17 Mart 2016 Perşembe

سولہواں باب تخلیق کی سچائی



سولہواں باب

تخلیق کی سچائی
اس کتاب کے سابقہ حصوں میں نظریہ¿ ارتقاءکا ایک سائنسی حقائق سے منحرف نامعقول مقالہ ہونے کا تجزیہ کیاگیا ہے۔ جدید سائنس نے علمِ معدوم حیاتیات و نباتات، حیاتیاتی کیمیا اور علمِ تشریح جیسے شعبوں میں کی گئی تفصیلی تحقیق کے ذریعے واضح طور پر اس سچائی کو اجاگر کردیا ہے کہ صرف اﷲ نے تمام جانداروں کی تخلیق کی ہے۔ بلکہ اس سچائی کا اعتراف کرنے کے لئے حیاتیاتی کیمیا کی تجربہ گاہوں اور ارضیاتی کھدائیوں سے حاصل کئے گئے پیچیدہ نتائج کا سہارا لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ناقابل یقین حکمت کی علامات و نشانات قدرت میں موجود ہر شے اور ہر جاندار میں واضح ہیں۔ چاہے وہ ایک چھوٹا سا کیڑا ہو یا سمندر کی گہرائیوں میں موجود ننھی سی مچھلی ، ان کے جسم اس اعلیٰ نوعیت کے نقشے اور تکنیکی مہارت کا شاہکار ہیں کہ وہ کسی انسان کی تخلیق ہو ہی نہیں سکتے۔ شعور، سمجھ اور بعض اوقات تو دماغ سے ہی عاری جاندار اس پیچیدہ نوعیت کے کام سرانجام کرنے کے اہل ہوتے ہیں جن کا انسان اپنی تمام عقل و شعور کے ساتھ بھی کرنے کا تصور نہیں کرسکتا۔ یہ عظیم حکمت، نقشے اور تخلیق جس سے تمام کائنات مغلوب ہے ایک زبردست خالق کی موجودگی کا اعلان کرتی ہےں۔ وہ خالق صرف اور صرف اﷲ کی ذات ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تمام جانداروں کو بہترین خصوصیات سے نوازا ہے اور اس کی ہر تخلیق میں اس کی قوت اور موجودگی کے واضح نشانات موجود ہیں۔ آنے والے صفحات میں اﷲ تعالیٰ کے تخلیقی معجزات میں سے کچھ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔

شہد کی مکھی اور اس کے چھتے کا تعمیراتی معجزہ

شہد کی مکھی اور اس کے چھتے کا تعمیراتی معجزہ
شہد کی مکھیاں اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ شہد پیدا کرتی ہیں اور اس کا اپنے چھتے میں ذخیرہ کرلیتی ہیں۔ ان کے چھتے کی شس پہلوساخت کے بارے میںہر ایک کو علم ہے لیکن کیا اس پہلو پر کبھی غور کیا گیا کہ مکھیاںہشت پہلو یا پانچ پہلو چھتے کی بجائے خصوصی طور پر شش پہلو چھتہ ہی کیوں بناتی ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے ریاضی دان ایک دلچسپ نتیجے پر پہنچے۔ ایک شش پہلو ساخت کسی بھی رقبہ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے سب سے بہترین اقلیدسی شکل ہے۔ ایک شش پہلو خانے کی تعمیر میں کم سے کم موم لگتی ہے لیکن یہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ شہد کا ذخیرہ کرسکتا ہے۔ اسی لئے شہد کی مکھی نے اپنے کام کو احسن ترین طریقے سے انجام دینے کے لئے بہترین شکل کا انتخاب کیا ہے۔
 شہد کی مکھی اور اس کے چھتے کا تعمیراتی معجزہ
چھتے کی تعمیر میں استعمال کیا گیا طریقہ بھی بے حد حیران کن ہے۔ شہد کی مکھیاں چھتے کی تعمیر کو دو تین مختلف جگہوں سے شروع کرتی ہیں اور اس کو بیک وقت دو تین لڑیوں میں بنتی ہیں۔گوکہ وہ تعمیراتی کام مختلف جگہوں سے شروع کرتی ہیں لیکن تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک جیسے شش پہلو خانے بناتی جاتی ہیں اور ان کو آپس میں ملاتی جاتی ہیں اور بالآخر بیچ میں آکر مل جاتی ہیں۔ ان شش پہلو خانوں کا مقامِ اتصال اتنی مہارت سے جڑا ہوا ہوتا ہے کہ اس جوڑ کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ اس ناقابل یقین اور حیران کن تعمیراتی صلاحیت کے مظاہرے کے بعد عقل یہ تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہے کہ بلاشبہ اس کے پیچھے ایک ایسی طاقت کارفرما ہے جوکہ ان مخلوقات کو یہ تمام کام کرنے کی صلاحیت بخشتی ہے ۔ارتقاءپسند اس عظیم مظاہرے کو ”جبلت“ کا نام دیتے ہیں اور اس کو شہد کی مکھی کی ایک عام صلاحیت کہتے ہیں۔ لیکن اگر یہ جبلت ہی ہے اور یہ تمام مکھیوں کے اوپر حکمرانی کرتی ہے اور اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ ساری شہد کی مکھیاں بے انتہا منظم طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں تو اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس جبلت اور نظام کے پیچھے ایسی حکمت موجود ہے جو اس تمام نظام کو ممکن بناتی ہے۔ یعنی کہ یہ اﷲ ہی کہ ذات ہے جو کہ ان چھوٹی چھوٹی مخلوقات کو اپنے کام کو بہترین طریقے سے انجام دینے پر معمور رکھتی ہے۔ اس حقیقت کا اعلان ۴۱ صدیوں پہلے قرآن شریف میں کردیا گیا تھا۔
﴿ اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کہ تیرے لئے نرم و آسان ہیں اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگی نکلتی ہے جس میں لوگوں کی تندرستی ہے بے شک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو۔ ﴾ (سورة النحل، آیات ۸۶،۹۶)

حیران کن ماہرِ تعمیرات: دیمک

 حیران کن ماہرِ تعمیرات: دیمک
دیمک کے حشرے کا گھونسلا دیکھا جائے تو حیران ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کیونکہ ان کے گھونسلے تعمیراتی عجوبے ہیں جوکہ ۶۔۵ میٹر کی بلندی تک تعمیر ہوئے ہوتے ہیں۔ اس گھونسلے کے اندر دیمک کے حشروں کی زندگی سے متعلق تمام جدیدضروریات کا سامان موجود ہوتا ہے کیونکہ یہ حشرے اپنے جسم کی ساخت کی وجہ سے سورج کی روشنی میں نہیں نکلتے۔ ان کے گھونسلے کے اندر ہواگزاری کا نظام، آبپاشی کا نظام، سنڈیوں کے نشوونما کے لئے مخصوص کمرے، راہداریاں، مخصوص پھپھوندی پیدا کرنے کا نظام، حفاظتی دروازے، گرم اور ٹھنڈے موسم کے لئے الگ کمرے، حتیٰ کہ ان گھونسلوں میں ضروریات زندگی سے متعلق ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ان عجوبہ نما گھونسلوں کو تعمیر کرنے والے دیمک کے یہ حشر’ مکمل طور پر نابینا ہوتے ہیں۔۸۷۱
لیکن اپنے نابینا ہونے کے باوجود اگر دیمک کے حشر’ اور اس کے گھونسلے کا موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی گھونسلوں کا یہ تعمیراتی معرکہ ان کی جسم کی پیمائش سے ۰۰۳ گنا بڑا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان حشروں میں ایک اور قابلِ ذکر خاصیت موجود ہوتی ہے۔ اگر ان کے گھونسلے کو تعمیر کے پہلے مرحلے کے دوران دوو حصوں میں تقسیم کردیا جائے اور کچھ عرصے بعد ان کو دوبارہ ملادیا جائے تو پتہ چلے گا کہ تمام راہداریاں، آبپاشی کی نہریں اور سڑکیں ایک دوسرے کو قطع کرتی ہیں۔دیمک کے حشرے اپنے کام اس طرح جاری رکھتے ہیں کہ گویا وہ کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے تھے اور ہمیشہ سے ایک ہی جگہ سے کام کرتے رہے ہوں۔

ہدہد

 ہدہد
یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ہد ہد یا کٹھ پھوڑا اپنا گھونسلا درخت کے تنے کو ٹھونگیں مار مار کر بناتا ہے۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ درختوں کے تنوں کو اتنی قوت سے سر مارنے کی باوجود اس کی دماغی شریانےں پھٹ کیوں نہیں جاتیں۔ ہدہد اپنا کام اس طرح انجام دیتا ہے کہ جس طرح ایک انسان اپنے سر کو استعمال کرتے ہوئے ایک کیل کو دیوار میں ٹھونکے۔ اگر کوئی انسان یہ کرنے کی کوشش کرنے لگے گا تو اس کو یقینا شدید دماغی صدمہ پہنچے گا جس کی وجہ سے دماغ کی شریانیں بھی پھٹنے کا خدشہ ہے۔ اس کے برعکس ایک ہدہد سخت درخت کے تنے کو ۸۳ سے ۳۴ دفعہ ۰۱۲ سے ۰۶۲ سیکنڈوں کے فاصلے سے ٹھونگیں مارتاچلا جاتا ہے اور کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے محفوظ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہدہد کے سر کی ساخت اس کام کے لئے تشکیل کی گئی ہے۔ اس کی کھوپڑی کے اندر معطلی کا نظام موجود ہے جو کہ اس کے سر سے لگائی گئی ضربوں کی سختی کو جذب کرکے کم کردیتا ہے۔ اس کی کھوپڑی کی ہڈیوں کے درمیان نرماہٹ پیدا کرنے کے لئے نرم ریشہ¿ لحمی موجود ہوتے ہیں۔۷۹۱

چمگادڑوں کا صوتی لہروں سے بازگشت کا نظام

Bats, چمگادڑوں کا صوتی لہروں سے بازگشت کا نظام
چمگادڑیں گھپ اندھیرے میں کسی مشکل کے بغیر اڑ سکتی ہیں۔ اس کام کے لئے ان کے اندر بڑا دلچسپ راستوں کاتعین کرنے کا نظام موجود ہوتا ہے۔ اس کو صوتی لہروں سے بازگشت کا نظام کہتے ہیں جس کے ذریعے آس پاس میں موجود اشیاءکا اندازہ آواز کی لہروں کی گونج سے لگایا جاتا ہے۔ ایک نوجوان شخص ۰۰۰,۰۲ لرزش فی سیکنڈ کی تکرار سے بھی کسی آواز کا اندازہ بڑی مشکل سے لگاپاتا ہے لیکن چمگادڑوں کے اندر مخصوص صوتی لہروں سے بازگشت کا نظام ۰۰۰,۰۳ سے ۰۰۰,۰۲ لرزشیں فی سیکنڈ کی تکرار کی آوازوں کا با آسانی پتہ چلالیتا ہے۔ان آوازوں کو وہ چاروں طرف ۰۲ سے ۰۳ دفعہ فی سیکنڈ بھیجتا ہے۔ان آوازوں کی گونج اس قدر زوردار ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے چمگادڑ نہ صرف اپنی راہ میں موجود اشیاءکا اندازہ لگاتا ہے بلکہ اپنے تیزی سے اڑتے شکار کے جائے وقوع کا بھی بخوبی تعین کرلیتا ہے
۔081

وہیل مچھلی

Whales, وہیل مچھلی
ممالیہ جانوروں کو بھی سانس لینے کے لئے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اور پانی اس مقصد کے لئے ایک بہترین ماحول نہیں ہے۔ وہیل مچھلی ایک پانی کا ممالیہ جانور ہے اور یہ مسئلہ اس کے جسم میں تنفس کے ایک ایسے اعلیٰ نظام سے حل کیاگیا ہےجوکہ کئی زمین پر رہنے والے جانداروں کے اندربھی موجود نہیں ہے۔ وہیل مچھلی ایک ایک کرکے سانس لیتی ہے ناکہ اندر باہر جس طرح عام جانور کرتے ہیں۔ جب وہ سانس کو باہر کی طرف چھوڑتی ہے تو وہ استعمال شدہ سانس کا ۰۹ فیصد حصہ باہر نکالتی ہے۔ اسی لئے اس کو نسبتاً لمبے وقفے تک سانس نہیں لینا پڑتا۔ اس کے علاوہ ان کے عضلات کے اندر ”مائیوگلوبن“ نامی مرتکز مادہ موجود ہوتا ہے جوکہ ان کو عضلات میں آکسیجن زیادہ عرصے تک رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس اعلیٰ تنفس کی مدد سے ایک فن بیک وہیل مچھلی ۰۰۵ میٹر کی گہرائی تک غوطہ لگاکر ۰۴ سیکنڈ تک بغیر سانس لئے تیر سکتی ہے۔(۱۸۱) وہیل مچھلی کے نتھنے زمین پر رہنے والے جانوروں کے برعکس اس کے سر کے پیچھے موجود ہوتے ہیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ سانس لے سکے۔

عام مچھر میں موجود بہترین نقشہ

 عام مچھر میں موجود بہترین نقشہ
گو کہ مچھر کے بارے میں عام تصور اڑنے والے جانور کا ہے لےکن حقیقت مےں مچھر اپنی افزائشی زندگی کے تمام مرحلے پانی کے اندر گزارتا ہے اور ایک غیر معمولی نقشے کی مد د سے پانی سے باہر نکلتا ہے۔ یہ نقشہ اس کو اس کی ضرورت کے تمام اعضاءکے ساتھ مہیا کیاجاتا ہے۔ مچھر اپنے اندر موجود خاص محسوس کرنے کی حس کو استعمال کرتے ہوئے اڑنا شروع کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے شکار کے جائے وقوع کا بھی اندازہ لگالیتا ہے۔ ان تمام نظاموں کے ساتھ وہ ایک ایسے جنگی جہاز سے مشابہ ہوتا ہے جو کہ گرمی، گیس، نمی اور مختلف قسم کی بو کو محسوس کرنے کی صلاحیت سے لیس ہوتا ہے۔اس کے اندر درجہ¿ حرارت کو محسوس کرتے ہوئے دیکھنے کی بھی صلاحیت موجود ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ اپنے شکار کو گھپ اندھیرے میں بھی تلاش کرلیتا ہے۔ مچھر کا خون چوسنے کا طریقہ بھی ایک ناقابل حد تک پیچیدہ نظام ہے۔ اپنی چھ آریوں پر مشتمل کاٹنے کے نظام کے ساتھ وہ کھال کو آری کی مانند کاٹتا ہے۔ کاٹنے کے اس عمل کے دوران ہی وہ اپنے ایک مخصوص قسم کے رسنے والے مادے کے ذریعے زخم کے ریشہ لحمی کو اس طرح سے سن کردیتا ہے کہ شکار کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کا خون چوسا جارہا ہے۔ یہ رسنے والا مادہ خون کو جمنے سے باز رکھتا ہے اور خون چوسنے کے عمل کو جاری رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
اگر مچھر کے جسم سے ایک بھی خاصیت کی کمی ہوجائے گی تو وہ خون چوسنے اور اپنی آئندہ نسلوں کی افزائش کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ اس بہترین نقشے کی تحت اس بے انتہا چھوٹے سے کیڑے میں بھی تخلیق کی حکمت نمایاں ہے۔ قرآن میں مچھر کی مثال عقلمند لوگوں کے لئے اﷲ تعالیٰ کی موجودگی کے ثبوت کے طور پر پیش کی گئی ہے۔
﴿ بیشک اﷲ اس سے حیا نہےں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے، وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر، وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اﷲ کا کیا مقصود ہے۔ اﷲ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہے۔ ﴾ (سورة ابقرہ ، آیت نمبر۶۲)

غیر معمولی قوت بصارت والے شکاری پرندے

 غیر معمولی قوت بصارت والے شکاری پرندے
شکاری پرندوں کی قوتِ بصارت نہایت تیز ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ فاصلے کا درست تعین کرتے ہوئے اپنے شکار کو با آسانی تلاش اور شکار کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں زیادہ بصارت کے خلئے موجود ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے بہترین قوتِ بصارت۔ چیلیں کئی ہزار میٹر پر اڑنے کے باوجود اپنی تیز آنکھوں سے زمین کو صاف طور پر دیکھ سکتی ہیں۔ جس طرح جنگی جہاز اپنے نشانے کو ہزاروں میل دور سے بھی پہچان لیتا ہے بالکل اسی طرح چیلیں اپنے شکار کو بھی دور سے زمین کے اوپر معمولی سے بھی رنگ میں تبدیلی یا حرکت سے پہچان لیتی ہیں۔ چیل کی آنکھ کی بینائی کا زاویہ ۰۰۳ ڈگری ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ کسی عام سی تصویر کو ۶ سے ۸ گنا بڑا دیکھتی ہے۔ چیل ۰۰۰۵,۴ میٹر کی بلندی پر اڑتے ہوئے ۰۰۰,۰۳ ہیکٹر کا رقبہ با آسانی دیکھ سکتی ہے۔ ۰۰۵۱ میٹر کی بلندی سے بھی وہ جھاڑی میں چھپے خرگوش کو دیکھ سکتی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ غیر معمولی آنکھ کی ساخت خاص طور پر چیل کے لئے ہی تخلیق کی گئی ہے۔

شتوری جانور (یا وہ جانور جو سرما خوابی کے عمل سے گزرتے ہیں)

شتوری جانور اپنے جسم کے درجہ¿ حرارت کا ٹھنڈے بیرونی درجہ¿ حرارت جتنا گرجانے کے باوجود بھی زندہ رہتے ہیں ۔یہ کس طرح ممکن ہوتا ہے؟ ممالیہ جانور گرم خون کے جانور ہوتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ عام حالات میں ان کے جسم کا درجہ¿ حرارت ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے کیونکہ ان کے جسم کے اندر قدرتی پیمانہ اس درجہ¿ حرارت کو تحدید کرتا رہتا ہے۔ لیکن سرماخوابی کے دوران چھوٹے ممالیہ جانوروں کے جسم کی عمومی حرات نقطہ¿ جمودسے تھوڑا ہی پہلے جاکر اس طرح رک جاتی ہے کہ گویا اس کو کسی چابی کے ذریعے اس نقطے پر لاکر روک دیا گیا ہو۔ جسم کا تحول بھی بڑی حد تک آہستہ ہوجاتا ہے۔ جانور بہت آہستہ سانس لینے لگتا ہے اور اس کے دل کی رفتار جوکہ عموماً ۰۰۳ دھڑکن فی منٹ ہوتی ہے وہ ۰۱۔۷ دھڑکن فی منٹ تک گرجاتی ہے۔ اس کے جسم کے اضطراری عمل سے بروئے کار آنے والے اعصاب کے سلسلے رک جاتے ہیں اور دماغ کی برقی مصروفیت نہ ہونے کے برابر ہوجاتی ہے۔ حرکت کے ختم ہوجانے سے سب سے بڑا خطرہ ریشہ¿ لحمی کا بیحد ٹھنڈے بیرونی درجہ حرات کے باعث جمنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ برف کے بلوروں کے بننے سے مرجاتے ہیں۔ لیکن شتوری جانور اپنے اندر موجود اےک خاص خصوصیت کی بناءپر اس خطرے سے محفوظ رہتے ہیں۔ شتوری جانوروں کے جسم کے سیال زیادہ تعداد مےں سالمی مواد پر مبنی کیمیائی اجزاءکے ذریعے جمنے سے محفوظ رہتے ہیں ۔ اس طریقے سے ان کے جسم کا نقطہ جمود کم ہوجاتا ہے جوکہ ان کے ریشہ لحمی کو جمنے نہیں دیتا۔۲۸۱

برقی مچھلیاں

مچھلیوں کی کچھ اقسام مثلاً برقی مارماہی اور برقی رائیہ ماہی اپنے جسم میں پیدا ہونے والی بجلی کو استعمال کرتے ہوئے دشمن سے اپنے آپ کو بچاتی ہیں اور اپنے شکار کو سن بھی کرتی ہیں۔ انسان کے ساتھ ساتھ ہر جاندار میں تھوڑی بہت بجلی موجود ہوتی ہے البتہ انسان اس بجلی کو اپنی مرضی سے اپنے نفع کے لئے استعمال نہیں کرسکتا۔لیکن اوپر جن جانداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے جسم میں ۰۰۵۔۰۰۶ وولٹ جتنی بجلی کا کرنٹ موجود ہوتا ہے جس کو وہ اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔اس کے باوجود ان کو خود اس بے پناہ بجلی سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اپنے دفاع کے لئے استعمال کی جانے والی اس قوت کو وہ تھوڑے ہی وقفے کے بعد دوبارہ اس طرح حاصل کرلیتے ہیں جس طرح کسی بیٹری کو دوبارہ برقی قوت سے بھردیا جائے۔ مچھلیاں اپنے چھوٹے جسم میں موجود اس برقی توانائی کو صرف دفاع کے لئے ہی استعمال نہیں کرتیں ۔یہ ان کو اندھیرے پانی میں راستہ ڈھونڈنے میں بھی مدگار ثابت ہوتی ہے اور اس کے ذریعے وہ اشیاءکو بغیر دیکھے محسوس بھی کرسکتی ہیں۔اس کے علاوہ وہ اپنے جسم میں موجود اس برقی توانائی کو اشارے بھیجنے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں۔ یہ اشارے سخت سطح سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہوتے ہیں اور اس انعکاس کے ذریعے یہ مچھلیاں اس شے کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں مثلاً کہ اس شے سے ان کا فاصلہ اور اس کی پیمائش کتنی ہے۔۳۸۱
مکڑی کا دھاگہ
dinopis,  مکڑی کا دھاگہ
ڈینوپس نامی مکڑی کے اندرشکار کرنے کی زبردست مہارت پائی جاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ ایک جامد جالہ تیار کرکے اپنے شکار کا انتظار کرے وہ ایک ایسا چھوٹا اور غیر معمولی جالہ تیار کرتی ہے جو وہ اپنے شکار کے اوپر پھینک دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے شکار کو اس جالے میں اس مضبوطی سے لپیٹ دیتی ہے کہ شکار کا ہلنا جلنا محال ہوجاتا ہے۔جالے کی ساخت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ نکلنے کی کوشش سے شکار اور زیادہ اس میں الجھتا جاتا ہے۔ اگر مکڑی کی نیت شکار کو تھوڑے عرصے بعد کھانے کی ہوتی ہے تو وہ اس کو مزید اور دھاگوں سے اس طرح لپیٹ دیتی ہے گویا وہ کوئی بنڈل ہو۔
 مکڑی کا دھاگہ
ایک مکڑی میکانیکی اور کیمیائی نقشے کا اتنا عمدہ جالہ کس طرح تعمیر کرتی ہے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس مکڑی کے اندر یہ مہارت اور صلاحیت کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی جیساکہ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے۔ مکڑی کے اندر سیکھنے اور یاد رکھنے کی فطری صلاحیت موجود نہیں ہوتی کیونکہ قدرت نے اس کو دماغ ہی عطا نہیں کیا۔ لیکن الله تعالیٰ کی مرضی اور قوت سے مکڑی کے اندر جال بنانے کی یہ مہارت موجود ہے۔ اس کے علاوہ مکڑیوں کے دھاگے کے اندر بھی اہم معجزے چھپے ہوئے ہیں۔ اس دھاگے کا قطر ایک ملی میٹر کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم ہوتا ہے لیکن یہ لوہے کی اسی قطر کی تار سے پانچ ) ۵( گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ مکڑی کے دھاگے کی ایک اور خاصیت اس کا ہلکا وزن ہوتا ہے۔ پوری دنیا کے اطراف لپٹنے والے اس دھاگے کا وزن صرف ۰۲۳ گرام ہوگا۔

لوہا صنعتی اشیاءمیں استعمال ہونے والی مضبوط ترین دھات ہے لیکن مکڑی اپنے مہین وجود سے اس دھات سے بھی کہیں مضبوط شے پیدا کرتی ہے۔ انسان لوہے کی پیداوار میں صدیوں پرانی حکمت اور تکنیکی صلاحیت کا استعمال کرتا ہے لےکن مکڑی اپنا دھاگہ بنانے میں کس حکمت اور تکنیک کا استعمال کرتی ہے؟ انسان کی تمام صلاحیتیں ایک مکڑی کی صلاحیتوں کے آگے معمولی نظر آتی ہیں۔

جانوروں کے اوپر عقلمند نقشہ: دھوکہ دہی اور نظر فریبی کی خاصیت

چھلاورن
درخت کے تنے پر چھپا ہوا پتنگا پتوں کے درمیان کھوئے ہوئے کرم خور حشرے یا منطس

شاخ کے اوپر چھپی ہوئی چھپکلی

شاخ کے تنے پر بیٹھا ہوا الوّ
کئی جانور اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے دھوکہ دہی یا نظر فریبی کی خاصیت سے لیس ہوتے ہیں۔ جانور اپنے آپ کو چھپانے کی ضرورت دو طرح کی صورتحال میں محسوس کرتے ہیں ایک تو شکار کو پکڑنے کے لئے اور دوسراخود کوشکاریوں سے بچانے کے لئے۔ دھوکہ دہی کی خاصیت دوسرے تمام طریقوں سے اپنی خاص عقلمندی، مہارت، جمالیات اور منظم خصوصیات کے یکجا استعمال کی بناءپر الگ ہے۔ جانوروں کے اندر موجو دھوکہ دہی کی خاصیت حقیقتاً حیرت انگیز ہے جس سے درخت کے تنے کے اوپر بیٹھے کیڑے ےا پتے کے نیچے چھپے ٹڈے میں فرق کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔’ پتوں کی جوں‘ پودوں کے کانٹوں کے شکل کے ہوتے ہیں اور اس طرح بڑے آرام سے ٹہنیوں پر بیٹھ کر پودوں کا رس چوستے رہتے ہیں۔ اس طریقے سے وہاپنے سب سے خطرناک دشمن پرندوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں کیونکہ ان کو پودوں کے کانٹے سمجھتے ہوئے پرندے ان پودوں پر بیٹھنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔

قیر ماہی

قیر ماہی کی کھال کے نیچے کروماٹوفور نامی تھیلیوں کی موٹی تہہ ہوتی ہے جن کا رنگ پیلا، لال، کالا اور بھورا ہوتا ہے۔صرف ایک اشارے سے مچھلی کے خلئے پھیل جاتے ہیں اور اس کی کھال کو مناسب رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ اس طرح سے قیر ماہی اس پتھر کا بھی رنگ دھارلیتی ہے جس پر وہ بیٹھی ہوتی ہے اور مکمل طور پر آنکھ سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ یہ طریقہ اس قدر کارآمد ہوتا ہے کہ قیرماہی اس کے ذرےعے زیبراجانور کے جسم پر موجود پیچیدہ سفید اور کالی دھاریوں کو بھی اختیار کرسکتی ہے۔۴۸۱

بینائی کے مختلف نظام

سمندروں میں رہنے والے کئی جانوروں کےلئے ان کی بصارت شکار اور دفاع کا اہم ذریعہ ہے۔ اسی لئے ان جانوروں کی آنکھیں بھی پانی کے اندر کے ماحول کی مطابقت سے بہترین ہوتی ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی گہرائی کے ساتھ خاص طور پر ۰۳ میٹرکے بعد دیکھنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے۔ لیکن اس گہرائی میں رہنے والے جانوروں کی آنکھیں اس ماحول کے لئے مناسب ہوتی ہیں۔ زمین پر رہنے والے جانوروں کے برخلاف سمندر میں رہنے والے جانوروں کی آنکھوں میں کروی شکل کے عدسے ہوتے ہیں جوکہ پانی کی کثافت میں بصارت آسان بنادیتی ہیں۔ زمین کے جانوروں کی چوڑی ترخیمی آنکھوں کے برعکس یہ کروی شکل عدسوں پر مشتمل آنکھیں پانی کے اندر اشیاءکو فاصلے کے باوجود قریب کرکے دکھاتی ہیں۔ جب دور کی کسی شے کو توجہ کا مرکز بنایا جاتا ہے تو آنکھ کے عدسوں کا پورا نظام آنکھ کے اندر موجود مخصوص عضلاتی نظام کے تحت پیچھے کی طرف کھنچ جاتا ہے۔
مچھلیوں کی آنکھوں کا کروی شکل کا ہونے کی ایک اور وجہ پانی کے اندر روشنی کا منعطف ہونا ہے۔ کیونکہ مچھلیوں کی آنکھ میں موجود پانی کی کثافت تقریباً باہر کے پانی کی کثافت جتنی ہی ہوتی ہے اسی لئے جب باہر کی شبیہ آنکھ کے اوپر منعکس ہوتی ہے تو نتیجے میں وہ منعطف نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے آنکھ کے عدسے کا مرکز مکمل طور پر پتلی پر پڑنے والی باہر کی شے کی شبیہ پر ہی رہتا ہے۔ انسانوں کے برعکس مچھلیوں کی قوت بصارت بہت تیز ہوتی ہے۔ ہشت پایہ جیسے کچھ سمندری جانوروں کی آنکھیں معمول سے بھی زیادہ بڑی ہوتی ہے تاکہ سمندر کی گہرائی میں روشنی کی غیر موجودگی کی تلافی ہوسکے۔ ۰۰۳ میٹر کی گہرائی کے بعد بڑی آنکھوں کی مچھلیوں کو اپنے آس پاس کے جانداروں کے جسم سے نکلنے والی شعاعوں کا اندازہ لگاکر ان کی موجودگی کا ادراک کرنا پڑتا ہے۔ اس گہرائی پر ان کا خاص انحصار اس کمزور نیلی روشنی پر ہوتا ہے جوکہ بیرونی روشنی کا واحد ذریعہ ہوتی ہے۔چونکہ جانوروں کی آنکھوں کو اس روشنی سے بے حد حساس ہونا لازمی ہے اسی لئے ان کی آنکھوں کی پتلیوں میں حساس نیلے خلیوں کی بھی بہتات ہوتی ہے۔ ان تمام مثالوں سے واضح ہے ہر جاندار کے ماحول کے حساب سے اس کی آنکھوں میں بھی مخصوص خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی حکمت نے تمام جانداروں کو نمایاںخصوصیات کے ساتھ مکمل طور پر اس طرح تخلیق کیا ہے کہ زندگی ان کے لئے سہل ہوجائے۔

منجمد ہونے کا مخصوص نظام

منجمد ہونے کا مخصوص نظام, Cuttlefish
کھلا ہوا بھنگے حشرے کھانے ولا پودا بند پودا

کھلا ہوا بھنگے حشرے کھانے ولا پودا امریکی گرگٹ کا شمار ان نایاب جانوروں میں ہوتا ہے بند پودا جوکہ پانی اور ہوا میں توازن قائم کرتے ہوئے حرکت کرتے ہیں۔
ایک منجمد ہوا مینڈک غیر معمولی حیاتیاتی ساخت کا نمونہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر زندگی کا کوئی نشان نہیں ہوتا۔ اس کے دل کی دھڑکن، نظامِ تنفس اور نظامِ گردش خون مکمل طور پررک جاتے ہیں۔ لیکن جب برف پگھلتی ہے تو یہی مینڈک زندگی کی طرف اس طرح لوٹ آتا ہے کہ گویا گہری نیند سے جاگا ہو۔ عمومی حالات میں اگر کوئی جاندار منجمد ہوجائے تو اس کو کئی مہلک خطرات لاحق ہوتے ہیں لیکن مینڈک ایسے کسی بھی خطرے سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے جسم کے اندر منجمدگی کی حالت میں بڑیمقدار میں گلوکوس پیدا کرنے کی نمایاں خاصیت موجود ہے جس سے ایک زیابیطس کے مریض کی طرح اس کے خون میں شکر کی مقدار بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ عام حالات میں مینڈک کی خون میں شکر کی مقدار ۵۔۱MMOL فی لیٹر اور انسانوں میں ۵۔۴MMOL فی لیٹر ہوتی ہے۔ لیکن منجمدگی کی حالت میںاس کے جسم مےں شکر کی مقدار ۰۵۵MMOL فی لیٹر تک پہنچ جاتی ہے۔ گلوکوس کی یہ حد سے تجاوز کرتی مقدار عام حالات میں مہلک ہوتی ہے لیکن ایک جمے ہوئے مینڈک میں گلوکوس کی بڑھی ہوئی مقدار پانی کو خلیوں کے اندر روک کر سکڑنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ مینڈک کے خلیوں کی جھلی گلوکوس کے سرایت کرنے میں خاص طور پر مددگار ہوتی ہے جس کی وجہ سے گلوکوس با آسانی خلیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ جسم میں گلوکوس کی بڑھتی ہوئی مقدار نقطہ¿ جمود کو بھی گھٹادیتی ہے جس کی بدولت جانور کے جسم کا بہت کم اندرونی مائع برف بن پاتا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ گلوکوس جمے ہوئے خلیوں کی نشوونما بھی کرتا ہے۔ اس تمام عرصے کے دوران جسم کے قدرتی ایندھن کا کردار ادا کرنے کے علاوہ گلوکوس جسم میں کئی تحولی کیفیات مثلاً یوریا کی تالیف کو بھی روک دیتا ہے جس کے ذریعے خلئے کے اندر موجود نشوونما کے ذرائع کمزور پڑنے سے بچے رہتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ مینڈک کے جسم مےں گلوکو س کی اتنی زیادہ مقدار اچانک کہاں سے آجاتی ہے؟ اس کا جواب کافی دلچسپ ہے۔ اس جاندار کے جسم کا ایک بہت خاص نظام اس کام کو انجام دینے پر معمور ہے۔جیسے ہی مینڈک کی کھال پر برف نمودار ہوتی ہے، ایک اشارہ جگر کی طرف جاتا ہے جس سے جگر اپنے اندر موجود گلائکوجن کو گلوکوس میں بدلنا شروع کردیتا ہے۔ اس اشارے کی نوعیت ابھی تک سمجھ نہیں آسکی ہے۔ اشارہ ملنے کے پانچ منٹ کے اندر اندر خون میں موجود گلوکوس کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔۵۸۱ اس طرح کا ناقابل یقین اور اعلیٰ نظام جس کے تحت ایک جاندار کا پورا تحولی نظام بوقت ضرورت بدل جاتا ہو صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی بے عیب تخلیق اور بہترین نقشے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے مکمل اور پیچیدہ نظام کا اتفاقیہ طور پر وجود میں آنا ایک انتہائی نامعقول تصور ہے۔

بطریل کاہم نسل لمبے بازوﺅں والا بحری پرندہ

albatross
موسمی کوچ کرنے والے پرندے مختلف طرح کی اڑان کے طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنی توانائی کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اس بحری پرندے میں بھی ایسی ہی مخصوص اڑان کی خاصیت موجود ہے۔ یہ پرندے اپنی زندگی کا ۲۹ فیصد وقت سمندر کے اوپر گزارتے ہیں۔ ان کے بازوﺅں کی کل پیمائش ۳ سے ۵ میٹر ہوتی ہے۔ یہ پرندہ کئی گھنٹے تک اپنے پروں کو استعما میں لائے بغیر اڑ سکتا ہے۔ اس کے لئے وہ ہوا میں ہوا کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اپنے بازوﺅں کو ایک ہی مقام پر رکھ کر سبک رفتاری سے ”بہنے“ کا انداز اختیار کرلیتا ہے ۔چونکہ اڑان کے دوران پرندے کے پر استعمال میں نہےں ہوتے اسی لئے کسی عضلاتی قوت کا بھی استعمال نہیں ہورہا ہوتا۔ پر عضلاتی تہوں کے استعمال سے ہی اوپر نیچے ہوتے ہیںجس کے ذریعے پرندے اڑ پاتے ہیں۔ اڑان کے اس نظام سے پرندہ استعمال کی جانے والی توانائی کی بچت کرلیتا ہے۔ یہ مخصوص پرندہ بھی چونکہ اڑان میں پروں کے پھیلانے یا پھڑ پھڑانے کا استعمال نہیں کرتا اسی لئے اس کی توانائی ضائع ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔ صرف اور صرف ہوا کے زور پر گھنٹوں اڑان اس کے لئے لامحدود توانائی کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک ۰۱ کلو وزن کا یہ پرندہ ۰۰۰۱ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود اپنے جسم کا صرف ۱ فیصد وزن کھوتا ہے جوکہ بے انتہا کم ہے۔ انسانوں نے ان پرندوں کی ساخت اور پرکشش اڑان کے طریقے کو ملحوظ رکتے ہوئے بغیر انجن کے اڑنے والی ہوائی سواریاں ایجاد کی ہیں جن کو گلائڈر کہتے ہیں۔۶۸۱

