17 Mart 2016 Perşembe

چڑیوں اور ممالیہ حیوانات کا تصوراتی ارتقائ



چڑیوں اور ممالیہ حیوانات کا تصوراتی ارتقائ

پرندوں کے لئے خاص پھیپھڑے
 پرندوں کے لئے خاص پھیپھڑے پرندوں کے لئے خاص پھیپھڑے
 
پرندوں کی تشریح الاعضاءان کے ازروئے دعویٰ پرکھوں خزندوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ پرندوں کے پھیپھڑے زمین پر رہنے والے جانداروں کی نسبت مختلف طریقوں سے کام کرتے ہیں۔ زمین پر رہنے والے جاندار ایک ہی ہوا کی رگ سے اندر باہر سانس لیتے ہیں جبکہ پرندوں کے اندر ہوا پھیپھڑوں سے سامنے سے داخل ہوکر پیچھے سے خارج ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ مخصوص نظام صرف پرندوں کے لئے بنایا ہے جن کو پرواز کے دوران آکسیجن کی کثیر مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ خزندے کے پھیپھڑے سے اچانک تدریجی ترقی کے ذریعے ایسے خاص پھیپھڑے وجود میں آجانا ناممکن ہے۔
 پرندوں کے لئے خاص پھیپھڑے
نظریہ¿ ارتقاءکے مطابق زندگی کی ابتداءپانی میں ہوئی جو پھر بربحری جانوروںکے ذریعے زمین پر منتقل ہوگئی۔ یہ ارتقائی منظر یہ بھی قیاس کرتا ہے کہ ےہ بربحری حیوانات پھر رینگنے والے حیوانات میں تبدیل ہوگئے جو صرف زمین پر پائے جاتے تھے۔ یہ ایک ناممکن قیاس ہے کیونکہ پانی اور زمین پر رہنے والے جانداروں کی نسلوں کے درمیان ساخت اور حساب سے وسیع فرق ہیں۔ مثال کے طور پر بربحری جانوروں کے انڈے صرف پانی کے اندر افزائش پاسکتے ہیں جبکہ زمین پر رہنے والے جانداروں کے انڈے صرف زمین پر ہی پنپ سکتے ہیں۔ بربحری حیوانات کا کسی بھی شکل میں سلسلہ وار تدریجی عمل ناممکن ہے کیونکہ ایک صحت مند اور مکمل انڈے کے بغیر اس نسل کا زندہ رہنا ہی ناممکن ہے۔ اس معاملے کا سب سے بڑا ثبوت کسیبھی وسطی نوعیت کے جانداروں کے فوصلوں کی غیر موجودگی ہے جو کہ ان دونوں نسلوں کے درمیان کسی تعلق کو واضح کرسکیں۔ ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ماہر فقاری معدوم حیوانات رابرٹ کیرل کو مجبوراً اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ: ”قدیم رینگنے والے جانور بربحری جانوروں سے بے انتہا مختلف تھے اوران کے پرکھا ہم کو ابھی تک نہیں مل سکے ہیں۔“ ۴۴
پھر بھی ارتقاءپسندوں نے اپنی نا امیدی سے بھرپور مناظر دنیا کے سامنے پیش کرنا ختم نہیں کئے۔ ابھی تو اس ارتقائی عمل سے تبدیل شدہ مخلوقات کو ہوا میں اڑانا بھی باقی تھا۔ چونکہ ارتقاءپسندوں کا دین و ایمان مصر تھا کہ ہر جاندار کی طرح پرندے بھی کسی دوسری نسل کی ارتقائی شکل ہیں اس لئے انہوں نے فرض کرلیا کہ ہو نہ ہو یہ ضرور رینگنے والے جانواروں کی تبدیل شدہ شکل ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پرندوں کی جملہ خصوصیات جو کہ زمین پر رہنے والے جانداروں سے قطعاً مختلف ہیں ان کا جواب کسی بھی طرح کی سلسلہ وار تدریجی ترقی کس طرح دے؟۔ پرندوں کی قابل ذکر اور سب سے نمایاں خصوصیت ان کے پر ہیں جو کہ ارتقاءپسندوں کے ہر قیاس کو تعطل کا شکار کردیتی ہےں۔ ترکی کا ارتقاءپسند انگن کودر پروں کا ارتقاءکے ذریعے نموداری ناممکن ہونے کا اظہار کرتا ہے:
”آنکھوں اور پروں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دونوں اعضاءنامکمل حال میں یا معمولی سے بھی نقص کے ساتھ کام کر ہی نہیں سکتے۔ ایک نامکمل آنکھ دیکھ نہیں سکتی اور ایک نقص زدہ پروالا پرندہ اڑ نہیں سکتا۔ ان دونوں اعضاءکی ابتداءقدرت کا ایسا معمہ ہے جو کہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔“ ۵۴
پروں کی مکمل اور بہترین ساخت پے در پے بے ترتیب جینیات کے ذریعے وجود میں آنا ایک ایسی غیر منطقی بات ہے جس کو آج تک دماغ قبول نہیں کرسکا۔ دورِ حاضر کی جدید سائنسی تحقیق خاص طور پر اس منظر کو نہایت مضحکہ خیز بنادیتی ہے۔گو کہ جینیات کی اتفاقاً بدہیئتی کے سبب رینگنے والے جانوروں کے آگے کے دو بازوﺅں کو بہترین کارکردگی کے متحمل پروں میں تبدیل ہوجانے کے خیال کو ارتقاءپسندوں کی عقل بھی نہیں مانتی لیکن وہ پھر بھی اپنے عقیدے میں پکے اور ضد میں ہٹ دھرم ہیں۔
مزےد ےہ کہ زمین پر بسنے والے کسی بھی حےوان کے اڑنے کے لئے صرف پروں کا ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ زمین کے جانوروں میں ساخت کے اعتبار سے کئی چیزوں کی کمی ہوتی ہے جو کہ پرندوں میں موجود ہیں۔مثلاً پرندوں کی ہڈیاں ہلکی ہوتی ہیں اور ان کے پھیپھڑوں کا نظام بھی مختلف ہوتا ہے۔ ان کا عضلاتی نظام، تشریح الاعضا اور نظام دورانِ خون بھی مخصوص ہوتا ہے۔ یہ تمام خصوصیات اڑان کے لئے اتنی ہی ضروری ہیں جتنے کہ پر۔ پرندے کی اڑان کے لئے ان تمام پرزوں کا مکمل اور ایک ہی وقت میں موجود ہونا لازمی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ایک پرزہ ایک وقت میں ارتقائی عمل سے وجود میں آئے اور دوسرا کوئی پرزہ لاکھوں سال بعد وجود میں آئے اور پرندہ پھر بھی اڑنے کے قابل رہا ہو۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں زمین کے جانداروں کا ہوائی جانداروں میں تبدیل ہوجانے والا ہر نظریہ انتہائی مغالطہ آمیز ثابت ہوتا ہے۔ ذہن میں پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ اگر اس فرضی کہانی کو درست مان بھی لیا جائے تو ارتقاءپسندوں کو آج تک کسی آدھے پر یا ایک پروالی مخلوق کا فوصل کیوں نہیں مل سکا جو کہ ان کی کہانیوں کی تصدیق کرسکے؟

ایک اور ازروئے دعویٰ شکل: آرکیوپیٹیرکس

اےک ازروئے دعویٰ شکل کے طور پر ارتقاءپسند آرکیوپیٹیرکس نامی پرندے کا فوصل پیش کرتے ہیں جس کا شمار ان تھوڑی سی مخلوقات میں ہوتا ہے جن کی حمایت ارتقاءپسند آج بھی وسطی نوعیت کی شکل کے طور پر کرتے ہیں۔ دورِ حاضر کے پرندوں کا یہ نام نہاد پرکھا آرکیوپیٹیرکس ارتقاءپسندوں کے حساب سے تقریباً ۰۵۱ لاکھ سال پہلے زندہ تھا۔ اس نظریئے کے تحت کچھ نسبتاً چھوٹے ڈائناسار مثلاً ویلاسیریٹار اور ڈورمیوسار نے تدریجی عمل کے ذریعے پر حاصل کرلئے اور اڑنے لگے۔ آرکیوپیٹیرکس انہیں اڑنے والے ڈائناسار کی تدریجی شکل خیال کئے جاتے ہیں۔ ان کے پرکھا یہ ڈائناسار تھے جو اچانک پر اگ آنے کی وجہ سے اڑنے لگ گئے لیکن حالیہ تحقیق اس کے بالکل برعکس منظر پیش کرتی ہے۔ آرکیوپیٹیرکس کے فوصلوں کے معائنے نے ثابت کیا ہے کہ یہ مخلوق کسی بھی دوسری نسل کی تدریجی شکل ہرگز نہیں ہے بلکہ پرندوں کی ایک معدوم شکل ہے جس کے اور دورِ حاضر کے پرندوں کے درمیان غیر اہم فرق ہے۔
ارتقاءپسند حلقوں میں یہ مقالہ بہت لمبے عرصے تک مقبول رہا کہ آرکیوپیٹیرکس ایک پرندہ نما مخلوق تھی جو کہ صحیح طور پر اڑنے سے بھی قاصر تھی۔ اس مخلوق میں سینے کی ہڈی کی غیر موجودگی اس ارتقائی دعوے کو ہوا دیتی تھی کہ یہ پرندہ صحیح سے اڑنہیں سکتا تھا۔ سینے کی ہڈی گلے اور پیٹ کے بیچ میں واقع ہوتی ہے جس کے ساتھ اڑنے میں مدد دینے والے عضلاتی عضو جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ دورِ حاضر میں یہ ہڈی تمام اڑنے اور غےر اڑنے والے پرندوں میں موجود ہوتی ہے حتیٰ کہ یہ ہڈی چمگادڑوں میں بھی موجود ہوتی ہے جو کہ گو اےک اڑنے والا ممالیہ جانور ہے پر اس کا خاندان پرندوں سے مختلف ہے۔لےکن
پرندوں کے پر: ایسا نقشہ جس کی وضاحت ارتقاءکرنے سے قاصر ہے۔
گو کہ نظریہ¿ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ پرندے خزندوں کی تدریجی شکل ہیں لیکن پھر بھی وہ جانداروں کی ان دو مختلف جماعتوں کے درمیان فرق کرنے میں ناکام ہے۔ پرندے اپنے ڈھانچوں کی ساخت ، پھیپھڑوں کے نظام اور گرم خون تحول کے اعتبار سے خاص طور پر خزندوں سے مختلف ہیں۔ ایک اور خصوصیت جوکہ پرندوں اور خزندوں کے درمیان ناقابل عبور فاصلہ پیداکرتی ہے وہ پرندوںکے پر ہیں۔خزندوں کے جسم کھپروں سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں اور پرندوں کے جسم پر پر ہوتے ہیں ۔چونکہ ارتقاءپسند یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خزندے پرندوں کے پرکھا ہیں اس لئے وہ اس بات کا اعتراف کرنے پر بھی مجبور ہیں کہ پرندوں کے پر ان کھپروں سے ارتقائی عمل سے وجود میں آئے ۔لیکن کھپروں اورپروں کے بیچ کوئی مشابہت نہیں ہے۔یونیورسٹی آف کنکٹیکٹ کا طبیعیات اوراعصابی حیاتیات کا پروفیسر اے۔ ایچ برش ارتقاءپسند ہونے کے باجود اس حقیقت کو قبول کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے:
”پرندوں اور کھپروں میں جینیات سے لے کر ساخت، ترتیب، نشوونما، شکل گری اور ریشہ لحمی کی تنظیم تک ہر خاصیت مختلف ہے۔“ ۱
اس کے علاوہ پروفیسر برش نے پروں میں لحمیوں کی ساخت کی تحقیق کے بعد اصرار کیا ہے کہ یہ لحمئے فقاری جانوروں کی کسی اور جماعت میں پائے نہیں جاتے اور بہت خاص ہیں۔۲
پروں کا کھپروں کی تدریجی شکل ہونے کا کوئی فوصلی ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے برخلاف پر فوصلی ریکارڈ میں اچانک نمودا ہوتے ہیں اور پرندوں کی نسل کی وضاحت کی ایک ناقابل تردید خاصیت ہیں جیسے کہ پروفیسر برش کہتا ہے۔(۳) اس کے علاوہ خزندوں میں ابھی تک ایسی کسی بھی برادمی ساخت کی تشخیص نہیں ہوسکی ہے جوپروں کی ابتداءکا ثبوت بن سکے۔۴
۶۹۹۱ءمیں ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات نے شور اٹھایا کہ ان کو ایسے ڈائناسار کے آثار ملے ہیں جس کے پر بھی تھے۔ اس کا نام سائنوسوروپیٹرکس رکھا گیا۔لیکن ۷۹۹۱ءمیں مزید تحقیق سے ظاہر ہوا کہ ان فوصلوں کا پرندوں سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ پر دورِ حاضر کے پرندوں کے پر نہیں تھے۔۵
اگر پرندوں کے پروں کا قریب سے معائنہ کیا جائے تو ایساپیچیدہ نقشہ سامنے آتا ہے جس کی وضاحت کسی بھی طرح کا ارتقائی عمل نہیں کرسکتا۔ مشہور ماہرِ طہوریات ایلن فیڈوشا کہتا ہے ”پرندوں کی ساخت کے ہر پہلو میں ہوائی حرکت کی مہارت واضح ہے۔ یہ بہت ہلکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے با آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچ سکتے ہیں۔ مجھے یہ بالکل سمجھ میں نہیںآتاکہ اڑان کے لئے بنایا گیا یہ بہترین عضو کسی دوسرے عضو کی تدریجی شکل کس طرح ہوسکتا ہے۔“ ۶
 پرندوں کے لئے خاص پھیپھڑے
اگر پرندے کے پروں کا تفصیلی معایُنہ کیا جاےُ تو پتا چلتا ہے کہ یہ پر ہزاروں باریک ڈوریوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے کنڈوں کے ذریعے جڑی ہوتی ہیں، یہ منفرد نقشہ پرندوں کی بہترین اڑان کا سبب ہے،
پروں کے اس بہترین نقشے نے چارلس ڈارون کو بھی سوچ میں ڈال دیا تھا۔ بلکہ تیہو کے پروں کے مکمل حسن نے تو اس کو ا س کے اپنے الفاظ میں ”اختلاج“ کا شکار کردیا تھا۔ ۳ اپریل ۰۶۸۱ءکو اسا گرے کو لکھے جانے والے خط میں ڈارون کہتا ہے:
”مجھ کو وہ وقت بخوبی یاد ہے جب آنکھ کے تصور سے مجھے ٹھنڈے پسینے چھوٹ گئے تھے لیکن میں شکایت کے اس دور سے باہر نکل آیا ہوں۔ اب ساخت کی بظاہر غیر اہم تفصیلات کی سوچ مجھے بے طرح بے چین کئے رکھتی ہے۔ مور کی دم کا ایک پربھی مجھ پر اختلاج کی کیفیت طاری کرنے کے لئے کافی ہے۔“ ۷
اگر پرندوں کے پروں کا تفصیلی معائنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پر ہزاروں گھونگروں سے بنے ہوتے ہیں جوکہ ایک دوسرے سے کانٹوں کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ ساخت کا یہ خاص نقشہ ان کی بہترین ہوائی کارکردگی کی وجہ ہے۔

A-H Brush, “On the Origin of Feathers”. JouRNAl of Evolutionary Biology, Vol. 9, 1996, p. 132----1
A.H Brush, “On the Origin of Feathers”, p. 131-----2
Ibid.----3
Ibid.----4
“Plucking the Feathered Dinosaur”, Science, Vol. 278, 14 November 1997, p. 1229-----5
Douglas Palmer, “Learning to Fly” (Review of the Origin of and Evolution of Birds by Alan Feduccia, Yale-----6 University Press, 1996), New Scientist, Vol. 153, March 1, 1997, p. 44
Norman Macbeth, “Darwin Retried: An Appeal to Reason”, Boston, Gambit, 1971 p. 101-----7
۲۹۹۱ءمیں ساتواں آکیوپیٹیرکس کا فوصل برآمد ہوا جس نے ارتقائی دائروں میں سخت حیرانی کی لہر دوڑادی۔ اس نمونے میں سینے کی وہ ہڈی موجود تھی جس کو اب تک غیر موجود تصور کیا جاتارہا تھا۔ رسالہ ”نےچر“ اس فوصل پر یوں تبصرہ کرتا ہے:
”آرکیوپیٹیرکس کا حال ہی میں ملنے والے ساتویں نمونے میں کسی حد تک ایک مستطیل سینے کی ہڈی موجود ہے جس کے بارے میں شک تو کافی عرصے سے تھا مگر جس کا ذکر پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ اس ہڈی کا موجود ہونا اس پرندے کے اندر مضبوط اڑنے والے عضلات کی موجودگی کی نشاندہی کرتی ہے۔“ ۶۴
اس دریافت نے آرکیوپیٹیرکس سے متعلق اڑنے کی صلاحیت سے قاصر آدھا پرندہ ہونے کے تمام دعوﺅں کو زمین بوس کردیا۔ اس ہڈی کے علاوہ اس پرندے کے پروں کی ساخت بھی اس کا اےک اڑنے والا پرندہ ہونے کے ثبوت کااہم حصہ تھی۔ آرکیوپیٹیرکس کی غیر متناسب پروں کی ساخت دورِ حاضر کے پرندوں کے پروں کی ساخت سے ناقابل امتیاز ہے اور اس مےں بہترین اڑان کی صلاحیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ نامور ماہر معدوم حیوانات و نباتات کارل او۔ڈنبار کہتا ہے ”اپنے پروں کی وجہ سے آرکیوپیٹیرکس خاص طور پر ایک پرندے کا درجہ رکھتا ہے۔“ ۷۴
آرکیوپیٹیرکس کے پروں کی ساخت کے معائنے سے اس کے گرم خونی تحول کی صفت سامنے آئی ہے جبکہ رینگنے والے جانور اور ڈئناساروں کا شمار ٹھنڈے خون والے جانوروں میں ہوتا ہے جن کے جسم کی حرات کا انحصار اعضائی جسم کے عمل پر نہیں بلکہ ماحولیاتی اثرات پر ہوتا ہے۔ پرندوں میں پروں کی ایک نہایت اہم خصوصیت جسم کی حرارت کو معتدل رکھنا ہے۔ آکیوپیٹیرکس میں پروں کی موجودگی اس کے ایک گرم خون رکھنے والے پرندے کی حقیقت کو مزیدواضح کردیتی ہے جو کہ ڈائناسار کے برعکس اپنے پروں کو جسم کی حرارت معتدل رکھنے کے لئے استعمال کرتا تھا۔

آرکیوپیٹیرکس کے دانت اور پنجوں کے بارے میں ارتقاءپسندوں کے قیاس

velociraptor
ارتقاءپسندوں کے حساب سے ویلیو سیریپٹرز اور ڈرومیوسار جیسے چھوٹے ڈائنا سار ارتقائی عمل سے پر حاصل کرنے کے بعد اڑنا شروع ہوگئے۔ اسی طرح ان کا قیاس ہے کہ آرٹیوپٹیر کس بھی ڈائناسار پرکھوں سے تدریجی عمل کے ذریعے پر حاصل کرنے کی بناءپر اڑنا شروع ہوگیا۔ یہ خیالی حکایت تقریباً ہر ارتقائی کتاب میں موجود ہے۔
ارتقاءپسند ماہرِ حیاتیات جب آرکیوپیٹیرکس کا ایک وسطی نوعیت کی مخلوق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان کے پاس دو اہم نقطے اس پرندے کے پروں پر موجود پنجے اور اس کے دانت ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ آرکیوپیٹیرکس کے پروں پر پنجے اور اس کے منہ میں دانت تھے لیکن یہ اس بات کو ہرگز ثابت نہیں کرتے کہ یہ پرندہ رینگنے والے کسی بھی حیوان کا ہم رشتہ ہے۔ دورِ حاضر میں موجود پرندوں کی دو نسلوں ٹاﺅراکو اور ہیوٹزن کے بھی پنجے ہیں جس سے ان کو شاخوں کو پکڑنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ پرندے مکمل پرندے ہی ہیں جن کے اندر رینگنے والے جانوروں کی ایک بھی صفت موجود نہیں ہے۔ اس لئے اس بات کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ آرکیوپیٹیرکس محض اپنے پنجوں کی وجہ سے اےک وسطی تدرےجی جاندار ہے۔ اسی طرح اس کیچونچ کے اندر موجود دانت بھی اس کو تدریجی شکل ثابت نہیں کرتے۔
ارتقاءپسند ایک جانی بوجھی چال کے تحت دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دانت رینگنے والے جانداروں کے دانت سے مشابہ ہیں ۔ دانت دراصل صرف رینگنے والے جانداروں کا ہی خاصہ نہیں ہوتے ۔ اسی لئے اس دعوے کو ثابت کرنا بے انتہا مشکل ہوجاتا ہے۔ دورِ حاضر میں کچھ رینگنے والے جانوروں کے دانت ہوتے ہیں اور کچھ کے نہیں ہوتے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرچہ دورِ حاضر میں بے شک کوئی دانت والا پرندہ موجود نہیں ہے لیکن اگر فوصلی ریکارڈ کا معائنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آرکیوپیٹیرکس کے دور میں اور اس کے بعد کے زمانے میں بھی پرندوں کی ایک خاص نسل موجود تھی جس کو دانتوں والے پرندوں کی نسل کہا جاسکتا ہے۔
اس تمام معاملے میں سب سے ضروری نقطہ تو یہ ہے کہ آرکیوپیٹیرکس کے دانتوں کی اور دوسرے پرندوں کی دانتوں کی ساخت ان کے ازروئے دعویٰ پرکھا ڈائناسار سے بالکل مختلف تھی۔ جانے پہچانے ماہر طیوریات ایل۔ ڈی۔ مارٹن، جے۔ ڈی۔ اسٹوارٹاور کے۔ این۔ ویٹ اسٹون کے معائنے کے مطابق آرکیوپیٹیرکس اور اس کی طرح کے دوسرے پرندوں کے دانتوں کی سطح ہموار اور جڑیں بڑی تھیں۔ اس کے برعکس گرگٹی ڈائناساروں کے دانت پتلی جڑوں والے ابھرواں تھے۔ ان ڈائناساروں کو ان پرندوں کا پرکھا تصور کیا جاتا ہے۔ ۸۴ ان تحقیق دانوں نے آرکیوپیٹیرکس اور ان ڈائناساروں کی کلائیوں کی ہڈیوں کا بھی موازنہ کیا اور ان کو ان دونوں کے بیچ کسی قسم کی مماثلت نہیں مل سکی۔ ۹۴ ماہرِ تشریح الاعضاءایس ٹارسیٹانو، ایم۔ کے۔ ہکٹ اور اے۔ ڈی۔ والکر کی تحقیقات نے ظاہر کیا ہے کہ جان آسٹروم اور اس جیسے دوسرے سائنسدانوں نے آرکیوپیٹیرکس اور ڈائناساروں کے درمیان جن مشابہتوں کو تلاش کیا تھا وہ درحقیقت ایک غلط تشریح کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھی۔۰۵ یہ تمام تحقیقات واضح کرتی ہیں کہ آرکیوپیٹیرکس ارتقاءکی کوئی وسطی تدریجی کڑی نہیں بلکہ صرف ایک ایسا پرندہ ہے جس کا شمار دانت والے پرندوں کے گروہ میں ہوتا ہے۔
archaeopteryx
آرکےوپٹےرکس کے اندر اےک عام پرندے کی ہر خاصیت موجود ہے۔
۱۔ اس کے پر ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایک اڑان کے لائق گرم خون مخلوق ہے۔
۲۔ دورِ حاضر کے پرندوں کی طرح اس کی ہڈیاں بھی کھوکھلی ہیں۔
۳۔ ان کے اندر دانتوں کی موجودگی ان کا خزندوں کا رشتہ دار ہونا ثابت نہیں کرتیںکیونکہ تاریخ میں دانت والے کئی پرندوں کے نشان موجود ہیں۔
۴۔ حال میں موجود کئی پرندوں کے پروں پر ان قدیم پرندوں کی طرح پنجے موجود ہیں۔
۵۔ حال میں دریافت ہونے والا آرکیوپٹیرکس کے ساتویں فوصل میں سینے کی ہڈی موجود تھی۔ اس ہڈی سے ثابت ہوتا ہے کہ دورِ حاضر کے پرندوں کی طرح آرکیوپٹیرکس کے اندر بھی اڑان کے مضبوط عضلات موجود تھے۔

آرکیوپیٹیرکس اور دوسرے پرندوں کے فوصل

اس بات کے باوجود کہ ارتقاءپسندکئی دہائیوں سے آرکیوپیٹیرکس کا شمار پرندوںکے ارتقاءکے سب سے اہم ثبوت میں کرتے رہے لےکن کچھ حال ہی میں ملنے والے فوصل اس سارے منظر کی نام نہاد سچائی کو ناکارہ قراردے دیتے ہیں۔
۵۹۹۱ءمیں چین کے فقاری معدوم حیوانات و نباتات کے ادارے کے دو ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور لیانہائی ہو اور زونگی زو نے ایک نئے پرندے کا فوصل دریافت کیا جس کا نام انہوں نے کونفیوسیوسارنس رکھا۔ یہ فوصل آرکیوپیٹیرکس کی طرح ہی ۰۴۱ سال پرانا ہے لیکن اس کے منہ میں دانت نہیں ہےں۔ اس کے علاوہ اس کی چونچ اور پروں کی خصوصیات دورِ حاضر کے پرندوں کے عین مشابہ ہےں۔ کونیفیوسیوسارنس کا ڈھانچا بھی دورِ حاضر کے پرندوںکی طرح ہے اور اس کے پروں پر آرکیوپیٹیرکس کی طرح پنجے موجود ہیں۔ پرندوں کی ساخت کی ”پائگواسٹائل“ نامی خصوصیات بھی کونیفیوسیوسارنس میں موجود ہے جس کے تحت اس کے دم کے پروں کو بھی ساخت کا سہارا ہوتا ہے۔ مختصراً یہ کہ آرکیوپیٹیرکس کی عمر کا یہ فوصل دورِ حاضر میں موجود پرندوں سے بہت حد تک مشابہ ہے۔ اس نئے فوصل کے سامنے آنے سے وہ تمام ارتقائی مقالے ناکارہ ہوجاتے ہیں جو کہ آرکیوپیٹیرکس کو قدیم ترین رینگنے والے جانور کی تدریجی عمل سے تبدیل شدہ پرندہ اور تمام پرندوں کا پرکھا قراردیتے تھے۔
confuciusornis
کونفیوسیوسارنس نامی پرندہ کی عمر آرکیوپٹیرکس جتنی ہے،
چین سے دریافت ہونے والے ایک اور فوصل نے ارتقائی حلقوں میں اس فوصل سے بھی بڑھ کر الجھن اور پریشانی پھیلادی۔ نومبر ۶۹۹۱ءمیں رسالہ ”سائنس“ میں ایل۔ہو، ایل۔ ڈی۔ مارٹن اور ایلن فیڈوشا نے ایک ۰۳۱ لاکھ سال پرانے پرندے کی موجودگی کا اعلان کیا۔ اس پرندے کا نام لیاﺅننگورنس ہے اور اس کے اندر ایک واضح سینے کی ہڈی موجود ہے جس سے اڑنے والے عضلات بالکل اسی طرح جڑے ہوئے ہیں جس طرح دورِ حاضر کے پرندوں میں موجود ہیں۔ یہ پرندہ جدید پرندوں سے دوسرے اعتبار سے بھی ناقابل امتیاز ہے۔ ان کے درمیان واحد فرق آرکیوپیٹیرکس کے منہ کے دانت ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہی کہ ارتقاءپسندوں کے دعوﺅں کے برخلاف دانتوں والے پرندے قدیم جسمانی ساخت کے حامل ہرگز نہیں تھے۔ ۲۵ رسالہ ”ڈسکوور“ کے ایک مضمون کے مطابق ”پرندوں کی ابتداءکیا ہے؟ یہ فوصل تجویز کرتا ہے کہ ان کی ابتداءکم از کم ڈائناسار خاندان تو ہرگز نہیں ہے۔‘ ۳۵
ایک اور فوصل جو کہ آرکیوپیٹیرکس کے متعلق ارتقاءپسندوں کے ہر دعوے کی تردید کرتا ہے وہ ایوالولاوس نامی پرندے کا فوصل ہے جس کے پروں کی ساکت آرکیوپیٹیرکس کے پرندوں کی ساخت سے ۵۲ سے ۰۳ سال جوان ہے۔ پروں کی یہ مخصوص ساخت دورِ حاضر کے آہستہ اڑنے والے پرندوں سے مشابہ ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۰۲۱ لاکھ سال پہلے آسمانوں پر جو پرندے اڑرہے تھے وہ دورِ حاضر کے پرندوں سے ناقابل امتیاز ہیں۔ یہ تمام حقائق آکیوپیٹیرکس اور اس ہی کی عمر کے قدیم پرندوں کے وسطی اشکال ہونے کے دعوے کے خلاف جاتے ہیں۔ فوصل بھی صاف ظاہر کرتے ہیں کہ پرندوں کی مختلف نسلیں کسی بھی جاندار کی تدریجی شکل نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی ابتداءارتقاءکے ذریعے ہوئی ہے۔ فوصلی ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ دورِ ہاضر کے کچھ پرندے اور آرکیوپیٹیرکس اور اس ہی کی وضع کے دوسرے قدیم پرندے ماضی میں ایک ہی وقت پر موجود رہے تھے۔ البتہ آرکیوپیٹیرکس اور کونفیوسیوسارنس معدوم ہوگئے ہیں جبکہ ُاس دور کے پرندوں کی کچھ نسلیں دورِ حاضر میں بھی موجود ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ آرکیوپیٹیرکس کی کئی خصوصیات سے صاف ظاہر ہے کہ ےہ کسی بھی جاندار کی تدریجی شکل نہیں ہےں۔ اس پرندے کا جملہ تشریح الاعضا جمود کو ظاہر کرتا ہے، ارتقاءکو نہیں۔ ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات رابرٹ کیرل اعتراف کرتا ہے کہ:
”آرکیوپیٹیرکس کے اڑنے کے پروں کی اقلیدسی جدید پرندوں کے مشابہ ہے جبکہ بغیر اڑنے والے پرندوں کے بے ترتیب پر ہوتے ہیں۔ اس پرندے کے پروں کی ترتیب بھی دورِ جدید کے پرندوں کی حدود میں آتی ہے۔ وین ٹائن اور برگر کے حساب سے آوکیوپیٹیرکس کے پروں کی پیمائش اور نقشہ ان پرندوں سے مشابہ ہے جو کہ پودوں اور جھاڑیوں کی مخصوص جگہوں پر بھی اڑنے کے قابل ہوتے ہیں مثلاً گھریلو مرغیاں، تیتر، بٹیر، فاختہ، ہدہد اور عام گھریلو چڑیاں ۔اڑان کے یہ پرکم از کم پچھلے ۰۵۱ لاکھ سال سے جمودی حالت میں ہیں۔“ ۵۵
دوسری طرف ’ارضی متضاد خیالات پر مبنی دعویٰ ‘ بھی آرکیوپیٹیرکس سے متعلق ارتقائی الزام دہی کے لئے مہلک وار ہے۔جاناتھن وےلز نے اپنی کتاب ’ارتقائی مقدس شخصےات‘ مےںآرکےوپےٹےرکس کا نظریہ¿ ارتقاءکی بدولت ایک مقدس شخصیت کے حامل ہونے کا ذکر کیا ہے حالانکہ ثبوت صاف بتاتا ہے کہ یہ مخلوق دورِ حاضر کے پرندوں کا قدیم پرکھا نہیں ہے۔ ویلز کے مطابق اس ثبوت کی ایک کڑی تو یہ ہے کہ آرکیوپیٹیرکس کے خیال کئے جانے والے پرکھا تھیراپوڈ ڈائناسار کی عمر آرکیوپیٹیرکس سے بھی کم ہے۔ یہ ڈائناسار دو ٹانگوں پر رینگنے والی مخلوق تھی جو زمین پر دوڑتی تھی اور اس میں مزید کچھ اور بھی خصوصیات موجود تھیں جو کہ آرکیوپیٹیرکس کا پرکھا ہونے کے ناطے گوکہ ان میں موجود ہونی چاہئے تھیں مگر کافی عرصے بعد نمودار ہوئیں۔“ ۶۵

چڑیا اور ڈائناسار کے درمیان تصوراتی کڑی

feduccia
ارتقاءپسند جب آکیوپٹیرکس کو پرندوں کی وسطی شکل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو ان کا بنیادی دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ پرندے ڈائناسار کی ارتقائی شکل ہیں۔ لیکن دنیا کے مشہور ترین ماہر طہوریات امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنہ کا ایلن فیڈوشا ، باوجود اےک کٹر ارتقاءپسندہونے کے ،اس نظریئے کی مخالفت کرتا ہے کہ پرندے ڈائناسار کے رشتہ دار ہیں۔ رینگنے والے جانور اور پرندوں کے مقالے سے متعلق فیڈوشا کہتا ہے:
”میں ۵۲ سالوںسے پرندوں کی کھوپڑیوں کا مطالعہ کر رہاہوںاور مجھے ان میں (اور ڈائناسار میں) کسی بھی قسم کی یکسانیت قطعاً نظر نہیں آتی۔ میری رائے میں پرندوں کی ڈائناسار کے ذریعے ابتداءکا قےاس بیسویں صدی کی علمِ معدوم حیوانات و نباتات کے لئے ایک زبردست شرمندگی ہے۔“ ۷۵
یونیورسٹی آف کینساس کے قدیم پرندوں کا ماہر لیری مارٹن بھی اس نظریئے سے اختلاف کرتا ہے کہ ڈائناسار پرندوں کے پرکھا ہیں۔ اس معاملے میں ارتقائی تضاد کے موضوع پر وہ کہتا ہے:
”سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی مجھے اس نظریئے کی حمایت کرنے کے لئے کہے کہ ڈائناسار اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ پرندوں کا پرکھا ہے تو مجھے ہر دفعہ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے شدےد شرمندگی ہوگی۔“ ۸۵
خلاصہ یہ کہ پرندوں کی ارتقائی کہانی جس کی بنیاد آرکیوپےٹےرکس کو بنایا گیا ہے دراصل ارتقاءپسندوں کے تعصب اور خام خیالی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

ممالیہ جانوروں کی ابتدائ

جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءکے مطابق سمندر سے نکلنے والی کچھ تصوراتی مخلوق رینگنے والے حیوانات میں تبدےل ہو گئی اور پرندے انہی رینگنے والے حیوانات کی ارتقائی شکل ہیں۔ اس نظریئے کے مطابق رینگنے والے حیوانات نہ صرف پرندوں کے رکھا ہیں بلکہ ممالیہ جانوروں کے بھی یہی پرکھا ہیں حالانکہ ان دونوں جماعتوں کے بیچ وسیع اختلافات ہیں۔ ممالیہ جانور گرم خون کے جانور ہوتے ہیں جس کا مطب ہے کہ وہ نہ صرف اپنے جسم کی حرارت خود پیدا کرسکتے ہیں بلکہ یہ اس حرارت کو معتدل سطح پر رکھنے کے بھی اہل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ممالیہ جانور زندہ بچے جنتے ہیں، اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں اور ان کے جسم بالوں یا لپشم سے ڈھکے ہوتے ہیں۔اس کے برعکس رینگنے والے جانور ٹھنڈا خون رکھتے ہیں ےعنی وہ اپنے جسم کی حرارت پیدا نہیں کرسکتے اور ان کے جسم کے درجہ حرارت کا انحصار بیرونی درجہ حرارت کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ انڈے دیتے ہیں، اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتے اور ان کے جسم کھپروں سے ڈھکی ہوتے ہیں۔
مکھیوں کی ابتداءکیا ہے؟
مکھیوں کی ابتداءکیا ہے؟
ارتقاء کے خیالی منظر نامے کی ایک مثال : مکہیاں پکڑنے کی کوشش میں ڈایُنوساروں کے پر اگ آےُ !
ارتقاءپسند اپنے ڈائناساروں کو پرندوں کے اندر تبدیل ہونے کے دعوے کو یہ کہہ کر سہارادیتے ہیں کہ وہ ڈائناسار جوکہ اپنے آگے کی ٹانگوں کو پھڑپھڑاکر مکھیوں کا شکار کرتے تھے وہ اس حرکت سے اچانک ہی اڑنے لگ گئے جس طرح کہ تصویر میں نظر آرہا ہے۔ اس نظریئے میں کسی بھی طرح کی سائنسی بنیاد مفقود ہونے سے اس کا ایک خیالی کہانی ہونا صاف ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ اس نظریئے کے اندر ایک اور عدم توافق موجود ہے۔ اڑان کی ابتداءکو بیان کرنے کے لئے ارتقاءپسند جو مثال پیش کرتے ہیں اس میں خود تضاد ہے کہ مکھیوں کے اندر پہلے سے ہی اڑنے کی بہترین صلاحیت موجود ہے۔ ایک انسان اپنی آنکھوں کو ایک سیکنڈ میں ۰۱ دفعہ ہی کھول بن کرسکتا ہے جبکہ ایک عام مکھی ایک سیکنڈ میں اپنے پر ۰۰۵ دفعہ پھڑپھڑاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے دونوں پروں کو بیک وقت ہلاتی ہے۔ اس کے پروں کی ہلکی سی بھی بدآہنگی اس کے توازن پر اثر انداز ہوسکتی ہے لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا۔
ارتقاءپسندوں کے لئے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا لازمی ہے کہ مکھی نے اڑان کی یہ مہارت کس طرح حاصل کی۔ لےکن اس کے بجائے وہ خزندوں جیسی بے ڈھنگی مخلوق کی اڑان کے بارے میں خیالی منظر نامے گھڑنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک عام گھریلو مکھی کی مکمل تخلیق بھی ارتقاءکے ہر دعوے کی تردید کرتی نظر آتی ہے۔ انگریزی ماہرِ حیاتیات رابن ووٹن اپنے ایک مضمون ”مکھی کے پروں کا میکانیکی نقشے“ میں لکھتا ہے:
”اڑنے والے حشروں کے پروں کے طریقہ¿ عمل کو جیسے جیسے بہتر طور پر سمجھا جا رہاہے اتنی ہی ان کے نقشے کی خوبصورتی واضح ہوتی جا رہی ہے۔روایتی طور پر ساخت کم سے کم بدشکلی کا شکار ہوتی ہے اور میکانیکی عمل پرزوں کو توقع کے حساب سے ہلاتا جاتا ہے ۔لیکن اڑنے والے حشروں کے پر دونوں طرح کی صورتحال کو یکجا کردیتے ہیں۔ ان کے اعضاءلچکدار خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ نہایت خوش وضع طریقے سے تشکیل دیئے گئے ہوتے ہیں جس کی بدولت مناسب قوت کے جواب میں وہ تبدیل بھی ہوسکتے ہےں اور ہوا کا بہترین استعمال بھی کرسکتے ہےں۔ شاید ہی کوئی اور ساخت ان کا ثانی ہے“۔۱
دوسری طرف آج تک ایک بھی فوصل ایسا نہیں ملا جو کہ مکھیوں کے خیالی ارتقاءکا ثبوت ہو۔ نامور فرانسیسی ماہرِ حیوانیات پیرگرا سے کہتا ہے کہ ”کیڑے مکوڑوں کی ابتداءکے متعلق ہم آج تک اندھیرے میں ہیں۔“۲
Robin J. Wootten, “The Mechanical Design of Insect Wings”, Scientific American, v. 263, Nov.1990, p. 120----1
Pierre Grasse, “Evolution of Living Orgnanisms”, New York Academic Press, 1977, p. 30- ---2
رینگنے والے اور ممالیہ جانداروں کے درمیان ساخت کاایک فرق ان کے جبڑوں میں نمایاں فرق ہے۔ ممالیہ جانوروں کا نچلا جبڑا صرف ایک ہڈی پر مشتمل ہوتا ہے جس کے اندر دانت ہوتے ہیں جبکہ رینگنے والے جانوروں کے نچلے جبڑے کے دونوںطرف تین چھوٹی ہڈیاں ہوتی ہیں۔ ساخت کا ایک اور فرق یہ ہے کہ تمام ممالیہ جانوروں کے کان کے وسطی حصے میں تین ہڈیاں ہوتی ہیں جبکہ رینگنے والے جانوروں کے کان کے بیچ میں ایک ہی ہڈی ہوتی ہے۔ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے کہ رینگنے والے جانوروں کا جبڑا اور وسطی کان ممالیہ جبڑے اور کان سے بدل گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہڈی والا کان تین ہڈی والے کان میں کس طرح تبدیل ہوگیا؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اور یہ بات بھی عقل سے بالاتر ہے کہ ان تمام تبدیلیوں کے دوران سننے کی طاقت پھر بھی کیسے برقراررہی؟ اسی لئے کسی ایک بھی اےسے فوصل کی غیر موجودگی حیرت کی بات نہیں جو کہ رینگنے والے جانوروں اور ممالیہ جانوروں کے مابین رشتے کی نشاندہی کرسکیں ۔اسی لئے ارتقائی سائنسی مصنف راجر لوان کو مجبوراً یہ بات کہنی پڑی کہ: ”پہلے ممالیہ جانور تک منتقلی جو کہ ایک یا زیادہ سے زیادہ دو شجرہ¿ نسبوں میں ہوئی ابھی تک ایک حیران کن واقعہ ہے۔“ ۹۵
جارج گیلارڈ سمسن کا شمار معروف ارتقائی ہستیوں میں ہوتا ہے اور یہ نوڈاروینیت کے نظریئے کا ایک بانی بھی ہے۔ ارتقاءپسند اس پریشان کن واقعہ سے جس مشکل کا شکار ہوگئے ہیں اس کے بارے میں وہ کہتا ہے:
”زمین کے اوپر زندگی کی تاریخ کا سب سے حل طلب مسئلہ میسوزوئک دور اور رینگنے والے جانوروں کی دور سے ممالیہ جانوروں کے دور میں منتقلی ہے۔یہ منظر اس طرح ہے کہ جس طرح کسی اےسے اسٹیج پر اچانک پردہ گرادیا جائے جس کے تمام اہم کردار رینگنے والے جانور ہوں بلکہ خاص طور پر وسیع تعداد اور انواع و اقسام کے ڈائناسار ہوں اور پھر اچانک پردہ اٹھادیا جائے اور اسی پس منظر کو نئے کرداروں کے ساتھ پیش کیا جائے جن میں ڈائناسار بالکل موجود نہ ہوں، سارے رینگنے والے جانور خاموش اداکار ہوں اور سارے اہم کردار وہ تمام ممالیہ جانوروں کی انواع و اقسام ہوں جن کا ہلکا سا ذکر بھی ابھی تک ڈرامے میں نہیں کیا گیا تھا۔“ ۰۶
چمگادڑ
چمگادڑ
۵ لاکھ سال پرانا چمگادڑ کا فوصل جوکہ دورِ حاضر کے چمگادڑ سے عین مشابہ ہے (سائنس، اشاعت ۴۵۱)
ارتقاءپسندوں کے مفروضے کے مطابق تمام ممالیہ نسلیں ایک مشترک پرکھا سے وجود میں آئیں۔ لیکن مختلف ممالیہ نسلوں کے درمیان وسیع امتیازات موجود ہیں مثلاً ریچھ، وہیل مچھلی، چوہے اور چمگادڑ۔ہر یہ جاندار نسل مخصوص نظام کی حامل ہے۔ مثلاً چمگادڑوں کے اندر بہت حساس قسم کا صوتی نظام موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اندھیرے میں بھی با آسانی راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ جس پیچیدہ نظام کی نقل جدید ترین تکنیکی صلاحیت بھی بمشکل کرسکتی ہے اس کا اتفاقی طور پر وجود میں آجانا ناممکن ہے۔ فوصلی ریکارڈ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ چمگادڑ اپنی حالیہ اور بہترین شکل میں کسی بھی تدریجی ترقی کے مراحل سے گزرے بغیر زمین پر اچانک نمودار ہوئے۔
اس کے علاوہ جب ممالیہ جانور اچانک نمودار ہوئے تو وہ ایک دوسرے سے اس وقت ہی بے انتہا مختلف تھے۔ مثلاً چمگادڑ، گھوڑے، چوہے اور وہیل مچھلیاں تمام ممالیہ جانور ہیں جو کہ ایک ہی ارضیاتی دور میں نمودار ہوئے۔ ان کے درمیان کسی قسم کا رشتہ تصور کے آخری حد تک جانے سے بھی قائم نہیں کیا جاسکتا۔ مشہور رسالے ”ایوولوشن“ میں ارتقائی ماہرِ حیوانات ایرک لومبارڈ اس نقطے کو ایک مضمون میں اٹھاتے ہوئے کہتا ہے:
”وہ تمام لوگ جو کہ ممالیہ نسلوں کی نوعی تفریق اور انقسام کو تعمیر کرنے کی نیت سے مخصوص مواد کی تلاش میں ہیں وہ شدید مایوسی کا شکار ہوں گے۔“ ۱۶
یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ جاندار نسلیں زمین کے اوپر اچانک اور مکمل حالتوں میں بغیر کسی ارتقائی عمل کے نمودار ہوئیں۔ ارتقاءپسند اس حقیقت کی تشریح اپنی مرضی سے ایک خاص ترتیب کے تحت کرکے ارتقاءکا ثبوت پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ جاندار نسلیں صرف تخلیق کی ترتیب کے تحت نمودار ہوئیں ،کسی ارتقائی عمل کے ذریعے نہیں۔ بہترین اور بے عیب تخلیق کے ذریعے زمین اور سمندر جانداروں سے بھرگئے اور آخر کار انسان کی نموداری پیش آئی۔ گوریلا نما آدمی کی کہانی کے برخلاف ،جو کہ دنیا کے اوپر شدید اشتہاری مہموں کے ذریعے ٹھونسی جاتی ہے، انسان بھی درحقیقت زمین کے اوپر اچانک اور مکمل حالت میں نمودار ہوا۔
گھوڑے کی ارتقاءکی فرضی حکایت
حالیہ دور تک گھوڑے کا ارتقاءدکھاتا ہوا ایک ازروئے دعویٰ سلسلے کو نظریہ¿ ارتقاءکے اہم ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتارہا۔ آج کئی ارتقاءپسند خود اپنے منہ سے اس منظر نامے کا دیوالیہ ہوجانا تسلیم کرتے ہیں۔ ۰۸۹۱ءمیں شکاگو کے فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں چار روزہ مجلسی مذاکرہ منعقد کیا گیا جس میں ۰۵۱ ارتقاءپسندوں نے شرکت کی۔ اس مذاکرے کا مقصد بتدریج ارتقائی نظریئے کو درپیش مسائل کے اوپر بحث تھا۔ اس مذاکرے میں ارتقاءپسند بوئس رینسبرگر نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ گھوڑے کے ارتقاءکے منظرنامے کا فوصلی ریکارڈ میں کوئی وجود نہیں ہے اور نہ کوئی ثبوت گھوڑے کی تدریجی ترقی کو ثابت کرنے کے لئے موجود ہے۔

گھوڑے کی ارتقاءکے اس مقبول مفروضے کے حساب سے چار انگلیوں والی لومڑی نما ۰۵ لاکھ سال پرانی مخلوق تدریجی ترقی سے ایک انگلی والے دورِ حاضر کے گھوڑے میں تبدیل ہوگئی۔ یہ مفروضہ آج مکمل طور پر غلط قراردے دیا گیا ہے۔ وسطی نوعیت کے اس سلسلے کی کڑی سمجھے جانےو الے کئی جانداروں کے فوصل مکمل اشکال میں نمودار ہوئے، بغیر کسی تبدیلی کے زمین پر موجود رہے اور پھر معدوم ہوگئے۔

گھوڑے کا ارتقاءدکھاتے ہوئے خاکوں کے بارے میں ڈاکٹر نائلز ایلڈرج کہتا ہے۔ ”زندگی کی تاریخ کے بارے میں لاتعداد کہانیاں سننے میں آتی ہیں جوکہ اےک سے بڑھ کر ایک رنگین تصویروں پر مبنی ہیں۔ ان میں سے سب سے مشہور نمونہ گھوڑے کی ارتقاءپر تشکیل دی گئی ۰۵ سال پرانی ایک نمائش ہے جوکہ کئی نصابی کتابوں میں بھی بلامبالغہ موجود ہے۔ میرے خیال سے یہ ایک نہایت قابل افسوس بات ہے۔ خاص طور پر اس لئے کیونکہ ان کہانیوں کو پیش کرنے والے کئی لوگ ان کہانیوں کی قیاس آرائیوں سے خود اچھی طرح واقف ہیں“۔۲

تو پھر گھوڑے کے ارتقاءکے منظر نامے کی کیا بنیاد ہے؟ اس منظر نامے کی تشکیل انڈیا، شمالی افریقہ، جنوبی امریکہ اور یورپ میں مختلف دوروں میں رہنے والی معدوم نسلوں کے فوصلوں کی سلسلہ وار ترتیب پر مبنی پرفریب نقشوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ ان مفروضوں کو مزید ہوا ارتقاءپسندوں کے تصورات کی متمول قوت نے دی۔ مختلف تحقیق دانوں نے ایک دوسرے سے مختلف ۰۲ کے قریب گھوڑے کی ارتقاءکے اوپر نقشے تیار کئے ہیں جس سے یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ گھوڑے کے شجرہ¿ نسب کے بارے میں ارتقاءپسند خود بھی آج تک ایک فیصلے پر نہیں پہنچ پائے۔ان تمام ترتیبوں میں واحد مشترک خاصیت یہ یقین ہے کہ ”ایوہپس“ نامی کتا نما حیوان جو کہ ۵۵ لاکھ سال پرانے ایوسین دور میں موجود تھا وہ گھوڑے یا اکس کا پرکھا ہے۔ لیکن ایوہپس سے اکس تک کی ارتقائی لکیریںنہایت غیر ہموار ہیں۔

ارتقاءپسند سائنسی مصنف گورڈن ٹیلر اس غیر تسلیم شدہ سچائی کا ذکر اپنی کتاب ”داگریٹ ایوولوشن مسٹری“ یا ”ارتقاءکا عظیم بھید“ میں کرتا ہے: ”نظریہ¿ ڈارون کی شاید سب سے توجہ طلب کمزوری ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات کا اہم ارتقائی تبدیلیوں کو واضح کرتے ہوئے جانداروں کی قابل یقین ترتیب کو ڈھونڈنے میں ناکامی ہے۔ گھوڑے کو ہمیشہ اس معاملے میں سب سے مفصل طور پر حل شدہ مثال سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایوہپس سے اکس تک کی لکیر بہت ڈانواڈول ہے۔ ازروئے دعویٰ یہ پیمائش میں بتدریج اضافہ دکھاتی ہے لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے بیچ کی کچھ نسلیں ایوہپس سے چھوٹی تھیں، بڑی نہیں۔ مختلف ذرائع سے جمع کئے گئے قابل یقین نمونوں کو ثبوت کے طور پر یکجا کرلینا بہت آسان ہے لیکن یہ ترتیب اس بات کا ثبوت ہرگز نہیں کہ یہ جاندار نسلیںو اقعی وقت اور تاریخ میں بھی اسی ترتیب سے موجود تھیں“ ۔۳

یہ تمام حقائق اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ گھوڑے کی ارتقاءکے متعلق نظریہ¿ ڈارون کو ثابت کرنے والے تمام نقشے نرالے، پرتخیل اور غیر معقول حکایتوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

Boyce Rensberger, Houston Chronicle, November 5, 1980, p. 15-----1
Niles Eldridge, quoted in “Darwin Enigma” by Luther D. Sunderland, Santee, CA, Master Books, 1988, p. 78----2
Gordon Rattray Taylor, “The Great Evolution Mystery”, Abacus, Sphere Books, London, 1984, p. 230----3
ارتقاء کے اصول
ایک عجائب گھر میں موجود گھوڑے کاارتقاءدکھاتی یہ ترتیب کئی جانوروں پر مشتمل ہے جوکہ مختلف اوقات اور مختلف جغرافیائی خطوط میں رہتے تھے۔ انکی ترتیب دھاندلی سے کی گئی ہے تاکہ ایک متعصب ارتقائی نقطہ¿ نظر کو سہارا دیا جاسکے۔ گھوڑے نما ارتقاءکے منظر نامے کا فوصلی ریکارڈ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔

12 yorum:

  1. snagit khokharpc Thanks for this post, I really found this very helpful. And blog about best time to post on cuber law is very useful.

    YanıtlaSil
  2. This article is so innovative and well constructed I got lot of information from this post. Keep writing related to the topics on your site. ham-radio-deluxe-crack

    YanıtlaSil
  3. This article is so innovative and well constructed I got lot of information from this post. Keep writing related to the topics on your site. beecut-crack

    YanıtlaSil
  4. Thanks for the post. Very interesting post. This is my first-time visit here. I found so many interesting stuff in your blog. Keep posting.. Nero Olatinum Suite Crack

    YanıtlaSil
  5. I am very thankful for the effort put on by you, to help us, Thank you so much for the post it is very helpful, keep posting such type of Article.
    iMyfone Umate Pro Crack
    4ucrack

    YanıtlaSil