17 Mart 2016 Perşembe

سترہواں باب مادے سے بھی آگے کا راز

سترہواں باب
مادے سے بھی آگے کا راز
خطرہ!
آگے آنے والا باب زندگی کا اہم راز افشاءکرتا ہے۔ اس کو دھیان سے پڑھنا ضروری ہے کیونکہ اس کا موضوع ظاہری زندگی کے متعلق نظریئے میں بنیادی تبدیلی لانے کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس باب کا موضوع محض ایک نقطہ¿ نظر، ایک مختلف تجویز یا ایک روایتی فلسفی سوچ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر ایمان والے یا بغیر ایمان والے کے لئے بھی اعتراف لازم ہے اور جس کی سچائی کو جدید سائنس نے مکمل طور پر ثابت کردیا ہے۔
جو لوگ اپنے ماحول کے بارے میں حکمت اور ضمیر کے تقاضوں کے مطابق غور و فکر کرتے ہیں ان کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کائنات کی تمام جاندار اور غیر جاندار چیزیں صرف تخلیق کا ہی نتیجہ ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کا خالق کون ہے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر تخلیق اپنے آپ کو کائنات کی ہرچیز کے ذریعے باور کرواتی ہے تو پھر یہ بذاتِ خود کائنات کا حصہ یا کائنات کی بنائی ہوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ مثال کے طور پر کسی کیڑے مکوڑے نے خود اپنے آپ کو نہیں بنایا نہ ہی نظامِ شمسی نے اپنی تخلیق آپ کرکے تمام چاند ستاروں کے نظام کو ترتیب دیا ہے۔ اسی طرح نباتات، انسان، جرثومے، لال خون کے خلئے اور تتلیوں نے بھی خود اپنے آپ کو نہیں بنالیا۔ جس طرح اس کتاب مےں واضح کیا گیا ہے کہ ان تمامچیزوں کا اتفاق سے وجود میں آنا ایک انتہائی ناقابل فہم بات ہے۔ اسی لئے مندرجہ ذیل خلاصہ نکالا گیا ہے کہ جو کچھ بھی دنیامیں نظر آتا ہے وہ تخلیق کیا گیا ہے۔ لیکن نظر آنے والی کوئی بھی چیز یہ تخلیق کار نہیں ہے۔ ان چیزوں کا تخلیق کار ان تمام چیزوں سے مختلف اور برتر ہے۔ وہ ایک ایسی عظیم الشان قوت ہے جو کہ آنکھ سے اوجھل ہے لیکن اس کے وجود کا ثبوت اور اوصاف اس کی تخلیق کی ہوئی ہر چیز میں نمایاں ہےں۔ وہ تخلیق کار اﷲ ہے۔
حےرت انگےز طور پر یہی وہ نقطہ ہے جس پر آکر اﷲ کے وجود سے منکر لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی سوچ کو اس طرح ڈھال دیا گیا ہوتا ہے کہ وہ اﷲ کی ذات کا اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک کہ وہ اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ نہ لیں۔ ان کی گمراہ سوچ ان کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتی کہ وہ تمام کائنات میں موجود اﷲ تعالیٰ کے وجود کی سچائی کا اعتراف کریں یا اس بات کا برملا اظہار کرسکیں کہ زمین اور آسمان میں موجود ہر چیز ایک اعلیٰ تخلیق کار کے سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔ ان تمام حقائق کی نفی کرنے کی خاطر وہ لوگ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءاس جھوٹ اور اس جھوٹ کو عملی جامہ پہنانے کی جان توڑ کوششوں کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی ذات سے انکار کرنے کی غلطی کا ارتکاز کئی دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں جوکہ مکمل طور پر اﷲ کی ذات سے منکر تو نہیں ہوتے پر ان کے اﷲ کے بارے میں عمومی مشاہدات غلط ہوتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کا ایک بڑا حصہ ہوتے ہیں جوکہ تخلیق سے انکار نہیں کرتے لیکن خدا کے بارے میں توہماتی عقائد رکھتے ہیں۔مثلاً خدا کے اوپر ان کے یقین کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ وہ آسمان میں رہتا ہے۔ ان کے تصور میں خدا کسی دور سیارے پر رہتا ہے اور صرف یاتو وقتاً فوقتاً دنیاوی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے، یا پھر بالکل ہی نہیں کرتا۔ اس نے کائنات کو تخلیق کیا اور پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑدیا۔ انسانوں کو اس نے اپنی اپنی تقدیر اور معاملات کا مختار کل نائب کردیا۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ قرآن کے مطابق اس بات پر تو یقین رکھتے ہیں کہ خدا ”ہر جگہ“ موجود ہے لیکن وہ اس بات کے اصل مفہوم سے ناواقف ہیں۔ توہم کی بنیاد پر ان کی سوچ صرف اس حد تک جاتی ہے کہ خدا ان کے اطراف ریڈیو کی صوتی لہروں یا آنکھ اوجھل کیمیائی گیس کی طرح موجود ہے۔ وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ خدا کی ذات ان چھوٹی چھوٹی چیزوں تک محدد نہیں ہے۔ یہ تمام تصورات جوکہ خدا کی موجودگی کو ثابت نہیں کرسکتے دراصل ایک مشترک غلطی کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ ےہ غلطی ایک بے بنیاد تعصب ہے جوکہ ان کو خدا کے بارے میں غلط رائے قائم کرنے اور اس پر سختی سے جمے رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔
تعصب کیا ہے؟ تعصب کا تعلق مادّے کی نوعیت اور موجودگی سے ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ بٹھادیا گیا ہے کہ وہ مادی کائنات جو کہ آنکھ کو نظر آتی ہے وہی سچی حقیقت ہے۔ اس تصور کو جدید سائنس زمین بوس کردیتی ہے اور ایک اہم اور رعب دار سچائی پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔ آنے والے صفحات میں قرآن کے اندر موجود اس زبردست سچائی کی وضاحت کی جائے گی۔

برقی اشاروں کی دنیا

دنیا کے بارے میں انسانوں کے پاس جتنی بھی معلومات ہیں وہ ان تک ان کی پانچ حسیات پہنچاتی ہیں۔ دنیا آنکھوں سے دیکھی، ہاتھوں سے محسوس کی، ناک سے سونگھی، زبان سے چکھی اور کانوں سے سنے حالات کا نام ہے۔ یہ تصور بہت مشکل ہے کہ بیرونی دنیا ان تمام چیزوں کے علاوہ بھی کسی چیز کا نام ہوسکتا ہے کیونکہ پیدائش کے پہلے دن سے ہی انسان ان حسیات پر مکمل طور پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن آج سائنس کے مختلف شعبوں مےں جدید تحقیق بیرونی دنیا کے بارے میں پرانے تصورات کو شک میں ڈال رہی ہے۔دنیا کو یہ صرف حسیات سے محسوس کی جانے والی شے سے کہیں بڑھ کر کوئی چیز ثابت کررہی ہے۔اس نئی تحقیق اور سمجھ کا مرکز یہ بات ہے کہ انسانی مشاہدہ دماغ میں پیدا ہونے والے برقی اشارات کا جواب ہے۔ سیب کا لال رنگ، لکڑی کی سختی، ماں، باپ، خاندان، گھر، نوکری حتیٰ کہ اس کتاب کے صفحے بھی انہیں برقی اشاروں پر مشتمل ہیں۔ اس موضوع پر جرمنی کے مرحوم حیاتیاتی کیمیادان فریڈیرک وسٹر سائنس کے نقطہ¿ نظر کو بیان کرتا ہے:
”کچھ سائنسدانوں کے یہ بیانات کہ انسان محض ایک شبیہ ہے، ہر واقعہ جس سے گزراجاتا ہے وہ عارضی اور ایک فریب ہوتا ہے اور کائنات صرف ایک سایہ ہے، جدید سائنس کی رو سے ثابت ہوچکے ہیں۔“۰ ۹۱
اس نقطہ¿ نظر کی مزید وضاحت کرنے کی خاطر دنیا کے بارے میں تمام معلومات فراہم کرتی ہوئی انسان کی پانچوں حسیات کا تفصیلی جائزہ لےنا ضروری ہے۔

انسان کس طرح دیکھتا، سنتا اور چکھتا ہے

بصارت کا عمل بتدریج سلسلوں پر مشتمل ہے۔ کسی بھی شے سے نکلنے والی روشنی آنکھ کے سامنے موجود عدسے سے گزرتی ہے جہاں پر یہ شبیہ منعطف ہوکر آنکھ کے پچھلے حصے پر موجود پتلی پر الٹی ہوکر پڑتی ہے۔ یہاں سے بصارتی احساس برقی اشاروں میں تبدیل ہوجاتا ہے اور نیورون یا عصبی خلیوں کی مدد سے دماغ کے پچھلے سرے پر موجود بصارتی مرکز نامی چھوٹے سے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ گوکہ یہ عمل اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے لیکن جب بھی انسان یہ کہتا ہے کہ ’مجھے نظر آرہا ہے ‘ وہ دراصل ان مشاہدوں کے متعلق بات کررہا ہوتا ہے جوکہ اس کی آنکھ محسوس کرتی ہے، برقی کے اشاروں میںتبدیل کرتی ہے اور پھر دماغ کے اندر بھیج دیتی ہے۔ اسی لئے جب کوئی کہتا ہے کہ ’ مجھے نظر آرہا ہے ‘ وہ دراصل اپنے دماغ میں موجود برقی اشاروں کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔
انسان اپنی زندگی میں جتنی بھی چیزیں دیکھتا ہے وہ اس کی بصارت کے مرکز میں تشکیل پاتی ہیں۔ یہ مرکز دماغ کے اندر صرف چند مکعب سینٹی میٹر کی جگہ لیتا ہے۔ چاہے وہ کتاب ہو یا کھڑکی سے باہر کا تمام نظارہ، یہ دونوں چیزیں بھی اسی مرکزمیں تشکیل پاتی ہیں۔
 مادے سے بھی آگے کا راز مادے سے بھی آگے کا راز
کسی بھی شے سے نکلنے والے روشنیوں کے بنڈل آنکھ کی پتلی پر اوندھے گرتے ہیں۔ یہاں سے یہ خاکہ برقی اشاروں میں تبدیل ہوکر دماغ کے پچھلے حصے میں موجود بینائی کے مرکز تک پہنچتا ہے۔ چونکہ دماغ مکمل طور پر بیرونی روشنی سے محفوظ ہوتا ہے اسی لئے کسی بھی طرح کی روشنی کا بینائی کے اس مرکز تک پہنچنا ناممکن ہوتا ہے۔ یعنی کہ انسان روشنی بھری دنیا کا نظارہ صرف اس چھوٹے سے بینائی کے مرکز کے ذریعے ہی کرسکتا ہے جو بذاتِ خود کسی بھی قسم کی روشنی سے محفوظ ہے۔
جیسے کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ دماغ مکمل طور پر روشنی سے محفوظ ہے۔ کھوپڑی کے اندر گھپ اندھیرا ہوتا ہے اور دماغ کا روشنی کے ساتھ کسی قسم کا واسطہ نہیں پڑتا۔ اس دلچسپ متناقض قول کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ کسی کے سامنے ایک جلتی ہوئی شمع رکھ دی جائے اور اس شمع کے سامنے بیٹھ کر اسے بہت دیر تک جلتے ہوئے دیکھا جائے۔ اس تمام عرصے میں دماغ کو اس شمع کی اصل روشنی سے کسی قسم کا واسطہ نہیں پڑتا ۔گوکہ اس شمع کی روشنی کا مسلسل مشاہدہ کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی دماغ کا اندرونی حصہ مکمل طور پر تاریک رہتا ہے۔ یعنی کہ تمام انسان اپنے گھپ تاریک دماغ کے اندر ایک بے انتہا روشن اور رنگین دنیا دیکھتے رہتے ہیں۔
آر۔ایل۔گریگوری بصارت کی اس معجزاتی قوت کے بارے میں بات کرتا ہے جس کو انسان عمومیت اور مانوسیت کے سبب خاطر میں نہیں لاتا:
”ہم لوگ دیکھنے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اس بات کا اندازہ بہت مشکل سے لگا پاتے ہےں کہ اس تمام معاملے میں کئی مسلوں کا دخل ہے۔ لیکن ذرا سوچئے، ہماری آنکھ کو چھوٹی چھوٹی مڑی تڑی الٹی تصویریں ملتی ہیں لیکن ہم ان کو اپنے ہر طرف الگ الگ چیزوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ پتلی کے اوپر حسیات سے نقش ہوئے خاکوں کے ذریعے ہم چیزوں سے بھری ہوئی ایک مکمل دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ ایک معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟“191
یہی اصول دوسری تمام حسیات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ سننے، محسوس کرنے، چکھنے اور سونگھنے کے تمام عمل دماغ میں پہلے برقی اشاروں کی صورت مےں پہنچتے ہیں اور پھر دماغ اپنے اپنے مخصوص مرکزوں کے ذریعے ان کا مشاہدہ کرتاہے۔ قوت سماعت بھی اسی طرح عمل پیرا ہوتی ہے۔ کان کے بیرونی حصے پر موجود عضلاتی تھیلی آوازوں کو اٹھاکر کان کے بیچ میں بھیجتی ہے جہاں سے ان آوازوں کی گونج بڑھ کر کان کے اندرونی حصے میں پہنچتی ہے۔ کان کا یہ اندرونی حصہ آوازوں کی گونج یا اہتزاز کو برقی اشاروں میں تبدیل کرکے دماغ میں بھیج دیتا ہے۔ جس طرح دماغ میں قوت بصارت کا مخصوص مرکز ہوتا ہے اسی طرح قوتِ سماعت کا بھی مخصوص مرکز ہوتا ہے۔ روشنی کی طرح دماغ آوازوں سے بھی مکمل طور پر محفوظ ہوتا ہے۔ اسی لئے باہر چاہے جتنا بھی شور موجود ہو۔ دماغ کے اندر بالکل سناٹا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود دماغ آوازوں کا بالکل درست مشاہدہ کرتا ہے جس کے ذریعے ایک صحت مند آدمی کے کان ماحول کی دوسری آوازوں کی مداخلت کے بغیر ہر چیز صاف طور پر سن سکتے ہیں۔
دماغ کا آوازوں سے مکمل طور پر محفوظ ہونے کے باوجود جب کسی کمرے میں موجود کسی اور کی آواز کو سناجارہا ہوتا ہے تو نہ صرف وہ مخصوص آواز بلکہ وسیع رقبہ پر موجود کئی اور آوازیں بھی کان میں بخوبی پڑرہی ہوتی ہیں مثلاً کپڑوں کی سرسراہٹ، دروازوں کا کھلنا بند ہونا اور کسی ہوائی جہاز کے اڑنے کی آواز۔ اس موقع پر بھی اگر کسی بے انتہا حساس آلے کی مدد سے دماغ کے اندر کے شور کو ناپا جائے تو وہاں مکمل خاموشی ہوگی۔
 مادے سے بھی آگے کا راز
کسی بھی شے کا تحرک برقی اشاروں میں تبدیل ہوکر دماغ کے اندر اثرات پیدا کرتا ہے۔انسان کا ”دیکھنا“ دراصل دماغ کے اند ان برقی اشاروں کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
انسان کی سونگھنے کی حس بھی اسی طرح کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر خوشبوﺅں یا پھولوں کی مہک میں موجود سیماب وش سالمے قوت شامہ کے نازک بالوں کے اندر موجود عصبی پیغامات پہنچانے والے عضو میں پہنچ کر برقی اشاروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھر دماغ ان کا الگ الگ خوشبوﺅں کے طور پر مشاہدہ کرتا ہے۔ تمام پسندیدہ اور غیر پسندیدہ خوشبوﺅں کا مشاہدہ مکمل طور پر دماغ کے اندر ہوتا ہے۔ سیماب وش سالمے بذات خود وہاں نہیں پہنچتے لیکن قوتِ سماعت اور بصارت کی طرح دماغ کے اس مخصوص مرکز تک بھی صرف برقی اشارے پہنچتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ایک انسان کی پیدائش کے بعد وہ جتنے بھی کڑوڑوں احساسات سے گزرتا ہے جن کو وہ بیرونی اشیاءسے تشبیہ دیتا ہے، وہ محض اس کی حسیاتی اعضاءکے ذریعے ترجمانی کئے گئے برقی اشارے ہوتے ہیں۔
زبان کے اگلے حصے پر چار مختلف طرح کے کیمیائی نوعیت کے عصبی پیغام دینے والے اعضاءموجود ہوتے ہیں جوکہ نمکین، میٹھا، کھٹا اور کڑوا مزا پیدا کرتے ہیں۔ کئی کیمیائی مرحلوں سے گزرنے کے بعد مزے کے یہ عصبی اعضاءان مشاہدوں کو برقی اشاروں میں تبدیل کردیتے ہیں اور دماغ تک پہنچادیتے ہیں جوکہ ان کو مخصوص مزے کی طرح پیش کردیتا ہے۔ مٹھائی یا پھل کھانے کا جو مزا ہے وہ دراصل دماغ کے ان برقی اشاروں کی ترجمانی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی پہنچ باہر کی کسی شے تک نہیں ہے اور وہ کبھی مٹھائی کو دیکھ، سونگھ اور چکھ نہیں سکتا ۔مثلاً اگر زبان اور دماغ کے درمیان عصبوں کو کاٹ دیا جائے تو دماغ تک زبان سے کوئی برقی اشارے نہیں پہنچ سکےں گے اور چکھنے کی قوت ہمیشہ کے لئے کھوجائے گی۔
اس موقع پر ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے ۔جو کھانا کسی ایک آدمی کو اچھا لگتا ہے وہ ضروری نہیں کہ دوسرے کو بھی اچھا لگے یا جو آواز کسی ایک انسان کے کانوں کو بھلی لگے وہ کسی اور کو بھی پسند ہو۔ اسی موضوع پر سائنسی مصنف لنکن بارنٹ لکھتا ہے ”کبھی کسی کو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ اس کا لال رنگ یا کسی آواز کے بارے میں احساس کسی دوسرے شخص کے انہیں چیزوں کے بارے میں احساس سے مشابہ ہے ےا نہےں۔“۲۹۱
قوت لامسہ بھی انہی اصولوں کے تحت کام کرتی ہے۔ جب کسی چیز کو چھوا جاتا ہے تو اس کو پہنچاننے کے لئے تمام معلومات کھال پر موجود حساس عصبات کے ذریعے دماغ تک پہنچ جاتی ہیں۔ چھونے کا احساس دماغ میں تشکیل پاتا ہے۔ روایتی حکمت کے برعکس چھونے کا احساس انگلیوں یا کھال پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کا براہِ راست تعلق دماغ کے لمسی مرکز سے ہوتا ہے۔ دماغ کو کھال سے موصول ہونے والی برقی اکساہٹ کے نتیجے میں مختلف اشیاءکی سختی، نرمی، گرمی اور ٹھنڈ محسوس ہوتی ہے۔ یہ برقی اکساہٹ دماغ کو وہ تمام تفصیلات مہیا کرتی ہے جس سے کسی بھی شے کو پہنچاننا ممکن ہوجاتا ہے۔ اس اہم حقیقت کے بارے میں دو مشہور فلسفہ دان بی۔ رسل اور ایل۔ وٹگنسٹائن اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
”مثال کے طور پر لیموں کے موجود ہونے یا نہیں ہونے اور اس کی ابتداءسے متعلق کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس معاملے کی کوئی تحقیق ممکن ہے۔ لیموں محض زبان کا ایک مزا، ناک کی ایک خوشبو اور آنکھ سے محسوس کیا گیا رنگ اور ساخت ہے۔ صرف اس کی یہی خصوصیات امتحان اور تشخیص کے قابل ہیں۔ سائنس طبیعیات کو کبھی جان نہیں سکتی۔“۳۹۱
انسان کا اپنے دماغ سے باہر موجود طبیعیاتی دنیا تک پہنچنا ناممکن ہے ۔وہ تمام اشیاءجن کے ساتھ اس کا رابطہ رہتا ہے وہ محض سماعت، بصارت اور احساس کے مشاہدوں کا مجموعہ ہیں۔ پوری زندگی کے دوران دماغ کا واسطہ کبھی بھی کسی مادے کے اصل سے نہیں بلکہ حسیات کے مرکزوں کا اس مواد پر کارروائی کی صورت میں دماغ کے اندر پیدا ہونے والے نقل سے پڑتا ہے۔ اس نقطے پر انسانی دماغ دھوکے سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ نقل ہی دراصل بیرونی دنیا میں موجود اصل مادہ ہے۔

اندرونی دماغ‘ کی بیرونی دنیا

ان تمام طبیعیاتی حقائق کے نتیجے میں یہ ناقابل تردید خلاصہ سامنے آتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جن کو دیکھا، سنا اور محسوس کیا جاتا ہے اور جس کو انسانی ذہن ”دنیا“ ”مادہ“ یا ”کائنات“ تصور کرتا ہے وہ دراصل دماغ کے ذریعے ترجمانی کئے گئے برقی اشارات ہیں۔ انسان کبھی بھی دماغ سے باہر موجود مادے کے ”اصل“ تک پہنچ نہیں سکتا۔ وہ صرف باہر کی دنیا کا وہی خاکہ چکھ، سن اور دیکھ سکتا ہے جوکہ دماغ کے اندر تشکیل پاتا ہے۔
سیب کو کھاتے ہوئے ایک شخص کا سامنا اصل پھل سے نہیں بلکہ دماغ میں پیدا ہونے والے اس پھل کے بارے میں مشاہدوں سے ہوتا ہے۔ وہ جس چیز کو سیب سمجھ رہا ہوتا ہے وہ برقی معلومات پر مبنی اس کے دماغ کا اس پھل کی ساخت، مزا، خوشبو اور کیفیت کے بارے میں مشاہدہ ہوتا ہے۔ اگر اس کے دماغ میں جاتے بصارت کے عصبوں کو اچانک کاٹ دیا جائے تو وہ سیب اس کے سامنے سے فوراً غائب ہوجائے گا۔ اسی طرح سونگھنے کی حس کے عصبوں کو اگر کاٹ دیا جائے تو قوت شامہ بھی اسی وقت ختم ہوجائے گی۔ خلاصہ یہ کہ یہ سیب دماغ کے برقی مشاہدوں کی ترجمانی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
فاصلے جانچنے کی حس کا بھی اسی طرح تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ کسی شخص کے اور اس صفحے کے درمیان موجود خلا صرف دماغ میں موجود خالی پن کا ایک احساس ہے۔ دور نظر آنے والی اشیاءدماغ کے اندر بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر رات کے وقت دکھنے والے ستاروں کو کئی نوری سال کے فاصلے پر تصور کیا جاتا ہے لیکن حقےقت مےں یہ ستارے انسانی دماغ مےں اس کی بصارت کے مرکز کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ جب ان سطروں کو پڑھا جاتا ہے تو ان کو پڑھنے والا شخص اپنےخیال کے برعکس اس کمرے میں موجود نہیں ہے بلکہ کمرہ اس کے اندر وجود ہے۔ جسم کے متعلق مشاہدہ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ ہم جسم کے اندر ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جسم بھی دماغ کے اندر بننے والے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ یہی اصول دوسرے تمام مشاہدوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ دوسرے کمرے سے آنے والی آوازیں دراصل دوسرے کمرے سے نہیں بلکہ دماغ کے اندر محسوس کی جارہی ہوتی ہیں۔ کئی میٹر دور سے آنے والی آوازیں اور بالکل ساتھ بیٹھے شخص کی آوازیں دونوں دماغ کے سماعت کے مرکز میں محسوس کی جاتی ہیں جس کی پیمائش فقط چند مکعب سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ مشاہدوں کے ان مخصوص مراکز کے علاوہ دائیں، بائیں، آگے یا پیچھے کے کسی تصور کا کوئی وجود نہےں ہے۔ یعنی کہ آواز آگے، پیچھے، دائیں یا بائیں یا اوپر سے نہیں آتی ۔ایسی کوئی ”سمت“ نہیں ہے جہاں سے آواز واقعی آتی ہو۔ اسی طرح کوئی بھی خوشبو جس کا مشاہدہ کیا جائے وہ کسی بھی خاص فاصلے سے نہیں آتی۔یہ صرف ایک خیال ہے کہ قوتِ شامہ کے مرکز میں محسو س کی جانے والی بو باہر کی اشیاءکی ہے۔ کیونکہ جس طرح گلاب کا خاکہ قوتِ بصارت کے مرکز میں موجود ہوتا ہے اسی طرح ہر طرح کی بو بھی قوتِ شامہ کے مرکز میں موجود ہوتی ہے۔ باہر کی دنیا میں موجود گلاب کی اصل شکل یا خوشبو سے براہِ راست رابطہ ہو ہی نہیں سکتا۔انسانوں کے لئے باہر کی دنیا صرف ان برقی اشاروں کا مجموعہ ہے جو کہ دماغ تک پہنچتے ہیں۔ دماغ ان اشاروں کی ترجمانی کرتا ہے اور انسان اپنی غلطی کا احساس کئے بغیر اسی خیال میں رہتا ہے کہ اس کا تعلق بیرونی دنیا میں موجود مادے کی اصل اور فطری رخ سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک سراسر دھوکہ ہے کیونکہ اپنی حسیات کی وجہ سے انسان باہر کے مادے تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔
انسانی دماغ ان اشاروں کی ترجمانی کرکے ان کو معنی دے دیتا ہے جن کو انسان بیرونی سمجھتارہتا ہے۔ یہاں قوت سماعت کی مثال لی جاتی ہے۔ انسانی دماغ کان کے اند رپہنچنے والی صوتی لہروں کی سنگیت میں بھی ترجمانی کرتا ہے۔ موسیقی بھی ذہن کے اندر پیدا ہونے والا ایک مشاہدہ ہے۔ اسی طرح آنکھ جب مختلف رنگوں کو دیکھتی ہے تو آنکھوں کے اندر روشنی کی مختلف طولِ موج پہنچتی ہے جن کو دماغ رنگوں میں بدل دیتا ہے۔ بیرونی دنیا میں کوئی رنگ نہیں ہے۔ نہ تو سیب لال ہے، نہ آسمان نیلا اور نہ درخت ہرے۔ ان کے رنگ صرف مشاہدوں کی وجہ سے رنگین ہیں۔ آنکھ کی پتلی میں ذرا سا بھی نقص رنگوندھا پن پیدا کردیتا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگوںکو نیلا رنگ ہرا نظر آتا ہے، کچھ کو لال رنگ نیلا جبکہ کئی لوگ ہر رنگ کو خاکستری رنگ میں ہی دیکھتے ہیں۔ اس مقام پر اس بات کی غرض ختم ہوجاتی ہے کہ باہر کی اشیاءرنگین ہے یا نہیں۔ آئرلینڈ کا مشہور مفکر جورج برکلی اس نقطے پر رائے زنی کرتا ہے:
”پہلے یہ سوچا جاتا تھا کہ رنگ، خاکے، حرکت اور باقی تمام خصوصیات یا حادثات دماغ کے بغیر ہی وجود میں ہیں۔ لیکن اس بات کے ثابت ہوجانے سے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز روح یا ذہن کے مشاہدوں کے علاوہ کسی قسم کا وجود نہیں رکھتی، ہمارے پاس مادے کی موجودگی کو درست سمجھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔“ ۴۹۱
خلاصہ یہ کہ آنکھوں کو رنگ اس لئے نظر نہیں آتے کیونکہ اشیاءرنگین ہیں اور ان کا انسان سے الگ کوئی وجود ہے بلکہ وہ رنگین اس لئے ہیں کیونکہ دماغ ان کو رنگین بناکر پیش کرتا ہے۔تو پھر انسان بیرونی دنیا کے بارے میں مکمل معلومات رکھنے کا دعویٰ کس بنیاد پر کرسکتا ہے؟

انسانیت کا محدود علم

اب تک بیان کئے گئے حقائق کا ضمنی مفہوم یہ ہے کہ دراصل بیرونی دنیا کے متعلق انسان کا علم بیحد محدود ہے۔ اس کا علم اس کی پانچ حسوں تک محدود ہے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ ان پانچ حسوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کا جو مشاہدہ کرتا ہے وہ ”اصل“ دنیا ہی ہے۔ اصل دنیا اس کے مشاہدے سے بہت مختلف بھی ہوسکتی ہے۔ اصل دنیا میں مزید گہرائی اور کئی اور ایسے وجود بھی ہوسکتے ہیں جن کا انسان کو علم نہیں ہے۔ اگر انسان کائنات کے آخری کونے تک بھی پہنچ جائے تب بھی اس کی سمجھ اور علم محدود ہی رہے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے کائنات کی ہر جاندار اور غیر جاندار چیز کو تخلیق کیا ہے اور اس کی بنائی ہوئی جاندار چیزوںمیں صرف اتنی ہی سمجھ اور علم موجود ہوسکتا ہے جتنی وہ اجازت دے۔ قرآن شریف میں سورة بقرہ میں واضح ہے کہ:
﴿ اﷲ ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ اور اوروں کو قائم رکھنے والا اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بے اس کے حکم کے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کی پیچھے اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی میں سمائے ہوئے ہیں آسمان اور زمینےں اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے بلند بڑائی والا۔ ﴾ (سورةبقرہ، آیت ۵۵۲)
 مادے سے بھی آگے کا راز
انسان ساری عمر جو کچھ بھی دیکھتا ہے وہ تمام خاکے دماغ کے اندر بینائی کے مرکز کے اندر تخلیق ہوتے ہیں۔ اس مرکز کا رقبہ چند کعبی سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ چاہے یہ کتاب ہو یا کھڑکی سے نظر آنے والا وسیع نظارہ، دونوں چیزیں اس چھوٹے سے خانے کے اندر سماجاتی ہیں۔ انسانی آنکھیں ان چیزوں کو ان کی اصل پیمائش کے حساب سے نہیں دیکھتیں بلکہ اسی پیمائش سے دیکھتی ہیں جس کا مشاہدہ دماغ کرتا ہے۔

مصنوعی طور پر قائم کردہ بیرونی دنیا

انسان جس دنیا کو پہچانتے ہیں وہ ایک خاص طور پر بنائی گئی اور ریکارڈ کی گئی دنیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان صرف اپنے ذہن میں تعمیر کی گئی دنیا کو پہچانتا ہے۔ انسانی دماغ کے اندر دیکھے گئے مشاہدات کئی دفعہ مصنوعی ذرائع پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس بات کو ایک مثال سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔
فرض کرلیتے ہیں کہ مصنوعی طریقوں سے دماغ انسانی جسم سے الگ ہوکر زندہ رہ سکتا ہو۔ اب ایک کمپیوٹر بھی سامنے رکھ لیتے ہیں جوکہ ہر طرح کے برقی اشارے پےدا کرسکتا ہو۔ اب کسی دئے گئے ماحول کی آوازوں، خوشبوﺅںاور منظر کے متعلق مصنوعی طور پر برقی اشارے پیدا کئے جاتے ہیں۔ اب بجلی کی تاروں کے ذریعے اس کمپیوٹر کو دماغ کی حسیات کے مرکز کے ساتھ جوڑ کر ان اشاروں کو دماغ کے اندر ارسال کیا جائے تو دماغ اس ماحول کو دیکھ اور محسوس کرسکے گا۔ یہکمپیوٹر دماغ کے اندر برقی اشاروں کے ذریعے اس شخص کا خاکہ بھی ارسال کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بڑے سے آفس میں کسی اہم عہدے دار کے کمرے میں موجود ہونے پر جو سننا، دیکھنا اور محسوس کرنا ممکن ہے وہ تمام اشارے اگر دماغ میں بھیجے جائیں تو وہ شخص یہی یقین کرے گا کہ وہ ایک بہت بڑے آفس کا اہم عہدیدار ہے۔ یہ تصوراتی دنیا اس وقت تک قائم رہے گی جب تک کہ کمپیوٹر یہ اشارے بھیجتا رہے۔ اس شخص کے لئے اس بات کے علاوہ کسی اور چیز پر یقین رکھناممکن ہی نہیں رہے گا کہ اس کے دماغ کے علاوہ بھی کسی دنیا کا کوئی وجود ہے۔وہ اس لئے کہ دماغ کے اندر ایک دنیا قائم رکھنے کے لئے صرف درست حسیاتی مرکزوں تک برقی اشاروں کو پہنچانا ہی کافی ہے۔ ان برقی اشاروں اور مشاہدوں کا ذریعہ کمپیوٹر جیسا مصنوعی طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں نامور فلسفہ دان برٹرانڈرسل کہتا ہے:
”ٹیبل کے اوپر انگلیاں لگانے سے انگلیوں کی پوروں پر موجود منفی اور مثبت ذروں کے برقی ارتعاش سے چھونے کا احساس پیدا ہوتا ہے جوکہ جدید طبیعیات کے مطابق ٹیبل کے مثبت اور منفی ذرات کی قربت کا نتیجہ ہے۔ اگر انگلیوں کی پوروں پر ان ذرات کا ارتعاش کسی بھی طریقے سے پیداہوسکتا تو پھر ٹیبل کے وہاں ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“۵۹۱
طبیعیات کی جدید تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ یہ تمام کائنات مشاہدات کا مجموعہ ہے۔ مندرجہ ذیل سوال مشہور امریکی سائنسی رسالے ”نیوسانٹسٹ“ کی ۰۳ جنوری ۹۹۹۱ ءکی اشاعت کے سرورق پر آیا تھا۔ ”حقیقت سےب ھی آگے: کیا کائناتب نیادی معلومات کا ایک مذاق اور مادہ صرف ایک سراب ہے۔؟“ اسی رسالے کے ۷۲ اپریل ۲۰۰۲ ءکی اشاعت میں ”کھوکھلی کائنات“ کے عنوان سے چھپنے والے ایک مضمون میں آیا ہے:
new scientist
”آپ نے ایک رسالہ پکڑا ہوا ہے۔ یہ آپ کو ٹھوس محسوس ہوتا ہے اور اس کا خلاءکے اندر آزاد اور بے نیاز وجود ً بھی نظر آتا ہے۔ آپ کے اطراف موجوددوسری اشیاءمثلا کمپیوٹر، چائے کی پیالی وغیرہ پر بھی یہی باتیں صادق آتی ہیں۔ گو کہ یہ تمام چیزیں اصل اور موجود ہیں لیکن یہ سب کچھ ایک فریب ہے۔ یہ بظاہر ٹھوس اشیاءمحض عکس اندازی ہے جوکہ ہماری کائنات کی سرحدوں پر موجود دم بہ دم بدلتے نقوش سے ابھرتی ہے۔“
new scientist
کسی بھی مادی رابطوں سے عاری مشاہدوں کے اصل ہونے کے بارے میں دھوکہ کھاجانا بہت آسان ہے۔ اکثر یہ غلط فہمی خوابوں میں ہوتی ہے جب لوگ ان جگہوں، لوگوں، چیزوں اور ماحول کو دیکھتے ہیں جوکہ مکمل طور پر اصل معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل محض مشاہدے ہوتے ہیں۔ ان خوابوں اور اصل دنیا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا کیونکہ یہ دونوں طرح کے مشاہدے صرف دماغ کے اندر محسوس کئے جاتے ہیں۔

مشاہدہ کرنے والا کون ہے؟

انسان کے خیال میں وہ جس بیرونی دنیا میں رہتا ہے وہ بلاشبہ اس کے دماغ کے اندر تشکیل پاتی ہے۔ یہاں پر اہم سوال یہ ہے کہ اگر تمام طبیعیاتی اشیاءفطری مشاہدے ہیں تو پھردماغ کیا ہے؟ چونکہ دماغ بھی انسانی بازوﺅں، ٹانگوں یا کسی بھی اور شے کی طرح مادی دنیا کا ہی حصہ ہے تو کیا یہ بھی محض ایک مشاہدہ نہیں ہے؟ اس نقطے کی وضاحت ایک مثال سے کی جاتی ہے۔ فرض کریں کہ دماغ میں کسی خواب کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اوراس خواب کے اندر اس شخص کا تصوراتی جسم، بازو، آنکھیں اور تصوراتی دماغ بھی ہے۔ اگر اس خواب کے دوران اس سے پوچھا جائے کہ تم کیا دیکھتے ہو؟ تو وہ اس کا جواب دے گا کہ میں اپنے دماغ کے اندر دیکھتا ہوں، حالانکہ وہاں پر کوئی اصل دماغ موجود نہیں ہے بلکہ صرف ایک تصوراتی جسم، تصوراتی سر اور تصوراتی دماغ ہے۔ خواب کے مختلف خاکے دیکھنے والا دماغ تصوراتی دماغ نہیں ہے بلکہ اس سے الگ کوئی دماغ ہے ۔کےونکہ خواب اور اصل زندگی کے ماحول کے درمیان کسی قسم کا طبیعیاتی فرق نہیں ہے ،اگر اصل زندگی میں اسی شخصسے پوچھا جائے کہ’ تم کیا دیکھتے ہو؟‘ اس کا یہ جواب دینا کہ ’ اپنے دماغ میں‘ ایک بہت ہی بے معنی جواب ہوگا۔ کسی بھی صورتحال مےں دیکھنے اور مشاہدہ کرنے والا وجود دماغ نہیں ہوتا ۔دماغ توصرف عصباتی ریشہ لحمی کا مجموعہ ہے۔
نقلی تحرک سے پیدا ہونے والی حقیقت
 مادے سے بھی آگے کا راز
فی الواقع حقیقت کمپیوٹر کے اندر مختلف آلات کے ذریعے سہ ابعادی خاکوں کو زندگی سے قریب تر لاکر پیش کرنے کا عمل ہے۔ یہ ”حقیقی دنیا“ کے متحرک خاکے کئی شعبوں میں تربیت کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ فی الواقع حقیقت کا سب سے نمایاں وصف ان کو خاص آلات سے استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ےہ بھلا دےناہے کہ یہ تصاویر اصل نہیں بلکہ صرف نقلی خاکے ہیں۔ اس لئے یہ مادی دنیا جوکہ حقیقت کے قریب ترین ہوتی ہے وہ لوگوں کے ذہنوں پر اصل دنیا کی طرح ہی اثر انداز کروائی جاسکتی ہے۔اس نقلی تحرک کے ذریعے اےک شخص تصور کرسکتا ہے کہ وہ ایک پرندے کو نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ چھو بھی رہا ہے جبکہ اس پرندے کا دراصل کوئی وجود نہیں ہے۔
اس مضمون میں اب تک یہی بات باور کروائی گئی ہے کہ انسان کس طرح بیرونی دنیا کو اپنے دماغ کے اندر دیکھتا ہے۔ اس کا ایک خلاصہ یہ ہے کہ اس بات کا کبھی پتہ نہیں چل سکتا کہ باہر کی دنیا کی اصل حقیقت کیا ہے۔
یہاں پر دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ انسانی ذہن کے اندر موجو د ’ خو د‘ جوکہ اس دنیا کو دیکھتا ہے وہ دماغ نہیں ہوسکتا۔ دماغ ایک مکمل کمپیوٹر کا نظام ہے جوکہ اپنے اندر پہنچنے والی معلومات کی تصویروں میں ترجمانی کرتا ہے اور ایک اسکرین کے اوپر ان کی نمائش کردیتا ہے ۔لیکن کمپیوٹر نہ تو خود اپنے آپ کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کو اپنے وجود کے ہونے کا شعور ہوتا ہے۔ دماغ کو اگر اس شعور اور سمجھ کی تلاش میں کھولا جائے تو وہاں صرف نامیاتی مرکبات اور لحمیاتی سالمے ملیں گے جوکہ جسم کے دوسرے اعضاءمیں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بڑا ریشہ لحمی جس کو انسان ’ میرا دماغ‘ کہتا ہے اس کے اندر تصویروں کو بذاتِ خود دیکھنے، ان کی ترجمانی کرنے یا شعور سے متعلق کچھ بھی موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اندر کوئی ایسی چیز ہے جس کو انسان اپنا ’آپ‘ یا’ خودی‘ کا نام دے سکے۔
دماغ کے اندر پیدا ہونے والی تصاویر کے بارے میں لوگ اکثر جو غلطی کرتے ہیں اس کو مشاہداتی سائنسدان آر۔ ایل۔گریگوری اس طرح بیان کرتا ہے:
”اس معاملے میں سب سے بڑی خواہش جس سے ممکنہ طور پر دور رہنا چاہئے وہ یہ کہنا ہے کہ آنکھیں دماغ کے اندر تصاویر پیدا کرتی ہیں۔ دماغ کے اندر تصاویر کے ہونے کا مطلب ہے کہ دماغ کے اندر کوئی ایسی اندرونی آنکھ موجود ہے جو ان تصاویر کو دیکھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دماغ میں آنکھوں کا موجود ہونا ضروری ہے جوکہ اس تصویر کو دیکھیں۔ غرضےکہ آنکھوں اور تصویروں کا یہ سلسلہ لامحدود ہوجائے گا جوکہ ایک نہایت ہی نامعقول تصور ہے۔“۶۹۱
اس مسئلے مےں صرف مادے کے اصل ہونے پر اصرار کرتے ہوئے مادیت پسند شدید پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان دیکھتی ہوئی آنکھوں کے پیچھے کون ہے؟ دیکھنے کے بعد مشاہدے اور ردِعمل کون کرتا ہے؟ مشہور مشاہداتی ماہرِ علم الاعصاب کارل پریبرام اس ضروری سوال پر روشنی ڈالتا ہے جوکہ سائنس اور فلسفے دونوں کے لئے ضروری ہے کہ مشاہدہ کرنے والا کون ہے:
”یونانی دور سے لے کر اب تک کے فلسفہ دانوں نے مشین کے اندر ”روح“ اور ”بڑے انسان کے اندر چھوٹا انسان“ جیسے کئی قیاس پیش کئے ہیں۔دماغ کو استعمال کرنے والا ”میں“ کدھر ہے؟ اصل سمجھنے بوجھنے کا کام کون کرتا ہے؟ یا پھر اسیسی کے سینٹ فرانسس کے الفاظ میں ”جس کو ہم دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں وہی اصل دیکھنا ہے۔“ ۷۹۱
یہ کتاب، کیمرہ حتیٰ کہ انسان کے سامنے موجود ہر تصویر کا مشاہدہ دماغ کے اندر ہوتا ہے۔ کیا یہ اندھے، بہرے، بے شعور اقل بنیادی ذرات ایٹم ہیں جوکہ ان تصاویر کو دیکھتے ہیں؟ یہ خصوصیت صرف چند ایٹموں میں ہی کیوں ہے اور سب میں کےوں نہیں؟ کیا انسان کی سوچنے، سمجھنے، یاد رکھنے، خوش ہونے، اداس ہونے، حتیٰ کہ ہر کام کی صلاحیت ان ایٹموں کے سالموں کے اندر کیمیائی ردِ عمل پر منحصر ہے۔ ایٹموں کے اندر کسی قسم کی مرضی ڈھونڈنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے والا وجود ایک ماوری مادہ زندہ وجود ہے جوکہ نہ تو مادہ ہے اور نہ کوئی خاکہ ہے ۔یہ وجود مشاہدوںاور انسانی جسم کے درمےان تعاون پےدا کرتا ہے۔ یہ وجود روح ہے۔
کتاب کی ان سطروں کو پڑھنے والا باشعور اور عقلمند وجود محض ایٹموں، سالموں اور ان کے درمیان ہونے والے کیمیائی ردِ عمل کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایک روح کا نتیجہ ہے۔

مطلق اور کامل وجود

اب ایک نہایت ہی اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اگر انسان کے سامنے موجود دنیا صرف روح کے مشاہدے ہیں تو پھر ان مشاہدں کا کیا ذریعہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں فرض کرلیتے ہیں کہ انسانی ذہن میں مادے کا مشاہدہ صرف تصوراتی ہے اور اسمشاہدے کے ”اصل“ سے اس کا کبھی بھی واسطہ نہیں پڑسکتا۔ چونکہ مادہ بھی انسان کے لئے ایک مشاہدہ ہے اس لئے یہ تعمیر شدہ ہے یعنی کہ یہ بھی کسی اور قوت کا تعمیر کردہ ہے۔ اسکے علاوہ یہ تخلیق یا تعمیر رکی نہیں ہے بلکہ مسلسل ہے۔ اگر یہ مسلسل نہیں ہوتی تو اب تک غائب ہوکر مکمل طور پر کھوجاتی۔ بالکل اس طرح جیسے ٹی وی کی تصویر صرف اس وقت تک نظر آتی ہے جب تک اس کو نشریاتی اشارے ملتے رہتے ہےں۔تو پھر انسانی روح کا خالق کون ہے جوکہ روح کے علاوہ زمین، ستاروں، سیاروں، تمام لوگوں اور ہر چیز پر بھی مستقل نگاہ رکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ےہ ایک عظیم طاقت ہے جس نے تمام مادی کائنات کو نہ صرف تخلیق کیا ہے بلکہ مستقل اپنی تخلیق کو بنائے چلا جاتا ہے۔چونکہ یہ عظیم طاقت ایک عظیم الشان تخلیق کار ہے اس لئے وہ لازماً لامحدود قوت بھی رکھتا ہے۔ یہ تخلیق کار اپنی موجودگی اور انسانوں کی موجودگی کو اپنی بھیجی ہوئی کتاب میں مفصل طور پر بیان کرتا ہے۔وہ تخلیق کار اﷲ ہے اور اس کی کتاب قرآن ہے۔
سچائی تو یہ ہے کہ آسمان اور زمین یعنی کہ تمام کائنات مستحکم نہیں ہے۔ اس کی موجودگی صرف اﷲ کی تخلیق نے ممکن بنائی ہے اور یہ سب چیزیں اس وقت فنا ہوجائیں گی جس وقت اﷲ تعالیٰ اس تخلیق کوختم کرنے کا قصد کرلے گا۔ سورہ فاطر کی آیت ۱۴ میں آتا ہے:
﴿ بے شک اﷲ روکے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو کہ جنبش نہ کریں اور اگر وہ ہٹ جائیں تو انہیں کون روکے اﷲ کے سوا بے شک وہ حلم والا بخشنے والا ہے۔ ﴾ (سورہ فاطر، آیت ۱۴)
اس آیت میں بیان کیاگیا ہے کہ مادی کائنات اﷲ کی طاقت کے زیر اثر کس طرح پرورش پارہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے کائنات، زمین، پہاڑ اور ہرجاندار اور غیر جاندار چیز کو نہ صرف تخلیق کیا ہے بلکہ ہر لمحے اپنی طاقت سے اپنی تخلیق کی مستقل پرورش، کفالت اور خیال بھی کرتا ہے۔ وہ الخالق ہے، تمام مادی کائنات کا تخلیق کرنے والا جوکہ خود تخلیق نہیں ہوا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی ذہن کے باہر یقینا ایک مادی کائنات وجود میں ہے جوکہ اﷲ کی تخلیق کردہ اشیاءپر مشتمل ہے۔ لیکن معجزاتی طور پر اپنی تخلیق کی اعلیٰ نوعیت کو اشکار کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ انسان کو یہ مادی کائنات ایک طلسماتی خیال، فریب نظر، سایہ اور خاکے کے طور پر دکھاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی تخلیق کی کاملیت کے نتیجے میں انسان اپنے ذہن سے باہر موجود دنیا تک کبھی نہیںپہنچ سکتا۔ اس اصل مادی کائنات کا علم صرف اور صرف اﷲ کو ہے۔ اوپر دی گئی آیت کی ایک اور تشریح اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ مسلسل انسانوں کو دکھنے والی مادی کائنات کے خاکوں کی دیکھ بھال کرتارہتا ہے۔ (واﷲ اعلم) اگر اﷲ تعالیٰ انسانی ذہنوں کو دنیا دکھانا نہیں چاہے گا تو انسانوں کے لئے پوری کائنات غائب ہوجائے گی اور وہ کسی طور پر بھی اس تک پہنچ نہیں سکے گا۔ اس حقیقت کا ثابت ہونا کہ انسان کے لئے مادی کائنات سے براہِ راست واسطہ ممکن ہی نہیں کئی لوگوں کے ذہن پر مسلط اس سوال کا بھی جواب ہے کہ ”خدا کہاں ہے؟“
جیسا کہ شروع میں بتایا گیا تھا کہ کئی لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کی قوت کا ادراک نہیں ہے اس لئے ان کے خیال میں اﷲ تعالیٰ آسمانوں میں کہیں موجود ہے اور دنیاوی معاملات میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ ایسے ہر قیاس سے برتر ہے۔ اس منطق کی بنیاد یہ ہے کہ کائنات مادے کا مجموعہ ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ذات اس مادی دنیا کے باہر ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جس طرح انسان کبھی بھی مادی کائنات تک براہِ راست پہنچ نہیں سکتا بالکل اسی طرح اس کو اس کائنات کے اصل جوہر کا بھی مکمل علم حاصل نہیں ہوسکتا۔ انسان کو صرف اس خالق کا علم ہے جس نے تمام کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ اس سچائی کا اظہار کرنے کے لئے امام ربانی جیسے بڑے اسلامی عالم نے کہا ہے کہ واحد سچائی اﷲ کی ذات ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز سایہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو نظر آنے والی ساری دنیا صرف انسانی ذہن کے اندر ہے اور اس کے لئے دنیا کے بیرونی حصے کو محسوس کرنا ناممکن ہے۔ اسی لئے یہ سوچنا کہ خدا مادی کائنات کے ”باہر“ ہے جس تک انسان پہنچ نہیں سکتا ایک غلط تصور ہے۔ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ:
﴿ اﷲ ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ اور اوروں کو قائم رکھنے والا اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بے اس کے حکم کے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کی پیچھے اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی میں سمائے ہوئے ہیں آسمان اور زمین اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے بلند بڑائی والا۔ ﴾ (سورةبقرہ، آیت ۵۵۲)
یہ حقیقت کہ اﷲ کسی بھی طرح کی خلا تک محدود نہیں ہے اور اس کا حصار ہر چیز کے اطراف موجود ہے قرآن کی ایک اور آیت میں واضح ہوتی ہے:
﴿ اور پورب و پچھم سب اﷲ ہی کا ہے تو تم جدھر منہ کرو ادھر وجہ اﷲ (خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ) ہے بے شک اﷲ وسعت والا علم والا ہے۔ ﴾ (سورة بقرہ، آیت ۵۱۱)
مادی وجود اﷲ کو نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن اﷲ مادے کو بلکہ ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ہر چیز اﷲ کی تخلیق کی ہوئی ہے۔ قرآن میں آتا ہے:
﴿ آنکھیں اسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہی ہے پورا باطن پورا خبردار۔ ﴾ (سورة انعام، آیت ۳۰۱)
اﷲ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ انسانی آنکھیں نہیں کرسکتیں لیکن اﷲ تعالیٰ انسان کے اندر باہر ہر سوچ اور ہر خیال کی خبر رکھتا ہے۔ اس کی مرضی اور علم کے بغیر انسان نہ تو کوئی لفظ منہ سے نکال سکتا ہے اور نہ سانس لے سکتا ہے ۔اپنی تمام زندگی کے دوران انسان جب بھی کوئی مشاہدہ کرتا ہے جوکہ اس کے قیاس سے بیرونی دنیا ہوتی ہے تو حقےقتاََ اس وقت اس کے سب سے نزدیک اﷲ کی ذات کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس اصلیت کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے:
﴿ اور بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں۔ ﴾ (سورة ق، آیت ۶۱)
انسان جب یہ سوچتا ہے کہ اس کا جسم مادے سے بنا ہوا ہے تووہ اس اہم حقیقت کو سمجھ نہیں پارہا ہوتا۔ اگر اس کے خیال میں اس کا دماغ اس کا اصل ”خود“ ہے تو پھر اس کے لئے ”بیرونی دنیا“ ۰۲ سے ۰۳ سینٹی میٹر دور کے فاصلے سے شروع ہوجائے گی۔ لیکن جب وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کو مادے کی شکل میں نظر آنے والی چیزیں صرف اس کے ذہن کے مشاہدات ہیں تو پھر اندر، باہر قریب اور دور اس کے لئے بے معنی ہوجائیں گے۔اس کو یقین ہوجائے گا کہ اﷲ تعالیٰ اس کے ہر طرف موجود ہے اور اس کے اتنے قریب ہے کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس قربت کا اندازہ اس آےت سے ہوتا ہے:
﴿ اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھےں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارں تو انہیں چاہئے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں ﴾ (سورة بقرہ، آیت ۶۸۱)
انسان اگر یہ سمجھے کہ اپنے سب سے نزدیک وہ خود ہے تو وہ یقینا گمراہی کے راستے پر ہے۔ حقیقت تو اس کے برعکس یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ انسانوں سے خود ان سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔ سورہ واقعہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ پھر کیوں نہ ہو جب جان گلے تک پہنچے اور تم اس وقت دیکھ رہے ہو اور ہم اس کے زیادہ پاس ہیں تم سے مگر تمہیں نگاہ نہیں۔ ﴾ (سورة واقعہ، ۳۸۔۵۸)
لیکن پھر بھی لوگ اس غیر معمولی اور زبردست سچائی سے صرف اس لئے ناواقف ہیں کیونکہ یہ سچائی ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ جیسے کہ امام ربانی نے کہا ہے کہ انسان جیسے سائے کی تمام قوت اور طاقت اﷲ ہی کی دی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں آتا ہے:
﴿ اور اﷲ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو ﴾ (سورہ صٰفٰت، آیت ۶۹)
کہ انسان کی ہر حرکت اور ہر سوچ صرف اور صرف اﷲ کی قدرت سے ممکن ہے ۔سورة انفال میں آیا ہے:
﴿ تو تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ اﷲ نے انہیں قتل کیا اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اﷲ نے پھینکی اور اس لئے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے بے شک اﷲ سنتا جانتا ہے۔﴾ (سورة انفال، آیت۷۱)
اس آیت میں خاص طور پر اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ کوئی بھی کام اﷲ کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔چونکہ انسان صرف سائے ہیں اس لئے وہ معمولی سے بھی کام پر قادر نہیں۔ یہ صرف اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا احساسہے کہ انسان خود سے یا اپنی مرضی سے کوئی بھی کام کرنے کے لائق ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام کام صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی مرضی سے ہی ممکن ہیں ورنہ نہیں۔ انسان اگر اس حقیقت سے نظریں چراکر یہ سوچتا چلا جائے کہ وہ خود سے یا اپنے آپ سے سارے کام کرنے کے لائق ہے تو وہ بے شک اسی فریب میں رہے لیکن اس کی یہ طرزِ سوچ حقیقت کو بدلنے سے قاصر ہے۔

انسان کی ملکیت میں موجود ہرچیز فطری طور پر پرفریب ہے

یہ بات واضح، سائنسی طور پر ثابت اور منطقی ہے کہ انسان کا بیرونی دنیا سے کسی قسم کا براہِ راست واسطہ نہیں ہے۔اس کا رابطہ صرف اس دنیا کی ایک نقل سے ہے جس کو اﷲ تعالیٰ بلارکاوٹ انسانی روح کے آگے پیش کرتا رہتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس حقیقت کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر اس صورتحال کا سامنا خلوص کے ساتھ بے دھڑک کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ کسی کا گھر، اس میں موجود سامان، گاڑی، اس کا آفس، اس کے زمےنےں، اس کا تمام مال، کپڑے، بیوی، بچے، دوست احباب حتیٰ کہ اس کی زندگی کی ہر چیز صرف اور صر ف اس کے دماغ میں موجود ہے۔ اپنے اطراف ہر چیز جس کا مشاہدہ انسان اپنی پانچ حسیات کے ذریعے کرتا ہے وہ اسی نقلی دنیا کا حصہ ہے۔ اس نقلی دنیا میں اس کا پسندیدہ گلوکار، کرسی کی سختی، کوئی خوشبو، سورج کی گرماہٹ، پھلوں کے خوشنما رنگ یا باہر اڑتی چڑیاں، پانی پہ تیرتی کشتیاں، اس کا ذرخیز باغ، اس کے آفس میں موجود کمپیو،ٹر تمام چیزیں شامل ہیں۔
 مادے سے بھی آگے کا راز مادے سے بھی آگے کا راز
 
دماغ خلیوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جوکہ چربیلے اور لحمیاتی سالموں سے تشکیل ہوا ہے۔ اس کے اندر نیورون نامی عصبی خلئے بھی موجود ہوتے ہیں۔گوشت کے اس تودے مےں بذات خود خاکوں کے مشاہدے کی، شعور کے استعمال کی، یا ”میں“ نامی وجود کو بنانے اور استعمال کرنے کی کوئی قوت موجود نہیں ہے۔ ان تمام باتوں سے روح کی موجودگی واضح ہوجاتی ہے۔
یہی اصلیت ہے کیونکہ دنیا تو صرف انسان کے امتحان کے لئے تخلیق کی گئی ہے۔ انسان کی زندگی کے محدود دورانئے میں اس کا ان تمام مشاہدات کے ہاتھوں امتحان لیا جاتا ہے جن کے اصل ذریعے تک وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ان مشاہدات کو ایک کڑے امتحان کی خاطر بے انتہا پرکشش اور جاذب نظر بنایا گیا ہے۔ قرآن میں آتا ہے:
﴿ لوگوں کے لئے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کئے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اﷲ ہے اس کے پاس اچھا ٹھکانا۔ ﴾ (سورة آل عمران، آیت۴۱)
دنیا میں ان گنت لوگ مال دولت، سونے چاندی، کپڑوں، گاڑیوں اور دوسری دنیاوی عیش و عشرت کے لالچ میں دین و ایمان کا سودا کرلیتے ہیں۔ ان کی سوچ اور محنت کا مرکز صرف یہاں کی دنیا ہوتی ہے اور اس کے پیار میں وہ آخرت کو بڑے آرام سےبھلا بیٹھتے ہیں۔ دنیا کا حسن ان کو دھوکے میں ڈال کر نمازوں، صدقوں اور دوسری عبادات سے کوسوں دور لے جاتا ہے۔ آخرت کی دولت ان کے ہاتھ سے پھسل جاتی ہے۔ ان کے بہانے بیحد بودے ہوتے مثلاً مجھے بہت کام ہیں، مجھے وقت نہیں ہے، مجھ پرذمہ داریاں ہیں، یہ سارے کام کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا، یہ تو لوگ بڑھاپے میں کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ان کی زندگی اور کاوشوں کا محور دنیاوی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس خود فریبی کے متعلق قرآن میں آتا ہے کہ:
﴿ جانتے ہیں آنکھوں کے سامنے کی دنیاوی زندگی اور وہ آخرت سے پورے بے خبر ہیں۔ ﴾ (سورة الروم، آیت۷)
اس مخصوص باب میں جس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے وہ بہت اہم ہے کیونکہ اس کو سمجھ لینے سے تمام نفسانی خواہشات اور حد بندیاں بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں۔اس سچائی کا اعتراف اس بات کو واضح کردیتا ہے کہ ہر وہ دنیاوی شے جس کے لئے انسان محنت کرتا ہے مثلاً حوس سے جمع کیا گیا مال، اس کے دوست و احباب، اس کا جسم ،اس کے اونچے اونچے عہدے، اس کی دنیاوی تعلیم، اس کی شاندار تقریبات، غرض تمام چےزےں محض سایوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ ان تمام کاموں میں صرف کیا گیا وقت اور محنت بیکار اور ضائع ہے۔
بہت سے لوگ ناسمجھی کے عالم میں اپنے آپ کو بیوقوف ظاہر کرتے ہیں جب وہ دنیا کے آگے اپنے مال، دولت، اساسوں اور زمینوں کا ذکر بے انتہا غرو رسے اس طرح کرتے ہیں گویا ان کا ان تمام چیزوں کے ساتھ کسی بھی طرح کا براہِ راست واسطہ ہے۔ کئی دولت مند لوگ اپنی اس دولت کا مظاہرہ دنیا کے آگے اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے ان سے برتر کوئی دوسرا ہے ہی نہیں۔ اگر ان کو اس بات کا ذرا سا بھی احساس ہوجائے کہ وہ صرف اپنے ذہنی مشاہدات پر غرور کررہے ہیں تو ان کا کیا ردِ عمل ہوگا؟ ان کے بہت سے خوابوں میں ان کی ملکیت بڑے بڑے گھر، بہترین گاڑیاں، سونے جواہرات اور روپے ہوتے ہیں۔ انہی خوابوں میں وہ بڑے بڑے کارخانوں کے مالک، اہم عہدیدار اور بیش قیمت پوشاک کے مالک بھی ہوتے ہیں۔ لیکن بالکل اس طرح جس طرح خوابوں میں موجود ان چیزوں پر غرور کرنے سے وہ تضحیک کا نشانہ بنیں گے اسی طرح وہ ”اصل “ دنیاوی چیزوں پر غرور کرنے سے اتنی ہی تضحیک کے مستحق ہیں کیونکہ خواب ہو یا ”اصل“ دنیا، دونوں ہی چیزیںصرف اس کے ذہن میں موجود خاکے ہیں۔جب لوگوں کو اصلیت کا احساس ہوتا ہے تو وہ شدید شرمندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں ہر طرح کی بدی اور دھوکہ دہی میں ملوث لوگ جوکہ دوسروں کو تکلیف پہنچانے، حسد کرنے اور اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ بھی یہ جان کر شدید ذلت اور خواری کا شکار ہوتے ہیں کہ انہوں نے تمام بدی صرف ایک غلط فہمی کے ہاتھوں انجام دی۔اﷲ تعالیٰ نے تمام کائنات کو تخلیق کیا اور اس کی حقیقت کو فرداً فرداً ہر انسان پر آشکار کیا۔ کائنات میں موجود ہر چیز اور دنیا میں موجود ہر آسائش اور شے کا حکمران اور مالک صرف اﷲ ہے۔ قرآن میں آتا ہے۔
﴿ اور اﷲ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میںہے اور جو کچھ زمین میں اور ہر چیز پر اﷲ کا قابو ہے۔ ﴾ (سورة النسائ، آیت ۶۲۱)
 مادے سے بھی آگے کا راز
 
یہاں پر بتائی گئی تمام باتوں پر اگر غور کیا جائے تو اس حیرت انگیز اور غیر معمولی صورتحال کو سمجھنا بالکل مشکل نہیں کہ دنیا ایک ایسا کرہ ہے جو کہ صرف انسان کے امتحان کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ اپنی مختصر زندگیوں کے دوران لوگ اپنے مشاہدوں کے ہاتھوں آزمائے جاتے ہیں جوکہ ان کو نہایت رنگین اور جاذب نظر معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ان پرفریب مشاہدوں کے اصل ذریعے تک وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے۔
ایسی چیزوں کے لالچ میں دین کو زائل کردینا سراسر حماقت ہے جو کہ صرف ذہن کے خاکے ہیں اور جن کے اصل تک پہنچنا انسان کے لئے قطعاََممکن نہیں۔انسان اس طرح مکمل طور پر خسارے میں رہتا ہے۔ دنیا تو ہر محنت کے باوجود اتنی ہی ملتی ہے جتنا مقدر لیکن آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہاں پر یہ بات سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ زیر بحث سچائی کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کی تمام ملکیتیں مثلاً مال و دولت، بیوی، شوہر، بچے، عہدے اور ہر تمنا کی گئی چیز مستقبل میں غائب ہوجائےگی اسی لئے بے معنی ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کا اپنی تمام ملکیتوں سے کسی قسم کا براہِ راست واسطہ نہیں ہے۔ یہ تمام چیزیں ایسے مشاہدات ہیں جن کو وہ اپنے ذہن کے ذریعے دیکھتا ہے اور جو کہ صرف ان خاکوں پر مشتمل ہوتے ہیں جوکہ اﷲ تعالیٰ اس کا امتحان لینے کے لئے اس کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اب یہ صاف ظاہر ہے کہ دونوں طرح کی صورت حال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہ ممکن ہے کہ کوئی اس حقیقت کا برملا اعتراف نہ کرنا چاہے اور اس دھوکے میں رہنے کو ترجیح دے کہ اس کی تمام ملکیتوں کی واقعی کوئی اصلیت ہے ۔لیکن بالآخر اس کو ایک دن مرجانا ہے اور آخرت میں جب وہ اٹھایا جائے گا تو ہر چیز واضح ہوجائے گی۔ جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:
﴿ بے شک تو اس سے غفلت میں تھا تو ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھایا تو آج تیری نگاہ تیز ہے۔ ﴾ (سورة ق، آیت ۲۲)
اس دن اس کو ہرچیز صاف نظر آئے گی۔ اگر اس نے اپنی تمام زندگی تصوراتی مقاصد کے پیچھے بھاگتے گزاری تھی تو وہ شدید سے خواہش کرے گا کہ کاش وہ کبھی زندہ ہی نہیں رہتا۔
﴿ ہائے کسی طرح موت ہی قصہ چکا جاتی میرے کچھ کام نہ آیا میرا مال میرا سب زور جاتا رہا۔ ﴾ (سورة حج، آیات ۹۲، ۸۲، ۷۲)
اس کے برعکس ایک عاقلانہ آدمی کائنات کی زبردست حقیقت کو اپنی دنیا کے اندر موجودگی کے دوران ہی سمجھنے کی کوشش کرے گا تاکہ اس کا وقت خسارے کا سودا حاصل کرنے میں ضائع نہ ہو۔ وہ لوگ جو سرابوں کے پیچھے دوڑتے ہوئے اپنے خالق کو بھول جاتے ہیں ان کے متعلق قرآن میں آیا ہے کہ:
﴿ اور جو کافر ہوئے ان کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریت کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اس کے پاس آیا تو اسے کچھ نہ پایا اور اﷲ کو اپنے قریب پایا تو اس نے اس کا حساب پورا بھردیا اور اﷲ جلد حساب کرلیتا ہے۔ ﴾ (سورة نور،آیت ۹۳)

مادہ پرستوں کی منطق میں نقص

اس باب میں شروع سے ہی اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ مادے کی حےثےت مادہ پرستوں کے دعوے کے مطابق ایک مطلق شے ہر گز نہیں ہے بلکہ ایک ایسا سایہ ہے جس کو اﷲ تعالیٰ خلا سے تخلیق کرتا ہے اور جس کے اصل تک انسان کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن مادہ پرست بیحد ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ثابت کی گئی سچائی کو جھٹلاتے ہیں اور اس کی نفی کرنے کی غرض سے ہر طرح کے بے بنیاد جوابی دعوے سامنے لے کر آتے رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا خوب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سچائی ان کے کھوکھلے فلسفے کی دھجیاں اڑانے کے لئے کافی ہے۔
جورج پولٹزر ایک جذباتی مارکسی اور بیسویںصدی کے مادیت پسند فلسفے کے بڑے حمایتیوں میں سے ایک تھا۔ یہ ایک بس کی مثال کے زریعے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ مادے کے اصل تک پہنچ سکتا ہے۔ پولٹزر کے مطابق عینیت پسند فلسفہ دان بھی اپنی طرف تیزی سے آتی بس کو دیکھ کر جان بچانے کے لئے بھاگ اٹھتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھی مادے کی اصلیت کا اعتراف کرتے ہیں۔۸۹۱
سیمیول جانسن ایک اور مشہور مادہ پرست تھا جس کو بتایا گیا تھا کہ انسان کے لئے اصل مادے تک رسائی ناممکن ہے۔ اس نے اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے کہا کہ وہ پتھروں کو لات مار کر ان کی اصل رو سے تعلق ثابت کرسکتا ہے۔“۹۹۱
پولٹزر کا معتبر صلاح کار اور مارکس کے ساتھ جدلیاتی مادہ پرستی کا بانی فریڈرک اینگلز بھی کچھ اسی طرح کی مثال دیتا ہے کہ” اگر ہمارا کھایا گیا کھانا محض مشاہدہ ہوتا ہے تو ہماری بھوک کبھی ختم نہ ہوتی۔“۰۰۲ اسی طرح کی کئی اور مثالیں اور” آپ مادے کی اصلیت کو سمجھ جائیں گے جب آپ کے منہ پر تھپڑ مارا جائے گا“ جیسے پر جوش فقرے مارکس، اینگز اور لینن جیسے مشہور مادہ پرستوں کی لکھی ہوئی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان تمام مثالوں کو خطرے میں ڈالنے والی بے ترتیب ترجمانی ان مادہ پرستوں کی بدولت ہے جو کہ اس فقرے ”ہم مادے کی اصل تک نہیں پہنچ سکتے“ کی تشریح اس نظریئے سے کررہے ہوتے ہیں کہ اس امر میں صرف قوت بصارت ہی کا عمل دخل ہے۔ ان کے خیال سے مشاہدہ صرف بصارت تک محدود ہے اور کسی چےز کو صرف چھولینا ہی انسان کو مادے کی اصل تک پہنچادےتا ہے۔ اگر کوئی گاڑی کسی آدمی سے ٹکراجائے تو کہا جاتا ہے کہ” دیکھو گاڑی نے آدمی کو ٹکر ماردی اسی لئے اس نے اصل مادے کا سامنا کرلیا“۔ ان لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اس ٹکر کے دوران وہ آدمی جن تمام احساسات سے گزرتا ہے مثلاً لوہے کی سختی، ٹکر کی تکلیف، اس کے جسم کا درد اور دوسرے تمام احساسات اس کے ذہن کی پیداوار ہیں۔

خوابوں کی مثال

حقیقت تو یہ ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان اپنی پانچ حسیات میں سے کسی کو نقطہ ابتداءبناتا ہے ےا نہےں کیونکہ وہ کسی کے بھی ذریعے بیرونی دنیا کے اصل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس بات کی ایک پرمعنی مثال خوابوں میں دیکھیجانے والی ان تمام چیزوں کی ہے جوکہ اس آدمی کی جاگتی دنیا میں موجود نہیں ہوتیں۔ خوابوں میں بہت قابلِ یقین واقعات پیش آتے ہیں مثلاً سیڑھیوں سے گرجانا اور ٹانگ کا ٹوٹ جانا، شدید نوعیت کا کوئی اور حادثہ پیش آجانا، پیٹ بھر کر کھالینا اور اس کامکمل احساس بھی ہونا۔ یعنی کہ وہ تمام واقعات جوکہ اصل زندگی میں پیش آنا ممکن ہوتا ہے وہ خوابوں میں بھی پیش آسکتے ہیں اور ان کے ذریعے انسان خوابوں کے اندر بھی انہیں احساسات سے گزرتا ہے۔
خواب کے اندر گاڑی کے حادثے کا شکار آدمی اس خواب کے دوران ہی اپنی آنکھیں اسپتال کے اندر بھی کھول سکتا ہے اور یہاں اس کو یہ احساس بھی ہوسکتا ہے کہ وہ معزور ہوگیا ہے ۔لےکن ہر چیز پھر بھی خواب ہی رہے گی۔ اس کے علاوہ وہ خوابمیں حادثے کے ذریعے اپنے مو ت کے فرشتوں کا آنا اور آخرت کی زندگی کا شروع ہونا بھی دیکھ سکتا ہے۔ خواب میں محسوس کئے جانے والے تمام محسوسات مثلاً سختی، تکلیف، رنگ اور دوسرے تمام احساس نہایت واضح اور تیز ہوتے ہیں۔ وہ اتنے ہی حقیقی ہوتے ہیں جتنا کہ جیتی جاگتی زندگی میں ہوتے ہیں۔ خواب میں کھائے جانے والے کھانے سے بھی اس کا پیٹ بھرجاتا ہے۔ اگرچہ کھاناا ور پیٹ کا بھرجانا دونوں ہی مشاہدے ہیں۔ جاگتی دنیا کے اس لمحے میں وہ انسان اپنے بستر میں لیٹا ہوا ہے اور اس کا رابطہ کسی سیڑھی، گاڑی اور کھانے پینے کی اشیاءسے نہیں ہے۔ اس کو محسوس ہونے والے تمام احساس صرف اور صرف اس کے خواب تک محدود ہیں۔ خوابوں کی انسانوں کو بغیر کسی طبیعےاتی رابطے کے موجود ہونے کے باوجود ایسے واقعاتسے گزارنے کی خاصیت اس بیرونی دنیا کی نشاندہی کرتی ہے جس کی اصل رو سے انسان کبھی بھی واقف نہیں ہوسکتا۔ دنیا کی اصل حقیقت کا ادراک صرف اﷲ تعالیٰ کی کتاب میں موجود اس کے ارشادات ہیں کیونکہ پوری کائنات کا خالق ہی وہی ہے۔ مادی فلسفے پر یقین رکھنے والے خاص طور پر مارکسی لوگوں کو جب اس سچائی کے بارے میں بتانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اشتعال میں آجاتے ہیں اور پھر یا تو مارکس، اےنگلز اور لینن کی جاہلانہ اور وسطی منطق کا حوالہ دینے لگتے ہیں یا پھر جذباتی دعوﺅں میں لگ جاتے ہیں۔
ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ یہی تمام دعوے اور حوالے وہ خوابوں میں بھی دے سکتے ہیں۔ اپنے خواب میں وہ ”ڈاس کا پیٹال“ کا مطالعہ کرسکتے ہیں، جلسوں میں شریک ہوسکتے ہیں اور کسی کے ساتھ لڑائی بھڑائی کی تکلیف بھی اٹھاسکتے ہیں۔ اگر ان سے خواب میں پوچھا جائے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں تو وہ کہیں گے کہ وہ بلاشبہ حقیقت ہی دیکھ رہے ہیں ۔بلکہ اسی طرح جس طرح وہ جاگنے پر کہیں گے۔ لیکن چاہے خواب ہو یا جاگتی زندگی دونوں چیزیں صرف اور صرف مشاہدات پر مبنی ہیں جس کے ”اصل“ ذریعے تک وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے۔

مشترک نظام اعصاب کی مثال

اب ذرا پولٹزر کی گاڑی کی حادثے کے بارے میں دی گئی مثال کا تجزیہ کیا جائے گا۔ اگر حادثے میں زخمی ہونے والے شخص کاعصبی نظام، جوکہ اس کی پانچوں حسوں کو اس کے دماغ کے ساتھ جوڑتا ہے، وہ کسی اور شخص، مثلاً پولٹزر کے دماغ سے اسی لمحے جوڑدیا جائے جب حادثہ واقع ہوا تھا تو اپنے گھر کے اندر بیٹھے پولٹزر کو بھی حادثہ اسی شدت سے محسوس ہوگا جس طرح کہ پہلے والے شخص کو ہوا ہے۔ اس کی مثال اسی طرح ہے جس طرح ایک ہی ٹیپ ریکارڈر سے جڑے ہوئے دو لاﺅڈاسپیکروں سے ایک ہی گانا نشر ہوتا ہے۔ پولٹزر کو گاڑی کے پہیوں کا چرچرانا، اپنے جسم کا گاڑی سے ٹکرانا، ہاتھ پیر ٹوٹنا، خون بہنا، اسپتال میں جانا اور حادثے سے متعلق دوسری تمام علامات ہوبہو زخمی آدمی کی طرح محسوس ہوں گی۔ اگر پولٹرز کی بجائے دنیا کے کسی بھی آدمی کو زخمی آدمی کے عصبی نظام سے جوڑدیا جائے تو وہ انہیں احساسات سے گزرے گا۔ اگر زخمی آدمی ہوش و حواس سے بیگانہ ہوجائے تو دوسرے لوگ بھی بیہوش ہوجائےں گے۔ اگر اس حادثے سے متعلق تمام مشاہدات کو کسی آلے کے ذریعے محفوظ کرلیا جائے اور کسی کو بار بار ان مشاہدات کا سامنا کروایا جائے تو وہ بار بار اس حادثے سے متعلق ہر تفصیل سے گزرے گا۔سوال یہ ہے کہ پھر زخمی آدمی اور پولٹزر کو ٹکر مارنے والی کون سی گاڑی اصل گاڑی ہے؟ اس سوال کا کسی بھی مادہ پرست فلسفہ دان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس سوال کا درست جواب یہ ہے کہ دونوں آدمیوں نے حادثے کی تمام تفصیلات صرف اور صرف اپنے دماغ میں محسوس کی ہیں۔ یہی اصول دوسری تمام مثالوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر کھانا کھاکر سیرابی محسوس کرنے والے اینگلز کا عصبی نظام کسی دوسرے آدمی کے دماغ سے جوڑدیا جائے تو وہ آدمی بھی کچھ کھائے بغیر ہی اینگلز کی طرح سیرابی محسوس کرے گا۔
اگر مادہ پرست جانسن کے اعصاب کو کسی اور دماغ کے ساتھ بھی جوڑدیا جائے تو جانسن کی طرح وہ بھی اپنے آپ کو پتھر کو لات مارتے ہوئے وہی تکلیف محسوس کرے گا ۔تو پھر کون سا کھانا اور کون سا پتھر اصل ہے؟ یہاں پر بھی مادی فلسفہ کوئی بھی متوازن جواب دینے سے قاصر ہے۔ اس سوال کا درست متوازن جواب یہ ہی کہ اینگلز اور دوسرے شخص دونوں نے کھانا کھایا بھی ہے اور سیر بھی ہوچکے ہیں لیکن صرف اپنے اپنے ذہنوں میں۔ اسی طرح جانسن اور دوسرے نے بھی پتھر کو لات ماری ہے پر صرف اپنے اپنے ذہن میں۔
اب پچھلی دی گئی مثالوں میں ایک تبدیلی کردیتے ہیں جس مےں گاڑی کے حادثے کے شکار آدمی کے اعصاب کو پولٹزر کے ذہن سے اور گھر بیٹھے پولٹزر کے اعصاب کو حادثے کے شکار آدمی سے جوڑدیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں پولٹزر یہیسوچے گا کہ اس کا گاڑی سے تصادم ہوا ہے جبکہ حادثے کے اصل زخمی کو اس تصادم کا احساس تک نہیں ہوگا۔ اس کے ذہن کے حساب سے وہ پولٹزر کے گھر میں بیٹھا ہے۔ یہی منطق کھانا کھانے اور پتھر کو مارنے کی مثالوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
یہ تمام مثالیں مادہ پرستی کے کٹر پن کو عیاں کرتی ہیں جس کا فلسفہ اس مفروضے پر کھڑا ہے کہ مادے کے علاوہ کسی اور چیز کا وجود نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی مادے کے اصل سے براہِ راست رابطہ پیدا نہیں کرسکتا اور اسی لئے ہر چیز کے مادی ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ انسان جس کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے وہ صرف اور صرف اس کے ذہن میں موجود ہوتی ہے۔ مشہور انگریز فلسفہ دان ڈیوڈ ہیوم اس نقطے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے:
”اپنی طرف سے میں جب بھی ’میں‘ کا تجزیہ کرتا ہوں تو میں ہمیشہ گرم یا ٹھنڈے، روشن یا تاریک، پیار یا نفرت اور تکلیف یا آسودگی کے مشاہدوں کے اوپر لڑکھڑاجاتا ہوں۔ اپنے آپ کو میں کسی بھی لمحے پر کسی مشاہدے کے بغیر پکڑ نہیں پاتا اور اس مشاہدے کے علاوہ کسی چیز کا معائنہ نہیں کرسکتا۔“ ۱۰۲
انسان کبھی بھی ان مشاہدوں کے باہر نکل کر مادے کے اصل سے رابطہ قائم نہیں کرسکتا۔ اسی لئے کسی بھی ایسے فلسفے کی تعمیر مکمل طور پر نامعقول ہے جس میں مادے کو ایک ایسے کلی وجود کا درجہ دیا جائے جس کو انسان براہِ راست محسوس کرسکتا ہو۔ نظریئے کے طور پر مادیت پہلے قدم سے ہی بے بنیاد ہے۔

دماغ کے اندر مشاہدات کے تشکیل پانے کا عمل فلسفہ نہیں بلکہ سائنسی حقیقت ہے۔

مادہ پرستوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک جن باتوں کا تجزیہ کیا گیا ہے وہ ایک فلسفی نقطہ نظر ہے۔لیکن سادہ سائنسی حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کا بیرونی مادی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکتا۔ اس کا رابطہ صرف اس کی ذہن کی پیدا کی ہوئی دنیا سے ہوتا ہے۔ یہ کوئی فلسفے کا معاملہ نہیں ہے۔ ِطب کی تمام تعلیم تفصیلی طور پر
ذہن مےں تشکےل ہونے والے خاکو ں اور احساسات کو بےان کرتی ہے۔۰۲ صدی کی سائنسی تحقیق، خاص طور پر طبیعیات کا شعبہ، اس بات کی خاص طور پر وضاحت کرتا ہے کہ انسان کبھی بھی مادے کے طبیعیاتی اصل تک نہیں پہنچ سکتا اور درحقیقت ہر شخص اپنے ذہن میں موجود اسکرین پر اپنی زندگی سے متعلق مشاہدے کرتا ہے۔ سائنس پر یقین رکھنے والے ہر شخص پر اس سچائی کا اعتراف لازم ہے چاہے وہ بت پرست ہو، لادین ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ حتیٰ کہ اﷲ کی ذات سے منکر مادہ پرست بھی سائنس کی حقیقت سے نظریں نہیں چراسکتے۔ اس لئے یہ اور بھی اچھنبے کا مقام ہے کہ کارل مارکس، فریڈرک اینگلز اور جورج پولٹزر جیسے قدیم اور ناکافی سائنس سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ بھی اس سادہ سچائی کو سمجھ نہیں پاتے۔ آج کے دور کی جدید سائنسی معلومات اور تکنیکی مہارت کے ذریعے اس مفصل سچائی کو سمجھنا اور بھی آسان ہے۔ مادہ پرست البتہ اس خوف سے منجمد ہیں کہ اگر وہ اس حقیقت کا ذرا سا بھی اعتراف کرلیں گے تو وہ الٹا اپنے ہاتھوں اپنے فلسفے کا مکمل طور پر خاتمہ کردیں گے۔

مادہ پرستوں کا عظیم خوف

بہت عرصے تک اس کتاب میں زیر بحث موضوعات کے خلاف ترکی کے مادہ پرست حلقوں نے کسی شدید یا نمایاں ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ خاص طور پر اس بات کے خلاف کہ مادے کا مشاہدہ صرف دماغ میں ہوتا ہے۔ اس سے یہ خیال ذہن میں آیا کہ شاید کتاب کا موضوع صحیح طور پر واضح نہیں کیا گیا اور اس میں مزید وضاحت کی گنجائش ہے۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ بات سامنے آئی کہ مادہ پرست نہ صرف اس موضوع کی مقبولیت کے بارے میں پریشانی کا شکار ہیں بلکہ یہ مقبولیت ان کو ایک قسم کی خوف و ہراس کا بھی شکار کررہی ہے۔ مادہ پرستوں نے رفتہ رفتہ اس خوف و دہشت کا اظہار اپنے مخصوص جریدوں، کانفرنسوں اور شرکاءکے گروہ میں زور و شور سے مشتہر کرنا شروع کردیا۔ ان کی اس معاملے میں مایوس کن اور بے چین گفتگو کا انداز اس بات کا غماز تھا کہ وہ شدید قسم کے ذہنی خلفشار سے گزررہے ہیں۔ ان کے نام نہاد سائنسی فلسفے کی بنیاد نظریہ¿ ارتقاءکی مکمل بربادی ان کے لئے بہت بڑی پریشانی کا سبب تھی۔ ان کو اب اس بات کی پریشانی لاحق ہوگئی کہ اگر مادے کی کلی شہنشاہیت کے اوپر سے بھی ان کی پکڑ اٹھ گئی تو یہ ان کے لئے نظریہ¿ ڈارون کی تباہی سے بھی بڑی تباہ کاری کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ موضوع ان کے لئے ایک ایسا زبردست خطرہ ہے جوکہ مکمل طور پر ان کے معاشرتی نظام کو برباد کردے گا۔
matter, illusion, مادے سے بھی آگے کا راز
یہاں پر بتائی گئی تمام باتوں پر اگر غور کیا جائے تو اس حیرت انگیز اور غیر معمولی صورتحال کو سمجھنا بالکل مشکل نہیں کہ دنیا ایک ایسا کرہ ہے جو کہ صرف انسان کے امتحان کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ اپنی مختصر زندگیوں کے دوران لوگ اپنے مشاہدوں کے ہاتھوں آزمائے جاتے ہیں جوکہ ان کو نہایت رنگین اور جاذب نظر معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ان پرفریب مشاہدوں کے اصل ذریعے تک وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے۔
brain, matter,  مادے سے بھی آگے کا راز
کھڑکی سے باہر دیکھنے والا شخص باہر موجود تصویر کو نہیں دیکھتا بلکہ اس خاکے کو دیکھتا ہے جو کہ اس کا دماغ اس کو پیش کرتا ہے۔
1. روشنی
2. برقی اشارہ
مادہ پرست حلقوں کی اس پریشانی اور دہشت کا سب سے صاف گو مظاہرہ اعلیٰ تعلیم یافتہ منصف رینان پکنلو نے ”سائنس اینڈ یوٹوپیا“ نامی ایک رسالے میں کیا۔ اس رسالے نے مادہ پرستی کی حمایت کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس رسالے میں چھپنے والے اپنے مضمونوں اور علمی حلقوں میں پکنلو نے اس کتاب کو مادہ پرستی کا سب سے خطرناک دشمن قراردیا ہے۔ پکنلو کو کتاب کے جس مخصوص موضوع نے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ نظریہ¿ ڈارون کو ناقص قراردینے والی یہی بات ہے۔ پکنلو نے اپنے حمایتیوں کو سختی سے اس بات کی تلقین کی وہ مثالیت کی آموزش سے بچے رہیں اور مادہ پرستی پر اپنے یقین کو ڈانواڈول نہ ہونے دیں۔ اس نے روس کے خونی اشتراکی انقلاب کے سربراہ لینن کو اپنی تبلیغ کا حوالہ بنایا۔ اس نے ہر ایک کو مشورہ دیا کہ وہ لینن کی ایک صدی پرانی کتاب ”میٹریلزم اینڈ ایمپیریو کریٹیزم“ یا ”مادیت اور شاہی تنقید“ کو پڑھیں اور لینن کی اس بات پر عمل کریں کہ اس موضوع پر ہرگز مت سوچو ورنہ تم مادیت کی نہج سے نکل جاﺅگے اور مذہب کی رو میں بہہ جاﺅگے۔ اس نے ’ سائنس اور یوٹوپیا ‘میں چھپنے والے ایک مضمون نے لینن کی کہی گئی مندرجہ ذیل باتوں کا حوالہ دیا:
”ایک دن تم اس ظاہری سچائی کو رد کردوگے جوکہ ہم کو احساس کی حس سے ملتی ہے۔ تم تو پہلے ہی عقیدہ پرستی کے خلاف ہر ہتھیار کھوچکے ہو کیونکہ تم نے اس بات پر یقین کرنا شروع کردیا ہے کہ مادی وجود کے علاوہ خدا یا کسی وجود کا علم محال ہے اور یہی بنیادی بات عقیدہ پرستی کی شرط ہے۔ ایک تو پنجہ ہاتھ آیا لیکن پوری چڑیا کھوگئی۔ ہمارے تمام جدید ایجابی فلسفے کے پیروکار مثالیت میں پھنس گئے ہیں جوکہ عقیدہ پرستی ہی کی ایک ہلکی شکل ہے۔ وہ اسی لمحے سے پھنس گئے جس وقت انہوں نے احساس کو بیرونی دنیا کا ایک خاکہ نہیں بلکہ ایک خاص عنصر تسلیم کرنا شروع کردیا۔ یہ کسی کا احساس نہیں، کسی کا دین نہیں، کسی کی روح نہیں، کسی کی مرضی نہیں۔“۲۰۲
ان الفاظ سے واضح طور پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ لینن کو نہ صرف اس بات کے بے حد پریشان کن ہونے کا احساس تھا بلکہ یہ اس کے اثرات اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ذہنوں سے بھی کھرچ کر نکال دینا چاہتا تھا۔
گو کہ یہ بات دورِ حاضر کے مادہ پرستوں کو بھی اتنا ہی پریشان کرتی ہے لیکن پکنلو اور دوسرے مادہ پرستوں کی پریشانی اس لئے اور بھی زیادہ ہے کیونکہ ان کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ نظریہ¿ ڈارون اور مادہ پرستی کے خلاف جنگسوسال پہلے کے مقابلے میں آج زیادہ زور و شور اور پراثر طریقے سے لڑی جارہی ہے اور کامیاب بھی زیادہ ہورہی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس موضوع کو ناقابل تردید ثبوت، حقائق اور دلائل کی بنیاد پر رد کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود مادہ پرست سائنسدانوں کی بڑی تعداد اس سچائی کے لئے بڑی سطحی سی حمایت کا اظہار کرتے ہیں کہ مادہ کے اندر اور مادے تک پہنچنا ناممکن ہے۔ اس خاص باب میں جس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے وہ کسی بھی شخص کی زندگی کا سب سے اہم اور جذباتی نوعیت کا موضو ع قراردیئے جانے کے لائق ہے۔ یہ بہت حد تک ناممکن ہے کہ ان سائنسدانوں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ اہم کسی موضوع کا سامنا کیا ہو لیکن پھر بھی ان کی اس موضوع پر تقاریر اور مضمونوں سے ظاہر ان کا رد ِعمل اور اندازِ بیان ان کی سطحی اور سرسری فہم اور شعور کی عکاسی کرتا ہے۔
مادہ پرستوں کے ردِ عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مادہ پرستی پر ان کے اندھے اعتقاد نے ان کی منطق کو اس حد تک معذور کردیا ہے کہ وہ اس موضوع کی تہہ تک پہنچنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ مثال کے طور پر رینان پکنلو کی طرح کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ رسالے ”بیلم وی ای یوٹوپیا“ کا مصنف الائڈین سینل کہتا ہے کہ ”نظریہ¿ ڈارون کی تباہی کو بھول جاﺅ کیونکہ حقیقت میں سب سے زیادہ خطرناک موضوع تو یہ ہے۔“ اس نے لوگوں سے پرزور مطالبہ کیا کہ ”جو تم بولتے ہو اس کو ثابت کرو“ کیونکہ اس کو اچھی طرح سے احساس تھا کہ اس کا اپنا فلسفہ بے بنیاد اور کھوکھلا ہے۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مصنف کی لکھی گئی کئی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ جو خوداس حقیقت کو اتنا بڑا خطرہ کہہ رہا ہے اس کو اس حقیقت کی گہرائی کا معمولی سا بھی شائبہ نہیں ۔مثال کے طور پر ایک مضمون جس میں سینل اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتا ہے اس میں وہ کہتا ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ انسانی ذہن میں بیرونی دنیا ایک خاکے کی صورت میں ہی ظاہر ہوتی ہے ۔لیکن اس کےبعد وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ خاکے دو حصوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں، ایک حصے میں وہ خاکے ہوتے ہیں جن کے طبیعیاتی جوڑ موجود ہوتے ہیں اور دوسرے حصے میں وہ خاکے جن کے طبےعیاتی جوڑ نہیں ہوتے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم لازماً خاکوں کے بیرونی دنیا کے طبیعیاتی جوڑوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس دعوے کی حمایت میں وہ لکھتاہے کہ:
”مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ میرے ذہن میں موجود خاکوں کا بیرونی دنیا میں کوئی جوڑ موجود ہے کہ نہیں لیکن یہی اصول اس وقت بھی لاگو ہوتا ہے جب میں فون پر گفتگو کرتا ہوں۔ جب میں فون پر گفتگو کرتا ہوں تو میں دوسرے سرے پر موجود آدمی کو دیکھ نہیں سکتا لیکن ہمارے درمیان کی گئی اس گفتگو کی تصدیق ہماری اگلی ملاقات پر کرسکتا ہوں۔“۳۰۲
ان تمام باتوں سے اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اگر انسان اپنے مشاہدات پر شک کرے تو وہ ان کے اصل کو دیکھ کر ان کی تصدیق کرسکتا ہے۔ یہ ایک واضح فریب ہے کیونکہ انسان کا مادے کے اصل تک پہنچنا ناممکن ہے۔ وہ اپنے ذہن سے باہر بیرونی دنیا کو ”ہاتھ لگانے“ کے لئے کبھی نکل ہی نہیں سکتا۔ فون پر کی گئی گفتگو کا حقیقی جوڑ ہے کہ نہیں؟ اس بات کی تصدیق اس شخص سے بالمقابل ملاقات سے ہوسکتی ہے۔ حالانکہ یہ تصدیق بھی دراصل ذہن میں پیدا ہوا ایک مشاہدہ ہی ہے۔
ان تمام باتوں کو لکھنے والے مصنف یہ سارے واقعات اپنے خوابوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سینل اپنی فون پر کی جانے والی گفتگو خواب میں بھی دیکھ سکتا ہے اور پھر اس کی تصدیق بھی خواب میں ہی اس شخص سے ایک بالمقابلملاقات میں کرسکتا ہے۔ یا پھر پکنلو خواب میں ہی اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے دوسرے لوگوں کو لینن کی اےک صدی پرانی کتاب پڑھنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ چاہے وہ کچھ بھی کرلیں یہ مادہ پرست کبھی بھی اس بات سے انحراف نہیں کرسکتے کہ ان کے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعات اور وہ تمام لوگ جن کے ساتھ انہوں نے گفتگو کی تھی وہ ان کے ذہنی مشاہدات کے علاوہ کچھ اور چیز تھے۔
تو پھر ان ذہنی خاکوں کے جوڑوں کی تصدیق کون کرسکتا ہے؟ کیا انسانوں کے بصارت کے مرکز میں موجود سایہ نما لوگ ان جوڑوں کی موجودگی کی تصدیق کریں گے؟ مادہ پرستوں کے لئے کسی بھی ایسے بیرونی ذرائع کو ڈھونڈنا ناممکن ہے جوکہ ذہن کے باہر موجود ”معلومات‘ ‘ کی تصدیق کرسکے۔ اگر کوئی اس بات کا اعتراف تو کرلے کہ یہ تمام مشاہدات ذہن میں ہی تشکیل ہوئے ہیں لیکن اس بات پر پھر بھی اصرار کرے کہ ان مشاہدات کی دنیا سے ”باہر“ نکلنا اور اصل بیرونی دنیا کے ہاتھوں کی تصدیق کرنا ممکن ہے تو پھر یہ اس شخص کی محدود مشاہداتی صلاحیت اور معذور منطق کو ثابت کرتی ہے۔ یہ تمام حقائق معمولی سی عقل و فہم اور منطق کے حامل انسان کے لئے بھی سمجھنا بہت آسان ہے ۔کسی بھی غیر متعصبانہ انسان کے لئے یہ بھی سمجھنا مشکل نہیں کہ انسانی حسیات کی بیرونی دنیا تک پہنچ ممکن ہی نہیں۔ لیکن مادہ پرستی سے اندھا لگاﺅ لوگوں کی منطقی صلاحیات کو معذور کردیتا ہے۔
اپنے پچھلوں کی طرح جدید مادہ پرست بھی انہی شدید منطقی کمزوریوں کا مظاہرہ کرتے ہیں جب وہ اس بات کو ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں کہ وہ کھانا کھالینے یا پتھروں کو لات ماردینے سے مادے کے اصل تک پہنچ سکتے ہیں۔یہ کوئی حیران کن صورتحال نہیں ہے۔ ناسمجھی کی یہ کمزوری ،یعنی کہ دنیا اور اس کے واقعات کی معتبر منطق کے ساتھ تشریح ،دراصل بے دین لوگوں کی ایک عام علامت ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں سورة مائدہ کی آیت ۸۵ میں فرماتے ہیں کہ یہ لوگ سمجھ بوجھ سے عاری لوگ ہیں۔

مادہ پرست تاریخ کے سب سے بڑے جال میں پھنس گئے ہیں

ترکی کے مادہ پرست حلقے جس پریشان کن صورتحال کا شکار ہیں اس کی اس کتاب میں صرف تھوڑی سی ہی مثالیں دی گئی ہیں اور ان سب مثالوں سے ثابت ہے کہ مادہ پرست شدید ناکامی کا شکار ہیں۔ جدید سائنس نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ انسان مادے کے اصل تک نہیں پہنچ سکتا اور اس بات کو سائنس نے صاف گو، پرزور اور پر اثر طریقے سے دنیا کے آگے پیش کردیا ہے۔ مادہ پرستوں کو اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ وہ مادی دنیا جس کے اوپر ان کے تمام فلسفے کی بنیاد ہے ایک ایسیمشاہداتی سرحد ہے جس کو وہ کبھی بھی عبور نہیں کرسکتے۔ اس حقیقت کے سامنے ان کا کوئی زور نہیں چلتا۔ پوری انسانی تاریخ کے دوران مادیت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ چونکہ مادہ پرستوں کو اپنے اوپر اور اپنے فلسفے کے اوپر اتنا اعتماد تھا اسی لئے انہوں نے اسی خدا کے خلاف محاذ کھڑا کرلیا جس نے ان کو تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زوردینا شروع کردیا کہ مادہ ایک ابدی حقیقت ہے جس کا کوئی خالق نہیں۔ اپنی ہٹ دھرمی میں خدا سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے مادے کے وجود میں پناہ تلاش کرنی شروع کردی جس کے ساتھ ان کی خیال میں ان کا براہِ راست واسطہ ہے۔ اس فلسفے پر ان کی خود اعتمادی اتنی بڑھ گئی کہ انہیں بات کا یقین ہوگیا کہ کوئی بحث اس فلسفے کو غلط ثابت نہیں کرسکتی۔
یہی وجہ ہے کہ مادے کی اصل نوعیت سے متعلق اس کتاب میں موجودہ حقائق نے ان لوگوں کو حیران کردیا۔ ان حقائق نے ان لوگوں کے فلسفے کی جڑوں کو برباد کردیا اور مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ۔وہ مادہ جس کے اوپر ان کی تمام سوچ، زندگی، ہٹ دھرمی اور انکا رکی عظیم و شان عمارتیں کھڑی ہیں وہ اچانک غائب ہوگیا۔کسی بھی انسان نے مادے کا اصل نہیں دیکھا اس لئے کسی فلسفے کا اس پر قائم کئے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ کی ایک صفت بے دین لوگوں کے خلاف اس کی منصوبہ بندی ہے۔ سورة انفال کی آیت نمبر ۰۳ میں آتا ہے:
﴿ اور اے محبوب یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مکر کرتے تھے کہ تمہیں بند کرلیں یا شہید کردیں یا نکال دیں اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اﷲ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اﷲ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ہے۔ ﴾ (سورة انفال، آیت نمبر۰۳)
اﷲ تعالیٰ نے مادہ پرستوں کو اس خیال میں مبتلا کرکے کہ مادے کا ایک ابدی اور دائمی وجود ہے اور پھر اسی یقین کے ہاتھوں ان کو ذلیل و رسوا کرکے ایک زبردست جال میں پھنسالیا۔ مادہ پرستوں کو اس بات کا یقین ہے کہ ان کی تمام ملکیت، عہدے، معاشرے او رکل کائنات کبھی نہ ختم ہونے والی ابدی حقیقت ہے۔ انہی تمام چیزوں پر انحصار کرنے سے ان کارویہ اﷲ تعالیٰ سے رعونیت پسند ہوچلا۔ اپنے غرور میں وہ اﷲ سے باغی ہوگئے اور اپنی بے دینی میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ اس تمام عمل کے دوران مادے پر ان کا یقین بھی سوا ہوگیا۔ ان کی سمجھ اتنی ناقص ہے کہ وہ یہ سادہ سی بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اﷲ ان کے چاروں طرف، اندر باہر ہر جگہ موجود ہے اور وہ ان کا حال ان سے بہتر جانتا ہے۔ بے دین لوگوں کا یہ حال ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے۔ سورة طور میں آتا ہے:
﴿ یا کسی داﺅں (فریب) کے ادارہ میں ہیں تو کافروں ہی پر داﺅں (فریب) پڑنا ہے۔ ﴾ (سورة طور، آیت ۲۴)
مادہ پسندوں کی شکست تو شاید تاریخ کی سب سے بڑی ذہنی شکست ہے۔ اپنے بڑھتے ہوئے تکبر کے ہاتھوں ہی ان کو دھوکہ ہوگیا اور اﷲ کے خلاف سازش کرنے کی دھن میں وہ خود ہی اس سازش کا شکار ہوگئے۔ سورة انعام میں اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کے انجام کے متعلق فرماتا ہے:
﴿ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کے سرغنہ کئے کہ اس میں داﺅ کھیلیں اور داﺅ نہیں کھیلتے مگر اپنی جانوں پر اور انہیں شعور نہیں ﴾ (سورة انعام، آیت ۳۲۱)
اسی زمرے میں ایک اور آیت آئی ہے کہ:
﴿ فریب دینا چاہتے ہیں اﷲ اور ایمان والوں کو اور حقیت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں ﴾ (سورة بقرہ، آیت۹)
ان سازشوں کو تشکیل دیتے ہوئے بے دین لوگوں کے ذہنوں میں لمحے بھر کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ان کو پیش آنے والے تمام واقعات صرف اور صرف ان کے ذہنوں کی پیداوار ہیں اور ان کی ساری منصوبہ بندیاں بھی ان کے ذہن تک محدود ہیں بالکل سی طرح جس طرح ان کا ہر دوسرا کام ہے۔ اپنی بے عقلی میں وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اکیلے ہیں اور اپنی منصوبہ بندیوں کے بُنے ہوئے جال میں خود گررہے ہیں۔ماضی کے بے دین لوگوں کی طرح دوِ حاضر کے یہ بے دین لوگ بھی ایک ایسی حقیقت کے بالمقابل آچکے ہیں جوکہ ان کے شیطانی منصوبوں کا مکمل خاتمہ کردے گی۔ سورة النساءمیں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ ایمان والے اﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو شیطان کے دوستوں سے لڑو بے شک شیطان کا داﺅ کمزور ہے۔ ﴾ (سورة النسائ، آیت ۶۷)
اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ ان تمام منصوبوں کا انجام پہلے دن سے ناکامی ہے اور وہ اس آیت سے ایمان والوں کو خوشخبری دیتا ہے:
﴿ تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگے اور تم کو برائی پہنچے تو اس پر خوش ہوں اور اگر تم صبر اور پرہیزگاری کئے رہو تو ان کا داﺅ تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا بے شک ان کے سب کام خدا کے گھیرے میں ہیں ﴾ (سورة آل عمران، آیت۰۲۱)

ایک اور آیت میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ اور جو کافر ہوئے ان کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریت کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اس کے پاس آیا تو اسے کچھ نہ پایا اور اﷲ کو اپنے قریب پایا تو اس نے اس کا حساب پورا بھردیا اور اﷲ جلد حساب کرلیتا ہے۔ ﴾ (سورة نور،آیت۹۳)
مادیت باغی اور سرکش لوگوں کے لئے ایک سراب ہے کیونکہ جب وہ مادیت کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو اس کا فلسفہ ان کے لئے صرف ایک فریب ثابت ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان کو اس سراب کے ذریعے دھوکے میں رکھتا ہے اور ان کو مادے کے بارے میں تمام مشاہدات حتمی اور دائمی محسوس ہوتے ہیں۔ یہ تمام نامور پروفیسر، ہیئت دان، ماہرِ حیاتیات، ماہرِ طبیعیات اور دوسرے کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اونچے پایہ کے سائنسدان اپنے عہدے اور اعلیٰ علم کے باوجود دھوکے میں آکر شدید ذلت کاشکار ہوتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ مادے کو خدا مان لیتے ہیں۔ اس بات کے باوجود کہ وہ اس کے اصل تک پہنچنے سے قاصر ہیں وہ پھر بھی مادے کو یقینی اور حتمی مان کر اپنے تمام فلسفے اور فکریات کی بنیاد عقل کے اس عظیم دھوکے پر رکھتے ہیں اور اس کے متعلق سنجیدہ غور و فکر اور بظاہر پڑھی لکھی بحث و مباحثے میں دنیا کو الجھاتے ہیں۔ ان کے خیال مےں ان کی عقل ان کو کائنات کی سچائی کے بارے میں بحث کرنے کے لائق بنادیتی ہے اور وہ اپنی محدود سمجھ سے اﷲ تعالیٰ پر تنقید کے بھی اہل ہوجاتے ہیں۔ اس صورتحال کو اﷲ تعالیٰ سورة آل عمران میں اس طرح بیان کرتا ہے:
﴿ اور کافروںنے مکر کیا اور اﷲ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اﷲ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے ﴾ (سورة آل عمران، آیت ۴۵)
اےک عام انسان شاید دنیا میں لوگوں کی منصوبہ بندیوں سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن بے دین لوگوں کے خلاف اﷲ تعالیٰ کے منصوبے اتنے حتمی اور مضبوط ہیں کہ ان سے فرار حاصل کرنا ناممکن ہے ۔اﷲ تعالیٰ کے عتاب سے کوئی پناہ نہیں اور اس کی پناہ صرف اس کے مالک، خالق اور ایک ہونے کے اعتراف سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ سورة النساءکی آیت نمبر ۳۷۱ میں آتا ہے:
﴿ تو وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کی مزدوری انہیں بھرپور دے کر اپنے فضل سے انہیں اور زیادہ دے گا اور وہ جنہوں نے نفرت اور تکبر کیا تھا انہیں دردناک سزا دے گا اور اﷲ کے سوا نہ اپنا کوئی حمایتی پائیں گے نہ مددگار۔ ﴾ (سورة النسائ، آیت ۳۷۱)
مادہ پرستوں کو ایسے جال میں پھنسنے کی امید تھی ہی نہیں۔ ۱۲ ویں صدی کی تمام سائنسی اور تحقیقی طاقت سے لیس ہوکر وہ مزید پریقین ہوچلے تھے کہ ان کی ہٹ دھرمی اور انکار کا کوئی توڑ ہو ہی نہیں سکتا اور وہ اندھادھند پوری دنیا کو بھی اپنے عقیدے میں شامل کرتے چلے جائیں گے۔ بے دین لوگوں کی اس مخصوص ذہنیت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے:
﴿ تو دیکھو کیسا انجام ہوا ان کے مکر کا ہم نے ہلاک کردیا انہیں اور ان کی ساری قوم کو تو یہ ہیں ان کے گھر ڈھے پڑے بدلہ ان کے ظلم کا بے شک اس میں نشانی ہے جاننے والوں کے لئے۔ ﴾ (سورة النمل، آیت۰۵۔۱۵)
مادہ پرستوں کو یہ بتاےا جاتا ہے کہ ان کی ہر ملکیت دراصل ان کے ذہن کا حصہ اور محض ’مکر‘ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ جیسے جیسے ان کے ہاتھ میں موجود ان کی ہر چیز مثلاً ان کے اثاثے، سونے، جواہرات، بچے، بیوی، شوہر، دوست، عہدے حتیٰ کہ ان کے جسم بھی جس کو وہ لافانی خیال کرتے تھے ان سے دور ہوتی جائےں گے تو وہ اس حقیقت کے بالمقابل آتے جائےں گے کہ یہ مادہ نہیں بلکہ اﷲ کی ذات ہے جوکہ لافانی اور ابدی ہے۔اس سچائی کا ادراک کسی بھی مادہ پرست کے لئے ایک ناقابل بیان تکلیف کا مقام ہے۔ وہ مادہ جس کے اوپر انہوں نے اندھا ایمان، اعتقاد اور یقین رکھا وہی ان سے دور ہوجاتا ہے۔ ان کے الفاظ میں یہ صورتحال ”موت سے پہلے موت“ کے مشابہ ہے جس کے نتیجے میں وہ اﷲ کے ساتھ اکیلے رہ جاتے ہیں۔ سورة مدثر آیت نمبر۱۱ میں آتا ہے:
﴿ اسے مجھ پر چھوڑ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ﴾ (سورة مدثر، آیت ۱۱)
یہ زبردست حقیقت کئی اور سورتوں میں بھی واضح ہے:
﴿ اور بے شک تم ہمارے پاس اکیلے آئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے جو مال و متاع ہم نے تمہیں دیا تھا اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جن کا تم اپنے میں ساجھا بتاتے تھے بے شک تمہارے آپس کی ڈور کٹ گئی اور تم سے گئے جو دعوے کرتے تھے۔ ﴾ (سورة انعام، آیت ۴۹)
﴿ اور ان میں ہر ایک روزِ قیامت اس کے حضور اکیلا حاضر ہوگا۔ ﴾ (سورة مریم، آیت ۵۹)
اس آیت کی تشریح اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ مادے کو اپنا خدا ماننے والوں کو بھی اﷲ نے ہی بنایا ہے اور ان کو بھی اﷲ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے،چاہے وہ اس چیز کا اعتراف کریں یا نہ کریں۔ روزِ محشر کے دن ہر انسان سے حساب لیا جائے گا لیکن کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔

موضوع کی اہمیت

اس باب میں بیان کی گئی مادے کی اہمیت کے پیچھے پوشیدہ اصل راز کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔انسان کو نظر آنے والی ہر چیز پہاڑ، میدان ، پھول، سمندر، لوگ، غرض ایک ایک تنکا اﷲ تعالیٰ نے خلا سے تخلیق کیا لیکن وہ پھر بھی نظر آتا ہے اور موجود ہے ۔لیکن لوگوں کو یہ تمام چیزیں اپنی حسیات کے مشاہدوں سے ہی نظر آتی ہیں اوروہ اس سے مزےد’ اصل‘ تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ ایک ایسی سائنسی حقیقت ہے جس کو ہر طبی کتاب میں اہمیت حاصل ہے۔ حتیٰ کہ اس مخصوص کتاب کو پڑھنے والا اس کے اصل تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اصل کتاب میں سے نکلنے والی شعاعیں آنکھوں کی خلیوں کے ذریعے برقی اشاروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں جوکہ دماغ میں بصارت کے مرکز تک پہنچ کر کتاب کے خاکے میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس کتاب کو آنکھیں نہیں پڑھ رہیں بلکہ دماغ کے پچھلے حصے میں موجود بصارت کا مرکز اس کو اس مشاہدے میں تبدیل کررہا ہے جس کے ذریعے یہ کتاب نظر آرہی ہے۔ دماغ میں موجود کتاب اصل کتاب کی نقل ہے۔ اصل کتاب کی حقیقت کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے۔ انسان وہی دیکھ رہا اور اتنا ہی دیکھ رہا ہے جتنا کہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مادے کا ذہن میں خاکہ موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ذہن مادے کی موجودگی کو مکمل طور پر رد کردے۔ بلکہ یہ تو مادے کی حقیقینوعیت کو سمجھنے کا ذریعہ ہے کہ انسان مادے کی اصل سے رابطہ پیدا کر ہی نہیں کرسکتا۔ گو کہ بیرونی دنیا میں موجود مادہ صرف ایک انسان کو نہیں بلکہ ہر انسان کو نظر آتا ہے حتیٰ کہ اﷲ تعالیٰ کے کاموں پر معمور فرشتوں کو بھی یہ مادہ نظر آتا ہے،لےکن اس کے اصل کا علم صرف اللہ کو ہے:
﴿ اے محبوب وہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے تم فرماﺅ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اﷲ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے ہو بے شک اﷲ جانتا ہے آسمانوں اورزمین کے سب غیب اور اﷲ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ ﴾ (سورہ ق، آیت ۷۱۔۸۱)
اﷲ تعالیٰ بھی ہرچیز کو دیکھتا ہے اسی نے یہ پوری کائنات اس کی تمام تر تاریکیوں کے ساتھ تخلیق کی اور وہ اس کی ہر کیفیت اور ہر تفصیل سے آگاہ ہے۔ قرآن میں آتا ہے:
﴿ اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو اور پورے دو برس اس کے لئے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہئے اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا اور پہننا ہے حسب دستور کسی جان پر بوجھ نہ رکھا جائے گا مگر اس کےمقدور بھر ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچہ سے اور نہ اولاد والے کو اس کی اولاد سے یہ ماں ضرر نہ دے اپنے بچہ کو اور نہ اولاد والا اپنی اولاد کو اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی واجب ہے پھر اگر ماں باپ دونوںآپس کی رضا اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ دائیوں سے اپنے بچوں کو دود ھ پلواﺅ تو بھی تم پر مضائقہ نہیں جب کہ جو دےنا ٹھہرا تھا بھلائی کے ساتھ انہیں ادا کردو اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اﷲ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ ﴾ (سورة بقرہ، آیت ۳۳۲)
اﷲ تعالیٰ ہر چیز کے بارے میں معلومات لوح محفوظ میں درج کرتا جاتا ہے۔ انسان کو جن باتوں کا علم بھی نہیں ان کا بھی اندراج اس کتاب میں محفوظ ہے۔ اﷲ اس کے بارے میں کہتا ہے:
﴿ اور بے شک وہ اصل کتاب میں ہمارے پاس ضرور بلندی و حکمت والا ہے۔ ﴾ (سورة زخرف، آیت ۴)
﴿ اور جتنے غیب ہیں آسمانوں اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں۔ ﴾ (سورة نمل، آیت۵۷)

اختتام

اس کتاب کا موضوع کسی بھی زندگی میں آنے والی سب سے بڑی سچائی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس بات کو ثابت کردینا کہ بیرونی مادی دنیا صرف انسانی ذہن میں موجود ہے اور انسانوں کا اس دنیا کے ”اصل“ سے کبھی بھی کوئی واسطہ پیدا نہیں ہوسکتا اﷲ تعالیٰ کی موجودگی ،اس کی تخلیق کا اعتراف اور اس کی وحدانیت پر یقین دلانے کے لئے کافی ہے۔ جس شخص کو اس کتاب کے موضوع کی سمجھ آجائے وہ جان لے گا کہ دنیا دراصل وہ ہے ہی نہیں جو اس کو اب تک نظر آرہی تھی۔ یہ وہ حقیقی اور دائمی جگہ ہے ہی نہیں جس میں لوگ بڑے بڑے کمروں اور گاڑیوں میں تکبر کے ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، دوسرے لوگوں سے لڑتے بھڑتے ہیں اور اپنی پوری زندگی کھوکھلے مقاصد کی تکمیل میں صر ف کردیتے ہیں۔ دنیا تو ذہن میں بننے والا ایک ایسا خاکہ ہے جس کے اصل تک انسان پہنچ ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں موجود ہر جاندار اور انسان کے لئے دنیا ان کے دماغ میں ایک خاکے کے سوا کچھ بھی نہیں جس کے اصل کو وہ کبھی بھی نہیں پاسکتے اور پھر بھی وہ اس زبردست حقیقت سے لاعلم ہیں۔یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جو کہ اﷲ تعالیٰ کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے اس مادی فلسفے کو مکمل طور پر کھوکھلا بنادیتی ہے ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو سمجھ لینے سے مارکس، اینگلز اور لینن جیسے مادہ پرست نہ صرف پریشانی کا شکار ہوگئے بلکہ شدید غصے میں بھی آگئے اور اپنے پیروکاروں کو سختی سے تنبیہ کردی کہ وہ اس حقیقت کے بارے میں سوچیں بھی نہےں۔ مادہ پرستوں کے ذہن اور سوچ اتنی ناقص ہوتی ہے کہ وہ اتنی سی بات کا ادراک بھی نہیں کرسکتے کہ بیرونی دنیا کے بارے میں ہر مشاہدہ ذہن کے اندر تشکیل ہوتا ہے۔ کےونکہ وہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں وہی اصل بیرونی دنیا ہے اسی لئے کسی اور خیال تک ان کی سوچ جاتی ہی نہیں۔ یہ لاعلمی عقل و فہم کی وہ کمی ہے جوکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بے دین لوگوں میں موجود ہوتی ہے۔ قرآن میں آتا ہے:
﴿ اور بے شک ہم نے جہنم کے لئے پیدا کئے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہیغفلت میں پڑے ہیں۔ ﴾ (سورة اعراف، آیت ۹۷۱)
اپنے ذاتی غور و فکر کا استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی انسان اس سچائی کی مزید گہرائی میں جاسکتا ہے۔ لےکن اس کے لئے اس کا اپنے ذہن کو تعصب سے پاک کرنا شرط ہے۔ اس کے بعد وہ ارد گرد موجود چیزوں پر غور کرے کہ وہ کیسی محسوس ہوتی ہیں۔ اگر توجہ سے صرف اسی کتاب کے بارے میں سوچا جائے تو یہ احساس ہو گا کہ اس کتاب کو پڑھنے اور اس کے بارے میں سوچنے والا وجود صرف روح ہے جوکہ اس کتاب سے متعلق مشاہدات کو ذہن میں دیکھ رہی ہے۔ جس کسی کو یہ بات سمجھ میں آجائے گی وہ مادیت کے اس فریب سے دور ہوجائے گا جس میں انسانیت پھنسی ہوئی ہے اور وہ بلاشبہ زندگی کی اصل سچائی کو پالے گا۔اس سچائی کو تاریخ میں کئی فلسفہ دانوں اور خدا پرستوں نے پالیا تھا ۔وحدة الوجود کا تصور بھی اس سچائی کی غلط تشریح اور کسی بھی خالق کی موجودگی کو رد کردینے کی وجہ سے دھندلاگیا تھا۔ امام ربانی نے اس تصور کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کیا۔ امام ربانی کے مطابق ”تمام جاندار اور ہر تخلیق ایک سایہ ہے جس کی اصل شناخت اﷲ کی ذات ہے۔“
امام ربانی، محی الدین ابن اعرابی اور مولانا کامی جیسے بلند پایہ اسلامی دانشوروں نے بھی اپنی منطق استعمال کرتے ہوئے اس حقیقت کو قرآن کے اشاروں سے اخذ کرلیا تھا۔ کچھ مغربی فلسفہ دانوں مثلاً جورج برکلی نے بھی یہی سچائی اپنی عقل و فہم سے حاصل کرلی۔ امام ربانی نے اپنے خطوط میں لکھا ہے کہ ”تمام مادی کائنات ایک خاکہ اور مشاہدہ ہے اور صرف اﷲ کی ذات ہی حتمی اور اصل وجود ہے۔“
”خدا اس نے جن چیزوں کو تخلیق کیا ہے ان کا وجود خلاءہے۔ اس نے ہر چیز احساسات اور مشاہدات کے دائرے میں رکھ دی ہے۔ کائنات کی موجودگی بھی اسی احساس اور مشاہدے کے دائرے کے اندر ہے۔ اس کا کوئی مادی وجود نہیں ہے۔ سچائی یہ ہے کہ باہر کی دنیا خدا جیسے شاندار وجودکے علاوہ اور کچھ بھی نہیں“۔۴۰۲
پوری تاریخ میں اس حقیقت کو سمجھنے والوں کی تعداد ہمیشہ محدود رہی ہے۔ امام ربانی جیسے بلند پایہ دانشور نے لکھا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کو یہ حقیقت بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتاکیونکہ شاید ان کو یہ بات کبھی بھی سمجھ نہیں آتی۔ لیکن دورِ حاضر میں یہ حقیقت سائنسی ثبوت کے ذریعے واضح اور ثابت کردی گئی ہے۔ پہلی دفع مادے کے حتمی نہ ہونے اور اس کے بارے میں انسانی سوچ اور معلومات کا نہایت محدود ہونے کو ٹھوس، صاف اور واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔اسی وجہ سے ۱۲ ویں صدی ایک فیصلہ کن تبدیلی کا دور ہے جس میں لوگ جوق در جوق اس الوہی سچائی کو سمجھ لیں گے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں گے۔ ۱۲ ویں صدی میں ۹۱ ویں صدی کے مادی معتقدات تاریخ کے کچرے کے ڈھیروں کی نظر ہوجائیں گے، اﷲ کی تخلیق اور موجوگی کا اعتراف کرلیا جائے گا اور وقت اور خلا کی غیر موجودگی کا تصور بھی واضح ہوجائے گا۔ انسانیت صدیوں پرانے فریبوں، نقابوں اور توہمات سے آزاد ہوجائے گی۔مادیت جیسا کوئی بھی سایہ صفت وجود یا تصور اس ازلی اور دائمی سفر سے انسانیت کو روک نہیں سکتا۔

Hiç yorum yok:

Yorum Gönder