ایک محنت طلب نقل مکانی

بطریل کاہم نسل لمبے بازوﺅں والا بحری پرندہ
بحرالکاہل کی سامن مچھلی کے اندر انہی د ریاﺅں میں واپس جاکر بچے جننے کی خاصیت موجود ہوتی ہے جن میں وہ خود پیدا ہوتی ہیں۔اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سمندروں میں گزارنے کے باوجود یہ مچھلیاں تازہ پانی کے دریاﺅں میں انڈے دینے لوٹ آتی ہیں۔ اپنے سفر کا آغاز یہ موسم گرما کے اول دنوں میں کرتی ہیں۔ اس وقت اس مچھلی کا رنگ گہرا سرخ ہوتا ہے لیکن سفر کے اختتام پر اس کا رنگ کالا ہوچکا ہوتا ہے۔ سفر کے شروع میں وہ ساحل کے قریب قریب رہتی ہیں اور دریا تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ اپنی جائے پیدائش تک پورے استقلال اور دلجمعی سے پہنچنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔ طوفانی دریاﺅں کے اوپر سے کودتے ہوئے، پانی کی برقی رو کے خلاف تیرتے ہوئے، آبشاروں اور سمندری سیلابوں کے پشتوں میں سے گزرتے ہوئے وہ بالآخر اپنی جائے پیدائش تک پہنچ ہی جاتی ہیں۔
اس ۰۰۵,۳ سے ۰۰۰,۴ کلو میٹر فاصلے کے سفر کے اختتام پر مادہ سامن کے انڈے اور نر سامن کا مادہ منویہ تیار ہوتا ہے۔ اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچتے ہی مادہ سامن ۳ سے ۵ ہزار انڈے دیتی ہے اور نر سامن ان کو مادہ تولید سے بارور کردیتا ہے۔ اس سخت نقل مکانی اور انڈے دینے کے عرصے کے دوران یہ مچھلیاں بہت نقصان اٹھاتی ہیں۔ انڈے دینے کے بعد مچھلیاں بے دم ہوجاتی ہیں۔ ان کی دم پر موجود کھپرے کو بہت نقصان پہنچتا ہے اور ان کی کھال سیاہ پڑنے لگتی ہے۔ نر سامن بھی انہی حالات سے گزرتا ہے۔ دریا بہت جلد ہی مری ہوئی سامن مچھلیوں سے بھرجاتا ہے لیکن پھر بھی سامن مچھلیوں کی نئی نسل اسی سفر کو دوبارہ طے کرنے اور اسی عمل سے دوبارہ گزرنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ سامن مچھلی یہ مشکل سفر کس طرح مکمل کرلیتی ہے ؟ انڈوں سے نکلنے کے بعد وہ سمندر تک کس طرح پہنچتی ہے؟ اور پھر واپسی کا راستہ کس طرح تلاش کرتی ہے ایسے سوالات ہیں جن کا آج تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ گوکہ اس سلسلے میں کئی مفروضے سامنے آئے ہیںلیکنحتمی جواب کی آج بھی تلاش ہے۔ وہ کون سی طاقت ہے جو سامن مچھلیوں کو ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ایک انجانی جگہ پر لوٹنے پر مجبور کرتی ہے؟ ظاہر ہے کہ ان کا اور تمام جانداروں کا ایک حاکم موجود ہے جس کی مرضی سے یہ کامانجام پارہے ہیں۔ وہ حاکم پوری کائنات کا مالک اﷲ ہے۔
پرندوں کے پروں میں نقشہ
پنکھ
ظاہری معائنے پر پرندوں کے پروں میں کوئی نمایاں اوصاف نظر نہیں آتے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ پر جوکہ نہ صرف ہلکے، مضبوط اور ناقابل نفوذ ہوتے ہیں، نہایت پیچیدہ ساخت کے حامل اعضاءہیں۔پرندوں کی اڑان کے لئے ان کا ہلکا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے پروں کے اندر قراتےن لحمیات بکثرت موجود ہوتے ہیں۔ پر کے ڈنڈے کے دونوں طرف ۰۰۴ شاخیں موجود ہوتی ہیں جن میں مزید ۰۰۸ کنڈے ہوتے ہیں۔ ان ۰۰۸ کنڈوں کے سروں پر ۰۲ چھوٹے چھوٹے باریک ریشے ہوتے ہیں جوکہ ۰۰۸ متوازی کنڈوں کو کپڑے پر موجود زپ کی طرح جوڑے رکھتے ہیں کسی ایک پرندے میں ۰۰۷ کروڑ باریک ریشے ہوتے ہیں۔

پر میں موجود شاخوں اور کنڈوں کی پیچیدہ ساخت ایک بہت اہم کام انجام دیتی ہے۔ پروں کا آپس میں قریب اور مضبوطی سے جڑے رہنا بہت ضروری ہے تاکہ پرندے کی اڑان کے دوران یہ پر الگ الگ ہوکر یا کناروں سے گھس کر اڑان کے دوران ناکارہ نہ ہوجائیں۔ اس میکانیکی عمل کی وجہ سے پر اس مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں کہ نہ تو تیز ہوا ، نہ بارش ان کے درمیان خلاءپیدا کرکے ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے ۔نیچے کے پر بازؤں اور دم کے پروں سے بڑے پر سمت کا تعین کرنے ً مختلف ہوتے ہیں۔ دم کے نسبتا والے عمودی پتوار اور رفتار کو روکنے والے میکانیکی نظام کا کام انجام دیتے ہیں۔ بازوؤں کے پر سطح کا رقبہ بڑھادیتے ہیں اور اڑان میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

کوآلابھالو۔آسٹریلیاکا مخصوص کیسہ دار جانور:ے

koala, کوآلابھالو۔آسٹریلیاکا مخصوص کیسہ دار جانور ے
ےوکلپٹس کے پتوں میں موجود تیل کئی ممالیہ جانوروں کے لئے زہریلا ہوتا ہے ۔یہ زہر ےوکلپٹس کے درخت کا اپنے دشمنوں کے خلاف دفاع کا کیمیائی طریقہ ہے۔ لیکن ایک خاص جاندار ایسا بھی ہے جوکہ اس زہر کے باوجود صرف انہی پتوں پر گزارا کرتا ہے۔ یہ کوآلانامی کیسہ دار بھالو ہوتا ہے جوکہ نہ صرف ےوکلپٹس کے درختوں میں اپنا گھر بناتا ہے بلکہ ان کے پتوں کو کھاتا بھی ہے اور ان سے پانی بھی حاصل کرتا ہے۔ دوسرے ممالیہ جانوروں کی طرح کوآلا درختوں میں موجود سیلولوس (جوکہ ایک نشاستہ دار مادہ ہوتا ہے) کو ہضم نہیں کرسکتا۔ اسی لئے وہ سیلولوس کو ہضم کرنے کے لئے خردنامیہ جانداروں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ جاندار زیادہ تر چھوٹی او ربڑی آنت کے ملاپ کے نقطے پر کثرت سے موجود ہوتے ہیں اور آنتوں کے نظام کے پچھلے سرے پر موجود کیسم نامی ایک غشائی تھیلی میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ کیسم کوآلا بھالو کے نظام انہضام کا سب سے دلچسپ حصہ ہوتا ہے۔ یہ ایک برانگیختی کمرا ہوتا ہے جہاں پر وہ جرثومے تیار ہوتے ہیں جوکہ سیلولوس کو ہضم کرتے ہیں ۔اس عمل کے ذریعے کوآلا بھالوےوکلپٹس کے پتوں میں موجود زہر کے اثرات کی تدیل کرلیتا ہے۔“۷۸۱

