاں پر یہ ضروری ہے کہ لفظ ’نقشے ‘کا مفہوم صحیح طریقے سے سمجھا جائے۔ اگر اﷲ نے ایک بے عیب نقشہ بنایا ہے تو اس کا مطلب ےہ نہیں کہ اس نے پہلے ایک نقشہ بنایا اور پھر اس کے حساب سے تخلیق کی۔ اﷲ تعالیٰ زمین اور آسمانوں کا خالق ہے اور تخلیق کرنے کے لئے وہ کسی نقشے کا محتاج نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کسی بھی ایسے نقص یا قلت سے برتر ہے۔ اس کا نقشہ ‘ارادہ اور تخلیق کا فیصلہ ایک ہی لمحے کا کام ہے۔ اﷲ تعالیٰ جب ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’کن‘ اور وہ چیز ہوجاتی ہے۔ سورة یاسین کی آیت نمبر ۲۸ میں آیا ہے
﴿ بس اس کی شان تو یہ ہے کہ جب ارادہ کرتا ہے وہ کسی چیز کا تو حکم دیتا ہے اسے کہ ”ہوجا“ اور وہ ہوجاتی ہے ﴾ ۲۸
سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۷۱۱ میں آیا ہے
﴿ نیا پیدا کرنے والا آسمانوں اور زمین کا اور جب کسی بات کا حکم فرمائے تو اس سے یہی فرماتا ہے کہ ہوجا وہ فوراً ہوجاتی ہے۔ ﴾

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder