پانی سے زمین پر منتقلی کی کہانی
”پانی سے زمین تک“ کے فرضی مفروضے کے مطابق کچھ مچھلیوں کو زمین پر آنے کی ضرورت خوراک کے مسئلوں کی وجہ سے پیش آئی۔ اس دعوے کو ان قیاس آرائیوں پر مبنی تصاویر نے سہارا دیا ہے۔
ارتقاءپسندوں کا خیال ہے کہ سمندری غیر فقاری حیوانات جو کہ کیمبرین زمینی طبق میں ظاہر ہوتے ہیں وہ لاکھوں سال کے عرصے کے دوران مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ۔لیکن جس طرح کیمبرین غیر فقاری حیوانات کے کوئی پرکھا نہیں ہیں بالکل اسی طرح ان غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے درمیان تعلق ثابت کرنے والے وسطی نوعیت کے جانداروں کا بھی کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے درمیان زبردست ساخت کا فرق ہے۔ غیر فقاری حیوانات کے سخت ریشہ¿ لحمی ان کے جسم کے باہر ہوتے ہیں جبکہ مچھلیاں فقاری جاندار ہیں جن کے سخت ریشہ¿ لحمی ان کے جسم کے اندر ہوتے ہیں۔ غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے مابین ارتقائی عمل کا روپذیر ہونا کروڑوں مرحلوں پر مشتمل ہوگا اور اسی حساب سے کروڑوں جاندار اس عمل کو ثابت کرنے کے لئے زمین پر بھی موجود ہونے چاہئے تھے۔ ارتقاءپسند پچھلے ۰۴۱ سال سے فوصلی خطوں کی کھدائی اس امید پر کرر ہے ہےں کہ شاید ان کو کہیں سے ان تصوراتی اجسام کا سراغ مل جائے۔ ان کو لاکھوں کی تعداد میں غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے فوصل تو مل گئے لیکن ایک بھی ایسا فوصل نہیں مل سکا جو ان دونوں کے درمیان کی وسطی تدریجی شکل کہلایا جاسکے۔
ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات جیرالڈ، ٹی۔ ٹوڈ ”ہڈی والی مچھلیوں کی ابتداءاور پھیپھڑے کا ارتقائ“ کے نام سے ایک مضمون میں ملتی جلتی ہی ایک حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں:
”ہڈی والی مچھلیوں کی تینوں تقسیمات فوصلی ریکارڈ میں تقریباً ایک ہی وقت میں نمودار ہوئیں۔ یہ تینوں نامی اجسام تشکیل کے حوالے سے بالکل مختلف ہیں اور حفاظتی چادروں سے لیس ہیں۔ ان کی ابتداءکیا ہے؟ کن حالات کے تحت ان کی اتنی وسیع گروہ بندی ہوگئی؟ ان کی بھاری حفاظتی چادروں کی کیا وجہ ہے؟ اور ان کی سابقہ وسطی اشکال کا کوئی نام و نشان کیوں نہیں ہے؟“ ۸۳
ارتقائی منظر ایک قدم اور آگے جاتا ہے اور بحث کرتا ہے کہ مچھلیاں جوکہ نظریہ¿ ارتقاءکے حساب سے غیر فقاری حیوانات کی تدریجی شکل ہیں وہ بربحری حیوانات میں بھی تبدیل ہوگئیں۔ لیکن اس نظریئے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اےک بھی فوصل کسی آدھی مچھلی/ آدھی بر بحری مخلوق کا نہیں مل سکا جو کہ اس بات کی تصدیق کرسکے ۔ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ماہرِ غیر فقاری معدوم حیوانات را برٹ کےرل اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ اپنی مشہور کتاب ”فقاری معدوم حیوانات اور ارتقائ“ میں وہ لکھتا ہے:
”قدیم دور کے رینگنے والے حیوانات بربحری حیوانات سے بہت مختلف تھے اور ان کے پرکھا کا کوئی نشان نہیں مل سکا ہے۔“اپنی ۷۹۹۱ءمیں چھپنے والی نئی کتاب ”فقاری ارتقاءکے نقوش اور عمل“ میں وہ لکھتا ہے:”قدیم مچھلیوں اور بربحری حیوانات کے درمیان کے کوئی وسطی نوعیت کے فوصل دریافت نہیں ہوئے ہیں۔“ ۹۳
دوارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات کولبرٹ اور مورالس بربحری مینڈکوں ، سالامانڈر یا چھپکلی کی طرح کی بربحری دم دار مخلوق اور سائسی لین یا جل تھلی کیڑا جس کی آنکھیں ناقص ہوتی ہیں اور ہاتھ پاﺅں نہیں ہوتے پر اپنی رائے کا اظہار کرتےہیں:
”کسی بھی ایسے پیلیوزوئک بربحری حیوان کا ثبوت موجود نہیں ہے جس کا ایک مشترک پرکھا ہونے کی وجہ سے ساری خصوصیات یکجا ہوں۔ مینڈکوں، سالامانڈر اور سائسی لین کے قدیم ترین فوصل بھی دورِ حاضر کے ان جانداروں سے ہوبہو مشابہ ہیں۔“ ۰۴
۰۵ سال پہلے تک بھی ارتقاءپسندوں کو ایسے حیوان کے ملنے کی امید تھی۔ ایک تقریباً ۰۱۴ لاکھ سال پرانی کولیکانتھ نامی مچھلی کو انہوں نے مچھلی اور بربحری مخلوق کی وسطی تدریجی شکل کے طور پر پیش کیا۔ اس مچھلی میں قدیم پھیپھڑا، مکمل بھیجا، زمین کے اوپر کام کرنے کے لائق نظام انہضام اور نظام دورانِ خون اور قدیم طور پر چلنے کی صلاحیت موجود تھی۔ ۰۳۹۱ءکے آخر تک یہ تشریح الاعضاءکی تفصیل سائنسی حلقوں میں ایک بلا حجت سچ کے طور پر قبول کی جاتی رہی۔ کولیکانتھ کو پانی سے زمین پر حیوانات کی منتقلی کی حقیقتاً اصل وسطی شکل تسلیم کرلیا گیا تھا۔ لیکن ۲۲ دسمبر ۸۳۹۱ءکو بحیرہ ہند سے ایک انتہائی دلچسپ دریافت سامنے آئی۔ کولیکانتھ مچھلی کے خاندان کا ایک زندہ فرد پکڑاگیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک ایسی وسطی نوعیت کا فوصل ہے جو کہ پانی سے زمین پر منتقلی کو ثابت کرتا ہے اور ۰۷ لاکھ سال پہلے معدوم ہوچکا ہے۔کولیکانتھ کے اس زندہ نمونے نے ارتقاءپسندوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ارتقائی ماہرِ معدوم حیواناتو نباتات جے۔ایل۔ بی اسمتھ کا کہنا ہے کہ:
”اگر میں راہ چلتے ایک زندہ ڈائینوسار کو بھی دیکھ لیتا تو مجھے اس سے زیادہ حیرت نہیں ہوتی جتنی اس مچھلی کو دےکھ کر ہوئی ہے۔“ ۱۴
آنے والے وقت میں ۰۰۲ کے قریب کولیکانتھ مچھلیاں دنیا کے مختلف حصوں سے پکڑی گئیں۔ زندہ کولیکانتھ کے معائنے سے ظاہر ہوا کہ ارتقاءپسند اپنے تصوراتی نظریوں کی حقیقت کو منوانے کے لئے کس کس طرح کے قدم اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کے ہر دعوے کے برخلاف کولیکانتھ کے نہ تو قدیم پھیپھڑے تھے اور نہ ہی بڑا بھیجا۔ اس کے جس عضو کو ارتقاءپسند تحقیق دانوں نے ناپختہ پھیپھڑے کا نام دیا تھا وہ دراصل نامیات کے گھولنے کا ایک تھیلا تھا۔ ( ۲۴ )مزید یہ کہ کولیکانتھ جس کا تعارف پانی سے زمین کی طرف منتقلی کے لئے تیار حیوان کے طور پر کروایا گیا تھا دراصل ایک مچھلی ہے جو کہ سمندرکی اس قدر گہرائی میں پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی سطح سمندر سے ۰۸۱ میٹر سے کم کے فاصلے پر نہیں آئی۔
Hiç yorum yok:
Yorum Gönder