ایک ہی جگہ رہ کر شکار کرنے کی صلاحیت

ایک ہی جگہ رہ کر شکار کرنے کی صلاحیت
کھلا ہوا بھنگے حشرے کھانے ولا پودا امریکی گرگٹ کا شمار ان نایاب جانوروں میں ہوتا ہے بند پودا جوکہ پانی اور ہوا میں توازن قائم کرتے ہوئے حرکت کرتے ہیں۔
شمالی افریقہ کا بھنگے حشرے کھانے والا پودا اپنے لیس دار بالوں میں کیڑے مکوڑوں کو قید کرلیتا ہے۔ اس پودے کے پتے لمبے لال بالوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان بالوں کے سروں پر موجود سیال میں ایک خاص قسم کی مہک ہوتی ہے جوکہ کیڑےمکوڑوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہے۔ اس سیال کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ بیحد چپچپا ہوتا ہے۔ اس مہک کی طرف آنے والا کیڑا یا حشرہ ان بالوں میں چپک کر رہ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد پورا پتہ بند ہوکر اس کیڑے کو ڈھک لیتا ہے جوکہ پہلے ہی ان بالوں میں قید ہوچکا ہوتا ہے۔ پودا اس کو ہضم کرکے اس میں اپنی ضرورت کے لحمیات کو چوس لیتا ہے۔۸۸۱ کسی پودے کے اندر ایسی خاصیت کا موجود ہونا کہ وہ اپنی جگہ سے ہلے جلے بغیر اپنی غذا کا مکمل اہتمام کرے بلاشبہ ایک خاص نقشے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس پودے کی اتنی مخصوص شکار کرنے کی صلاحیت کاا س کی اپنی مرضی اور منشاءسے اتفاقاً پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اس صلاحیت کے پیچھے ایک زبردست خالق کا ہاتھ ہے اور اس بات کی سچائی کو نظر اندازکرنا ناممکن ہے۔

باسیلسک یا کوئی چھوٹا مریکی گرگٹ: پانی کے اوپر چلنے کا ماہر

باسیلسک یا کوئی چھوٹا مریکی گرگٹ: پانی کے اوپر چلنے کا ماہر
بہت کم جاندار ایسے ہوتے ہیں جوکہ پانی کی سطح پر چل سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک باسیلسک کے نام سے جانا جاتا ہے اور وسطی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے پچھلے پیروں کے انگوٹھوں کے دونوں طرف پانی کو ڈھکیلنے کے لئے مخصوص اعضاءہوتے ہیں جوکہ صرف پانی میں کھلتے ہیں اور زمین پر چلنے کے دوران اوپر کو اٹھ جاتے ہیں۔ جب اس جانور کو خطرہ درپیش ہوتا ہے تو وہ جھیل یا دریا کی سطح پر بہت تیزی سے دوڑنے لگتا ہے اور اس کے پیروں کے یہ مخصوص اعضاءکھل کر پانی پر دوڑنے کی سطح میں اضافہ کردیتے ہیں۔۹۸۱باسیلسک اﷲ تعالیٰ کی شاندار تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

نوری تالیف

نوری تالیف
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کو زندگی کے لائق بنانے میں نباتات ایک بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہوا کو صاف رکھنے کے علاوہ وہ زمین کے درجہ¿ حرارت کو معتدل رکھتے ہیں اور ہوا میں دیگر دوسری گیسوں کے تناسب میں توازن قائم رکھتے ہیں۔ ہوا میں موجود آکسیجن بھی نباتات کی پیدا کردہ ہے۔ زمین پر کھانے پینے کا ایک بڑا حصہ بھی نباتات ہی فراہم کرتے ہیں۔ پودوں کی افزائشی طاقت ان کے خلیوں میں موجود مخصوص نقشوں کی مرہونِ منت ہے۔ اس نقشے کے تحت ان کے اندر اور بھی کئی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
انسانی اور حیوانی خلیوں کے برعکس پودوں کے خلئےے سورج کی روشنی کا براہِ راست فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ سورج کی روشنی کی قوت کو کیمیائی قوت میں تبدیل کرکے اپنے اندر مخصوص طریقے سے جمع کرلیتے ہیں۔ یہ عمل نوری تالیف کا عمل کہلاتا ہے۔ دراصل یہ عمل خلیہ نہیں بلکہ کلوروپلاسٹ نامی جرثوموں کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ پودوں کا ہرارنگ بھی انہیں جرثوموں کی بدولت ہوتا ہے۔ یہ ہرے جرثومے صرف خوردبین کے ذریعے دیکھے جاسکتے ہیں او ریہ دنیا کی واحد ایسی تجربہ گاہےں ہیں جن میں سورج کی توانائی کو مربوط مادے کی شکل میں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ نباتات کے ذریعے زمین پر پیدا کئے جانے والے مادے کی مقدار ۰۰۲ کروڑ ٹن فی سال ہے۔ یہ مادہ دنیا میں موجود تمام جانداروں کی زندگی کے لئے ناگزیر ہے۔ یہ مادہ ایک انتہائی پیچیدہ کیمیائی عمل سے وجود میں آتا ہے۔ کلوروپلاسٹ کے اندر موجود ہزاروں کلوروفل کے رنگ روشنی پڑنے پر بیحد تیز رفتاری سے کیمیائی ردِ عمل کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تیز رفتاری ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلوروفل میں پیدا ہونے والے کئی دوسری کیمیائی عملیات کا آج تک تعین نہیں کیا جاسکا ہے۔
سورج کی شعاعوں کو برقی اور کیمیائی قوت میں بدلنے کا عمل ایک حالیہ سائنسی دریافت ہے جس کے لئے جدید طرز کے تکنیکی آلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک انتہائی چھوٹا، آنکھ سے اوجھل پودے کا خلیہ یہی کام لاکھوں سالوں سے بغیر کسی مسئلے یا رکاوٹ کے کئے چلا جارہا ہے۔ نوری تالیف کا یہ مکمل نظام تخلیق کا واضح ثبوت ہے۔ س نظام کو صرف اور صرف اﷲ نے اپنی مرضی سے تخلیق کیا ہے اور یہ کسی اتفاق کا نتیجہ ہرگز نہیںہے۔ پتوں کے ایک ایک خلئے میں ایک ناقابل فہم طور پر بہترین کارخانہ موجود ہے ۔یہ اﷲ تعالیٰ کے وجود کا نشان ہے جوکہ تمام کائنات کو پالنے والا ہے۔
Photosynthesis, نوری تالیف
پودوں کی خردبینی کارخانوں میں معجزاتی تقلیب عمل میں آتی ہے۔

سورج کی توانائی سے پودے نوری تالیف انجام دیتے ہیں جوکہ نہ صرف جانوروںبلکہ انسانوں کی بھی توانائی کی ضرورےات کو پورا کرتی ہے۔

1- توانائی
2- غذا
3- آکسیجن
4- کاربن ڈائی آکسائیڈ

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder